Sunday, 21 April 2019

Imra Shaikh Interview امرا شیخ. انٹر و یو رحمت علی شیخ


امرا شیخ
کلاس : BS-II
رول نمبر : 2K15/MC/34
تعا رف
رحمت علی شیخ نے 1974 ؁ء میں کالج اور 1982 ؁ء میں ایل ۔ایل۔بی جناح لاء کالج سے کیا تھا ۔ان کو لاء سے وابستہ تقریباً چالیس سال ہوگئے ہیں ۔انہوں نے اپنی سروس میں صرف سول کیس کو زیادہ ترجیح دی ہے ان کا آفس گاڑی کھاتہ فرید محلہ میں ہے۔

انٹر و یو
سوال : مقدمہ بازی کیوں ہوتی ہے ؟ اسکو کس طرح سے کم کیا جاسکتا ہے ؟ دوسرے ممالک کی مثالیں۔
جواب : مقدمہ بازی دو فریقین کے مابین تنازعے کو حل کروانے اور ان کے درمیان کوئی نہ انصافی نہ ہوں ملک میں قانون کی حکمرانی rule of lawکا نفاذ کیا جائے تو ہی یہ ممکن ہوسکتا ہے۔

سوال : سول مقدمہ جات دیر سے کیوں نمٹائے جاتے ہیں؟
جواب : سول مقدمہ جات دیر سے نمٹائے جانے کی سب سے بنیادی وجہ ان مقدمات میں دوڈگریوں کا حصول ہے ۔ پہلی ڈگری عدالتی فیصلہ ہوتی ہے جس کے مطابق کوئی بھی ایک فرد مقدمے میں کامیاب قرار دیا جاتا ہے پھر مذید عمل شروع ہوتے ہیں جس میں اسی عدالت سے ایک اور ڈگری کے اجزاء کی درخواست دی جاتی ہے اور وہیسے مذیر عدالتی کاروائی دہرائی جاتی ہے جو پہلی والی ڈگری کے اجزاء کے وقت ہوتی تھی لیکن اس ڈگری کا تعلق پہلے والی ڈگری پر عمل درآمد ہوتے ہیں۔

سوال : ہمارے ملک میں انصاف حاصل کرنا اتنا مہنگا کیوں ہے؟
جواب : 1973 ؁ء کے آئین کے شک (37)(د)کے مطابق سستے اور سہل حصول انصاف کو یقینی بنایا جائے لیکن بد قسمتی سے حقیقت کچھ اور بیان کرتی ہے ۔یہ ہر ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ ملک کی معیشت کے شعبے کو اتنا پروان چڑھائے کہ خطِ غربت کی لکیر کا حصول بھی نہ رہے اور معاشرے کا ہر فرد ایسی زندگی بسر کرے جس میں اُسے تمام بنیادی ضروریات تک رسائی با آسانی ہو ۔ ان ضروریات میں انصاف بھی اہم ترین ضرورت ہے۔ ہمارے معاشرے میں انصاف مہنگا تصور کیا جاتا ہے ۔کیونکہ وکلاء حضرات کی فیس اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ خط غربت کے نیچے زندگی بسر کرنے والے فرد کے لئے انصاف صرف نام تک محدود ہے ۔لیکن عمل اورحقیقی طور پر انصاف کی فراہمی نا ممکن نظر آتی ہے۔


سوال : Public Interest Letigationکیوں نہیں ہے اسکو کس طرح سے بڑھایا جائے؟
جواب : Public Interest Letigation یعنی وہ مقدمات جن میں مجموعی طور پر معاشرے کے حقوق شامل ہوں۔ہمارے ملک میں Public Interest Letigationکی مقدار بہت کم ہے ۔ یا اس طرح کہہ لیجئے کہ اس کی بنیادی وجہ لوگوں کا اپنے حقوق کی تعلیم کی کمی اور جدید تحقیق سے آگاہی کی بھی کمی ہے ۔پاکستان کی اعلیٰ عدلیہ سب سے مشہور فیصلہ شیلاء رضا مقدمہ کی صورت میں آیا۔ وہ بھی Public Interest Letigation جس میں اس نقطہ پر بھی نظر ڈالی گئی ہے کہ ایسے مقدمات کی کمی کی وجہ عملی ، جدید اور تحقیقی تعلیم کی کمی ہے ۔اسے بڑھانے کا طریقہ صرف بنیادی تعلیمی نظام کو مزید وسیع اور جامع کرنے میں ہیں ۔جن کی بار بار revisionسے ان میں شعور یا آگاہی کا مادہ صحیح کام کرنے لگ جاتا ہے ۔

سوال : وکلاء کے بارے میں لوگوں کی کیا رائے ہوتی ہے؟
جواب : وکلاء کے بارے میں لوگوں کی رائے یہ ہے کہ معاشرے کے عوام الناس کو انصاف مہیا کرانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

سوال : معاشرے میں وکلاء کا کردار کیا ہے؟
جواب : معاشرے میں وکلاء کا کردار صرف عدالت تک ہی محدود نہیں بلکہ ان کا کردار معاشی ،سیاسی اور معاشرتی لہٰذ سے بھی ہمارے معاشرے میں اپنا کردار با خوبی نبھائے نظر آتے ہیں۔

سوال : قانون کی حکمرانی کو عدالتوں میں کس نظر دیکھا جاتا ہے؟
جواب : عدالتوں میں قانون کی حکمرانی کو بہت اہمیت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے یہ تمام انصاف کا دارومدار ہوتا ہے اگر اس میں کوئی بھی کمی یا زیادتی ہوئی تو یقینی طور پر معاشرے کی ساخت پر اثر پڑے گا۔ جس کی وجہ ہر شخص اپنا اپنا انصاف قائم کرنے کاخطرہ بھی ہوتا ہے۔ اب بھی ہمارے معاشرے کہ کچھ حصوں میں پنچایت نظام ہونے کی وجہ سے نظام ہونے کی وجہ سے نظام معاشرے کی ساخت پر گہرے اثرات پڑرہے ہیں ۔
سوال : نظائر میں قانون کی کیا حیثیت ہے؟
جواب : نظائر یعنی وہ فیصلہ جو اعلیٰ عدلیہ کسی مسئلہ میں کرتی ہے اور قانون میں ان کی اہمیت ایک پختہ قانون کی حیثیت ہوتی ہے کیونکہ ہر ذیلی عدالت اس بات کی پابند ہے کہ وہ اس اعلیٰ عدلیہ کے فیصلوں کو جو کسی مسئلے میں پہلے اس عدالت میں حل ہوچکا ہو اور اب یہی مسئلہ ذیلی عدالت میں دوبارہ درپیش ہو تو ذیلی عدالت اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے کی پابند ہے۔

سوال : ایک ملک کو چلانے کے لئے قانون کس حد تک مدد کرتا ہے؟
جواب : یہ بات اظہر بن شمس ہے کہ کوئی بھی ملک کاتصور اس وقت تک ادھورا رہتا ہے جب تک اس ملک میں قانونی بالادستی کو بحال نہ کیا جائے اور ملک کے تمام سیاسی اور غیر سیاسی سرگرمیوں کا انبھار بھی قانون ہی ہوتا ہے اس کی پیمائش کرنا ممکن نہیں کیونکہ جس چیز کو ہم ملک چلانے میں مددگار سمجھ سکتے ہیں وہ تمام قانون کے زیر اثر ہوتی ہے ۔

سوال : کیا عدالتیں بنیادی حقوق کو محفوظ رکھتی ہیں؟
جواب : جی ہاں! جہاں تک عدالتوں کی بات ہے تو عدالتیں بنیادی حقوق کو محفوظ رکھتی ہیں۔ مگر دوسری طرف ریاست کی مشینری اپنا کام صحیح نہ کرے تو یقینی طور پر سیاسی حقوق کی فراہمی ایک خوابیدہ خواب ہی رہ جاتا ہے۔

سوال : آنے والے قانون دان کو آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب : ہمارے ملک میں قانون کی اہمیت وافادیت میں تو کوئی کمی نہیں ہے جتنے قوانین اب تک نہیں ہیں مکمل طور پر بہترین ثابت کرسکتے ہیں ۔لیکن بد قسمتی سے جب executive کی بات آتی ہے یا ان قوانین کی عمل درآمد کی بات آتی ہے تو یہ ادارہ باہمی تصویرہوتے ہیں مجھے یقین ہے کہ آنے والے قانون دان بھی اسی قانونی حُسن اور لگن کو برقرار رکھتے ہیں۔


Imra Shaikh Interview of Rehmat ALi Shaikh

Life of Colors! By Rebecca Ursani


Life of Colors! By Rebecca Ursani

http://wehaveinnovativeideas.blogspot.com/2016/04/life-of-colors.html

Monday, 20 November 2017

Tomb Of Mian Ghulam Shah Kalhoro - AMIN EMMANUEL

AMIN EMMANUEL
ROLL NO 2K14/MC/06
FEATURE
                   Tomb Of Mian Ghulam Shah Kalhoro
IMG_0446.JPG 
Mian Ghulam Shah Kalhoro was famous ruler of the kalhoro dynasty. His rule began in 1757 when he was appointed as ruler of Sindh by tribal chiefs of kalhoro. He was recognized and bestowed by given the title of Shah Wardi Khan by Afghan kin Ahmed Shah Durrani. He was able to bring stability in Sindh after the rule of Main Noor Mohammad Kalhoro. He re-organized the country and defeated the Marathas and conquered their permanent vassal the Rao of returned victoriously.
According to historian, Ghulam Shah’s father Noor Muhammad Shah Kalhoro was succeeded by three of his sons to the throne at different times. For same years people had stopped taking the name of Sindh as the areas under the rule of the three brothers were called by their respected names. It was then that Ghulam Shah. Who was throned at Thatta. Conquered Sindh and restored it to its present-day geographical status.
IMG_0472.JPG  IMG_0464.JPG
Mian Ghulam Shah Kalhoro’s tomb is a religious shrine in Pakistan. This shrine is the national heritage monument of Pakistan. It is the burial place of Mian Ghulam Shah Kalhoro. Ghulam Shah Kalhoro founded Hyderabad in 1768 and built its historical forts which are known today as Pakka Qila and Kacha Qila today. Historically, the khlhoras had their capital at Khudabad but a change in the course of the Indus river in 1750, necessitated the relocation of the capital from 1754 to 1768 untill they founded Hyderabad.
The tomb of Mian Ghulam Shah Kalhoro is 56 x 56 in width and 36 feet in height. The shrine built inside a rectangular shaped fort. The tomb is a wonderful example of Sindhi art which shaped windows and filled with terracotta grilles of geometrical pattern.
IMG_0448.JPGIMG_0468.JPG
IMG_0455.JPG  Around years ago endowment fund trust embarked two restore and 18th century mausoleum of the kalhoro dynasty’s ruler Mia Ghulam Shah Kalhoro .



