Thursday 8 September 2016

آرٹیکل وقاص عامر آرائیں


وقاص عامر آرائیں 
رول نمر 2k14/MC/66
بی ایس پارٹ تھری
آرٹیکل

حیدرآباد میں بڑھتا ہوا سپر مارٹس کا رجحان

مختلف مارکٹس مختلف دکانیں گھر کا سودا لینے نکلے اور پورا بازار گھوم گھوم کر بدہال ہو گئے۔عموماً گھروں میں مہینے بھر کا راشن لایا جاتا ہے اور ظاہر ہے مہینے بھر کے مکمل راشن میں استعمال کی ہر چیز ہوتی ہے جیسے دالیں ،صابن ،مصالے ،کپڑے دھونے کا سرف اور گوشت وغیرہ شامل ہوتے ہیں اور جہاں تک بات ہے بازار وں کی تو سب چیزیں ایک دکان سے ملنا تو نا ممکن ہیں اور نہ ہے من مرضی کی کم کیمتیں ایک یا دو دکانوں سے با آسانی دستیاب ہو تی ہیں ۔اس سب کے لیے عوام کوبازار بازار اور دکان دکان رلنا پڑتا ہے پر ’ سپر مارکیٹ ‘ اس جگہ کانام ہے جو عوام کے لیے کسی نعمت اور سہولت سے کم نہیںیہ عوام کے لیے وہ سہولت ہے جس کی عوام کو اشد ضرورت تھی۔ سپر مارکیت کے قیام میں آنے سے ایک ہی چھت کے نیچے عوام کو گھریلووروزمراہ کی ضروریات کی تمام اشیائبا آسانی دستیاب ہیں جن چیزوں کے حصول کے لیے ایک دکان سے دوسری دکان پر جانے میں وقت کا ضیاء ہوتا تھا اب وہیں تمام چیزیں وقت رہتے مل جاتی ہیں ۔ سپر مارکیٹ کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ یہاں چیزیں کم لی جایءں یا زیادہ پر دوسری دکانوں کی بنثبت یہاں سے چیزیں سستی مل جاتی ہیں ۔ان سب چیزوں کی وجہ سے عوام کابڑی تیزی سے سپر مارکیٹس کی طرف رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور بڑھے بھی کیوں نہ جب عوام کو آسانی کے ساتھ ایک ہی چھت کے نیچے ان کے استعمال اور ضرورت زندگی کی تمام چیزیں دستیاب ہیں تو اس سے اچھا اور کیا ہو گا ۔ حیدرآباد جہاں تفریحی مقمات بھی انتہائی کم بلکہ اگر یہ بولا جائے کہ نہ ہونے کے برابر ہیں تو غلط نہ ہوگا ایسے میں حیدرآباد میں کھلنے والے یہ سپر مارٹس جہاں عوام کے لیے خریداری میں سہولت کا مرکز ہیں وہیں نہایت خوشگوار اور اچھے ماحول میں خریداری کے ساتھ ساتھ تفریح کی چاہ بھی پوری کرتے ہیں ان سپر مارٹس میں بچوں لیے پلے ایریا بھی موجود ہیں اور خریداری کرتے اگر بھوک لگ جائے تواس مسئلے کے حل کے لیے فورڈ کورٹس بھی بنائے گئے ہیں۔ حیدرآباد کی بات کی جائے تو یہاں اس وقت پانچ بڑے مارٹس موجود ہیں جن میں میکس بچت بازار جو ٹھنڈی سڑک پر واقع ہے، دوسرا داؤد سپر مارٹ جو فوجی داری روڈ پر واقع ہے ، تیسرا نیشنل سپر مارٹ جو کہ ہالہ ناکہ نیشنل ہایء وے پر موجود ہے، چوتھا بیگ مارٹ جو کہ لطیف آباد نمبر 2 میں واقع ہے اور پانچواں ڈیلٹن سپر مارٹ جو نسیم نگر روڈ پر موجود ہے ۔ یہ تو ان پانچ بڑے مارٹس کی بات ہو گئی پر ان کے علاوہ حیدرآباد میں اور بھی چھوٹے مارٹس موجود ہیں جن میں عمران مارٹ اور کیو مارٹ شامل ہیں ۔ سپر مارٹس میں جو اشیاء کم کیمتوں میں ملتی ہیں اور عوام کا ایک طبقہ یہ سوچتا ہے کہ یہ اشیاء نقل ہیں تو ایسا بلکل نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ سپر مارکیٹس اتنی بٹی تعداد میں چیزیں کمپنیوں سے خریدتے ہیں کہ کمپنیاں خود انہیں ڈسکاؤنٹ اور مختلف ڈیلز فراہم کرتی ہیں جس کی بدولت آگے یہی چیزیں کم پیسوں میں باآسانی عوام کو میسر ہوتی ہیں۔ سپر مارٹس جہاں عوام کے لیے آسانی اور سہولت کا مرکز ہے ویہں تاجران اور سپر مارٹس مالکان کے لیے منافع بکش اور بہترین کاروبار بھی ہے یہاں چاول، دال، آٹا، بیکری، گوشت، چکن سے لے کر روز مراہ کے استعمال کی تمام اشیاء جن میں ٹوتھ برش، ٹوتھ پیسٹ، صابن، کول ڈرنکس، کپرے اور بچوں کے لیے ٹوفیاں ، چاکلیٹس اور دیگر تمام اشیاء ایک ہے چھت کے نیچے ایک خوشگوار اور سکون بخش ماحول میں عوام کے لیے موجود ہیں ۔ جہاں یہ سب عوام کے لیے سہولت اور مالکان کے لیے منافع بخش کاروبار ہے اہیں چھوٹے تاجر اور چھوتے دکاندار ان برے سپر مارٹس کے کھلنے کے بعد سے کاروبار کم ہونے سے پریشان ہیں کیونکہ جہاں انکی دکانوں پر روزمراہ کے استعمال کی تمام چیزیں موجود نہیں تو ظاہر ہے کہ عوام نے ان سپر مارٹس کا رخ ہی کرنا ہے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے انہیں تمام ضروریات زندگی کی چیزیں باآسانی اور آرام سے میسر ہو جاتی ہیں جس وجہ سے ان چھوٹے دکانداروں اور تاجروں کو بہت نقصان پہنچا ہے ۔ پر یہ سپر مارٹس عوام کے لیے سہولت کے ساتھ ساتھ موڈرن سوسائیٹی کی طرف ایک کامیاب قدم بھی ہیں ۔

