Wednesday 30 November 2016

نجی اسکولوں کا بڑھتا رجحان




تحقیقی رپورٹ : پڑھے گا، لکھے گا، روشن ہوگا پاکستان ۔۔ مگر کیسے ؟؟؟؟



ماہرہ ماجد علی
Mahira Majid : 2k14/MC/15 : 
نجی اسکولوں کی طرف بڑھتا رجحان اور انکی وجوہات

مصباح ار ردا : 2 k14/Mc/52 
: قانون (ن) امان کی صورتحال 

سائرہ ناصر ؔ : 2 k14/Mc/84:
 اشاعت خانے 

حسین بروہی : 2 k14/Mc/
:غیر تجربہ کار اساتذہ

فاطمہ جاوید کمال :2 k14/Mc/26
:غیر رجسٹرڈ سکولوں کی تعداد 



تعارف 

ماہرہ ماجد علی

ایک خیمہ جس میں ایک طرف سے چند طالبعلم بستہ اٹھائے داخل ہورہے ہیں جبکہ دوسری طرف سے چند گدھے بستہ اٹھائے بائر نکل رہے ہیں. یہ خیمہ ویب پر پاکستان کے تعلیمی نظام کو دیکھتے ہوئے بنایا گیا ایک کارٹون ہے جو کافی مشہور بھی ہورہا ہے اس خیمے کے اوپر لکھا ہے 

"PAKISTAN EDUCATION SYSTEM"
ٖٓپاکستان کو بننے ہوئے ۶۸ ؁ سال ہو چکے ہیں لیکن ہمارا تعلیمی نظام بہت خراب ہے ہمارے طالبعلم ابھی تک دد کشتیوں پر سوار ہیں جن میں سے ایک اردو اور ایک انگریزی ہے ان دو کشتیوں پر سوار ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو ہمارے طالب علموں کی اردو اچھی ہے اور نہ ہی انگریزی اسکول زیادہ تر گورنمنٹ کے ماتحت ہیں جہاں ڈنڈوں کے سائے تلے تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے طلباء اسکول جانے میں گھبراتے ہیں اور طرح طرح کے بہانے کرکے چھٹی کو ترجیع دیتے ہیں بہانے بناکر چھٹی کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد اسے ٹھنڈی اور سکون کی سانسیں بھرتے ہیں۔ جیسے کسی خوف کا بڑا سایہ ان کے سر سے ہٹا دیا گیا ہو۔

 اگر ہم پرائیویٹ اسکول کو دیکھیں تو وہاں جو طلبا میٹرک اور انٹر کے امتحان میں پاس ہوجاتے ہیں وہ اپنے ہی اسکول میں جاکر استاد بن جاتے ہیں اگر نظام تعلیم اسی طرح دن بہ دن خراب ہوتا گیا تو شاید ہی یہ ملک پاکستان کبھی ترقی کر پائیگا
کیونکہ یہ قول بہت مشہور ہے۔
طلباء کسی بھی قوم کے مستقبل کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔

گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکول کی مثال ہم اس طرح دے سکتیے ہیں کہ کچھ دن قبل انٹرنیٹ پر ایک تصویر میں دکھایا جا رہا تھا دو گھروں کو ایک ساتھ دیکھایا جا رہا تھا ۔جس میں تعلیمی نظام صاف واضح ہوگیا۔ایک گھر پرائیویٹ اسکول کے استاد کا تھاجو بلکل ٹوٹا پھوٹا اور بری حالت میں تھا۔جبکہ دوسری جانب ایک گورنمنٹ اسکول کے استاد کا گھر تھا ۔جو بہت ہی عالیشان ہونے کے ساتھ ساتھ ہر سہولت سے بھرپور تھا۔
اس تصویر کو دیکھانے کا مطلب بلکل صاف ہے کہ گورنمنٹ اسکول میں استاد محنت کرنے کو ترجیع نہ دے کر صرف پیسوں پر عیش کرنے کو بڑی بات سمجھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ اسکولوں کا نطام بلکل مختلف ہے جہاں اساتزہ محنت کر کے اپنی قابلیت کے بلبوتے پر پیسے کماتے ہیں۔یہ پاکستان کے تعلیمی نطام کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے اگر اسی طرح پورے نطام پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں سب بڑے سے بڑا ہو یا چھوٹے چھوٹا عہدیدار صرف اپنی جیب بھاری کرکے عیش میں لگا ہے۔

ان سب کو معصوم بچوں کے مستقبل کی کوئی پرواہ نہیں ہے بچوں کے خراب ہوتے مستقبل کا زمہدار ہے کون؟ اس کا جواب اگر والدین سے لیا جائے تو وہ اساتزہ کا نام لیکر جان چھٹا لیتے ہیں اور اساتزہ سے یہ سوال کیا جائے تو وہ اپنے سربراہوں کا نام لیکر اپنا دامن صاف کر لیتا ہے اور اگر ان سربراہوں سے پوچھا جائے تو وہ سیدھا حکومت کو الزام دے کر خود کو کرپشن مافیہ سے پاک و صاف کر لیتے ہیں اپنی غلطی ماننے کو کوئی تیار ہی نہیں ہے۔۔