Saturday, 18 November 2017

آٹو بھان روڈبرانڈ آﺅٹ لیٹس کا مرکز Shahryar Rasheed

آٹو بھان روڈ ملکی و غیر ملکی آﺅٹ لیٹس اور طعام خانوں کا مرکز 
Auto Bhan Road Hyderabad
 فیچر  شہریار رشید بی ایس پارٹiii رول نمبر147
Improver failure
آٹو بھان روڈ ملکی و غیر ملکی آﺅٹ لیٹس اور طعام خانوں کا ٰ مرکز 

ایک زمانہ تھا جب برانڈیڈ چیزیں حیدرآباد شہر میں بہت نایاب ہوا کرتی تھیں کیونکہ حیدرآباد میں کوئی غیر ملکی آﺅٹ لیٹس نہیں ہوا کرتے تھے ۔اور عوام کو کراچی کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔ جیسے جیسے حیدرآباد ترقی کی طرف جانے لگا اُسی طرح بڑی بڑی غیر ملکی برانڈزاور طعام خانوں کا رحجان حیدرآباد کی طرف آنے لگا اور سب سے پہلے غیر ملکی طعام خانہ میک ڈانلڈکا حیدرآباد آٹوبھان روڈ پر افتتاح ہوا یہ ایک بڑی کامیابی تھی کیونکہ مک ڈانلڈ اس دور میں کراچی میں بھی صرف چند مقامات پر تھا۔ حیدرآباد آٹو بھان روڈ پر آنے کے بعد باقی غیر ملکی کمپنیوں کا رحجان تیزی سے حیدرآباد کی طرف آیا اور آہستہ آہستہ آٹوبھان روڈ پر غیر ملکی برانڈ کے آﺅٹ لیٹس اور طعام خانے اپنی جگہ لیتے رہے ۔یہی نہیں آٹو بھان روڈ پر بڑے بڑے انٹرنیشنل اسکول بھی کھلنا شروع ہوگئے 

آٹو بھان روڈ 2.29 کلو میٹر لمبا ہے اور اس روڈ کی اہمیت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ایک نجی رئیل اسٹیٹ ویب سائٹ سے معلوم ہوا کہ حیدرآباد کا آٹو بھان روڈ اس وقت پوری دنیا کے دس مہنگے ترین علاقوں میں سے ایک ہے ۔کیونکہ یہاں کی پراپرٹیز کی قیمتوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے چھوٹے سے چھوٹی جگہ کی قیمت لاکھ سے نہیں بلکہ کروڑ سے شروع ہو رہی ہے ۔

آٹوبھان کی پراپرٹیز کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی وجہ ملکی و غیر ملکی بڑی بڑی دکانیں اور طعام خانوں کا وہ مجموعہ ہے جو کہ ہر مہینے بڑھتا جا رہا ہے ہر آئے مہینے میں آٹو بھان روڈ پر ایک یا دو ملکی و غیر ملکی طعام خانے اور نکاس بدور کھلتے رہتے ہیں آٹوبھان روڈ حیدرآباد کا سب سے بڑا کمرشل روڈ ہے جو کہ ہر مہینے کروڑوں میں کمائی کرتا ہے ۔اور دوکانداروں کی طرف سے ایسا اندازہ لگایا گیا ہے کہ اکیلے آٹوبھان روڈ ہی ہر مہینے چھ سے سات ارب کا کاروبار کرتا ہے جو کہ ایک چونکا دینے والی بات ہے اس روڈ کے اتنا زیادہ کاروبار کرنے کی وجہ یہاں پر موجود ملکی و غیر ملکی نکاس بدور اور طعام خانے ہیں جو کہ رات گئے تک اپنے عروج پر چلتے رہتے ہیں ان میں شامل غیر ملکی نکاس بدور کی فہرست کچھ یوں ہے لیوائس ، آﺅٹ فٹرز ، ڈنیزن، آئیڈیاز، چین ون، باٹا ، سروس ، کپڑے ، ہینگ ٹین وغیرہ شامل ہیں اور طعام خانوں میں مک ڈانلڈ، کے ایف سی ،اور ملکی طعام خانوں میں باربی کیو ٹو نائٹ، رویل تاج وغیرہ شامل ہیں ۔آٹو بھان حیدرآباد کا وہ روڈ ہے جہاں حیدرآباد کی ساٹھ فیصد عوام روزانہ دن کے ایک سے دو گھنٹے یہیں گزارتی ہے اس کی وجہ یہاں موجود ریسٹورینٹ اور اعلیٰ دوکانیں ہیں جو کہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔

آٹوبھان روڈ پر دیر رات تک لوگوں کی آمد و رفت روانی سے رہتی ہے اور زیادہ تر لوگ آئسکریم یا جوس کو ترجیح دیتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ حیدرآباد کی بڑی بڑی شخصیات آٹو بھان روڈ پر شاپنگ کرتی نظر آتی ہیں اور حیدرآباد کی عوام کا کہنا ہے کہ آٹو بھان روڈ اب بلکل کراچی کے طارق روڈ کی مانندہو تا جا رہا ہے اور ان برانڈیڈ دوکانوں اور طعام خانوں کے کھل جانے سے حیدرآباد کی عوام کو کراچی جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ اب ہر برانڈ یہی پر با آسانی مل جاتا ہے ۔بیرونے ملک سے آنے والے سیاہوں کا رحجان بھی سب سے پہلے آٹو بھان روڈ کی طرف ہی جاتا ہے اور وہ لوگ آٹو بھان روڈ پر ہی قیام کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ وہ واحد روڈ ہے جو کہ دیر رات تک چلتا رہتا ہے اور بعض اوقات عید یا کسی تہوار کے موقع پر یہ روڈ ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی بیرونے ملک آگئے ہوںاور اب حیدرآباد کے لوگ کلاس کے رتبے میں کراچی کے لوگوں کو ٹکر دیتے دکھائی دے رہے ہیں ۔آٹوبھان روڈ پر انٹرنیشنل اسکول اور کالجز بھی واقع ہیں جو کہ اعلیٰ تعلیم فراہم کر رہے ہیں دیکھا جاسکتا ہے کہ حیدرآباد کا صرف 2.29کلومیٹر لمبا آٹوبھان روڈ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہو تا جا رہا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا اور یہی وجہ ہے جو کہ آٹو بھان عید یا پھر کسی تقریب کو منانے کےلئے حیدرآباد کی عوام کی پہلی ترجیح ہوتی ہے اُمید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں آٹو بھان روڈ اسی طرح نام کماتا رہے گا اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہے گا ۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh
.......................................................................................................
 حیدرآباد اور بجلی کی چوری 
 آرٹیکل شہریار رشید بی ایس پارٹiii رول نمبر147

Shahryar Rasheed
حیدرآباد جو کہ ایک ترقی یافتہ شہر ہے مگر آج بھی بجلی کے بحران سے دوچار ہے ۔حیدرآباد میں بجلی چوری معمول کی بات بن چکی ہے واپڈا ٹیم کے بار بار چھاپوں اور گرفتاریوں کے بعد بھی بجلی کی چوری قابو میں نہیں آسکی اور لوگ بجلی چوری کرنے سے بعض نہیں آ رہے ہیں پہلے حیدرآباد میں صرف چھوٹے علاقوں میں بجلی کی چوری کی جاتی تھی مثلاََلیاقت کالونی ، پھلیلی ، پریٹ آباد ، کالی موری ، سرفراز کالونی ، پٹھان کالونی ، لطیف آباد 12 نمبر اور دیگر علاقے شامل ہیں مگر اب شہر کے بڑے علاقوں میں بھی بجلی کی چوری زور و شور سے رواں دواں ہے مثلاََ ہیر اآباد ، قاسم آباد ، صدر اور چاندنی یہی نہیں لطیف آباد کے بڑے بڑے علاقے مثلاََ 6 نمبر، 8 نمبر اور 2 نمبرجیسے علاقوں میں بھی بجلی کی چوری کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے ۔لوگوں کے گھروں میں 2-3 ایئرکنڈیشنر عام طور پر چل رہے ہیں اور ہر چھوٹے بڑے گھر میں کم از کم ایک ایئر کنڈیشنر تو عام بات ہے مگر یہ لوگ ایئرکنڈیشنر میٹر پر نہیں بلکہ چوری کی تار پر چلا رہے ہیں تاکہ بجلی کے بل سے بچا جا سکے جبکہ بجلی چوری کرنا قانوناََ جرم ہے اور اس پر سزا اور جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے مگر یہ یہ بجلی چوری کرنے والے حضرات چوری کرتے ہوئے پکڑے کیوں نہیں جاتے ہیں اور اتنی آسانی سے چوری کس طرح کر لیتے ہیں دراصل اس میں واپڈا ملازمین کی غفلت شامل ہے کچھ چند ہزار روپے کےلئے یہ ملازمین اپنا زمیر بیچ کھاتے ہیں اور باقاعدہ خود لوگوں کو چوری کی لائن لگا کر دیتے ہیں اور مہینہ وصول کرتے ہیں چونکہ یہ ملازمین واپڈا میں کام کرتے ہیں تو انہیں ہر طرح کی بجلی کی چوری بہت اچھے سے آتی ہے اور ان واپڈا ملازمین کی بجلی چوری کی غفلت کو پکڑنا لگ بھگ نا ممکن ہے کیونکہ تمام واپڈا ملازمین چھوٹے سے لیکر بڑے تک سب ہی کسی نہ کسی سے چوری کی بجلی کا مہینہ وصول کر رہے ہیں اور اپنے بچوں کو حرام کی کمائی کھلا رہے ہیں ۔ دراصل بات تو یہ ہے کہ یہ واپڈا ملازمین ایک گھر میں اگر چوری کی بجلی فراہم کرتے ہیں تو دوسرے کسی غریب کے گھر سے ناجائز بجلی چوری کا الزام لگا کر اُس کے بل میں ڈیڈکشن لگا کر مزید حرام کما رہے ہیں ۔

