امرا شیخ
کلاس : BS-II
رول نمبر : 2K15/MC/34
تعا رف
رحمت علی شیخ نے 1974 ء میں کالج اور 1982 ء میں ایل ۔ایل۔بی جناح لاء کالج سے کیا تھا ۔ان کو لاء سے وابستہ تقریباً چالیس سال ہوگئے ہیں ۔انہوں نے اپنی سروس میں صرف سول کیس کو زیادہ ترجیح دی ہے ان کا آفس گاڑی کھاتہ فرید محلہ میں ہے۔
انٹر و یو
سوال : مقدمہ بازی کیوں ہوتی ہے ؟ اسکو کس طرح سے کم کیا جاسکتا ہے ؟ دوسرے ممالک کی مثالیں۔
جواب : مقدمہ بازی دو فریقین کے مابین تنازعے کو حل کروانے اور ان کے درمیان کوئی نہ انصافی نہ ہوں ملک میں قانون کی حکمرانی rule of lawکا نفاذ کیا جائے تو ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے۔
سوال : سول مقدمہ جات دیر سے کیوں نمٹائے جاتے ہیں؟
جواب : سول مقدمہ جات دیر سے نمٹائے جانے کی سب سے بنیادی وجہ ان مقدمات میں دوڈگریوں کا حصول ہے ۔ پہلی ڈگری عدالتی فیصلہ ہوتی ہے جس کے مطابق کوئی بھی ایک فرد مقدمے میں کامیاب قرار دیا جاتا ہے پھر مذید عمل شروع ہوتے ہیں جس میں اسی عدالت سے ایک اور ڈگری کے اجزاء کی درخواست دی جاتی ہے اور وہیسے مذیر عدالتی کاروائی دہرائی جاتی ہے جو پہلی والی ڈگری کے اجزاء کے وقت ہوتی تھی لیکن اس ڈگری کا تعلق پہلے والی ڈگری پر عمل درآمد ہوتے ہیں۔
سوال : ہمارے ملک میں انصاف حاصل کرنا اتنا مہنگا کیوں ہے؟
جواب : 1973 ء کے آئین کے شک (37)(د)کے مطابق سستے اور سہل حصول انصاف کو یقینی بنایا جائے لیکن بد قسمتی سے حقیقت کچھ اور بیان کرتی ہے ۔یہ ہر ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ملک کی معیشت کے شعبے کو اتنا پروان چڑھائے کہ خطِ غربت کی لکیر کا حصول بھی نہ رہے اور معاشرے کا ہر فرد ایسی زندگی بسر کرے جس میں اُسے تمام بنیادی ضروریات تک رسائی با آسانی ہو ۔ ان ضروریات میں انصاف بھی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں انصاف مہنگا تصور کیا جاتا ہے ۔کیونکہ وکلاء حضرات کی فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والے فرد کے لئے انصاف صرف نام تک محدود ہے ۔لیکن عمل اورحقیقی طور پر انصاف کی فراہمی نا ممکن نظر آتی ہے۔
سوال : Public Interest Letigationکیوں نہیں ہے اسکو کس طرح سے بڑھایا جائے؟
جواب : Public Interest Letigation یعنی وہ مقدمات جن میں مجموعی طور پر معاشرے کے حقوق شامل ہوں۔ہمارے ملک میں Public Interest Letigationکی مقدار بہت کم ہے ۔ یا اس طرح کہہ لیجئے کہ اس کی بنیادی وجہ لوگوں کا اپنے حقوق کی تعلیم کی کمی اور جدید تحقیق سے آگاہی کی بھی کمی ہے ۔پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سب سے مشہور فیصلہ شیلاء رضا مقدمہ کی صورت میں آیا۔ وہ بھی Public Interest Letigation جس میں اس نقطہ پر بھی نظر ڈالی گئی ہے کہ ایسے مقدمات کی کمی کی وجہ عملی ، جدید اور تحقیقی تعلیم کی کمی ہے ۔اسے بڑھانے کا طریقہ صرف بنیادی تعلیمی نظام کو مزید وسیع اور جامع کرنے میں ہیں ۔جن کی بار بار revisionسے ان میں شعور یا آگاہی کا مادہ صحیح کام کرنے لگ جاتا ہے ۔
