Monday, 3 October 2016

حیدرآباد کی ماربل مارکیٹ محمد راحیل , فیچر

Hyderabad Marbal Market

نام :محمد راحیل
رول نمبر:68
بی۔ایس پارٹ:3
اسائنمنٹ: فیچر
حیدرآباد کی ماربل مارکیٹ
دور جدید میں جہاں لوگوں کا رجحان نت نئے ڈیزائن کے گھر بنوانے کی طرف بڑھتا جا رہا ئے تو وہیں ان گھروں کی خوبصورتی کو بڑھانے میں قدرتی پتھر وں کا استعما ل کی ضرورت بن چکا ہے اور ان پتھروں کو مارکیٹوں میں ماربل کا نا م دے کر فروخت کیا جارہا ہے ماربل کا استعمال دنیا کے کئی ممالک میں ہوتا ہے اور اب پاکستان میں بھی ماربل کے استعما ل میں کا فی حد تک اضافہ ہوا ہے مہنگائی دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے مگر لوگ ہیں کہ اپنے شوق کو پورا کر نے کے لئے مہنگائی کو با لا ئے تا ک رکھتے ہو ئے اپنے گھروں کو بہترین سے بہترین بنا نے کے لئے خوب پیسہ خرچ کر تے ہیں کیوں کہ اپنا گھر بنا نا ہر انسان کا خواب ہو تا ہے اور جب لوگ اپنے اس خواب کو مکمل کر نے کے لئے نکلتے ہیں تو بے ججحک پیسہ خرچ کر تے ہیں اور اپنے خواب کو ایک سنہری روپ میں دھال کر ہی دم لیتے ہیں ۔ 

پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں قدرتی وسائل کی کوئی کمی نہیں اللہ تعالی نے پاکستان کو بے حد قدرتی وسائل سے نوازہ ہے ا ور ا ن نعمتوں کا ذکر بہت وسیع ہے ان میں سے ایک نعمت پتھر بھی ہے اس ہی بنیاد پر پاکستان کی ماربل منڈی دنیا کی چھٹی بڑی منڈی ہے پاکستان کا چھٹا بڑا شہر جو کہ اپنے اندر کئی خصوصیات و خوبیاں اپنے اندر سمیٹا ہوا ہے تو اس شہر کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ شہر حیدرآبا د کی ما ربل مار کیٹ صوبہ سندھ کی دوسری بڑی مار کیٹ ہے اگر حیدرآباد کا ذکر ہو اوراس ما رکیٹ کی بات نہ کی جا ئے تو اس شہر کے ساتھ کھلم کھلا نا انصافی ہو گی ٹھنڈی ہواؤں کے اس شہر کے بلکل بیچو بیچ واقع ما ربل ما ر کیٹ پورے شہر بلکل سندھ کے کئی علا قوں میں مشہور ہے اور تقریبا تیس(۰۳)سال سے مکی شاہ روڈ پر واقع ہے اور اس ہی ما رکیٹ سے سندھ کے کئی شہروں میں مار بل کی سپلا ئی کی جا تی ہے جب بھی کبھی حیدرآبا د ہو یا اس کے مضافا تی علاقے یا پھر اس صوبہ کے دوسرے شہر کے لوگوں کو اپنے گھروں ،مساجدوں ،مزاروں یا دیگر جگہوں پر استعما ل کر نے کے لئے ما ر بل کی ضرورت ہو تی ہو تو وہ اس ہی شہر کی ما ربل ما ر کیٹ کا رخ کر تے ہیں کیوں کہ یہ ما ر کیٹ سندھ کی دوسری بڑی ما ربل ما رکیٹ ہے تو یہاں اعلی معیار کا پتھر انتہا ئی منا سب قیمت میں مل جا تا ہے جو پتھر اس ما ر کیٹ میں فروخت ہوتاہے وہ ملک کے دیگر علاقوں اور دنیا کے کئی شہروں سے یہاں لایا جا تا ہے مگر چا ئنا ، انڈیا ، پشاور ، زیا رت ، مردان سے جو پتھر آتا ہے ان کو یہاں کی ما ر کیٹ میں ذیا دہ توجہ دی جا تی ہے اور اس ما ر کیٹ کے چھو ٹے طبقے کے دکا ندار کراچی کی منگو پیر کی ما رکیٹ سے ما ل لا تے ہیں پھر یہاں سے فروخت کیا جا تا ہے اس ما ر کیٹ میں بیگ وقت چو نسٹ(۴۶) قسم کے ما ربل دستیا ب ہو تے ہیں (وائٹ ما لا گو ری ،پشاور اور زیارت وائٹ) ما ربل اس ما رکیٹ کی شا ن ہیں ارو یہ اس ما ر کیٹ کا مہنگا پتھر ہے سب سے ذیا دہ فروخت ہو نے والے پتھرون میں ٹروینہ ،ٹپی ،بو ٹا سینہ ہیں کیوں کہ یہ ما ربل ہی پتھر دیگر پتھراں کی با نسبت سستے ہیں تو یہ با آ سا نی ہر وقت ما رکیٹ میں مل جا تا ہے ان پتھراں کے دا م کم ہیں اس لئے لو گ بھی انہیں ذیا دہ تر جیح دیتے ہیں ۔ اس ما ر کیٹ میں تقریبا با ئیس (۲۲)قسم کے امپورٹڈ پتھر بھی فروخت کیئے جا تے ہیں ان پتھروں میں بلیک گلیکسی ،بلیک پرل، کشمیری وا ئٹ ،امپیر یل وا ئٹ ،رو سی پنک اور بھی دیگر اقسا م کے پتھر یہاں فروخت ہو تے ہیں ان پتھروں کی قیمت چھ (۰۰۶) روپے سے لے کر اٹھا رہ سو (۰۰۸۱)اسکوائر فٹ تک ہے تو ان پتھروں کی ما نگ بہت کم ہیں مکی شا ہ ما ر بل ما ر کیٹ میں تقریبا ایک سو بیس (۰۲۱)ہیں اور ان دکا نوں پر سا تھ سو (۰۰۷)کے قریب مزدور کا م کر تے ہیں اور اس ما ر کیٹ کے وسیلے سے اپنے اور اپنے خاندان کے لئے حلال رزق کما کر اپنے گھروں کا چولہ جلاتے ہیں اس ما ر کیٹ میں کا م کر نے والے کا ریگر کی ما ہا نہ آمدنی پندرہ ہزار (۰۰۰۵۱)ہے اور ہیلپر کی آمدنی دس ہزار (۰۰۰۰۱)ما ہا نہ ہے ارو تقریبا دو سو (۰۰۲) مزدور لو ڈنگ ان لو ڈنگ کا کا م بھی سر انجام دے رہے ہیں اور ان کی آمد نی پا نچ (۰۰۵)سے سا تھ (۰۰۷) روپے روزانہ ہے اس ما ر کیٹ میں سو (۰۰۱) سو زو کیاں بھی چل رہی ہیں ما ر بل ما ر کیٹ کی ایسو سی ایشن (آل پا کستان ما ر بل ایسو سی ایشن حیدرآبا د)ما رکیٹ کے دکا نداروں کی پریشا نیوں کے حل کے لئے کا م کر تی ہے پھر بھی اس ما ر کیٹ میں مسا ئل کے انبا ر ہیں دکا نوں کے در میان سے گزرنے والی سڑک پر کئی کئی فٹ پا نی کھڑا رہتا ہے جس کی وجہ سے جس کی وجہ سے دکا نداروں کے ساتھ ساتھ آنے والے خریداروں کو شدید مشکلا ت کا سامنا کرنا پڑتا ہے دکا ندار لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے سے بہت پریشا ن ہیں دن میں کئی کئی گھنٹیما ر کیٹ میں لا ئٹ نہیں ہو تی حالا ں کہ صنعتی علاقوں میں واپڈا مسلسل چو بیس(۴۲) گھنٹے بجلی کی فراہمی کرتا ہے مگر ما ر بل ما ر کیٹ منی انڈسٹر یل ایر یا ہو نے کے با و جود اس علا قے میں دس (۰۱) سے با رہ(۲۱) گھنٹے لا ئٹ نہیں ہو تی جس سے اس ما ر کیٹ کے تا جروں کے کا روبا ر کو سخت نقصان کر نا پڑھ رہا ہے ما ر بل کی کٹائی سے جو کچرہ نکلتا ہے اس کو ضائع کر نے کے لئے انتظا میہ کی جا نب سے کو ئی مدد نہیں کی جا تی اور سارہ کچرہ مار کیٹ کے ساتھ والے گراؤنڈ میں جا تا ہے جس سے گراؤنڈ میں بچوں کے کھیل کو د کی سر گر میاں شدید متا ثر ہو رہی ہیں دکا نوں کی پو ری جگہ نہ ملنے کی وجہ سے دکا ندار ما ل با ہر نکا لنے پر مجبو ر ہیں جسکی وجہ سے اینٹی انکروچمنٹ کی جانب سے بھی ان د کا نداروں کو اکثر تنگ کیا جا تا ہے۔۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh

سعود,پروفائل


محمد سعود شیخ
2k14/MC/63
پروفائل: ٹائپرائیٹر اسپیشلسٹ /نورمیاں بنگالی


ٹائپرائیٹر اسپیشلسٹ /نورمیاں بنگالی

زندگی ایک ایسی سڑک ہے جس پر بے انتہا نشیب و فراز آتے رہتے ہیں اور ہر انسان کو ان نشیب و فراز کا سامنا کر نا پڑتا ہے۔ ان نشیب و فراز اور مشکلات کا سامنا کر تے ہوئے اکثر لوگ اپنے آپ کو بے بس سمجھنے لگتے ہیں اور ہار مان جاتے ہیں لیکن ان میں سے کچھ لوگ اپنے حالات کا رونا روئے بغیر جفا کشی کر تے ہیں اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے اپنی پوری طاقت لگا دیتے ہیں۔ایسی ہی ایک زندہ مثال ہمارے سامنے ٹائپرائیٹر اسپیشلسٹ نورمیاں بنگالی ہیں ۔ جن کی زندگی ہمت وحوصلہ اور اعلی ظرفی کی ایک بہترین مثال ہے اور سبق آموز بھی ہے

نور میاں بنگالی جو ٹائپرائیٹر اسپیشلسٹ کے نام سے اپنی شناخت رکھتے ہیں اورٹائپرائیٹر کی مرمت میں مہارت رکھتے ہیں ۔بنگلادیش کے ایک چھوٹے سے قصبے بوڑ میں 1960ء میں پیدا ہوئے ان کا تعلق ایک نہا یت غریب خاندان سے تھا ۔ ابتدائی تعلیم قصبے سے پانچ کلو میٹر دورایک پرائمری اسکول میں حاصل کی یہ ابتدائی تعلیم حاصل کرنا ان کے لئے ایک مشقت سے کم نہ تھی جس کی وجہ یہ پانچ کلو میڑ طویل راستہ نہیں بلکہ اس راستے میں آنے والی مشکلا ت تھیں جسے وہ روز برداشت کر کے اسکول پہنچا کرتے تھے اس راستے میں دو نہریں اور ایک طویل جھاڑیوں والا راستہ روزانہ ان کامنتظر ہوتا تھا جسے عبور کر کے یہ اسکول جایا اور آیا کر تے تھے ۔والد کسان تھے اور گھر کے قریب ایک چھوٹی سی زمین پر کھیتی باڑی کرکے گھر کا گزر بسر کیا کرتے تھے۔ نور میاں کی ابتدائی زندگی کی تصویر انتہائی درد ناک ہے ۔ان کے مطابق اکثر دفعہ اتنی بارشیں ہوتی تھیں کہ ان کو گھر کی چھت پر راتیں گزارنا پڑتی تھیں کیونکہ بنگلادیش جیسے ملک میں خطر ناک بارشیں عام معمول ہے اور اکثر اوقات ان بار شوں کے باعث تمام فصلیں تباہ ہو جاتی ہیں اور سیلاب کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اور اکثر علاقوں میں قہط بھی پڑ جاتا ہے ۔نور میاں کا کہنا ہے ایسے حالات میں ہم تھوڑے سے چاول بہت سارے پانی میں اُبال کر اس پانی کوپیا کرتے تھے تاکہ سب کو کچھ نہ کچھ سہارا ہو جائے ان کی زندگی مشکلات اور تلخیوں سے بھرپور ہے لیکن انھوں نے حالات کے سامنے کبھی گھٹنے نہیں ٹیکے۔وہ اکثر کہتے ہیں کہ
اُمید آدھی زندگی ہے
اور مایوسی آدھی موت