غیر قانونی اسکولوں کی وجوہات 249قانون اور اصول وضوابط 249کتابوں کی چھپائی کا عمل249غیر تجربہ کار اساتزہ اور غیر قانونی اسکول ؂وں کی تعداد کے بارے میں اس رپورٹ میں آگے تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔

نجی اسکولوں کی طرف بڑھتا رجحان اور انکی وجوہات


ماہرہ ماجد علی


موجودہ دور کے اس افراتفری کے ماحول میں تعلیم حاصل کرنا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ والدین اپنی اولاد کو بہتر سے بہتر تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ انکی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہماری اولاد سب سے آگے ہو اورپڑھ لکھ کر ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے اور اس دوڑ میں والدین ہر اس اسکول کا رخ کرتے ہیں جہاں انکی اولاد کوبہتر تعلیم مل سکے ۔ آجکل کے اس ماڈرن دور میں کوئی بشر سرکاری اسکول ،ہسپتال یا دیگر سرکاری اداروں کا رخ ہی نہیں کرتا ۔

ڈاکٹر ایڈرین کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ وہ گھر جن کے معاشی حالات بہتر ہیں وہ سرکاری اداروں سے دور بھاگتے ہیں اور نجی اداروں میں ہی اپنی اولاد کو پڑھانا پسند کرتے ہیں۔ اسکی اہم وجہ سرکاری اداروں کی نا اہلی بھی ہے۔نا اہلی اسطرح کہ ان اسکولوں میں تعلیم کا معیار دن بدن بدترہوتا چلا جارہا ہے اسکے علاوہ ٹیچرز آرگنائزیشنز نے بھی تعلیم کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔گھوسٹ اساتذہ کاسرکاری اسکولوں کے معیار کو گرانے میں خاصہ ہاتھ ہے۔

اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑے بیٹھے ہیں۔ انکی نا اہلی کی باعث عوام مہنگے نجی اداروں کی طرف رخ کرتی ہے جن میں سے بیشترغیر قانونی اور سرکاری طور پر رجسٹرڈتک نہیں ہوتے لیکن عوام کی امیدوں پر پورے اترتے ہیں۔

ان نجی اداروں یعنی اسکولوں سے اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں جہاں انکے بچوں کو کورس کی کتابوں کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی پڑھائی جاتی ہے جو کہ موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔
۲۰۰۸ کی ایسوسیشن آف ٹیچرز اینڈ لیکچرز کی ایک رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پرائیوٹ اسکولوں میں فیس کے مسلسل اضافے کے باوجود بھی شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ان نجی اسکولوں کی طرف جاتی ہے ۔

عام طور پر غیر قانونی اسکو ل ایسے پسماندہ علاقوں میں پائے جاتے ہیں جن پر حکومت کی خاصی توجہ نہیں ہوتی ،جہاں آبادی بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہوتی ہے اورلوگ اپنی مدد آپ کے تحت زندگی کی مختلف سہولیات مثلاٌگھر، ہسپتال اوردو کمروں پر مشتمل اسکول وغیرہ تعمیر کرتے ہیں۔

یہ غیر قانونی اسکول زیادہ تر پرائمری ہوتے ہیں کیونکہ اسکے بعد انکی رجسٹری ضروری اور لازمی ہوجاتی ہے۔حیدرآبادکے پسماندہ علاقوں جیسے کانچ میل،لطیف آباد یونٹ نمبر ۱۲ کے پچھلے علاقے، کوٹری اور خدا کی بستی میں ایسے کئی اسکول واقع ہیں۔

ان اسکولوں کی پسماندگی کی ایک اوراہم وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان اور ورلڈبینک مل کر ایجوکیشن اور ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کوپرائیوٹائز کر رہے ہیں جن میں سر فہرست نارائن جگن ناتھ اسکولNarayan Jagannath School (NJV Schools) ہے۔ سندھ کے ایجوکیشن انسپکٹر جگن ناتھ ودیا مدراسی نے تعلیمی سگرمیوں میں اضافہ کیا۔ انیسویں صدی میں اس سرکاری اسکول کی بنیاد رکھی پر حکومت نے اس اسکول کو بھی این جی او کے حوالے کردیا۔
سرکاری اسکولوں کو پرائیوٹ پارٹیوں کے ساتھ ضم کرکے حکومت فائدہ اٹھانا چاہتی ہے کیونکہ پاکستانی ملازمت کے۵.۶ لاکھ میں سے تقریباٌ۲.۳ لاکھ ملازمین ایجوکیشن پر مشتمل ہیں۔
اب تک تقریباٌ۶۵۰اسکول نجکاری کی زد میں آچکے ہیں اس معاملے میں عوام نے احتجاج کئے لیکن حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ جس کے نتیجے میں خمیازہ عام عوام بھگت رہی ہے

۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔
مصباح ار رودا 
قانون اصول و ضوابط
ڈائریکٹوریٹ کے ریکورڈ کے مطابق پاکستان میں 1395پرائیویٹ اسکول ہیں ان میں سے تقریبا آدھے اسکول حیدرآباد میں ہیں جس میں ۳۵۱کے قریب اسکول غیر قانونی ہیں جو اب تک رجسٹرڈ نہیں کروائے گئے۔ان اسکولوں کے رجسٹرڈ کروانے کی کیا وجوہات ہیں ۔کیونکہ ہر جگہ کرپٹ مافیہ کام کررہا ہے؟ کیونکہ اس نظام کے خلاف کوئی اقدامات نہیں ہوئے؟

پرائیویٹ اسکول کی میڈم صابرہ سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ غیر قانونی اسکولوں کا زیادہ رجحان اس لئے بھی ہوتا ہے کیونکہ ایک اسکول جو رجسٹرڈ ہے دوسرا اسکول اسی کے نام پر اپنے اسکول کے طلباء کے نام آگے دے کر ان کو بورڈ کے امتحانات دلوارہے ہیں اور وہ اسکول جو دوسرے اسکول کی مدد کررہا ہوتا ہے وہ اپنا فائدہ لے لیتا ہے اس طرح ان لوگوں کو اپنے اپنے اسکول رجسٹرڈ کروانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی
 میڈم صابرہ نے چیک اینڈ بیلینس کے نظام کو خراب بتاتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہے .بہت سے قانون اور قواعدوضوابط آئے ہیں لیکن ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا. بس قانون آتے ہیں شور مچتا ہے اور کچھ ونوں میں وہ بھی ختم ہو جاتا ہے مانو جیسے کبھی کوئی قانون پاس ہی نہ ہوا ہو . تو ایسی حالات میں ان قانون پر عمل کرنا تو بہت ہی مشکل ہے۔


صوبائی گورنمنٹ انسپیکشن ڈائریکٹوریٹ اور پرائیویٹ اسکولوں کی رجسٹریشن جنوری ۲۱۰۲ میں حیدرآباد میں قائم کی گئی اور پھر وہ آہستہ آہستہ حیدرآباد کے ۰۱ ضلعوں میں بھی پھیل گئی۔ اسکولوں میں سال میں ایک دفعہ انسپیکشن ٹیم آتی ہیں چاہے وہ گورمینٹ اسکول ہوں یا پرائیویٹ ۔اور پھر دہ آفس میں بیٹھ کر چند پیسے لے کر اور چائے بسکٹ کھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے فرائض انجام دے دئییاور اٹھ کر چلے جانا پسند کرتے ہیں۔

۱۰۰۲ اور ۵۰۰۲ میں پرائیوٹ اسکول سندھ پرائیوٹ ایجوکیشنل ادارے میں تبدیل ہوگئے اور ۳۱۰۲ میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا کہ بچوں کو مفت اور ضروری تعلیم دلانا ان کا حق ہے۔ سندھ اسمبلی میں فروری میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا کہ اگر کوئی بندہ بغیر رجسٹریشن کے کوئی اسکول چلائے گا تو اس پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاہے گا اور جیل کی سزا دی جائے گی یا پھر یہ دونوں سزا بھی دی جا سکتی ہیں. لیکن اس کے بعد بھی اب تک کوئی عمل درآمد نظر نہیں آیا۔

نئے اسکولوں کو کچھ مہینے دئیے جانے ہیں رجسٹریشن کے لیے اگر وہ پھر بھی رجسٹریشن نہیں کرواتے تو ان پر جرمانہ لگتا ہے.ان غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہے جو بھی قانون آئے ہیں ان پر عمل کتنا کیا گیا؟
گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول کے اسسٹینٹ کا کہنا تھا کہ یہ سب قانون دماغی فطور ہیں کیونکہ ان پر عمل تو کوئی کرتا نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے مطلب اگر کوئی قانون پر پابندی کرتا بھی ہے تو دوسروں کو دیکھ کر وہ بھی عمل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
گائیڈ کے خلاف کہتے ہوئے کہا کہ گائیڈ بند ہوجانی چاہئیں تاکہ طلباء کا رجحان نقل کی طرف سے ہٹ کر محنت کی طرف آئے۔

قانون اور قواعدوضوابط کے اصول کے لئے بہت سے ایجوکیشن اداروں پر چھاپے بھی مارے گئے لیکن ان چھاپوں کے بعد بھی ان کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو برائی کا حوصلہ ملا اور آگے بڑھ چڑھ کر اور غلط راستے اختیار کئے۔

مزید پاکستان کا یہی حال رہا تو قوم کو تاریکی کی طرف جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ طلبہ جو اس قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کے مستقبل کو مزاق سمجھ رکھا ہے۔

۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔
سائرہ ناصرؔ 

اشاعت خانے 

تعلیم کسی بھی قوم کے عروج اور بلندیوں کا پہلا زینہ شمار ہوتی ہے ۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے وطن عزیز میں تعلیم سے اچھا کوئی اور بزنس نہیں ہے ۔
ہم اکثر سنتے ہیں کہ ’’علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ چین ہی کیوں جائیں اگر اپنے ملک کے نظامِ تعلیم بہتر ہوں تو لندن ، چین ، امریکہ جیسے دیگر ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کی نوبت ہی نہ آئے مگر ہمارے یہاں تعلیم کے نام پر سیکڑوں اسکول کھول تو لئے جاتے ہیں مگر صرف پیسے کمانے کا ایک بہترین زریعہ سمجھ کر۔۔ 

ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم بہت ہی فرسودہ اور ناقص ہوگیا ہے کیونکہ ایک طویل عرصہ سے ہمارے یہاں کا نظامِ تعلیم کئی نظاموں میں تقسیم ہو چکا ہے جس کی وجہ نجی تعلیمی ادارے، لوکل نجی تعلیمی ادارے اور سرکاری تعلیمی ادارے ہیں ۔ ان سب اداروں میں الگ الگ قسم کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان تمام اداروں میں اساتذہ کرام کی بھی الگ الگ قسم دیکھنے کو ملتی ہے ۔ اگر بات کی جائے لوکل نجی تعلیمی اداروں کی جو کہ آج کل ہر گلی محلوں میں دکھائی دیتے ہیں یہاں پر پڑھائے جانے والے نصاب بلکل ہی علیحدہ ہیں اور پڑھانے والے اساتذہ میٹرک پاس ، انٹر پاس اور سادہ گریجوئیٹ ہیں جبکہ وہ نجی تعلیمی ادارے جعوانتہائی مہنگے ہیں وہاں کا نصاب تعلیم علیحدہ ہے ۔ اور پڑھانے والے اساتذہ کرام ماسٹر، پی ایچ ڈی ، ایم فل ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ تو انتہائی تعلیم یافتہ ہیں مگر نصابِ تعلیم نجی اداروں سے بلکل ہی مختلف ہے 

بہت سے مسائل کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ تعلیمی نصاب کا بھی ہے ۔ جو میرے خیا ل میں اربابِ اختیار کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 60 سال سے زائد ہو چکے ہیں اور ہمارا ملک آج بھی وہیں ہے جہاں پر 60 سال پہلے تھا کچھ ردّوبدل کو تبدیلی نہیں کہا جا سکتا ۔

آج تک ہمارے ملک میں 1947 کا تعلیمی نصاب پڑھایا جا رہا ہے ۔ پھر اس پر طرہ یہ کہ سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نصاب الگ ہے اور نجی اسکولوں کا الگ اور پھر ہر نجی اسکول کا اپنا تعلیمی نصاب ہے ۔ جو وہ اپنی مرضی سے رائج کرتے ہیں ۔ گلی گلی، محلے محلے میں گھروں میں اور فلیٹس تک میں اسکول کھولے ہوئے ہیں جن کا تعلیمی معیارکسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔


آج جہاں گاؤں دیہات میں بھی علم کی افادیت کو مانا جارہا ہے لیکن افسوس ان اداروں پر جو آج کل گلی کوچوں میں کھلے ہوئے ہیں اور تعلیم کا مذاق اڑا رہے ہیں ان اداروں میں اساتذہ کی تعلیم کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ انہیں پاکٹ منی کے لئے ٹیچر کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ دورانِ تحقیقات گورنمنٹ کامپریہینسو ہائی اسکول کے استاد عاصم رضا خان کا کہنا تھا کہ ’’آج کل اساتذہ پیدائشی طور پر نہیں بلکہ پیشے کے لحاظ سے آرہے ہیں مطلب وہ خاندا نی نہیں ہیں جنہیں بچے کی نوعیت کے مطابق تدریس کا کوئی علم ہو ‘‘

حکومت کی طرف سے کمزور حکمرانی عمل درآمد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چھوٹے بڑے چھاپے خانے کھل گئے ہیں جو اپنا سلیبس تیار کر کے مارکیٹ میں متعارف کرواتے ہیں ۔ درجنوں سے زائد نجی ناشرین باقاعدگی سے خصوصی مراعات کے ساتھ انکی کتابوں کی خریداری کے لئے مالکان کو قائل کرنے کے لئے اپنے ایجنٹ بھیجتے ہیں ۔

میڈم صابرا، حیدرآباد کے نجی اسکول کی پرنسپل کا کہنا تھا کہ ’’ہم طالبعلموں کے بہتر مستقبل کو تیار کرنے کے لئے مواد کے معیار کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ سندھ ٹیکسٹ بورڈکی کتابیں عمر دراز ہو چکی ہیں جن میں وقت کی ترقی کے مدِ نظر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ نجی ناشرین کی کتابوں کا مواد بہتر دیکھ کر ہم اسکولوں میں نجی پبلیکیشنز کے نصاب کو استعمال کرتے ہیں ‘‘۔ 

حیدرآباد میں کثرت سے بکنے والی ہاؤس آف ایجوکیشنل بک کے مالک سید زاہد علی جنکی کتابیں احباب پبلیکیشن ، چللڈرن بک کلب اور بابا ایجوکیشنل بک کے نام سے گردش کرتی ہیں ، کا کہنا تھا کہ’’ ہمیں لائسنس باآسانی مل جاتا ہے ۔ اور اسکے بعد ہماری مرضی ہوتی ہے کہ جس طرح کا بھی نصاب تیار کئے جائیں بس اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کچھ غلط نا شائع کریں ۔ ہر طبقے کی پہنچ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نصاب تیار کیا جاتا ہے ۔ مہنگی انگلش میڈیم کتابیں بھی لکھتے اور پبلش کرتے ہیں اور سستی بھی ۔