پروفائل, محمد وقاص عامر,


محمد وقاص عامر
رول نمبر: 66
بی ۔ایس پارٹ3(تھری)
پروفائل محمد زبیر احمد

محمد زبیر احمد

محنت کیے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوتا چاہے جتنی مجبوریاں و مشکلات انسان کا گھیرا تنگ کرلیں۔اسی کی منہ بولتی مثال محمد زبیر احمد نامی ایک آدمی جو حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد نمبر8 میں رہائیش پزیر ہیں۔35 سالہ زبیر احمد ایک ایسا ہیرا جس کی پہچان کرنا نا ممکن ہے جوچلنے پھرنے کی طاقت سے تو محروم ہیں پر اسکے باوجود انکی عزم و ہمت انکی شخصیت کی عقاصی کرتی ہے۔معزوری کے باوجود اپنی زندگی کا بوجھ خود سنبھالنے کو ترجیح دی۔کبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کوبہتر نا سمجھا۔پڑھنے لکھنے کا بچپن ہی سے شوق تھا پر معزوری اور غربت کے باعث یہ خواب پورا نہ ہوسکا اور ساتھ ساتھ گھر کے حالات نے بھی ساتھ نہ دیا۔ 8 سال کی کمسن عمر میں والد صاحب کے انتقال کے بعد گھر کی کفالت کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھا، لحاظہ اس فریضے کے حصول کے لیے پہلے چوکیداری کی پھر سبزی بیچی اور پھر دکانداری بھی کی اور اب آخر کار ڈولتے ڈولتے اور خود کو اس دنیا کی بھٹی میں جھونکتے ہوئے اب گلاب اور چمبیلی کے پھولوں سے گجرے بنا بنا کر بیچتے ہیں ۔حالات و واقعات نے زندگی کے کسی پوڑ پر ساتھ نہ دیابلکہ ہمیشہ پیچھے دھکیلا پر زبیر احمد نے ہمت نہ ہاری اور ثابت قدمی سے تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