حیدرآباد کے مختلف علاقہ مکینوں سے بات کر کے معلوم ہوا کہ واپڈا میں نا صرف چھوٹے طبقے کے لوگ بلکہ بڑے عہدوں پر فائز افسران بھی بجلی چوری کی غفلت میں شامل ہیں ۔علاقہ مکینوں سے بات کر کے اور ان کے بل دیکھ کر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ واپڈا افسران غریب گھرانوں پر ناجائز ڈیڈکشن لگا کر حرام کا پیسہ اکھٹا کر رہے ہیں اور دوسری طرف امیر اور طاقتور شہریوں کو چوری کی بجلی اپنے منہ مانگے مہینے کے پیسوں پر فراہم کر رہے ہیں اب سوال یہ آتا ہے کہ کیا ان واپڈا ملازمین کےلئے کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے کیا سارے قانون صرف غریب و مسکین لوگوں کےلئے ہی محدود ہیں اگر ایسا ہے تو قانون کو ختم ہوجانا چاہیے یا پھر امیر ہو یا غریب ہر ایک کےلئے قانون یکساں ہونا چاہیے ۔ابھی کچھ روز قبل صدر میں پولیس لائن کے قریب ایک ٹرانسفارمر جل جانے کیوجہ سے علاقے میں پانچ دن تک بجلی کا کوئی اتہ پتہ نہیں ۔علاقہ مکین پریشان ہو کر واپڈا آفس گئے تو SDO کا کہنا تھا کہ واپڈا کے پاس پیسے نہیں ہیں اور آپ سب علاقہ مکین ستر ہزار روپے جمع کروائیں گے تو ہی ٹرانسفارمر کی مرمت کی جائے گی اور بجلی بحال ہوگی جس پر علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا اور ٹائروں کو نظرے آتش کر کے روڈ بلاک کر دیا مگر ہمارے واپڈا افسران کو شرم پھر بھی نہیں آئی اور بالاآخر سٹی تھانہ میں فیصلے کے بعد تمام علاقہ مکینوں نے ستر ہزار جمع کر کے واپڈا افسران کو دیئے تو جاکہ بجلی علاقہ میں بحال ہوئی ۔
اب سوال یہ آتا ہے کہ اگر ٹرانسفارمر کی مرمت بھی عوام ہی ہی کروائی گی تو پھر عوام کو بل بھرنے کی کیا ضرورت ہے ۔کیونکہ واپڈا تو اب صرف نام کا رہ گیا ہے کام تو اب کچھ بھی نہیں کر رہا تو اس پر SDO صاحب کا کہنا تھا کہ آپ لوگ پیسے گورنمنٹ کو دے رہے ہیں ہم تو صرف ملازم ہیں اور اپنا دامن صاف کر کے اپنے راستے گھر کو روانہ ہوگئے ۔واپڈا افسران کی انہیں غفلتوں کی وجہ سے ولٹیج میں بھی اُتار چڑھاﺅ آرہے ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ چھ ماہ میں بہت سے گھریلو حادثات پیش آئے ہیں مثلاََ بجلی کی چیزوں کا جل جانا اور گھر میں آگ لگ جانا اس طرح کی غفلت کو اگر نہ روکا گیا تو یہ جان کا نقصان بھی بن سکتی ہے ۔واپڈا حکمران کو غیرت کے گھونٹ پلانا لازمی ہے تاکہ اس طرح کی بجلی چوری نہ کی جاسکے اور بجلی کے بحران کو مٹایا جاسکے ۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh


...........................................................................................................................

انٹرویو
شہریار رشید بی ایس پارٹiii -رول نمبر147
Shahryar Rasheed
مائیکل جون (باڈی بلڈرسے انٹرویو
مائیکل جون ہے میں 28 جنوری1986 میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ۔سرکاری اسکول کمپری ہینسوسے میٹرک کیا اس کے بعد ڈگری کالج کوہسار سے انٹر پاس کیا پھر ایک سینٹری ورکر کے طور پر نوکری کی اور اپنی ایک کنفیکشنری کی دوکان لگائی اور وہ ابھی تک چل رہی ہے ۔

سوال : باڈی بلڈنگ کا شوق کیسے ہوا اور پہلی بار باڈی بلڈنگ کہاں سے شروع کی ؟
ج : بچپن ہی سے ریسلنگ دیکھنے کا بہت شوق تھا اور ریسلر کو دیکھ کے دل چاہتا تھا کہ ان کے جیسا بنوں اور پھر (آرنلڈ )جو کہ اپنے وقت کے مشہور باڈی بلڈر رہے ہیں اُنہیں میں نے اپنا آئیڈیل بنایا ۔اُس کے بعد پہلے تو بچپن میں گھر پر ہی تھوڑی بہت بھاری چیزیں اُٹھاتا تھا پھر ہمارے علاقے میں ہی موجود ایک باڈی بلڈنگ کلب تھا جس کا نام اعجاز باڈی بلڈنگ کلب تھا وہاں سے میں نے باڈی بلڈنگ شروع کی اور مجھے باڈی بلڈنگ کرتے ہوئے چودہ سال ہوگئے ہیں ۔
سوال: آپ نے باڈی بلڈنگ سے کیا کیا کامیابیاں حاصل کی ؟
ج : باڈی بلڈنگ سے سب سے پہلی کامیابی یہ تھی کہ میں نے سال2009میں جونیئر مسٹر حیدرآباد کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا اور پھر سال2011 میں مسٹر حیدرآباد بنا ۔باڈی بلڈنگ سے میں نے ابھی تک دو بار مسٹر حیدرآباد کا ٹائٹل اپنے نام کیا ہے اور یہ میرے لئے بہت فخر کی بات ہے ۔ان سب موقعوں پر مجھے بہت سے انعامات بھی حاصل ہوئے مسٹر حیدرآباد بننے پر مجھے دونوں بار موٹر سائیکل ملی اور اسکے علاوہ سندھ اولمپکس گیمز میں ایک گولڈ اور دو سلور میڈل جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا اور ہر بار ٹائٹل پر ٹرافیز ملی ۔
سوال: باڈی بلڈنگ کا حیدرآباد میں کیا کردار ہے ؟
ج : جیسا کہ آج کا زمانہ ہے باڈی بلڈنگ ہر نوجوان نسل کا شوق ہے اور حیدرآباد میں گذشتہ وقت کی نسبت اب زیادہ جمز اور فٹنس کلب ہیں اور یہ شوق صرف لڑکوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اب لڑکیاں بھی خود کو فٹ رکھنے کےلئے باڈی بلڈنگ کر رہی ہیں ۔

سوال : باڈی بلڈنگ کا آنے والے وقتوں میں کوئی فائدہ ہے یا بس یہ وقتی شہرت دیتی ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ کے بہت سے فائدے ہیں اور یہ ایک اچھا کرئیر بھی بن سکتا ہے ایسا نہیں ہے کہ باڈی بلڈنگ وقتی شہرت دیتی ہے بلکہ اگر ایک اچھے پلیٹ فارم سے کوشش کی جائے تو زندگی بھی سنور جاتی ہے ۔اس بات کو ثابت کرنے کے لئے میں (آرنلڈ) کی مثال دینا چاہونگا جو کہ باڈی بلڈنگ کے ذریعے ہالی ووڈ مویز میں بطور ہیرو کام کرنے لگ گئے تھے اور بہت شہرت کمائی تھی اور اب تک اُن کابڑے اداکاروں میں نام شامل ہے ۔
سوال : باڈی بلڈنگ سے پیسہ کسطرح کمایا جاسکتا ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ ایک ایسا شعبہ ہے جو کہ ہر ملک اور شہر میں بہت نام رکھتا ہے اگر آپ کراچی جاتے ہیں تو وہاں بھی باڈی بلڈنگ کا رحجان بہت عروج پر ہے اور اگر آپ کے اندر لگن و جذبہ ہو تو آپ محنت کر کے اپنی باڈی کو اس قابل بناسکتے ہو کہ ہر بڑا کلب آپکو سپورٹ کرے اور آپکو مقابلے کےلئے آفر کرے انہیں مقابلوں سے باڈی بلڈر پیسا کماتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نام بھی کماتے ہیں ۔
سوال : آپ کے خیال میں باڈی بلڈنگ کا مستقبل کیا ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ کا مستقبل بہت کامیاب ہے اگر اُس کو صحیح طرح سے سر انجام دیا جائے یعنی بہت سے باڈی بلڈر جلد ہی باڈی بلڈ اپ کرنے کےلئے طرح طرح کی دوائیوں کا ستعمال کرتے ہیں جو کہ صحت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ہے اگر اس طرح باڈی بلڈنگ کی جائے گی تو باڈی بلڈنگ کا مستقبل خسارے میں چلا جائے گا ۔

سوال : اگر حیدرآباد میں ہی رہ کر باڈی بلڈنگ کی جائے تو کون سا کلب بہتر ہوگا ؟
ج حیدرآباد میں مسل مینیا فٹنس جم وہ واحد جم ہے جو کہ بہترین باڈی بلڈرز کو ٹریننگ دیتا ہے اور اُن کو آگے بڑھنے کے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے میرا ماننا تو یہی ہے کہ اگر حیدرآباد میں ہی رہ کر باڈی بلڈنگ میں شہرت حاصل کرنی ہے تو مسل مینیا فٹنس جم سے منسلک ہو کر حاصل کی جاسکتی ہے ۔

سوال : آپ اپنا بتائے کہ باڈی بلڈنگ میں کس مقام تک جانے کا سوچا ہے ؟
ج : اس دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ہر کسی کا ایک ہی خواب ہوتا ہے اپنے اپنے شعبہ کے مطلق اورمیرا بھی وہی ایک خواب ہے کہ میں  "مسٹر یونیورس "اور " مسٹر اولمپکس" کا ٹائٹل اپنے نام کروں ۔

سوال نمب : نوجوان نسل کےلئے کوئی پیغام ؟
ج میں نوجوان لڑکوںکو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کےلئے تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے اور جب آپ اپنے خوابوں کو پہچان کے ان کو پورا کرنے کی تھان لیتے ہو تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے ۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh
............................................................................................................................ 
انٹرویو
شہریار رشید بی ایس پارٹiii رول نمبر147

مائیکل جون (باڈی بلڈرسے انٹرویو
مائیکل جون ہے میں 28 جنوری1986 میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ۔سرکاری اسکول کمپری ہینسوسے میٹرک کیا اس کے بعد ڈگری کالج کوہسار سے انٹر پاس کیا پھر ایک سینٹری ورکر کے طور پر نوکری کی اور اپنی ایک کنفیکشنری کی دوکان لگائی اور وہ ابھی تک چل رہی ہے ۔