نصابی معیار کے متعلق سوال پر انکا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی معیار نہیں دیکھا جاتا ۔ ہمارا پبلیکیشن ہاؤس تو رجسٹرڈ ہے جب کہ مارکیٹ میں کئی ایسے پبلیکیشن ہاؤسز کی کتابیں آپکوبک اسٹورز پر ملیں گی جو رجسٹر نہیں جن کے پاس لائسنس نہیں ۔ کیا ابھی تک وہ بند ہوئے ؟ کیا کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے ہمارے ملک میں ؟ تحقیق بطور لفظ بہت آسان معلوم ہوتا ہے ۔

جب آپ معاملات کی تہہ تک جائینگی تو پتا چلے گا کہ پورا کا پورا نظام ہی غلط سمت میں بہہ رہا ہے ۔ ہر ایک ملا ہوا ہے ۔

 پاکستان کے باقی سنگین مسائل کی طرح تعلیمی مسئلہ اور نصابی مسئلہ ہے جو دور سے دیکھا تو انڈے ابل رہے تھے پاس جا کر دیکھا تو گنجے اچھل رہے تھے پورے نظام کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ‘‘

نتیجہ 
دور حاضر میں دس مرلے کا ایک بنگلہ کرائے پر لیں ، چھ سات بے روزگاروں کو ٹیچر اور پرنسپل بھرتی کریں ۔ اسکوکل کا کوئی مشکل سا انگریزی میں نام رکھیں ۔ مبارک ہو! آپ پاکستان کے سب سے منافع بخش کاروبار اور مہنگے اسکول کے مالک بن گئے ۔ ان نجی اسکولوں میں تعلیم کا معیار بھی بہت کم ہے ان اسکولوں میں وہ اساتذہ پڑھاتے ہیں جو خود انٹر پاس ہوتے ہیں یا وہ جنہیں کہیں اور روزگار نہیں ملتا وہ یہاں آکر پڑھاتے ہیں ۔ 

بیروزگاروں کو تو روزگار مل جاتا ہے لیکن طالبعلموں کے مستقبل کو بہت نقصان پہنچتا ہے ۔ کیونکہ وہ اساتذہ جو پڑھانے کے عمل اسکے طریقہ کار سے ناواقف ہوں وہ کس طرح بچوں کے مستقبل کی یقین دہانی کروا سکتے ہیں ۔ ایسے اساتذہ جن کی اپنی کوئی نفسیاتی پلاننگ نہ ہو اور جو صرف نصاب کو رٹوانے پر منحصر ہوں جو بچوں سے مختلف تجرباتی کام نا کروانا جانتے ہوں وہ کسطرح اپنے شاگردوں کی دماغی نشونما کروانے میں مفید ثابت ہونگے ؟ 

ہمارے ملک میں تعلیم عام کرو اور اس کو بڑھاؤ نعرہ ایک خوش اخلاق اور سب سے اچھا معلوم ہوتا ہے تاکہ ہمارے ملک کا ایجوکیشن ریٹ اوپر ہوجائیگا او ر اس سر فائدہ پورے سسٹم کو ہوگا معیشت مضبوط ہوگی ۔ ملک ترقی کریگا لوگوں میں شعور آئیگا سوچ میں تبدیلی آئیگی لیکن یہ سب بلی کے خواب میں چھچھڑوں تک ہی محدود ہے ۔ کیونکہ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب نظامِ تعلیم میں تبدیلی رونما ہوگی ۔ عرصہ پرانے نصابوں میں دور کے مناسب ردّ و بدل کیجائیگی ۔

اعلٰی ، متوسط اور نیچلے طبقے کا فرق مٹایا جائیگا ۔ کیونکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں صلاحیت کا اندازہ انگریزی بولنے آنے سے کیاجاتا ہے ۔دماغوں پر لگی دھول کا یہ عالم ہے کہ زرا غور دیں تو امریکہ اور لندن میں تو چپڑاسے بھی انگریزی بولتا ہے ۔ تو کیا وہ صلاحیت کار ہے ؟ 

ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہم ہاتھوں سے کھوتے اور پیروں سے دھونڈتے ہیں ۔ دراصل ہمارے ارباب اختیاروں کی لاڈلی اولادیں تو باہر ممالکوں میں اعلی تعلیمیں حاصل کر رہی جب کہ غریب عوام کے لئے سرگاری اسکول کھولے ہوئے ہیں جو سہولتوں سے لیس ہیں۔ اب یہ ذہنی فطور ہمارے حکمرانوں کا ہی پیدا کردہ ہے جسکی خواہش میں والدین اپنے بچوں کو بھی بیرونی تعلیمی نظام والے بھاری فیسوں والے نجی اسکولوں میں داخلہ کروا دیتے ہیں اور جبکہ نیچلے طبقے کے والدین بھی اولاد کو بہتر نا سہی پر اچھا دینے کی خواہش میں پیٹ پر پٹی باندھ کر لوکل نجی اسکولوں میں داخل کروا دیتے ہیں جو انکی دسترس سے بہت دور ہوتے ہیں ۔ اسکی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ نجی اداروں میں نئے نصاب پڑھائے جاتے ہیں انگلش میڈیم سبجیکٹس جبکہ سرکاری اسکول وہی عمر دراز نصاب پڑھا رہے ہیں ۔
سمجھ سے باہر ہے کہ آخر اس حد تک علیحدہ تعلیمی نصاب اور فرق کیوں ؟ جب ملک ایک ہے ،عوام ایک ہے، حکومت ایک ہے ، پھر نظامِ تعلیم علیحدہ کیوں ہے ؟؟؟