پڑھائی کا بہت شوق تھاپر قسمت نے موقع نہ دیا۔پر شوق کے آگے مجبور یہ انسان اپنے پڑھنے کے اس شوق کو نہ دبا سکے اور جیسے ہی وقت ملتا تو محلے کے کچھ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر روز کا تھوڑا تھوڑا سبق سیکھ لیتے ہیں ۔خود پیروں سے معزور زبیراحمد نے پوری دنیا کے لوگوں کی مدد کرنے کو اپنا فلسفائے زندگی بنا رکھا ہے۔حالات مستحکم نہیں پر پھر بھی کسی ضرورت مند کو دیکھتے ہیں توخود سے اسکی مدد کرنے کی اور ایک دیے سے دوسرا دیا جلانے کی پوری اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔کہتے ہیں جس ہال میں خود ہوں اس ہال میں کسی اور کو نہیں دیکھ سکتا ۔اس غربت و مفلسی کے عالم میں روز کے 250 سے 300 کما لیتے ہیں کہتے ہیں یہ ہانڈی پکانے کے لیے کافی ہیں باقی شکر ہے خدا کا زندگی تو گزر ہی رہی ہے۔جب ایک ماہ کی عمر کو پہنچے تو ٹائیفائیڈ کے بخار نے زبیر احمد کو بری طرح جکڑ لیاجس کے باعث نہ اسکول جا سکے اور نہ کتابیں کھول سکے پر پھر بھی بات کرنا بخوبی جانتے ہیں اور کوئی انسان اس بات کا اندازہ تک نہیں لگا سکتا کہ اس سے مخاتب یہ معزور شخص غیر تعلیم یافتہ یا انپڑھ ہے۔ کہتے ہیں ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے زبیر احمد نے اپنی صحتیابی کے لیے بہت سی درگاہوں پر حاضری دی پر جو اللہ کو منظور آکر کار اللہ کی رضا میں ہی اپنی خوشی جان لی اور اسی حال میں زندگی گزارنے کی ٹھانلی پر محنت سے کبھی منہ نہ موڑااور معزوری کی حالت میں بھی محنت کر کے دوسروں کے لیے مثال پیش کی جس سے سب کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 