اکثر اوقات ان بارشوں کے سبب چچا کے گھر جا کر سویا کرتے تھے جہاں ان کی آنکھ ایک خاص آواز سے صبح صادق کے وقت کھل جاتی جو آواز ٹک ۔ٹک۔ٹک۔۔۔ٹک تھی اور یہ وہی آواز تھی جو بعد میں ان کی زندگی کا حصہ بن گئی ان کے چچا اس زمانے میں ٹائپرائیٹر کی مرمت کیا کرتے تھے اور اس سے اپنی گزبسرکیا کرتے تھے ۔نور میاں کے مطابق وہ ان کے اس کام میں بہت دلچسپی لیا کرتے تھے اور اکثر اوقات ان کے ساتھ بیٹھ جایا کر تے تھے چچا نے دلچسپی دیکھ کر انھیں تھوڑا بہت کام سیکھانا شروع کر دیا ۔ اپنی پانچ کلاسوں کی تعلیم مکمل کر کے یہ اپنا پورا وقت اسی کام کو دینے لگے اور اب ان کی تھوڑی بہت آمدنی بھی شروع ہو گئی تھی اپنے شوق اور لگن کے باعث میں 22سال کی عمر میں اس کا م میں مہارت حاصل کر لی تھی اس کے بعد اچھی اجرت کی غرض سے کراچی ہوئے اور یہاں محنت اور دل لگا کر کام کیا اور مختلف آفسسز سے رابطے قائم کئے اور ٹائپرائیٹر کے اس دور میں اس ہنر سے بہت فائدہ حاصل کیایہاں 8سال کام کیا جس کے بعد ایک دوست کی صلح پر حیدرآباد آگئے اس وقت شہر حیدرآباد میں ٹائپرائیٹر کی اچھی مرمت کرنے والے کم تھے اتنی رقم موجود نہیں تھی کہ دکان کھول سکتے البتہ ایک دکان پر کام کیا جہاں ان کے کام کو بہت پسندکیا گیااور مختلف لوگوں اور مختلف اداروں سے رابطے بنے اور شہر بھر میں ٹائپرائیٹر اسپیشلسٹ کے نام سے مشہور ہو گئے ۔ نور میاں کا کہنا ہے کہ 80اور90کی دھائی ٹائپرائیٹر کے بے انتہا استعمال کا دور تھا اور ٹائپرائیٹر مرمت کرنے والے کی بٹری عزت کی جاتی تھی کیونکہ اس سے پہلے تمام اداروں میں کام ہاتھوں سے لکھ کر کیا جاتا تھا لیکن اس کے آنے سے مختلف اداروں کاکام آسان ہوگیا تھا ۔کورٹ ہو یا آفس یا کوئی گورنمٹ ادارہ ہر جگہ ٹائپرائیٹر کا استعمال کیا جا رہا تھا اس کام کی مہارت حاصل رکھنے کی سبب ان کی آ مدنی بھی بہت اچھی ہو گئی تھی ان کے مطابق 90کی دھائی میں ان کی آمدنی ایک 19گریڈکے افسر کے برابر تھی اسی وقت کاایک واقع سناتے ہوئے کہتے ہیں کہ’ 99کے مارشلاء میں میں گھر پر سو رہا تھا اچانک میرا دروازہ بجا باہر دیکھا تو بہت سے فوجی اور ان کی گاڑیاں کھڑی تھی ہمت تو نہیں ہو رہی تھی لیکن پھر بھی دروازہ کھولنے کے لئے آگے بڑھا کچھ محلے والے بھی یہ صورتحال اپنی کھڑکی سے دیکھ رہے تھے اور شاید انھیں بھی وہی اُمید تھی جو میرا خیال تھا!دروازہ کھولا تو ایک سپاہی بولا آپ نور میاں ہیں !آپ کو ابھی ہیڈ کواٹر بلایا گیا ہے ٹائپرائیٹر کی مرمت کے لئے تو میری جان میں جان آئی اور پھر میں ٹھاٹ باٹ سے فوجیوں کی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ ہوگیا اس کے بعد محلے والے بھی بہت عزت دینے لگے‘۔نورمیاں طبیعت کے سادہ اور بہت خوش مزاج آدمی ہیں۔بچوں سے بے انتہا محبت کرتے ہیں اور اکثر ان کے ساتھ بچے بھی بن جاتے ہیں بنگلادیش کو ابھی بھی’ ایسٹ پاکستان ‘سمجھتے ہیں اور اس کو’ ایشٹ پاکستان‘ کہہ کر پکارتے ہیں نور میاں کا کہنا ہے کہ اکیسویں صدی کی ابتداء ہی سے ٹائپرائیٹر کا استعمال کم ہونا شروع ہو گیا تھااور اس کی جگہ کمپیوٹر لے رہا تھا اورجس کے باعث ان کے کام پر خاصا اثرپڑ رہا تھا اور تقریباً 2008میں ایک ایسا وقت آیا جب یہ بے روزگار ہو گئے لیکن انھوں نے ہار نہیں مانی اور اس کی جگہ کپڑے کا کاروبار شروع کر دیا جو ابھی تک جاری ہے جس میں ان کی بیوی ان کی مدد کرتی ہیں ان کا ایک بیٹا ہے جو ابھی تعلیم حاصل کر رہا ہے

والدین کے بارے میں پوچھنے پر وہ تھوڑے غم زدہ ہو گئے اور کہنے لگے کہ ایسٹ پاکستان سے ہجرت کے بعد محنت و مشقت کی وجہ سے موقع نہیں ملا اور اب ایسے وسائل نہیں کہ وہا ں جا سکوں البتہ خط اور ٹیلیفون کے ذریعے بات ہوتی رہتی ہے

نور میاں بنگالی ہمت ،حوصلہ ،لگن اور جوش و جذبے کی ایک اعلی مثال ہیں اور انھیں صفات نے انھیں بنگلادیش کے چھوٹے سے قصبے سے اُٹھا کر ٹائپرائیٹر اسپیشلسٹ بنادیاان کی پوری زندگی محنت اور جفا کشی کی تصویر ہے جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ
محنت کر ے انسان تو۔۔۔۔۔

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi, at Department of Media & Communication Studies University of Sindh