اگر حکومت پورے ملک میں یکساں تعلیمِ نظام کردے تو ہر لوکل سرکاری سٹینڈرڈ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم در بدر ٹھوکریں کھاتے نظر نہیں آئینگے ۔ احساس کمتری کا شکار نہ ہونگے ۔اور بہؤین الاقوامی سطح پر بھی کوئی فرق نہیں کیا جائیگا ۔
رومن شاعر اووڈ نے ۱۷ عیسوی میں کہا تھا کہ ’’سالوں سے زیادہ کوئی چیز تیز نہیں چل سکتی ‘‘ لہٰذا اس تیز رفتار
دنیا کا ساتھ دینے کے لئے ہمیں اپنے ملک کی فنی تعلیمی ترقی میں ایک بڑا قدم، بلکہ چھلانگ لگانی پڑے گی کیونکہ 60 سالوں کی مسافت کھائی ہم دو چھلانگوں میں پار نہیں کر سکتے ۔ لیکن آخر میں پھر ایک اہم زمیداری حکمرانوں پر آتی ہے کہ خدارا تعلیمی نظام پر توجہ دیں ملک کے معماروں کے مستقبلوں سے نہ کھیلیں

۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔

تحقیقاتی رپورٹ

حسین بروہی  (BS-III)
سندھ  میں تعلیم کو سنگین
 بہران کا سامنا ہے Annual states of education survey report (ASER) 2013  کے مطابق سندھ میں ادہے فیسد بچے اسکولوں میں نہیں ہے سندھ میں 12 لاکھ بچے جو کہ 5 سے 16 سال کے عمر کے بیچ ہیں 6.1 لاکھہ یا 50 فیسد بچے اسکول میں نہیں ہے حکومتِ تعلیم کی رسائی کے ناکافی ہونے کی وجھہ سے تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ سندھ میں 47394 گورنمینٹ اسکول ہیں جن میں 91 فیسد تعداد پرائمری اسکولوں کا ہے 1 فیسد ہایر سیکنڈری اسکولوں کا ہے سہولیات نا ہونے کی وجھہ سے بچوں کی تعداد میں کمی پائی جاتی ہے پہلی جماعت کی کلاس میں 722931 بچے داخل کیے جاتے ہیں جو کہ چھٹی کلاس تک وہ تعداد کم ہوکر 228015 تک پائی جاتی ہے جوکہ بہت کم ہے۔ اگر ہم تشبیھہ کریں تو ملک سے دوسرے سوبوں کے اسکولوں کی حاضریوں کا تعداد 80 فیسد بنتا ہے لیکن سندھ میں بڑی مشکل سے 67 فیسد بنتا ہے جوکہ پورے ملک میں بہت کم ہے (ASER) 2013 کے سروی کے مطابق سندھ کے بچے پڑھائی میں بہت کمزور ہیں پانچوی جماعت کہ 59 فیسد بچے اردو یا سندھی زبان میں لکھا ایک خط کو بھی نہیں پڑ ھ پاتے  ہیں 75 فیسد بچوں کو انگریزی زبان کا ایک جملا بھی پڑھنا نہیں آتا 71 فیسد بچوں کو دو آسان الفاظ لکھنے میں بھی دشواری ہوتی ہے ایک نظر فاٹا کو دیکھا جائے جہاں پے لوگوں کو جنگی مسائلوں کا سمنہ کرنا پڑرہا ہوتا ہے وہاں پے سیکھنے اور سکھانے کا تعداد سندھہ سے کافی بہتر ہے سندھ کے 77 فیسد پرائیویٹ اسکولوں کی عمارتیں متمعین کردا حالت میں نہیں ایجوکیشن ڈپارٹمینٹ کے مطابق پورے ملک میں 50 فیسد ایسے اسکول ہیں جوکہ بنیادی سہولتوں سے پوری طرح محروم ہیں 4 سے 5 پرائیویٹ اسکولوں میں پینے کے پانی تک کا انتظام بھی نہیں 3 میں سے 2 ایسے اسکول بھی پائے جاتے ہیں جہاں پر بجلی کی سہولیات بھی موجود نہیں 7 پرائیویٹ اسکولوں میں مشکل میں کوئی ایک اسکول ایسا ہوتا ہے جس کی چار دیواری ہوتی ہے ہماری تعلیم کے نظام کو متاثر کرنے کا ایک عنصر اچھی تعلیم کا نا ہونا ہے بہت سے لوگوں کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر ان کے پاس بہتر تعلیم نا ہونے کی وجھہ سے وہ پوری زندگی مشکلاتوں کا سامنا کرتے ہیں جن کو دیکھ کر سماج کے لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ بچوں کو پڑہانے سےکچھ فائدا نہیں جسکی وجھہ سے باز لوگ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ کام کرنے لیجاتے ہیں اصل میں تعلیم ہی زندگی بدل دینے کا ایک راستا ہے مگر تعلیم کا اچھا معیار نا ہونے کی وجھہ سے ایسے لوگ پوری طرح سے ناکام ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ ایک بھی صفا سندھی یا انگریزی زبان میں لکھنے کی قابلیت نہیں رکھتے ۔ اور ایسے لوگوں کو پرائیویٹ اسکول میں استاد کے طور پے رکھا جاتا ہے جس کی وجھ سے وہ بچوں کو تعلیم کا اچھا معیا ر دینے میں ناکام ہوجاتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے پرائیویٹ ادارے بھی اچھی تعلیم دینے میں ناکام رہیں ہیں تعلیم کے متوازی نظام کی وجھہ سے ہماری تعلیم پر کافی برے اثرات پڑے ہیں کیوں کہ پرائیویٹ  اسکولوں میں تعلیم کا اچھا معیار نہیں ہوتا اصل میں وہاں پے تعلیم کے نام پے کاروبار چل رہا ہوتا ہے کیوں کہ وہاں غیر تجربیات لوگوں کو رکھا جاتا ہے جو چند پیسے کمانے کے خاطر بچوں کو پڑہانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور اسی وجھ سے پرائیویٹ اسکول معیاری تعلیم فراھم کرنے میں ناکم ہوچکے ہیں سندھ کے اند بہت سے ایسے گاؤں پائے جاتے ہیں جہاں پر لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے صرف ایک ہی اسکول ہوتا ہے۔ جس میں پہلی سے پانچوی جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے ایسے گاؤں میں ھاءِ اسکول اور کالیج نا ہونے کی وجھہ سے بچوں کی تعلیم ادھوری رہجاتی ہے جس طرح اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ہمارے اسکولوں کو بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا کرنا پڑہتا ہے جیسے پینے کا پانی بجلی، فرنیچر وغیرہ ۔ بہت سی طلباء اسکول میں ٹائیلیٹ نا ہونے کی وجھہ سے آنا چھور دیتی ہیں اور دوسری طرف اگر تھوڑی سہولیات موجود ہوتی ہیں تو وہاں پر والدیں اپنی بچیوں کو اسکول بیجنے کے لیے راضی نہیں ہوتے ۔ 
کجھ تجاویز اور اقدامات جو تبدیلی لانے کے لیے اٹھائی جانی چاہیے ۔
مکمن نہیں کہ معاشرے سے کرپشن کو ختم کیا جا سکے مگر تعلیمی اداروں میں تعلیم یافتہ اور تجربے کار لوگوں کو رکھہ دیا جائے تاکہ وہ جچوں کو معیاری تعلیم فرہام کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ 
دلچسپ نصاب اور پڑہانے کا انداز بھی دلچسپ ہونا چاہیے ۔
استاد بھرتی کرنے سے پہلے ایک امتحان  لازمی لینا چاہیے اور جو پاس نا کرپائے تو ایسے لوگوں کو کسی اور شعبے میں منتقل کردیا جائے ۔
امتحانوں کے دنوں میں نقل کو روکنے کیلیے سخت انتظامات ہونے چاہیے اور یے اسکول کے استاد حضرات کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو بہتر طریقے سے پڑھائیں اگر بچوں کو اچھے سے پڑہایا جائے تو ان کو شاید نقل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
امتحان کا طریقا وقت بہ وقت بدلنا چاہیے نقل کو روکنا آسان تو نہیں لیکں ایسی کوششیں ہونے کی وجھہ سے کافی حد تک کمی ہوسکتی ہے۔
ضلعے کی لیول پے ایسے آفسران بھی ہیں جو پھلی حکومت کہ دور میں رشوت کہ دم پر ڈیوٹی پہ فائز ہوئے ہیں ایسے آفسران کو واپس بیجھنا چاہیے۔ 
مادری زبان کو نصاب میں لازمی شامل کرنا چاہیے۔ 
ضلعے لیول پے اسکولوں  میں تعلیمی اور کھیلوں کے مقابلے کروائے جائیں اور جیتنے پے انعام بھی دیے جائے ۔

SMC  شعبے کو چاہیے کہ اسکولوں کے لیے ملنے والے فنڈ کا استعمال انکی مرحمت اور وہاں کی سہولیات کو مکمل کرنے کیلے کریں 

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi, at Department of Media & Communication Studies University of Sindh 

Child Sexual Abuse In Kotri

Why Kotri? 
 No primary data, all is secondary data
Quotes and attribution from area people.
Expert opinion?
 Unimpressive. 
Some figure charts, fotos,
Cases reported in media 
Medical and psychological side not covered 
What is new and unique in this story? 