سوال : باڈی بلڈنگ کا شوق کیسے ہوا اور پہلی بار باڈی بلڈنگ کہاں سے شروع کی ؟
ج : بچپن ہی سے ریسلنگ دیکھنے کا بہت شوق تھا اور ریسلر کو دیکھ کے دل چاہتا تھا کہ ان کے جیسا بنوں اور پھر (آرنلڈ )جو کہ اپنے وقت کے مشہور باڈی بلڈر رہے ہیں اُنہیں میں نے اپنا آئیڈیل بنایا ۔اُس کے بعد پہلے تو بچپن میں گھر پر ہی تھوڑی بہت بھاری چیزیں اُٹھاتا تھا پھر ہمارے علاقے میں ہی موجود ایک باڈی بلڈنگ کلب تھا جس کا نام اعجاز باڈی بلڈنگ کلب تھا وہاں سے میں نے باڈی بلڈنگ شروع کی اور مجھے باڈی بلڈنگ کرتے ہوئے چودہ سال ہوگئے ہیں ۔
سوال: آپ نے باڈی بلڈنگ سے کیا کیا کامیابیاں حاصل کی ؟
ج : باڈی بلڈنگ سے سب سے پہلی کامیابی یہ تھی کہ میں نے سال2009میں جونیئر مسٹر حیدرآباد کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا اور پھر سال2011 میں مسٹر حیدرآباد بنا ۔باڈی بلڈنگ سے میں نے ابھی تک دو بار مسٹر حیدرآباد کا ٹائٹل اپنے نام کیا ہے اور یہ میرے لئے بہت فخر کی بات ہے ۔ان سب موقعوں پر مجھے بہت سے انعامات بھی حاصل ہوئے مسٹر حیدرآباد بننے پر مجھے دونوں بار موٹر سائیکل ملی اور اسکے علاوہ سندھ اولمپکس گیمز میں ایک گولڈ اور دو سلور میڈل جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا اور ہر بار ٹائٹل پر ٹرافیز ملی ۔
سوال: باڈی بلڈنگ کا حیدرآباد میں کیا کردار ہے ؟
ج : جیسا کہ آج کا زمانہ ہے باڈی بلڈنگ ہر نوجوان نسل کا شوق ہے اور حیدرآباد میں گذشتہ وقت کی نسبت اب زیادہ جمز اور فٹنس کلب ہیں اور یہ شوق صرف لڑکوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اب لڑکیاں بھی خود کو فٹ رکھنے کےلئے باڈی بلڈنگ کر رہی ہیں ۔

سوال : باڈی بلڈنگ کا آنے والے وقتوں میں کوئی فائدہ ہے یا بس یہ وقتی شہرت دیتی ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ کے بہت سے فائدے ہیں اور یہ ایک اچھا کرئیر بھی بن سکتا ہے ایسا نہیں ہے کہ باڈی بلڈنگ وقتی شہرت دیتی ہے بلکہ اگر ایک اچھے پلیٹ فارم سے کوشش کی جائے تو زندگی بھی سنور جاتی ہے ۔اس بات کو ثابت کرنے کے لئے میں (آرنلڈ) کی مثال دینا چاہونگا جو کہ باڈی بلڈنگ کے ذریعے ہالی ووڈ مویز میں بطور ہیرو کام کرنے لگ گئے تھے اور بہت شہرت کمائی تھی اور اب تک اُن کابڑے اداکاروں میں نام شامل ہے ۔
سوال : باڈی بلڈنگ سے پیسہ کسطرح کمایا جاسکتا ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ ایک ایسا شعبہ ہے جو کہ ہر ملک اور شہر میں بہت نام رکھتا ہے اگر آپ کراچی جاتے ہیں تو وہاں بھی باڈی بلڈنگ کا رحجان بہت عروج پر ہے اور اگر آپ کے اندر لگن و جذبہ ہو تو آپ محنت کر کے اپنی باڈی کو اس قابل بناسکتے ہو کہ ہر بڑا کلب آپکو سپورٹ کرے اور آپکو مقابلے کےلئے آفر کرے انہیں مقابلوں سے باڈی بلڈر پیسا کماتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نام بھی کماتے ہیں ۔
سوال : آپ کے خیال میں باڈی بلڈنگ کا مستقبل کیا ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ کا مستقبل بہت کامیاب ہے اگر اُس کو صحیح طرح سے سر انجام دیا جائے یعنی بہت سے باڈی بلڈر جلد ہی باڈی بلڈ اپ کرنے کےلئے طرح طرح کی دوائیوں کا ستعمال کرتے ہیں جو کہ صحت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ہے اگر اس طرح باڈی بلڈنگ کی جائے گی تو باڈی بلڈنگ کا مستقبل خسارے میں چلا جائے گا ۔

سوال : اگر حیدرآباد میں ہی رہ کر باڈی بلڈنگ کی جائے تو کون سا کلب بہتر ہوگا ؟
ج حیدرآباد میں مسل مینیا فٹنس جم وہ واحد جم ہے جو کہ بہترین باڈی بلڈرز کو ٹریننگ دیتا ہے اور اُن کو آگے بڑھنے کے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے میرا ماننا تو یہی ہے کہ اگر حیدرآباد میں ہی رہ کر باڈی بلڈنگ میں شہرت حاصل کرنی ہے تو مسل مینیا فٹنس جم سے منسلک ہو کر حاصل کی جاسکتی ہے ۔

سوال : آپ اپنا بتائے کہ باڈی بلڈنگ میں کس مقام تک جانے کا سوچا ہے ؟
ج : اس دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ہر کسی کا ایک ہی خواب ہوتا ہے اپنے اپنے شعبہ کے مطلق اورمیرا بھی وہی ایک خواب ہے کہ میں "مسٹر یونیورس "اور " مسٹر اولمپکس" کا ٹائٹل اپنے نام کروں ۔

سوال نمب : نوجوان نسل کےلئے کوئی پیغام ؟
ج میں نوجوان لڑکوںکو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کےلئے تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے اور جب آپ اپنے خوابوں کو پہچان کے ان کو پورا کرنے کی تھان لیتے ہو تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے ۔


شہریار رشید بی ایس پارٹiii رول نمبر147

آصف علی موچی کا پروفائل 
اس دور جدید میں جہاں تعلیم ایک اہم نکات میں شامل ہوتی ہے وہیں لاکھوں بچے اس تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں ۔پاکستان جیسا ملک جہاں ادیبوں کی تعداد 68 فیصد ہے اور باقی ایک بڑ ی تعداد تعلیم سے محروم ہے ان کی تعلیم سے محروم رہنے کی وجہ غریبی اور تعلیم کی ضرورت سے آگاہی نہ ہونا ہے ۔ایسے لوگوں کے لئے آصف علی موچی ایک بہت بڑی مثال قائم کرچکا ہے آصف علی حیدرآباد کا رہائشی ہے جو کہ ٹاور مارکیٹ پر اپنی موچی کی دوکان لیئے بیٹھا ہے آصف علی کی عمر 18 سال ہے اور اس کی پیدائش حیدرآباد میں ہی ہوئی ہے سال2003 میں آصف علی کے ماں باپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اور آصف علی کو ان کے چاچا اصغر علی نے پالا ان کے چاچا بھی موچی تھے اور بھتیجے کو بھی اسی کام کا ہنر دیا ۔

جیسے جیسے آصف علی بڑا ہوتا رہا ان کے چاچا نے ان کے اندر پڑھائی کا جذبہ دیکھا تو اپنی تھوڑی بہت جمع کونجی سے آصف علی کو ایک چھوٹے سے اسکول میں داخلہ کروایا باقی بچوں کی نسبت جو کہ ہر آسائش سے آراستہ تھے آصف علی پڑھائی میں اُن سے بھی زیادہ ہوشیار تھا اور ہر سال کلاس میں اوّل آتا تھا جبکہ جن بچوں کے پاس ہر آسائش ہونے کے باوجود بھی ان بچوں میں پڑھائی سے کوئی لگاﺅ نہیں تھا پانچویں جماعت سے آصف علی اپنے چاچا اصغر علی کے ساتھ اُن کی موچی کی چھوٹی سی دوکان پر جانے لگا اور کام سیکھنے لگا ۔اسکول سے آکر وہ چاچا کی دوکان پر جاتا اور رات 9 بجے کے بعد گھر آکر نہایت تھکا ہوا ہونے کے باوجود بھی پہلے اپنے اسکول کا کام کرتا اور پھر سوجاتا تھا اور پھر چھٹی جماعت سے آصف علی نے چاچا کی دوکان کے ساتھ ہی اپنی بھی ایک چھوٹی سی موچی کی دوکان لگائی اور حق حلال کی روزی کمانے لگا محنت مزدوری کر کے آصف علی نے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور اپنے آپ کو آنے والے وقت میں ایک اچھے مقام پر دیکھنا شروع کردیا ۔آصف علی اپنی زیادہ تر کمائی اپنی پڑھائی اور کتابوں میں خرچ کرتا تھا آصف علی کو کمپوٹر سیکھنے کا بھی بہت شوق تھا تو اس نے موچی کی دوکان کے ساتھ ساتھ بچوں کے کچھ کھلونے بھی اپنی دوکان پر رکھ رلئے جس سے کمپوٹر کورس کرنے کے پیسے باہر آسکے بالاآکر آٹھویں جماعت میں انہوں نے اپنے کمپوٹر کورس کا آغاز ہیرا آباد کے ایک چھوٹے سے کمپوٹر سینٹر سے کیا اور ایک سال تک کمپوٹر کی تعلیم حاصل کرتے رہے اور کمپوٹر پر بھی عبور حاصل کر لیا ۔

آٹھویں جماعت کے اختتام پر آصف علی نے نور محمد ہائی اسکول سے نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات دیئے اور اللہ کے فضل و کرم سے A-1گریڈکیساتھ میٹرک مکمل کی یہ ان کے لئے بہت فخر کی بات تھی اور آصف علی اپنی اس کامیابی پر بہت خوش تھا ۔ان کی محنت رنگ لائی اور انہیں آنے والے وقت میں خود کو ایک اچھے مقام پر دیکھنے کا خواب سچ ہوتا نظر آرہا تھا اس کامیابی کے بعد آصف علی نے اپنے کالج کے سفر کا آغاز کیا اور اس وقت وہ مسلم سائنس کالج میں بارہویں جماعت کے طالب علم ہیں اور گیارہیویں جماعت میں بھی اے ون گریڈ حاصل کیا تھا اور اب بارہیوں جماعت کے نتیجے کا انتظار کر رہے ہیں اور آصف خود کو یونیورسٹی کےلئے بھی تیار کر رہا ہے آصف علی مستقبل میں انجینئر بننا چاہتا ہے ہم اُمید کرتے ہیں کہ اللہ پاک آصف علی کو ان کی کوششوں میں کامیابی عطاءفرمائے اور اس کے خوابوں کو حقیقت بنائے آصف علی جیسے نوجوان آج کی نسل کےلئے ایک بہترین مثال ہیں جو لوگ محنت کرنے سے کتراتے ہیں اُنہیں چاہیے کہ آصف علی کی طرح محنت کر کے اپنے خوابوں کی تعبیر اپنے ہاتھوں سے کریں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے حق حلال کی روزی کمائیں اور پڑھنے لکھنے پر زور دیں یاد رہے پڑھائی ایک ایسا زیورہے جو کوئی چوری نہیں کرسکتا اور تعلیم ہی کامیاب زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔آصف علی کی کہانی اس پوری قوم کے نوجوانوں کے لئے بہت بڑی مثال ثابت ہوتی ہے ۔