سوال : وکلاء کے بارے میں لوگوں کی کیا رائے ہوتی ہے؟
جواب : وکلاء کے بارے میں لوگوں کی رائے یہ ہے کہ معاشرے کے عوام الناس کو انصاف مہیا کرانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
سوال : معاشرے میں وکلاء کا کردار کیا ہے؟
جواب : معاشرے میں وکلاء کا کردار صرف عدالت تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کا کردار معاشی ،سیاسی اور معاشرتی لہٰذ سے بھی ہمارے معاشرے میں اپنا کردار با خوبی نبھائے نظر آتے ہیں۔
سوال : قانون کی حکمرانی کو عدالتوں میں کس نظر دیکھا جاتا ہے؟
جواب : عدالتوں میں قانون کی حکمرانی کو بہت اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یہ تمام انصاف کا دارومدار ہوتا ہے اگر اس میں کوئی بھی کمی یا زیادتی ہوئی تو یقینی طور پر معاشرے کی ساخت پر اثر پڑے گا۔ جس کی وجہ ہر شخص اپنا اپنا انصاف قائم کرنے کاخطرہ بھی ہوتا ہے۔ اب بھی ہمارے معاشرے کہ کچھ حصوں میں پنچایت نظام ہونے کی وجہ سے نظام ہونے کی وجہ سے نظام معاشرے کی ساخت پر گہرے اثرات پڑرہے ہیں ۔
سوال : نظائر میں قانون کی کیا حیثیت ہے؟
جواب : نظائر یعنی وہ فیصلہ جو اعلیٰ عدلیہ کسی مسئلہ میں کرتی ہے اور قانون میں ان کی اہمیت ایک پختہ قانون کی حیثیت ہوتی ہے کیونکہ ہر ذیلی عدالت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اس اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو جو کسی مسئلے میں پہلے اس عدالت میں حل ہوچکا ہو اور اب یہی مسئلہ ذیلی عدالت میں دوبارہ درپیش ہو تو ذیلی عدالت اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی پابند ہے۔
سوال : ایک ملک کو چلانے کے لئے قانون کس حد تک مدد کرتا ہے؟
جواب : یہ بات اظہر بن شمس ہے کہ کوئی بھی ملک کاتصور اس وقت تک ادھورا رہتا ہے جب تک اس ملک میں قانونی بالادستی کو بحال نہ کیا جائے اور ملک کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں کا انبھار بھی قانون ہی ہوتا ہے اس کی پیمائش کرنا ممکن نہیں کیونکہ جس چیز کو ہم ملک چلانے میں مددگار سمجھ سکتے ہیں وہ تمام قانون کے زیر اثر ہوتی ہے ۔
سوال : کیا عدالتیں بنیادی حقوق کو محفوظ رکھتی ہیں؟
جواب : جی ہاں! جہاں تک عدالتوں کی بات ہے تو عدالتیں بنیادی حقوق کو محفوظ رکھتی ہیں۔ مگر دوسری طرف ریاست کی مشینری اپنا کام صحیح نہ کرے تو یقینی طور پر سیاسی حقوق کی فراہمی ایک خوابیدہ خواب ہی رہ جاتا ہے۔
سوال : آنے والے قانون دان کو آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب : ہمارے ملک میں قانون کی اہمیت وافادیت میں تو کوئی کمی نہیں ہے جتنے قوانین اب تک نہیں ہیں مکمل طور پر بہترین ثابت کرسکتے ہیں ۔لیکن بد قسمتی سے جب executive کی بات آتی ہے یا ان قوانین کی عمل درآمد کی بات آتی ہے تو یہ ادارہ باہمی تصویرہوتے ہیں مجھے یقین ہے کہ آنے والے قانون دان بھی اسی قانونی حُسن اور لگن کو برقرار رکھتے ہیں۔
Imra Shaikh Interview of Rehmat ALi Shaikh