پیروں سے معزوری اور غربت کے باوجود اپنے اخلاق کو دوسوں کے لیے متعاصر کن بنایااور محنت ومزدوری کرنے میں کبھی شرمندگی محسوس نہ کی ۔ میں اپنے آپ کو کمزور نہیں سمجھتا بقول زبیر احمد کیوں کہ میری ہڈیوں میں اتنی طاقت اب بھی باقی ہے کہ میں اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ اچھی طرح سے پال سکوں اسی لیے شروع دن سے محنت کو اپنایا اور غلامی کو لعنت سمجھتا ہوں ۔8 سال کی کمسن عمر میں والد صاحب کے انتقال کے بعد ایک ماں اور دو بہنوں کی کفالت کی ذمہ داری پوری لگن اورثابت قدمی سے نبھائی اور کبھی دلبرداشتہ نہ ہوئے۔دو بہنوں میں سے چھوٹی بہن ثانیہ زیادہ عزیز جان ہے اور بھائی کے دل کے بہت قریب ہے۔ بہنوں سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روز دونوں بہنوں اور ماں کے لیے الگ سے دودو گجرے صبح اٹھتے ہی بنا کر رکھ دیتے ہیں۔پودوں سے بہت لگاؤ ہے اور خود اپنے پودوں کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں ،کہتے ہیں پودے بہت خاموش ہوتے ہیں چاہے انہے توڑ لو یہ کچھ نہیں کہتے بس خاموش رہتے ہیں اور اپنے اوپر ظلم ہونے دیتے ہیں پودوں کے ساتھ یہ سلوک مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔حالات وواقعات نے زبیر احمد کو بہت حساس طبیعت کا مالک بنادیاہے پر شاعری پسند کرتے ہیں ۔قدآور شخصیت رنگ بھورا پر جسم غربت کی وجہ سے ڈھانچے کی مانند ہے مگر حوصلے بلندوباری ہیں ۔ زندگی میں اتنی محنت کے باوجود بھی اپنی غربت نہ مٹاسکے اور کسماپرثی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں پر یقین قامل اتنا ہیں کہ کوئی نہ امیدی نہیں ۔زبیر احمد کی یہ زندگی ہر شخص کے لیے مکمل نمونہ اور بہترین مشعل راہ ہے۔انکی زندگی سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ چاہے معزوری انسان کا مقدر بن جائے پر اگر ثابت قدم رہ کر محنت کی جائے اور زندگی تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیاجائے تو بعزت اور خوشحال زندگی گزارنا آسان ہو جاتا ہے۔۔

Sunday 4 September 2016

معذن کان انقلاب جو سفر طئي ڪندڙ ڊاڪٽر حميد سومرو Mumtaz Jamali

ممتازجمالي  
معذن کان انقلاب جو سفر طئي ڪندڙ ڊاڪٽر حميد سومروعلي :
پروفائل
رول نمبر: 159 بي ايس 3

