Thursday 1 September 2016

فیچر شہریار رشید

Feature is always reporting based. U did not observe paragraph. DO not use english words  
SS
فیچر 

شہریار رشید رول نمبر۔147 BS-Part III

چاندنی موبائل مارکیٹ حیدرآباد

چاندنی موبائل مارکیٹ حیدرآباد کی پہلی اور سب سے بڑی موبائل مارکیٹ ہیاس جگہ پر پہلے چاندنی سینما ہوا کرتا تھا۔ 
شروعات میں یہاں صرف کمپیوٹرز کا سامان ملا کرتا تھا لیکن اب ہر قسم کے موبائل فون اور موبائل گیجٹس اور دوسرے الیکٹرونک آئٹم بھی باآسانی دستیاب ہیں 1280 دوکانوں پر مشتمل یہ مارکیٹ دو حصو ں میں تقسیم ہے ایک حصہ جو کہ ایس آرٹی سی ماکیٹ اور دوسرا حصہ چاندنی پلازہ مارکیٹ کہلاتا ہے SRTCایس آرٹی مارکیٹ اس وجہ سے کہلاتی ہے کہ پہلے اس جگہ پر سرکاری ٹرانسپورٹ کمپنی سندھ روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا بس اسٹینڈ تھا۔ مارکیٹ میں موبائل فون اور موبائل گیجٹس کی قیمت مناسب ہے جبکہ چاندنی پلازہ مارکیٹ میں موبائل فون اور گیجٹس کی قیمت زیادہ ہے اس وقت موبائل مارکیٹ کا کام عروج پر ہے دور جدید

کیساتھ جہاں نئی نئی ٹیکنالوجی جنم لے رہے ہیں وہیں موبائل مارکیٹ کا کام بھی بڑھتا جا رہا ہے۔

موبائل مارکیٹ کے بڑھتے کاروبار کیساتھ کالابازاری بھی بڑھتی جار ہی ہے مارکیٹ میں نئے اور استعمال دونوں ہی موبائل دستیاب ہیں تمام موبائل فون اور گیجٹس کراچی سے لائے جاتے ہیں جسکی وجہ سے دوکاندار اپنے آنے جانے کے اخراجات موبائل فون کی قیمت سے نکالتے ہیں اور کالا بازاری کرتے ہیں نئے ڈبہ پیکٹ موبائل فونز میں کالابازاری اتنی نہیں جتنی استعمال شدہ فونز میں کیجاتی ہے استعمال شدہ موبائل فونز میں اکثر کوئی نہ کوئی خرابی موجود ہوتی ہے مگر پھر بھی دوکاندار کسٹمر کو وہی خرابی والا موبائل فون فروخت کرتے ہیں اور جب کسٹمر کو وہ خرابی نظر آتی ہے تو دوکاندار اس کی ذمہ دار لینے سے مکر جاتا ہے وہ سارا الزام کسٹمر پر ڈال دیتا ہے دوکاندار اپنی چیزوں کو سونا سمجھ کر فروخت کرتے ہیں اور بکنے آئے ہوئے موبائل فونز مٹی کے بھاؤ خرید کر آگے سونے کے بھاؤ بیچا کرتے ہیں۔


گذشتہ چار سال سے موبائل کی چوری بہت عام ہوگئی ہے یہ چوری ہونے والے موبائل فونز اسی مارکیٹ میں بیچے جانے لگے ہیں اسطرح کے چوری والے موبائل فون کے ساتھ ڈبہ موجود نہیں ہوتا ہے اور دوکاندار کو یہ موبائل فون بہت کم قیمت میں مل جاتے ہیں اول تو اسطرح کے موبائل فونز دوکاندار کو خریدنے ہی نہیں چاہیے مگر پھر بھی لالچ میں آکر یہ موبائل فونز خرید لیتے ہیں اور آگے انہی موبائل فونز کو مہنگی قیمت میں فروخت کیے جانے لگا ہے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے حیدرآباد پولیس حرکت میں آئی اورسٹیزن اینڈ پولیس لیزان کمیٹی کے ذریعے موبائل فون کو ٹریک کرنا شروع کیااس عمل سے کئی دوکاندار اور ان دوکانوں کے کسٹمر زکو حراست میں لیا گیا کسٹمر کی غلطی نہ ہونے کی وجہ سے سارا الزام دوکاندار پر آتا ہے کہ جو لوگ اس قسم کے چوری والے موبائل بیچنے آتے ہیں اُنکے شناختی کارڈ کی کاپی کیوں طلب نہیں کی؟ اس کی سزا کے طور پر ان دوکانوں کو ایک مدت کیلئے سیل کیا گیا اور جرمانہ بھی لاگو کیا گیا۔ اب حالات اس سے
بھی بدتر ہے۔ 
اب مارکیٹ میں کِٹ موبائل سیٹ دستیاب ہے جو کہ بیرونی ممالک سے اسکریپ ہوکر یہاں آتے ہیں اور ریفرنشڈ ہو کر مارکیٹ میں فروخت ہوتے ہیں ان موبائل کی کوئی گارنٹی نہیں دی جاتی نہ ہی ان کا ڈبہ موجود ہوتا ہے اس طرح کے کِٹ موبائل فونز فروخت کرنا قانوناََ جرم ہے کیونکہ یہ موبائل رجسٹرڈ نہیں ہوتے اور بوم بلاسٹ جیسے حادثہ ان ہی موبائل فونز کی مدد سے کیے جاتے ہیں مگر پھر بھی اس طرح کے موبائل مارکیٹ میں بڑی تعداد سے فروخت ہو رہے ہیں کیونکہ یہ موبائل قیمت میں سستے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ لیکن چوری ہونے کی صورت میں ان موبائل کو ٹریک بھی نہیں کیا جاسکتا۔
موبائل مارکیٹ میں کئی موبائل کمپنی کے آؤٹ لیٹ بھی موجود ہیں مگر بہت کم لوگ ان آؤٹلیٹ کا رخ کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈبہ پیک موبائل کی اسمگلنگ بھی بہت عام ہے ڈبہ پیک موبائل فونز اسمگل ہو کر مارکیٹ میں آتے ہیں اور آؤٹلیٹ کی قیمت سے کم قیمت میں فروخت کیے جاتے ہیں جس کی وجہ سے کمپنی آؤٹلیٹ کو نقصان اُٹھانا پڑتا ہے یہی نہیں بات صرف موبائل فونز تک ہی محدود نہیں موبائل گیجٹس جیسے کہ ہینڈ فری چارجر وغیرہ میں بھی کالا بازاری کی جاتی ہے یہ سب سامان اوریجنل نہیں ہوتا مگر کچھ دوکاندار اس سامان کو اوریجنل کا نام دے کر مہنگی قیمت میں فروخت کرتے ہیں اس کالا بازاری کو دیکھ کر حیدرآباد پولیس حرکت میں آتی ہے اور آہستہ آہستہ اس کالا بازار ی کو ختم کیا جا رہا ہے گذشتہ سالوں سے موبائل مارکیٹ کی کالا بازاری میں کافی کمی آئی ہے ۔


















Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh

No comments:

Post a Comment