Model United Nations (MUN)
پارٹ ٹو سے مسلسل سمجھا رہے ہیں اور فیس بک گروپ پہ بھی ہدایات پوسٹ کی جاتی رہی ہیں کہ اپنی تحریروں میں پیراگراف کا خاص خیال رکھیں۔ لیکن تعجب ہے کہ آپ یہ سب کچھ سمجھنے اور کرنے قاصر ہیں۔ نہ پیرا گراف کا خیلا نہ فل اسٹاپ کا۔
SS یہ یونائیٹڈ نیشن نہیں ، نیشنز ہے۔
آرٹیکل
شہریار رشید رول نمبر۔147 BS-Part III
حیدرآباد میں (ایم یو این) ماڈل یونائیٹڈ نیشنز
حیدرآباد میں مختلف قسم کے پروگرام اور میوزیکل کانسرٹ کا دور خوب عروج پر ہے اور اب حیدرآباد میں (ایم یو این )ماڈل یونائیٹڈ نیشن جیسے پروگرام بھی آرگنائز ہونا شروع ہوگئے ہیں ایم یو این ایک تعلیمی پروگرام ہے اور اس کو کوئی بھی تعلیمی ادراہ آرگنائز کر سکتا ہے مگر اب یہ پروگرام بغیر کسی تعلیمی ادارے کے بھی آرگنائز کیا جار ہے ہے ایم یو این یونائیٹڈ نیشن آرگنائزیشن کا ہی ایک روپ ہے اسی لئے اس کا نام ایم یو این رکھا گیا ہے اس پروگرام میں مختلف شعبوں اور تعلمی اداروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ بطور ڈیلیگٹس حصہ لیتے ہیں ڈیلیگیٹ بننے کیلئے طلبہ کو رجسٹریشن فیس ادا کرنی لازمی ہوتی ہے ہر ایم یو این کی مختلف ہوتی ہے اکثر یہ پروگرام دودن، تین دن اور کبھی کبھی چار دن پر بھی مشتمل ہوتا ہے ایم یو این سے طلبہ کو جمہوریت انٹرنیشنل ریلیشن اور یونائیٹڈ نیشن کے بارے میں معلومات حاصل ہوتی ہے اور طلبہ کو اپنے اندر موجود صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے کا موقع ملتا ہے ایم یو این طلبہ کو تحقیق کرنا ، عوام کے سامنے آواز بلند کرنا اور لیڈر شپ کرنا سکھاتا ہے اس پروگرام میں مختلف کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں اور ہر کمیٹی میں طلبہ بطور ڈیلیگیٹس مختلف ممالک کی طرف سے رول پلے کرتے ہیں اور اور کمیٹی میں ایک ایک ایجنڈا پر بات کی جاتی ہے طلبہ جو کہ بطور ڈیلیگیٹس اس پروگرام میں حصہ لیتے ہیں ان کی ٹریننگ بھی کروائی جاتی ہے اور بتایا جاتا ہے کہ ایم یو این کیا ہے اور اس میں کس طرح رول پلے کرنا ہے ایم یو این کوئی بھی اسکول کالج اور یونیورسٹی آگنائز کرسکتی ہے مگر حیدرآباد میں کچھ لوگوں نے بنا کسی تعلیمی ادارے کے بھی یہ پروگرام آرگنائز کرنا شروع کر دیا ہے جس میں (حیدرآباد ایم یو این) اور (نیرون کوٹ ایم یو این )شامل ہے یہ وہ ایم یو این ہے جو کہ بغیر کسی تعلیمی ادارے کے آرگنائز کیے گئے ہیں اس پروگرام کو کوئی ایک بندہ آرگنائز نہیں کرسکتا اسکے لئے ایک مکمل ٹیم تیار کی جاتی ہے ایم یو این اول تو طلبہ کی نالج کو بڑھانے کیلئے کئے جاتے ہیں مگر حیدرآباد میں کچھ آرگنائز نے اسے انٹرٹینمینٹ اور کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے عموماََ ایم یو این تین دن پر مشتمل ہوتا ہے پہلے دن اوپننگ سیئرمنی ،دوسرے دن کمیٹی سیشن تیسرے دن اوارڈ سیئرمنی اور کلوزنگ سیئرمنی کی جاتی ہے مگر حیدرآباد میں ایم یو این کے ساتھ ساتھ میوزیکل کانسرٹ اور ڈی جے پارٹی بھی آرگنائز کی جاتی ہے بہت کم طلبہ بطور ڈیلیگٹس اس پروگرام میں حصہ لیتے ہیں مگر میوزیکل کانسرٹ میں طلبہ کی بڑی تعداد آتی ہے جو کہ صرف اور صرف انٹرٹنمینٹ کیلئے اس پروگرام میں موجود ہوتی ہے اس پروگرام کا مقصد طلبہ کو نالج فراہم کرنا ہے ناکہ ڈی جے پارٹی کے تحت انٹرٹنمینٹ فراہم کرنا ہے حیدرآباد میں ایم یو این کو صرف کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے جیسے ڈیلیگیٹس بننے کیلئے رجسٹریشن فیس ادا کرنی پڑتی ہے ٹھیک اسی طرح ایم یو این میں ہونے والے میوزیکل کانسرٹ کے ٹکٹ بھی الگ سے فروخت ہوتے ہیں اب تک حیدرآباد کا سب سے بہترین ایم یو این (حیدرآباد ایم یو این ) کے نام سے ہوا ہے جو کہ تین سال سے لگاتار بہترین ایم یو این آرگنائز کر رہا ہے مگر یہ لوگ اس پروگرام کو کمائی کیلئے آرگنائز کرتے ہیں نہ کہ معلومات فراہم کرنے کیلئے اسی ایم یو این کی نقل پر نہرون کوٹ ایم یو این آرگنائز ہوا مگر کامیاب نہ ہوسکا اور لوگوں کے ساتھ فراڈ کیا گیا صاف دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ایک تعلیمی پروگرام کو انٹرٹینمنٹ کا روپ دیا جا رہا ہے اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے اب سندھ یونیورسٹی پہلی بار ایک ایم یو این آرگنائز کر رہی ہے جس کا نام (سندھ یونیورسٹی ایم یو این )ہے اس پروگرام میں پورے پاکستان سے طلبہ بطور ڈیلیگٹس حصہ لینے آرہے ہیں اور اس پروگرام کی تیاری کا ذمہ سندھ یونیورسٹی کے شعبہ (اسٹگیز)کو دیا گیا ہے اور تیاری زور و شور سے جاری ہے امید کرتے ہیں کہ یہ اب تک کا سب سے بہترین ایم یو این ہوگا حیدرآباد میں اس طرح کے پروگرامس طلبہ کو جمہوری تعلیم دینے میں کام آتے ہیں مگر یہاں اسے کمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے جو کہ غلط ہے اور ایم یو این کو اس کے اصل مقصد کیلئے ہی آرگنائز کرنا چاہیے جو کہ طلبہ کو جمہوری تعلیم سے آگاہ کرنا ہے نہ کہ میوزیکل کانسرٹ کر کہ ان کو انٹرٹین کرنا ہے ۔
Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh
Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh
No comments:
Post a Comment