انسان جي زندگي ۾ اهڙيون  تـه لاهي چاڙهيون اچي وينديون آهن جو انسان کي يا تـه مجبورن پنهنجو پيشو تبديل ڪرڻو پوندو آهي يا وري شوق سان تبديل ڪرڻو پوندو آهي:
ڏتڙيل شهر جوهي جي قديمي ڳوٺ سرائي رند مان جنم وٺندڙ ڊاڪٽر حميد سومرو بـه انهن شخصتن مان آهي جنهن وقت سان گڏ نـه پنهنجو پيشو پر پنهنجي طبيت، پنهنجو رويو بـه تبديل ڪيو آهي،  يا ائين کڻي چئجي تـه تبديل  ٿي ويو آهي.
ڊاڪٽر حميد کاٻي ڌر جي انقلابي تحريڪ مان انهن ڪامريڊن مان سڃاتو ۽ ڄاڻي وڃي ٿو جنهن نـه صرف پنهنجي منزل مقصود لاءِ سزائون سٺيون پر قربانيون پڻ ڏنيون.
ڊاڪٽر صاحب جو آواز ٻالڪ پڻ ۾ تمام وڻندڙ ۽ من موهيندڙ هيو انهي ڪري هن کي ڳوٺ وارن مسجد جو پيش امام سان گڏ معذن پڻ مقرر ڪيو. وقتن بـه وقتن ٻالڪ پڻ ۾ حمد ڳائيڻ جي پڻ شرعات ڪئي، ان دور ۾مسجدن سان گڏو گڏ شادي باراتن ۾ بـه حمد نعت ڳارايا ويندا هئا ۽ هن جي ننڍي عمر جي ڪري هن کي گهرن ۾ عورتن جي  سامهون حمد ڳارايا ويندا هئا بلڪـه خود عورتون هن کي پسند ڪنديڳن هيون ۽ شوق سان شادي باراتن ۾ گهرائينديون هيون.
 سندن ننڍ پڻ ۾ تعليم ڏانهن لاڙو گهٽ هيو، ان جو هڪ سبب تـه حمد نعت ۾ ڳوٺ وارن جي سامهون مقبوليت جي ڪري سڄو وقت اتي گذرندو هو، ٻيو تـه ڊاڪٽر صاحب جو والد ڏهاڙي تي مزدوري ڪندو هو جيڪو ڪمائيو سو  ئي کائيندا هئا.
 جنهن سبب هي پڙهي نـه سگهندو هو.
هڪ ڏينهن حمد ڳائندي ڳائندي هن کي ڪجهـه مذهبي فرقي وارن هن تي تشدت ڪيو ۽ اهو ڏينهن حمد نعت جو ڊاڪٽر حميد آخري ڏينهن ڪيو.
 سائين جي ايم سيد جي جيئي سنڌ تحريڪ جڏهن شروع ٿي تـه سنگت جي صحبت ۾ اچي ڪري هي بـه ان نوجوانن سان گڏيو سندن ان وقت والد صاحب جي پر اسرار خواهش ۽ زور تي پرڙهندو بـه هو، ان وقت جي ٽائون چيئرمين پاران هن کي 250 سئو روپـيه هر مهيني وظيفو تور ملندا هئا  جنهن جي ڪري هي انٽر تائين آساني سان پڙهندو رهيو، مارشلا جي دور ۾ نواب شاهـه ۾ سنڌي نياڻي سان جنسي ڏاڍائي ڪندڙ قانون مهيا  ڪندڙ اهلڪار جي خلاف احتجاج ۾ ڊاڪٽر صاحب گرفتار ٿيو ان وقت ڊاڪٽر صاحب پروگريسو موومينٽ ۾ هيو، ملڪ سان گداري ۽ بغاوت ڪيس ۾ 1 سال جي سزا سان گڏ کين ڪوڙها کائيڻ جي سزا ملي جڏهن هي واپس جيل مان موٽي آيو تـه 12هين ڪلاس جي ويهڻ لاءِ هي اهل نـه هو انهي جي ڪري تـه هي سڄو سال جيل ۾ هجڻ جي ڪري ڪاليج نـه اچي سگهيو،  استاد بخاري جهڙي انقلابي شاعر سان جڏهن هن پنهنجي درد ڪٿا  بيان ڪئي تـه استاد بخاري پنهنجي مدد تحد هن جا امتحاني فارم ڀرايا.