کلاس : BS-II
رول نمبر : 2K15/MC/34
تعا رف
رحمت علی شیخ نے 1974 ء میں کالج اور 1982 ء میں ایل ۔ایل۔بی جناح لاء کالج سے کیا تھا ۔ان کو لاء سے وابستہ تقریباً چالیس سال ہوگئے ہیں ۔انہوں نے اپنی سروس میں صرف سول کیس کو زیادہ ترجیح دی ہے ان کا آفس گاڑی کھاتہ فرید محلہ میں ہے۔
انٹر و یو
سوال : مقدمہ بازی کیوں ہوتی ہے ؟ اسکو کس طرح سے کم کیا جاسکتا ہے ؟ دوسرے ممالک کی مثالیں۔
جواب : مقدمہ بازی دو فریقین کے مابین تنازعے کو حل کروانے اور ان کے درمیان کوئی نہ انصافی نہ ہوں ملک میں قانون کی حکمرانی rule of lawکا نفاذ کیا جائے تو ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے۔
سوال : سول مقدمہ جات دیر سے کیوں نمٹائے جاتے ہیں؟
جواب : سول مقدمہ جات دیر سے نمٹائے جانے کی سب سے بنیادی وجہ ان مقدمات میں دوڈگریوں کا حصول ہے ۔ پہلی ڈگری عدالتی فیصلہ ہوتی ہے جس کے مطابق کوئی بھی ایک فرد مقدمے میں کامیاب قرار دیا جاتا ہے پھر مذید عمل شروع ہوتے ہیں جس میں اسی عدالت سے ایک اور ڈگری کے اجزاء کی درخواست دی جاتی ہے اور وہیسے مذیر عدالتی کاروائی دہرائی جاتی ہے جو پہلی والی ڈگری کے اجزاء کے وقت ہوتی تھی لیکن اس ڈگری کا تعلق پہلے والی ڈگری پر عمل درآمد ہوتے ہیں۔
سوال : ہمارے ملک میں انصاف حاصل کرنا اتنا مہنگا کیوں ہے؟
جواب : 1973 ء کے آئین کے شک (37)(د)کے مطابق سستے اور سہل حصول انصاف کو یقینی بنایا جائے لیکن بد قسمتی سے حقیقت کچھ اور بیان کرتی ہے ۔یہ ہر ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ملک کی معیشت کے شعبے کو اتنا پروان چڑھائے کہ خطِ غربت کی لکیر کا حصول بھی نہ رہے اور معاشرے کا ہر فرد ایسی زندگی بسر کرے جس میں اُسے تمام بنیادی ضروریات تک رسائی با آسانی ہو ۔ ان ضروریات میں انصاف بھی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں انصاف مہنگا تصور کیا جاتا ہے ۔کیونکہ وکلاء حضرات کی فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والے فرد کے لئے انصاف صرف نام تک محدود ہے ۔لیکن عمل اورحقیقی طور پر انصاف کی فراہمی نا ممکن نظر آتی ہے۔
سوال : Public Interest Letigationکیوں نہیں ہے اسکو کس طرح سے بڑھایا جائے؟
جواب : Public Interest Letigation یعنی وہ مقدمات جن میں مجموعی طور پر معاشرے کے حقوق شامل ہوں۔ہمارے ملک میں Public Interest Letigationکی مقدار بہت کم ہے ۔ یا اس طرح کہہ لیجئے کہ اس کی بنیادی وجہ لوگوں کا اپنے حقوق کی تعلیم کی کمی اور جدید تحقیق سے آگاہی کی بھی کمی ہے ۔پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سب سے مشہور فیصلہ شیلاء رضا مقدمہ کی صورت میں آیا۔ وہ بھی Public Interest Letigation جس میں اس نقطہ پر بھی نظر ڈالی گئی ہے کہ ایسے مقدمات کی کمی کی وجہ عملی ، جدید اور تحقیقی تعلیم کی کمی ہے ۔اسے بڑھانے کا طریقہ صرف بنیادی تعلیمی نظام کو مزید وسیع اور جامع کرنے میں ہیں ۔جن کی بار بار revisionسے ان میں شعور یا آگاہی کا مادہ صحیح کام کرنے لگ جاتا ہے ۔