Sunday, 19 March 2017

Presentation groups

22-Feb-2017
Group 1 - Topic: What is online journalism
Members: Fareena (21) Sana (55) Hoor khan (27)
Group 2 - Topic: writing for website content is king.
Members:Rebecca usrani (80) Faryal abbasi (119) Fatima Mustafa (27)
Group 3 (no blog) - Topic: content of website in format
Members:Ali Aizaz (126) Naveed Ahmed (160) Kamran odhano (174)
Group 4 - Topic: content of website in subject
Members:Jawad Ahmed (39) Waris Bin Azam (102) Ahsan Pervaiz (03)

28-Feb-2017
Group 9 - Topic: Socio economic aspects of online
Sadam Hussain Lashari (52) Abdul Razzaque (03) Rasheed Ahmed Nizamari (49)
Group 10 -Topic: Gatekeeping in online journalism
Muhammad Umair (42) Ahsan Shakeel (07) Shoaib Baloch (41)
Group 11 , Topic: Credibility and ethical issues in online journalism
Muhammad Uzair (158) Muhammad Rafay Khan (140) Waqas Arain (66)
Group 12 - Topic: Terminology in online journalism (page 1 – 4)
Faheem (20) Hussain (137) Preetum (47)

1-Mar-2017
Group 14- Topic: what is online journalism
Hoor-e-laiba (172) Fatima Javed (26) Maryam (50)
Group 15 - Topic: writing for website content is king
Rehma (50) Mehnaz (36) Dur-e-Shehwar (19)
Group 16 - Topic: contents of website in format
Imtiaz Ahmed Abbasi (28) Ali Raza Rajpar (12) Aijaz Ali Bhatti (08)

7-Mar-2017
Group 5 - Topic: creating blog, how to write blog, blog writing practice
Members:Najeebullah chandio (116) Khalid shaikh (154) Ayoob rajpar (130)
Group 6- Topic: what is social networking?
Members:Mahira Majid Ali (155) Saira Nasir (84) Misbah–ur-Ruda (52)
Group 7 - Topic: Data journalism
Members:Sadaquat Hussain Kazi (118) Sheeraz Solangi (166) Sadam Solangi (162)
Group 8- Topic: Citizen journalism
Akash Hamerani (10) Waseem Umar (68) Jamshaid (31)
Group 13 - Topic: Online journalism in Pakistan
Mushtaque (142) Muhammad Amin (115) Ali Asghar (127)

8-Mar -2017
Group 17 - Topic: contents of website in subject
Simra (93) Mizna (156) Sabhiya (82)
Group 18 Topic: what is social networking?
Rajesh Kumar (78) Mumtaz Jamali (159) Imam Ali Bhalai (114) Zulfiqar Khoso (108)
Group 19 -Topic: Creating blog, how to write a blog, practice
Tariq Ali (63) Abdul Ghafar (02) Abdul Sattar (04)
Group 20 - Topic: Data journalism
Rameez Lakho (79) Sajjad Ali Lashari (163) Amin Emmanuel
Group 21 - Topic: Citizens journalism
Fariya Masroor (23) Mashal Jamali (35)

13-Mar-2017
Group 22 - Topic: Terminology in online journalism (Page 5 – 8)
M.Saud Sheikh (63) M.Bilal Siddiqui, Raheel Siddiqui
Group 23 - Topic: Socio economic aspects of online
Maiza (33) Sehar (53) Narmeen
Group 24 (no blog) - Topic: Gatekeeping in online journalism
Aftab Ahmed (05) Ghulam Mahdi Shah (25) Aijaz Gul (09)
Group 25 - Topic: Credibility and ethical issues in online journalism
Muhammad Zubair (67) Hammad Zubair Khan (30) Hamza Sheikh (31)
Group 26 - Topic: Credibility and ethical issues in online journalism
Minhaj –ul-Islam (150) Shahjahan Ansari (47) Bilal Masood (132)
Group 27 - Topic: online journalism in Pakistan
Anam (07) Farhana Naghar (24) Shariyar Rasheed (147)

14-Mar-2017
Group 28 - Topic: Terminology of online journalism (Page 9 – 12)
Pawan (117) Ravi Shankar (80) Bharat Kumar (16)
Group 29 - Topic: Gate keeping in online journalism (no blog)
Aqsa Qureshi (13) Tazmeen Rehman (64) Maria Shaikh (34)
Group 30 (no blog) - Topic: what is online journalism?
Jamshed (135) Mansoor (48)
Group 31 - Topic: online journalism in Pakistan
Shariq Mehmood (146) Asad-ur- Rehman (09) Baber Ali (111)
Group 32 - Topic: Contents of website in format
Nawab (161), Faizullah (20

Tuesday, 7 March 2017

Book Review of Sair Registan - By Rebecca Ursani


Book Review of Sair Registan

Reviewed by Rebecca Ursani


This book Sair Registan written by renown writer and educationist Mohammad Ismail Ursani in 1976 is all about clearing the misconceptions people usually have regarding Thar and desert.  Upon hearing the word desert, our mind draws an image of a place that has nothing more than just the sand all over. No magnificence at all, having only salty water, drought and faded trees and plants. To clear this doubt is the aim of the writer of this book. Ursani has given much importance on considering all the blessings God has blessed us in our surroundings. His creations are so vast that it is almost impossible for mankind to sum it up or to describe it in words.
The writer has mentioned all the details and uniqueness of all those things from Thar that we cannot even imagine. He has highlighted all the aspects of Thar, of which most of the population is unaware.
Thar, people of Thar, lifestyle and a lot more is written in such a way that the reader can actually picturize the text. Mohammad Ismail Ursani spent seventeen years of his life in Thar which made him write all about Thar and its beauty. According to the writer, during rainfall, Thar is known as the Kashmir of Sindh province.

The book begins with the meaning of the word Thar which is different in different languages. In one language Thar means the Malai of milk when heated up and there are more meanings in more languages. The second thing talked about in this book is the area of Thar district. Previously there used to be three divisions of Thar, Deplo, Mitihi and NangarParkar out of which Nangarparkar is known as the biggest division area wise. After the area, the mounds of sand have been highlighted. What actually are mounds of sand, what type are they, what is their usage and how were they made at first place. The mounds of sand are huge and dangerous that one is on pins and needles while climbing it along with the camel. When climbing the mound, the height goes unnoticed but after we look back then we realize how far and high we have climbed. The description of trees and plants of Thar in this book is so fascinating that the reader will not ever think of those plants as ordinary ones.
While writing about the trees, the writer thinks that those who have not visited Thar in their life, they will think the land of Thar is same as that of Sindh which actually is way alluvial and way heavenly which grows different sort of plants and colorful trees of which we cannot imagine.Basically there are four very well-known trees in Thar i.e. Kando (thorn). Kanbhat, Wango (cucumber) and Jyar.
Together with trees, the writer has put forward the information of small plants as well which are Akk, Thohar, Phog, Morari, Baeri, Beryun and many others.Every tree and plant has its own usage and importance and their availability in different areas is also described in this book along with lots of pros and cons of every single plant. Furthermore, the hospitality that people of Thar give is incredible. They forget about their hunger and put everything available in home before their guests. They don’t let their guests go empty handed.
In the end the writer claims that if the people of Thar like and enjoy this book then the photographs of some unique places of Thar will be posted in the block in future.



Rebecca Ursani, BS-III, Department of Media & Communication Studies, University of Sindh Jamshoro.
Roll number: 2K14/MC/81
Writing Skill practical work, carried under supervision of Sir Sohail Sangi

Wednesday, 30 November 2016

نجی اسکولوں کا بڑھتا رجحان




تحقیقی رپورٹ : پڑھے گا، لکھے گا، روشن ہوگا پاکستان ۔۔ مگر کیسے ؟؟؟؟



ماہرہ ماجد علی
Mahira Majid : 2k14/MC/15 : 
نجی اسکولوں کی طرف بڑھتا رجحان اور انکی وجوہات

مصباح ار ردا : 2 k14/Mc/52 
: قانون (ن) امان کی صورتحال 

سائرہ ناصر ؔ : 2 k14/Mc/84:
 اشاعت خانے 

حسین بروہی : 2 k14/Mc/
:غیر تجربہ کار اساتذہ

فاطمہ جاوید کمال :2 k14/Mc/26
:غیر رجسٹرڈ سکولوں کی تعداد 



تعارف 

ماہرہ ماجد علی

ایک خیمہ جس میں ایک طرف سے چند طالبعلم بستہ اٹھائے داخل ہورہے ہیں جبکہ دوسری طرف سے چند گدھے بستہ اٹھائے بائر نکل رہے ہیں. یہ خیمہ ویب پر پاکستان کے تعلیمی نظام کو دیکھتے ہوئے بنایا گیا ایک کارٹون ہے جو کافی مشہور بھی ہورہا ہے اس خیمے کے اوپر لکھا ہے 

"PAKISTAN EDUCATION SYSTEM"
ٖٓپاکستان کو بننے ہوئے ۶۸ ؁ سال ہو چکے ہیں لیکن ہمارا تعلیمی نظام بہت خراب ہے ہمارے طالبعلم ابھی تک دد کشتیوں پر سوار ہیں جن میں سے ایک اردو اور ایک انگریزی ہے ان دو کشتیوں پر سوار ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو ہمارے طالب علموں کی اردو اچھی ہے اور نہ ہی انگریزی اسکول زیادہ تر گورنمنٹ کے ماتحت ہیں جہاں ڈنڈوں کے سائے تلے تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے طلباء اسکول جانے میں گھبراتے ہیں اور طرح طرح کے بہانے کرکے چھٹی کو ترجیع دیتے ہیں بہانے بناکر چھٹی کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد اسے ٹھنڈی اور سکون کی سانسیں بھرتے ہیں۔ جیسے کسی خوف کا بڑا سایہ ان کے سر سے ہٹا دیا گیا ہو۔

 اگر ہم پرائیویٹ اسکول کو دیکھیں تو وہاں جو طلبا میٹرک اور انٹر کے امتحان میں پاس ہوجاتے ہیں وہ اپنے ہی اسکول میں جاکر استاد بن جاتے ہیں اگر نظام تعلیم اسی طرح دن بہ دن خراب ہوتا گیا تو شاید ہی یہ ملک پاکستان کبھی ترقی کر پائیگا
کیونکہ یہ قول بہت مشہور ہے۔
طلباء کسی بھی قوم کے مستقبل کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔

گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکول کی مثال ہم اس طرح دے سکتیے ہیں کہ کچھ دن قبل انٹرنیٹ پر ایک تصویر میں دکھایا جا رہا تھا دو گھروں کو ایک ساتھ دیکھایا جا رہا تھا ۔جس میں تعلیمی نظام صاف واضح ہوگیا۔ایک گھر پرائیویٹ اسکول کے استاد کا تھاجو بلکل ٹوٹا پھوٹا اور بری حالت میں تھا۔جبکہ دوسری جانب ایک گورنمنٹ اسکول کے استاد کا گھر تھا ۔جو بہت ہی عالیشان ہونے کے ساتھ ساتھ ہر سہولت سے بھرپور تھا۔
اس تصویر کو دیکھانے کا مطلب بلکل صاف ہے کہ گورنمنٹ اسکول میں استاد محنت کرنے کو ترجیع نہ دے کر صرف پیسوں پر عیش کرنے کو بڑی بات سمجھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ اسکولوں کا نطام بلکل مختلف ہے جہاں اساتزہ محنت کر کے اپنی قابلیت کے بلبوتے پر پیسے کماتے ہیں۔یہ پاکستان کے تعلیمی نطام کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے اگر اسی طرح پورے نطام پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں سب بڑے سے بڑا ہو یا چھوٹے چھوٹا عہدیدار صرف اپنی جیب بھاری کرکے عیش میں لگا ہے۔

ان سب کو معصوم بچوں کے مستقبل کی کوئی پرواہ نہیں ہے بچوں کے خراب ہوتے مستقبل کا زمہدار ہے کون؟ اس کا جواب اگر والدین سے لیا جائے تو وہ اساتزہ کا نام لیکر جان چھٹا لیتے ہیں اور اساتزہ سے یہ سوال کیا جائے تو وہ اپنے سربراہوں کا نام لیکر اپنا دامن صاف کر لیتا ہے اور اگر ان سربراہوں سے پوچھا جائے تو وہ سیدھا حکومت کو الزام دے کر خود کو کرپشن مافیہ سے پاک و صاف کر لیتے ہیں اپنی غلطی ماننے کو کوئی تیار ہی نہیں ہے۔۔

غیر قانونی اسکولوں کی وجوہات 249قانون اور اصول وضوابط 249کتابوں کی چھپائی کا عمل249غیر تجربہ کار اساتزہ اور غیر قانونی اسکول ؂وں کی تعداد کے بارے میں اس رپورٹ میں آگے تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔

نجی اسکولوں کی طرف بڑھتا رجحان اور انکی وجوہات


ماہرہ ماجد علی


موجودہ دور کے اس افراتفری کے ماحول میں تعلیم حاصل کرنا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ والدین اپنی اولاد کو بہتر سے بہتر تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ انکی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہماری اولاد سب سے آگے ہو اورپڑھ لکھ کر ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے اور اس دوڑ میں والدین ہر اس اسکول کا رخ کرتے ہیں جہاں انکی اولاد کوبہتر تعلیم مل سکے ۔ آجکل کے اس ماڈرن دور میں کوئی بشر سرکاری اسکول ،ہسپتال یا دیگر سرکاری اداروں کا رخ ہی نہیں کرتا ۔

ڈاکٹر ایڈرین کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ وہ گھر جن کے معاشی حالات بہتر ہیں وہ سرکاری اداروں سے دور بھاگتے ہیں اور نجی اداروں میں ہی اپنی اولاد کو پڑھانا پسند کرتے ہیں۔ اسکی اہم وجہ سرکاری اداروں کی نا اہلی بھی ہے۔نا اہلی اسطرح کہ ان اسکولوں میں تعلیم کا معیار دن بدن بدترہوتا چلا جارہا ہے اسکے علاوہ ٹیچرز آرگنائزیشنز نے بھی تعلیم کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔گھوسٹ اساتذہ کاسرکاری اسکولوں کے معیار کو گرانے میں خاصہ ہاتھ ہے۔

اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑے بیٹھے ہیں۔ انکی نا اہلی کی باعث عوام مہنگے نجی اداروں کی طرف رخ کرتی ہے جن میں سے بیشترغیر قانونی اور سرکاری طور پر رجسٹرڈتک نہیں ہوتے لیکن عوام کی امیدوں پر پورے اترتے ہیں۔

ان نجی اداروں یعنی اسکولوں سے اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں جہاں انکے بچوں کو کورس کی کتابوں کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی پڑھائی جاتی ہے جو کہ موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔
۲۰۰۸ کی ایسوسیشن آف ٹیچرز اینڈ لیکچرز کی ایک رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پرائیوٹ اسکولوں میں فیس کے مسلسل اضافے کے باوجود بھی شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ان نجی اسکولوں کی طرف جاتی ہے ۔

عام طور پر غیر قانونی اسکو ل ایسے پسماندہ علاقوں میں پائے جاتے ہیں جن پر حکومت کی خاصی توجہ نہیں ہوتی ،جہاں آبادی بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہوتی ہے اورلوگ اپنی مدد آپ کے تحت زندگی کی مختلف سہولیات مثلاٌگھر، ہسپتال اوردو کمروں پر مشتمل اسکول وغیرہ تعمیر کرتے ہیں۔

یہ غیر قانونی اسکول زیادہ تر پرائمری ہوتے ہیں کیونکہ اسکے بعد انکی رجسٹری ضروری اور لازمی ہوجاتی ہے۔حیدرآبادکے پسماندہ علاقوں جیسے کانچ میل،لطیف آباد یونٹ نمبر ۱۲ کے پچھلے علاقے، کوٹری اور خدا کی بستی میں ایسے کئی اسکول واقع ہیں۔

ان اسکولوں کی پسماندگی کی ایک اوراہم وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان اور ورلڈبینک مل کر ایجوکیشن اور ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کوپرائیوٹائز کر رہے ہیں جن میں سر فہرست نارائن جگن ناتھ اسکولNarayan Jagannath School (NJV Schools) ہے۔ سندھ کے ایجوکیشن انسپکٹر جگن ناتھ ودیا مدراسی نے تعلیمی سگرمیوں میں اضافہ کیا۔ انیسویں صدی میں اس سرکاری اسکول کی بنیاد رکھی پر حکومت نے اس اسکول کو بھی این جی او کے حوالے کردیا۔
سرکاری اسکولوں کو پرائیوٹ پارٹیوں کے ساتھ ضم کرکے حکومت فائدہ اٹھانا چاہتی ہے کیونکہ پاکستانی ملازمت کے۵.۶ لاکھ میں سے تقریباٌ۲.۳ لاکھ ملازمین ایجوکیشن پر مشتمل ہیں۔
اب تک تقریباٌ۶۵۰اسکول نجکاری کی زد میں آچکے ہیں اس معاملے میں عوام نے احتجاج کئے لیکن حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ جس کے نتیجے میں خمیازہ عام عوام بھگت رہی ہے

۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔
مصباح ار رودا 
قانون اصول و ضوابط
ڈائریکٹوریٹ کے ریکورڈ کے مطابق پاکستان میں 1395پرائیویٹ اسکول ہیں ان میں سے تقریبا آدھے اسکول حیدرآباد میں ہیں جس میں ۳۵۱کے قریب اسکول غیر قانونی ہیں جو اب تک رجسٹرڈ نہیں کروائے گئے۔ان اسکولوں کے رجسٹرڈ کروانے کی کیا وجوہات ہیں ۔کیونکہ ہر جگہ کرپٹ مافیہ کام کررہا ہے؟ کیونکہ اس نظام کے خلاف کوئی اقدامات نہیں ہوئے؟

پرائیویٹ اسکول کی میڈم صابرہ سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ غیر قانونی اسکولوں کا زیادہ رجحان اس لئے بھی ہوتا ہے کیونکہ ایک اسکول جو رجسٹرڈ ہے دوسرا اسکول اسی کے نام پر اپنے اسکول کے طلباء کے نام آگے دے کر ان کو بورڈ کے امتحانات دلوارہے ہیں اور وہ اسکول جو دوسرے اسکول کی مدد کررہا ہوتا ہے وہ اپنا فائدہ لے لیتا ہے اس طرح ان لوگوں کو اپنے اپنے اسکول رجسٹرڈ کروانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی
 میڈم صابرہ نے چیک اینڈ بیلینس کے نظام کو خراب بتاتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہے .بہت سے قانون اور قواعدوضوابط آئے ہیں لیکن ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا. بس قانون آتے ہیں شور مچتا ہے اور کچھ ونوں میں وہ بھی ختم ہو جاتا ہے مانو جیسے کبھی کوئی قانون پاس ہی نہ ہوا ہو . تو ایسی حالات میں ان قانون پر عمل کرنا تو بہت ہی مشکل ہے۔


صوبائی گورنمنٹ انسپیکشن ڈائریکٹوریٹ اور پرائیویٹ اسکولوں کی رجسٹریشن جنوری ۲۱۰۲ میں حیدرآباد میں قائم کی گئی اور پھر وہ آہستہ آہستہ حیدرآباد کے ۰۱ ضلعوں میں بھی پھیل گئی۔ اسکولوں میں سال میں ایک دفعہ انسپیکشن ٹیم آتی ہیں چاہے وہ گورمینٹ اسکول ہوں یا پرائیویٹ ۔اور پھر دہ آفس میں بیٹھ کر چند پیسے لے کر اور چائے بسکٹ کھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے فرائض انجام دے دئییاور اٹھ کر چلے جانا پسند کرتے ہیں۔

۱۰۰۲ اور ۵۰۰۲ میں پرائیوٹ اسکول سندھ پرائیوٹ ایجوکیشنل ادارے میں تبدیل ہوگئے اور ۳۱۰۲ میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا کہ بچوں کو مفت اور ضروری تعلیم دلانا ان کا حق ہے۔ سندھ اسمبلی میں فروری میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا کہ اگر کوئی بندہ بغیر رجسٹریشن کے کوئی اسکول چلائے گا تو اس پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاہے گا اور جیل کی سزا دی جائے گی یا پھر یہ دونوں سزا بھی دی جا سکتی ہیں. لیکن اس کے بعد بھی اب تک کوئی عمل درآمد نظر نہیں آیا۔