جيل کان اچڻ بعد کين مقصد تـه تبديل نـه ٿيا هئا پر مقصد جي حاصلات لاءِ طريقو ڊاڪٽر حميد ضرور تبديل ڪيو، هن پنهنجو رستو قلم ۽ پني وارو کنيو ۽ سخت محنت بعد چانڊڪا ميڊيڪل ڪاليج ۾ سليڪٽ ٿي ويو، سندن رت ۾ جوش جذبو هجڻ جي ڪري اتي بـه کاٻي ڌر سان سلهاڙيل رهيو ۽ اتي بـه ون يونٽ خلاف تحريڪ ۾ شاگردن جي اڳواڻي ڪندو رهيو ۽ اڳواڻي ڪرڻ جي الزام هيٺ هڪ ڀيرو ٻيهر قانون جي گرفت ۾ اچي ويو. جيل ۾ هن جا سڀ ساٿي آزاد ٿي ويا مگر هن تي سنگين گداري ڪيس هجڻ جي ڪري هن کي آخري تائين جيل ۾ قيد رکيو ويو ۽ طرح طرح جون سزائون ڏيندا رهيا. پنهنجي وڏي ڀاءُ جي ضمانت بعد هن کي آزاد ڪيو ويو.
جهموري حڪومت  بعد ڪميونيسٽ پارٽي گروهن ۾ تبديل ٿي وئي ۽ هن اها پارٽي بازي جو ڪسو ختم ڪيو.
1987 ۾ ڊاڪٽر ٿيڻ بعد هن پنهنجي عملي زندگي جي شورعات ڪئي، ڊاڪٽر حميد جي طبيعت تمام نرالي آهي سندن هڪ دفعو ملڻ سان ائين لڳندو آهي تـه ڄڻ ڪنهن پنهنجي سان مليا هجون، هر فرد کي حق ۽ سچ تي وڙهڻ جي تلقين ڪندا آهن.
 لکيڪ اڪبر جسڪاڻي مان متاثر ٿيندڙ ڊاڪٽر حميد 5 هزار کان وڌيڪ ڪتاب پڙهيا، دنيا جي تقريبن هر فلاسافيم تاريخ ، ادب جي ڄاڻ رکندڙ ڊاڪٽر حميد جي ٻي اهم ڪاميابي اها آهي تـه هن پنهنجي مدد پاڻ تحد جوهي جي نوجوانن لاءِ هڪ لائبريري جو قيام وڌو جيتي 5 هزار کان وڌيڪ پنهنجا پڙهيل ڪتاب مهيا ڪيا. ڊاڪٽ حميد صاحب جو  چوڻ آهي تـه هميشا هڪ نئون ڪم ڪيو ۽ جيڪو ڪجهـه ڪيو پر پنهنجي فيصلي تي قائم رهيو پاڻ بـه آزاد رهو ۽ ٻين کي بـه آزاد رهڻ ڏيو.
ڊاڪٽ صاحب جي ويجهي ساٿي سائين بخش رند هن جي باري ۾ چيو تـه سائين ادب جي معاملي ۾ هر فن موليٰ آهي هر ادب، تاريخ، فلاسافي جي ڄاڻ رکندو آهي، هن وڌيڪ چيو تـه حميد صاحب ڪڏهن بـه فضول جي ڪچهري ناهي ڪندو، هن جي ٻئي ويجهي دوست عزيز ڪنگراڻي جو چوڻ آهي تـه سائين هميشا پڙهڻ جو شوق رکندو آهي گهر ڪلينڪ توڙي آفيس کي ڪتب گاهـ