سوال : وکلاء کے بارے میں لوگوں کی کیا رائے ہوتی ہے؟
جواب : وکلاء کے بارے میں لوگوں کی رائے یہ ہے کہ معاشرے کے عوام الناس کو انصاف مہیا کرانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
سوال : معاشرے میں وکلاء کا کردار کیا ہے؟
جواب : معاشرے میں وکلاء کا کردار صرف عدالت تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کا کردار معاشی ،سیاسی اور معاشرتی لہٰذ سے بھی ہمارے معاشرے میں اپنا کردار با خوبی نبھائے نظر آتے ہیں۔
سوال : قانون کی حکمرانی کو عدالتوں میں کس نظر دیکھا جاتا ہے؟
جواب : عدالتوں میں قانون کی حکمرانی کو بہت اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یہ تمام انصاف کا دارومدار ہوتا ہے اگر اس میں کوئی بھی کمی یا زیادتی ہوئی تو یقینی طور پر معاشرے کی ساخت پر اثر پڑے گا۔ جس کی وجہ ہر شخص اپنا اپنا انصاف قائم کرنے کاخطرہ بھی ہوتا ہے۔ اب بھی ہمارے معاشرے کہ کچھ حصوں میں پنچایت نظام ہونے کی وجہ سے نظام ہونے کی وجہ سے نظام معاشرے کی ساخت پر گہرے اثرات پڑرہے ہیں ۔
سوال : نظائر میں قانون کی کیا حیثیت ہے؟
جواب : نظائر یعنی وہ فیصلہ جو اعلیٰ عدلیہ کسی مسئلہ میں کرتی ہے اور قانون میں ان کی اہمیت ایک پختہ قانون کی حیثیت ہوتی ہے کیونکہ ہر ذیلی عدالت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اس اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو جو کسی مسئلے میں پہلے اس عدالت میں حل ہوچکا ہو اور اب یہی مسئلہ ذیلی عدالت میں دوبارہ درپیش ہو تو ذیلی عدالت اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی پابند ہے۔
سوال : ایک ملک کو چلانے کے لئے قانون کس حد تک مدد کرتا ہے؟
جواب : یہ بات اظہر بن شمس ہے کہ کوئی بھی ملک کاتصور اس وقت تک ادھورا رہتا ہے جب تک اس ملک میں قانونی بالادستی کو بحال نہ کیا جائے اور ملک کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں کا انبھار بھی قانون ہی ہوتا ہے اس کی پیمائش کرنا ممکن نہیں کیونکہ جس چیز کو ہم ملک چلانے میں مددگار سمجھ سکتے ہیں وہ تمام قانون کے زیر اثر ہوتی ہے ۔
سوال : کیا عدالتیں بنیادی حقوق کو محفوظ رکھتی ہیں؟
جواب : جی ہاں! جہاں تک عدالتوں کی بات ہے تو عدالتیں بنیادی حقوق کو محفوظ رکھتی ہیں۔ مگر دوسری طرف ریاست کی مشینری اپنا کام صحیح نہ کرے تو یقینی طور پر سیاسی حقوق کی فراہمی ایک خوابیدہ خواب ہی رہ جاتا ہے۔
سوال : آنے والے قانون دان کو آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب : ہمارے ملک میں قانون کی اہمیت وافادیت میں تو کوئی کمی نہیں ہے جتنے قوانین اب تک نہیں ہیں مکمل طور پر بہترین ثابت کرسکتے ہیں ۔لیکن بد قسمتی سے جب executive کی بات آتی ہے یا ان قوانین کی عمل درآمد کی بات آتی ہے تو یہ ادارہ باہمی تصویرہوتے ہیں مجھے یقین ہے کہ آنے والے قانون دان بھی اسی قانونی حُسن اور لگن کو برقرار رکھتے ہیں۔
Imra Shaikh Interview of Rehmat ALi Shaikh