نئے اسکولوں کو کچھ مہینے دئیے جانے ہیں رجسٹریشن کے لیے اگر وہ پھر بھی رجسٹریشن نہیں کرواتے تو ان پر جرمانہ لگتا ہے.ان غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہے جو بھی قانون آئے ہیں ان پر عمل کتنا کیا گیا؟
گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول کے اسسٹینٹ کا کہنا تھا کہ یہ سب قانون دماغی فطور ہیں کیونکہ ان پر عمل تو کوئی کرتا نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے مطلب اگر کوئی قانون پر پابندی کرتا بھی ہے تو دوسروں کو دیکھ کر وہ بھی عمل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
گائیڈ کے خلاف کہتے ہوئے کہا کہ گائیڈ بند ہوجانی چاہئیں تاکہ طلباء کا رجحان نقل کی طرف سے ہٹ کر محنت کی طرف آئے۔

قانون اور قواعدوضوابط کے اصول کے لئے بہت سے ایجوکیشن اداروں پر چھاپے بھی مارے گئے لیکن ان چھاپوں کے بعد بھی ان کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو برائی کا حوصلہ ملا اور آگے بڑھ چڑھ کر اور غلط راستے اختیار کئے۔

مزید پاکستان کا یہی حال رہا تو قوم کو تاریکی کی طرف جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ طلبہ جو اس قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کے مستقبل کو مزاق سمجھ رکھا ہے۔

۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔
سائرہ ناصرؔ 

اشاعت خانے 

تعلیم کسی بھی قوم کے عروج اور بلندیوں کا پہلا زینہ شمار ہوتی ہے ۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے وطن عزیز میں تعلیم سے اچھا کوئی اور بزنس نہیں ہے ۔
ہم اکثر سنتے ہیں کہ ’’علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ چین ہی کیوں جائیں اگر اپنے ملک کے نظامِ تعلیم بہتر ہوں تو لندن ، چین ، امریکہ جیسے دیگر ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کی نوبت ہی نہ آئے مگر ہمارے یہاں تعلیم کے نام پر سیکڑوں اسکول کھول تو لئے جاتے ہیں مگر صرف پیسے کمانے کا ایک بہترین زریعہ سمجھ کر۔۔ 

ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم بہت ہی فرسودہ اور ناقص ہوگیا ہے کیونکہ ایک طویل عرصہ سے ہمارے یہاں کا نظامِ تعلیم کئی نظاموں میں تقسیم ہو چکا ہے جس کی وجہ نجی تعلیمی ادارے، لوکل نجی تعلیمی ادارے اور سرکاری تعلیمی ادارے ہیں ۔ ان سب اداروں میں الگ الگ قسم کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان تمام اداروں میں اساتذہ کرام کی بھی الگ الگ قسم دیکھنے کو ملتی ہے ۔ اگر بات کی جائے لوکل نجی تعلیمی اداروں کی جو کہ آج کل ہر گلی محلوں میں دکھائی دیتے ہیں یہاں پر پڑھائے جانے والے نصاب بلکل ہی علیحدہ ہیں اور پڑھانے والے اساتذہ میٹرک پاس ، انٹر پاس اور سادہ گریجوئیٹ ہیں جبکہ وہ نجی تعلیمی ادارے جعوانتہائی مہنگے ہیں وہاں کا نصاب تعلیم علیحدہ ہے ۔ اور پڑھانے والے اساتذہ کرام ماسٹر، پی ایچ ڈی ، ایم فل ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ تو انتہائی تعلیم یافتہ ہیں مگر نصابِ تعلیم نجی اداروں سے بلکل ہی مختلف ہے 

بہت سے مسائل کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ تعلیمی نصاب کا بھی ہے ۔ جو میرے خیا ل میں اربابِ اختیار کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 60 سال سے زائد ہو چکے ہیں اور ہمارا ملک آج بھی وہیں ہے جہاں پر 60 سال پہلے تھا کچھ ردّوبدل کو تبدیلی نہیں کہا جا سکتا ۔

آج تک ہمارے ملک میں 1947 کا تعلیمی نصاب پڑھایا جا رہا ہے ۔ پھر اس پر طرہ یہ کہ سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نصاب الگ ہے اور نجی اسکولوں کا الگ اور پھر ہر نجی اسکول کا اپنا تعلیمی نصاب ہے ۔ جو وہ اپنی مرضی سے رائج کرتے ہیں ۔ گلی گلی، محلے محلے میں گھروں میں اور فلیٹس تک میں اسکول کھولے ہوئے ہیں جن کا تعلیمی معیارکسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔


آج جہاں گاؤں دیہات میں بھی علم کی افادیت کو مانا جارہا ہے لیکن افسوس ان اداروں پر جو آج کل گلی کوچوں میں کھلے ہوئے ہیں اور تعلیم کا مذاق اڑا رہے ہیں ان اداروں میں اساتذہ کی تعلیم کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ انہیں پاکٹ منی کے لئے ٹیچر کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ دورانِ تحقیقات گورنمنٹ کامپریہینسو ہائی اسکول کے استاد عاصم رضا خان کا کہنا تھا کہ ’’آج کل اساتذہ پیدائشی طور پر نہیں بلکہ پیشے کے لحاظ سے آرہے ہیں مطلب وہ خاندا نی نہیں ہیں جنہیں بچے کی نوعیت کے مطابق تدریس کا کوئی علم ہو ‘‘

حکومت کی طرف سے کمزور حکمرانی عمل درآمد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چھوٹے بڑے چھاپے خانے کھل گئے ہیں جو اپنا سلیبس تیار کر کے مارکیٹ میں متعارف کرواتے ہیں ۔ درجنوں سے زائد نجی ناشرین باقاعدگی سے خصوصی مراعات کے ساتھ انکی کتابوں کی خریداری کے لئے مالکان کو قائل کرنے کے لئے اپنے ایجنٹ بھیجتے ہیں ۔

میڈم صابرا، حیدرآباد کے نجی اسکول کی پرنسپل کا کہنا تھا کہ ’’ہم طالبعلموں کے بہتر مستقبل کو تیار کرنے کے لئے مواد کے معیار کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ سندھ ٹیکسٹ بورڈکی کتابیں عمر دراز ہو چکی ہیں جن میں وقت کی ترقی کے مدِ نظر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ نجی ناشرین کی کتابوں کا مواد بہتر دیکھ کر ہم اسکولوں میں نجی پبلیکیشنز کے نصاب کو استعمال کرتے ہیں ‘‘۔ 

حیدرآباد میں کثرت سے بکنے والی ہاؤس آف ایجوکیشنل بک کے مالک سید زاہد علی جنکی کتابیں احباب پبلیکیشن ، چللڈرن بک کلب اور بابا ایجوکیشنل بک کے نام سے گردش کرتی ہیں ، کا کہنا تھا کہ’’ ہمیں لائسنس باآسانی مل جاتا ہے ۔ اور اسکے بعد ہماری مرضی ہوتی ہے کہ جس طرح کا بھی نصاب تیار کئے جائیں بس اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کچھ غلط نا شائع کریں ۔ ہر طبقے کی پہنچ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نصاب تیار کیا جاتا ہے ۔ مہنگی انگلش میڈیم کتابیں بھی لکھتے اور پبلش کرتے ہیں اور سستی بھی ۔

نصابی معیار کے متعلق سوال پر انکا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی معیار نہیں دیکھا جاتا ۔ ہمارا پبلیکیشن ہاؤس تو رجسٹرڈ ہے جب کہ مارکیٹ میں کئی ایسے پبلیکیشن ہاؤسز کی کتابیں آپکوبک اسٹورز پر ملیں گی جو رجسٹر نہیں جن کے پاس لائسنس نہیں ۔ کیا ابھی تک وہ بند ہوئے ؟ کیا کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے ہمارے ملک میں ؟ تحقیق بطور لفظ بہت آسان معلوم ہوتا ہے ۔

جب آپ معاملات کی تہہ تک جائینگی تو پتا چلے گا کہ پورا کا پورا نظام ہی غلط سمت میں بہہ رہا ہے ۔ ہر ایک ملا ہوا ہے ۔

 پاکستان کے باقی سنگین مسائل کی طرح تعلیمی مسئلہ اور نصابی مسئلہ ہے جو دور سے دیکھا تو انڈے ابل رہے تھے پاس جا کر دیکھا تو گنجے اچھل رہے تھے پورے نظام کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ‘‘

نتیجہ 
دور حاضر میں دس مرلے کا ایک بنگلہ کرائے پر لیں ، چھ سات بے روزگاروں کو ٹیچر اور پرنسپل بھرتی کریں ۔ اسکوکل کا کوئی مشکل سا انگریزی میں نام رکھیں ۔ مبارک ہو! آپ پاکستان کے سب سے منافع بخش کاروبار اور مہنگے اسکول کے مالک بن گئے ۔ ان نجی اسکولوں میں تعلیم کا معیار بھی بہت کم ہے ان اسکولوں میں وہ اساتذہ پڑھاتے ہیں جو خود انٹر پاس ہوتے ہیں یا وہ جنہیں کہیں اور روزگار نہیں ملتا وہ یہاں آکر پڑھاتے ہیں ۔ 

بیروزگاروں کو تو روزگار مل جاتا ہے لیکن طالبعلموں کے مستقبل کو بہت نقصان پہنچتا ہے ۔ کیونکہ وہ اساتذہ جو پڑھانے کے عمل اسکے طریقہ کار سے ناواقف ہوں وہ کس طرح بچوں کے مستقبل کی یقین دہانی کروا سکتے ہیں ۔ ایسے اساتذہ جن کی اپنی کوئی نفسیاتی پلاننگ نہ ہو اور جو صرف نصاب کو رٹوانے پر منحصر ہوں جو بچوں سے مختلف تجرباتی کام نا کروانا جانتے ہوں وہ کسطرح اپنے شاگردوں کی دماغی نشونما کروانے میں مفید ثابت ہونگے ؟ 

ہمارے ملک میں تعلیم عام کرو اور اس کو بڑھاؤ نعرہ ایک خوش اخلاق اور سب سے اچھا معلوم ہوتا ہے تاکہ ہمارے ملک کا ایجوکیشن ریٹ اوپر ہوجائیگا او ر اس سر فائدہ پورے سسٹم کو ہوگا معیشت مضبوط ہوگی ۔ ملک ترقی کریگا لوگوں میں شعور آئیگا سوچ میں تبدیلی آئیگی لیکن یہ سب بلی کے خواب میں چھچھڑوں تک ہی محدود ہے ۔ کیونکہ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب نظامِ تعلیم میں تبدیلی رونما ہوگی ۔ عرصہ پرانے نصابوں میں دور کے مناسب ردّ و بدل کیجائیگی ۔

اعلٰی ، متوسط اور نیچلے طبقے کا فرق مٹایا جائیگا ۔ کیونکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں صلاحیت کا اندازہ انگریزی بولنے آنے سے کیاجاتا ہے ۔دماغوں پر لگی دھول کا یہ عالم ہے کہ زرا غور دیں تو امریکہ اور لندن میں تو چپڑاسے بھی انگریزی بولتا ہے ۔ تو کیا وہ صلاحیت کار ہے ؟ 

ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہم ہاتھوں سے کھوتے اور پیروں سے دھونڈتے ہیں ۔ دراصل ہمارے ارباب اختیاروں کی لاڈلی اولادیں تو باہر ممالکوں میں اعلی تعلیمیں حاصل کر رہی جب کہ غریب عوام کے لئے سرگاری اسکول کھولے ہوئے ہیں جو سہولتوں سے لیس ہیں۔ اب یہ ذہنی فطور ہمارے حکمرانوں کا ہی پیدا کردہ ہے جسکی خواہش میں والدین اپنے بچوں کو بھی بیرونی تعلیمی نظام والے بھاری فیسوں والے نجی اسکولوں میں داخلہ کروا دیتے ہیں اور جبکہ نیچلے طبقے کے والدین بھی اولاد کو بہتر نا سہی پر اچھا دینے کی خواہش میں پیٹ پر پٹی باندھ کر لوکل نجی اسکولوں میں داخل کروا دیتے ہیں جو انکی دسترس سے بہت دور ہوتے ہیں ۔ اسکی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ نجی اداروں میں نئے نصاب پڑھائے جاتے ہیں انگلش میڈیم سبجیکٹس جبکہ سرکاری اسکول وہی عمر دراز نصاب پڑھا رہے ہیں ۔
سمجھ سے باہر ہے کہ آخر اس حد تک علیحدہ تعلیمی نصاب اور فرق کیوں ؟ جب ملک ایک ہے ،عوام ایک ہے، حکومت ایک ہے ، پھر نظامِ تعلیم علیحدہ کیوں ہے ؟؟؟

اگر حکومت پورے ملک میں یکساں تعلیمِ نظام کردے تو ہر لوکل سرکاری سٹینڈرڈ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم در بدر ٹھوکریں کھاتے نظر نہیں آئینگے ۔ احساس کمتری کا شکار نہ ہونگے ۔اور بہؤین الاقوامی سطح پر بھی کوئی فرق نہیں کیا جائیگا ۔
رومن شاعر اووڈ نے ۱۷ عیسوی میں کہا تھا کہ ’’سالوں سے زیادہ کوئی چیز تیز نہیں چل سکتی ‘‘ لہٰذا اس تیز رفتار
دنیا کا ساتھ دینے کے لئے ہمیں اپنے ملک کی فنی تعلیمی ترقی میں ایک بڑا قدم، بلکہ چھلانگ لگانی پڑے گی کیونکہ 60 سالوں کی مسافت کھائی ہم دو چھلانگوں میں پار نہیں کر سکتے ۔ لیکن آخر میں پھر ایک اہم زمیداری حکمرانوں پر آتی ہے کہ خدارا تعلیمی نظام پر توجہ دیں ملک کے معماروں کے مستقبلوں سے نہ کھیلیں

۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔

تحقیقاتی رپورٹ

حسین بروہی  (BS-III)
سندھ  میں تعلیم کو سنگین
 بہران کا سامنا ہے Annual states of education survey report (ASER) 2013  کے مطابق سندھ میں ادہے فیسد بچے اسکولوں میں نہیں ہے سندھ میں 12 لاکھ بچے جو کہ 5 سے 16 سال کے عمر کے بیچ ہیں 6.1 لاکھہ یا 50 فیسد بچے اسکول میں نہیں ہے حکومتِ تعلیم کی رسائی کے ناکافی ہونے کی وجھہ سے تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ سندھ میں 47394 گورنمینٹ اسکول ہیں جن میں 91 فیسد تعداد پرائمری اسکولوں کا ہے 1 فیسد ہایر سیکنڈری اسکولوں کا ہے سہولیات نا ہونے کی وجھہ سے بچوں کی تعداد میں کمی پائی جاتی ہے پہلی جماعت کی کلاس میں 722931 بچے داخل کیے جاتے ہیں جو کہ چھٹی کلاس تک وہ تعداد کم ہوکر 228015 تک پائی جاتی ہے جوکہ بہت کم ہے۔ اگر ہم تشبیھہ کریں تو ملک سے دوسرے سوبوں کے اسکولوں کی حاضریوں کا تعداد 80 فیسد بنتا ہے لیکن سندھ میں بڑی مشکل سے 67 فیسد بنتا ہے جوکہ پورے ملک میں بہت کم ہے (ASER) 2013 کے سروی کے مطابق سندھ کے بچے پڑھائی میں بہت کمزور ہیں پانچوی جماعت کہ 59 فیسد بچے اردو یا سندھی زبان میں لکھا ایک خط کو بھی نہیں پڑ ھ پاتے  ہیں 75 فیسد بچوں کو انگریزی زبان کا ایک جملا بھی پڑھنا نہیں آتا 71 فیسد بچوں کو دو آسان الفاظ لکھنے میں بھی دشواری ہوتی ہے ایک نظر فاٹا کو دیکھا جائے جہاں پے لوگوں کو جنگی مسائلوں کا سمنہ کرنا پڑرہا ہوتا ہے وہاں پے سیکھنے اور سکھانے کا تعداد سندھہ سے کافی بہتر ہے سندھ کے 77 فیسد پرائیویٹ اسکولوں کی عمارتیں متمعین کردا حالت میں نہیں ایجوکیشن ڈپارٹمینٹ کے مطابق پورے ملک میں 50 فیسد ایسے اسکول ہیں جوکہ بنیادی سہولتوں سے پوری طرح محروم ہیں 4 سے 5 پرائیویٹ اسکولوں میں پینے کے پانی تک کا انتظام بھی نہیں 3 میں سے 2 ایسے اسکول بھی پائے جاتے ہیں جہاں پر بجلی کی سہولیات بھی موجود نہیں 7 پرائیویٹ اسکولوں میں مشکل میں کوئی ایک اسکول ایسا ہوتا ہے جس کی چار دیواری ہوتی ہے ہماری تعلیم کے نظام کو متاثر کرنے کا ایک عنصر اچھی تعلیم کا نا ہونا ہے بہت سے لوگوں کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر ان کے پاس بہتر تعلیم نا ہونے کی وجھہ سے وہ پوری زندگی مشکلاتوں کا سامنا کرتے ہیں جن کو دیکھ کر سماج کے لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ بچوں کو پڑہانے سےکچھ فائدا نہیں جسکی وجھہ سے باز لوگ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ کام کرنے لیجاتے ہیں اصل میں تعلیم ہی زندگی بدل دینے کا ایک راستا ہے مگر تعلیم کا اچھا معیار نا ہونے کی وجھہ سے ایسے لوگ پوری طرح سے ناکام ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ ایک بھی صفا سندھی یا انگریزی زبان میں لکھنے کی قابلیت نہیں رکھتے ۔ اور ایسے لوگوں کو پرائیویٹ اسکول میں استاد کے طور پے رکھا جاتا ہے جس کی وجھ سے وہ بچوں کو تعلیم کا اچھا معیا ر دینے میں ناکام ہوجاتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے پرائیویٹ ادارے بھی اچھی تعلیم دینے میں ناکام رہیں ہیں تعلیم کے متوازی نظام کی وجھہ سے ہماری تعلیم پر کافی برے اثرات پڑے ہیں کیوں کہ پرائیویٹ  اسکولوں میں تعلیم کا اچھا معیار نہیں ہوتا اصل میں وہاں پے تعلیم کے نام پے کاروبار چل رہا ہوتا ہے کیوں کہ وہاں غیر تجربیات لوگوں کو رکھا جاتا ہے جو چند پیسے کمانے کے خاطر بچوں کو پڑہانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور اسی وجھ سے پرائیویٹ اسکول معیاری تعلیم فراھم کرنے میں ناکم ہوچکے ہیں سندھ کے اند بہت سے ایسے گاؤں پائے جاتے ہیں جہاں پر لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے صرف ایک ہی اسکول ہوتا ہے۔ جس میں پہلی سے پانچوی جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے ایسے گاؤں میں ھاءِ اسکول اور کالیج نا ہونے کی وجھہ سے بچوں کی تعلیم ادھوری رہجاتی ہے جس طرح اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ہمارے اسکولوں کو بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا کرنا پڑہتا ہے جیسے پینے کا پانی بجلی، فرنیچر وغیرہ ۔ بہت سی طلباء اسکول میں ٹائیلیٹ نا ہونے کی وجھہ سے آنا چھور دیتی ہیں اور دوسری طرف اگر تھوڑی سہولیات موجود ہوتی ہیں تو وہاں پر والدیں اپنی بچیوں کو اسکول بیجنے کے لیے راضی نہیں ہوتے ۔ 
کجھ تجاویز اور اقدامات جو تبدیلی لانے کے لیے اٹھائی جانی چاہیے ۔
مکمن نہیں کہ معاشرے سے کرپشن کو ختم کیا جا سکے مگر تعلیمی اداروں میں تعلیم یافتہ اور تجربے کار لوگوں کو رکھہ دیا جائے تاکہ وہ جچوں کو معیاری تعلیم فرہام کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ 
دلچسپ نصاب اور پڑہانے کا انداز بھی دلچسپ ہونا چاہیے ۔
استاد بھرتی کرنے سے پہلے ایک امتحان  لازمی لینا چاہیے اور جو پاس نا کرپائے تو ایسے لوگوں کو کسی اور شعبے میں منتقل کردیا جائے ۔
امتحانوں کے دنوں میں نقل کو روکنے کیلیے سخت انتظامات ہونے چاہیے اور یے اسکول کے استاد حضرات کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو بہتر طریقے سے پڑھائیں اگر بچوں کو اچھے سے پڑہایا جائے تو ان کو شاید نقل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
امتحان کا طریقا وقت بہ وقت بدلنا چاہیے نقل کو روکنا آسان تو نہیں لیکں ایسی کوششیں ہونے کی وجھہ سے کافی حد تک کمی ہوسکتی ہے۔
ضلعے کی لیول پے ایسے آفسران بھی ہیں جو پھلی حکومت کہ دور میں رشوت کہ دم پر ڈیوٹی پہ فائز ہوئے ہیں ایسے آفسران کو واپس بیجھنا چاہیے۔ 
مادری زبان کو نصاب میں لازمی شامل کرنا چاہیے۔ 
ضلعے لیول پے اسکولوں  میں تعلیمی اور کھیلوں کے مقابلے کروائے جائیں اور جیتنے پے انعام بھی دیے جائے ۔

SMC  شعبے کو چاہیے کہ اسکولوں کے لیے ملنے والے فنڈ کا استعمال انکی مرحمت اور وہاں کی سہولیات کو مکمل کرنے کیلے کریں 

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi, at Department of Media & Communication Studies University of Sindh