 بڻائي ڇڏيو اٿس.

سائين صرف پاڻ نـه پر پنهنجي اولاد کي بـه پڙهن پرکڻ جو عادي بڻائي ڇڏيو. هڪ ڏينهن جڏهن هن جي وڏي فرزند سان ملاقات ٿي تـه هن جي ڳالهائڻ، ۽ انداز مان سندن ڊاڪٽر صاحب جي جهلڪ نظر پي آئي.

اسان جي سماج ۾ ڊاڪٽر حميد جهڙن ڪامياب شخصتين کان سبق وٺڻ گهرجي جنهن هر موڙ تي انقلاب، توڙي علم جي منزل ڏانهن پنهنجو پنڌ جاري رکيو.

Thursday 1 September 2016

Rotation editors List

BS-III 2k14 2nd semester
Rotation editors
(second semester's issue serial starts from issue No 7)
Seat No.
Name of Candidate
Lang
Issue no.
2K14/MC/1
ABDULLAH KHAN
U
.....
2K14/MC/3
AHSAN PERVIAZ KHAN
E
7
2K14/MC/6
AMIN EMMANUEL
E
7
2K14/MC/7
ANAM
E
6
2K14/MC/9
ASAD-UR-REHMAN
U
.....
2K14/MC/16
BHARAT KUMAR
S
4
2K14/MC/17
BILAL YOUSUF KHAN
U
.....
2K14/MC/22
FARAZ AHMED
U
.....
2K14/MC/24
FARHANA NAGHAR
U
4
2K14/MC/26
FATIMA
U
5
2K14/MC/27
FATIMA MUSTAFA
E
5
2K14/MC/28
GHAZANFAR ALI ALIES NOUMAN ALI
S
.....
2K14/MC/30
HAMMAD ZUBAIR KHAN
E
4
2K14/MC/39
JAWAID AHMED
E
7
2K14/MC/45
KISHOR KUMAR
S
.....
2K14/MC/47
MALIK SHAHJAHAN
U
6
2K14/MC/48
MANSOOR ALI
S
4
2K14/MC/50
MARYAM
U
7
2K14/MC/52
MISBAH-UR-RUDA
U
Board
2K14/MC/57
MUHAMMAD BILAL HUSSAIN
U
Board
2K14/MC/63
MUHAMMAD SAUD SHAIKH
U
Board
2K14/MC/66
MUHAMMAD WAQAS AMIR
U
5
2K14/MC/67
MUHAMMAD ZUBAIR
U
3
2K14/MC/68
MUHAMMAD RAHEEL
U
4
2K14/MC/75
NOMAN MEER
S
8
2K14/MC/78
RAJESH KUMAR
E
Board
2K14/MC/79
RAMEEZ
S
Board
2K14/MC/80
RAVI SHANKAR
S
6
2K14/MC/81
REBECCA URSANI
E
6
2K14/MC/82
SABHIYA MANSOOR
E
5
2K14/MC/84
SAIRA NASIR
U
6
2K14/MC/85
SAJID ALI
.....
.....
2K14/MC/93
SIMRA NASIR
U
7
2K14/MC/95
SUMAIYA KANWAL
U
4
2K14/MC/96
SYED KUMAIL HUSSAIN RIGVI
.....
.....
2K14/MC/99
TEHNIAT KHAN
E
4
2K14/MC/102
WARIS BIN AZAM
U
5
2K14/MC/108
ZULFIQAR ALI
S
7
2K14/MC/110
AIZAZ AHMED
S
5
2K14/MC/111
BABAR ALI KHAN
U
.....
2K14/MC/114
IMAM ALI
S
4
2K14/MC/115
MUHAMMAD AMIN
S
6
2K14/MC/116
NAJEEBULLAH
S
Board
2K14/MC/117
PAWAN
S
7
2K14/MC/118
SADAQUAT HUSSAIN KAZI
S
.....
2K14/MC/119
FARYAL
S
4
2K14/MC/122
ZOHEB KAMAL
S
6
2K14/MC/120
SIDRA KHALID
U
6
2K14/MC/126
ALI AIZAZ
U
7
2K14/MC/127
ALI ASGHAR
U
3
2K14/MC/130
AYOOB GHAM DIL
E
7
2K14/MC/132
BILAL RAJPUT
U
4
2K14/MC/135
JAMSHED
S
7
2K14/MC/136
MAHEEN HASSAN KHAN
E
6
2K14/MC/137
MUHAMMAD HUSSAIN
S
4
2K14/MC/140
MUHAMMAD RAFAY KHAN
U
5
2K14/MC/142
MUSHTAQUE ALI
S
5
2K14/MC/145
SHAHZAIB
.....
.....
2K14/MC/147
SHAHRYAR RASHEED
U
6
2K14/MC/150
MINHAJ-UL-ISLAM
E
5
2K14/MC/151
SYED MUHAMMAD FAIZAN RIZVI
.....
.....
2K14/MC/152
WALEED ZAFAR
.....
.....
2K14/MC/154
KHALID HUSSAIN
S
7
2K14/MC/155
MAHIRA MAJID ALI
E
Board
2K14/MC/156
MIZNA
U
7
2K14/MC/158
MUHAMMAD UZAIR
E
Board
2K14/MC/159
MUMTAZ ALI
S
Board
2K14/MC/160
NAVEED AHMED
S
6
2K14/MC/161
NAWAB ALI
S
.....
2K14/MC/162
SADAM HUSSAIN
S
.....
2K14/MC/163
SAJJAD ALI LASHARI
U
5
2K14/MC/165
SHABIA QAZI
U
4
2K14/MC/166
SHEERAZ AHMED
S
.....
2K14/MC/170
JAWAD AHMD SOOMRO
.....
.....
2K14/MC/171
USAMA SAMI
S
.....
2K14/MC/172
HOOR-E-LAIBA
U
6
2K14/MC/174
KAMRAN RAB
S
5

Note: The students who did not produced their pieces approval slips yet, are not included in this list. They are advised to show their approval list so that they can get entry. Otherwise their pieces will not be considered and they will not work as rotation editors as well. 
If  name of any student is missing in this list,  he should inform in comments on FB group, where this link has been shared.