Group A - Topic: Child Sexual Abuse In Kotri
1) Rameez lakho: Introduction , Brief discription of these children ,
precisely discussion on the basis of child abuse why is happening and
what is the life after this tragedy , and which kind of diseases attack on child by these activities
2) M. Amin : These type of child in kotri how are being victim of this activity,
plus the reasons behind being victim , what is their situation , why do people
sexually abuse children , What are the confusions they have about their needs,
especially why they believe they “need” to be sexual with a child?
3) Naveed Pahnwar: Child sexual abuse statistics , organizations which are affiliated
review , surveying in different perspective
4) Pawan kumar : interviewing the particular victims, their situations, reviews
of these children some case study and asking the reasons
5) Ali Aizaz : Conclude the report , opinion of the organizations of the child welfare ,
what is the result of report, and the theme of solution
-----------------------------------------------------------------------
Sub topic: Introduction , Brief description of these children, precisely discussion on
the basis of child abuse why is happening and what is the life after this tragedy ,
and which kind of diseases attack on child by these activities
Rameez 3rd year 2k14/mc/79
ڪوٽڙي ۾ بارن سان جنسي ڏاڍائي
ننڍپڻ وارو وقت ٻار جو اهم حصو هوندو آهي جنهن ۾ ماحول جون بنيادي شيون ٻار جي سوچ تي گهرو اثر وجهنديون آهن ڪي مثبتي اثر ته ڪي منفي اثر وجهن ٿيون. ننڍ پڻ واري عرصي م جيڪي واقعا ٻارڙن سان پيش اچن ٿا اهي انهن کي سڄي زندگي ياد رهن ٿا جنهن سان ٻار جي اندروني شخصيت ٺهي تيار ٿئي ٿي يا وري بگڙي پوي ٿي، ٻآر ته هر قوم جي بنياد هوندا آهن ۽ اگر اهي ننڍ پڻ ۾ نامناسب واقعن جو شڪار ٿين ٿا يا وري غلط طريقن ۾ مبتلا ٿين ٿا ته ان قوم جي بنياد تي گهرو اثر پوي ٿو.
ڳاله ڪجي سنڌ جي صنعتي ۽ واپاري شهر ڪوٽڙي جي جنهن ۾ ٻارن سان جنسي زيادتي ڪئي وڃي ٿي ان حوالي سان آئون ۽ مهنجي گروپ جي دوستن ڪوٽڙي شهر ۾ ٿيندڙ ٻارن سان جنسي ڏاڍائي تي تحقيقي رپورٽ تيار ڪئي آهي ، اهڙي قسم جا واقعا هن شهر ۾ وڌندي نظر اچي رهيا آهن ٻار جنهن جي ان زندگي جو وقت نازڪ هوندو آهي جنهن م هو خوشين جون بهارون ڏسڻ چاهيندو آهي پر هن شهر ۾ اهڙا کوڙ سارا ٻار آهن جيڪي پهنجي هن معصوم زندگي وارا مٺڙا لمحا وحشيا.ي لمحن ۾ گذاري ڇڏيندا آهن انهن جي زندگي جي بربادي جو ذميوار ڪير آهي؟ اهو هڪ معمولي سوال کڻي هجي پر جيڪي ٻار هن زيادتي جو شڪار ٿين ٿا انهن جي زندگي احساس ڪمتري م مبتلا ٿي وڃي ٿي .
تحقيق جي حوالي سان اسان کي ڪوٽڙي شهر ۾ کوڙ سارا ٻار مليا جن جي زندگي کي ڏسي ائين لڳو ته راند کيڏڻ جي عمر ۾ انهن سان اهي ڏاڍايون ٿين ته انهن تي ڪهڙو اثر پوندو؟؟ سنڌ اند کوڙ ساريون اهڙيون تنظيميون آهن جيڪي ٻارن جي فلاح لاءِ ڪم ڪري رهيو آهن انهن جي رپورٽ مطابق سنڌ اندر 1443 ٻارڙا جنسي ڏاڍائي جو شڪار ٿين ٿا جنهن ۾ 346 ڇوڪرا 397 ڇوڪريون شامل آهن . هڪ اين جي او اسپارڪ جي ٻارڙن جي فلاح لاءِ ڪم ڪري رهي آهي ان مطابق سنڌ جي تفصيل سان ڪوٽڙي شهر جي باري ۾ کوڙ سارا آهڙا واقعا مليا جن ۾ ٻارڙن سان ڳاله ٻولھ ٿي .
سنڌ اندر هڪ سماجي تنظيم سنڌ ڪميونٽي سروس جي سالياني رپورٽ موجب 2012 ۾ 600 کان وڌيڪ جنسي زيادتين جو ريشو وڌي رهيو آهي سماجي تنظيم اسپارڪ پاران جنسي زيادتين کان ٻارن کي بچائيڻ جي لاءِ قدم کڻي رهي آهي سنڌ اندراهڙا واقعا سامهون اچي رهيا، جڏهن ٻارن جي والدين سان مليا سين ته انهن واقعن جو سبب عربت کان سواءِ ڪجھ به نظر نه آيو ٻار جيڪي ٻين ٻارن کي ڏسي پهنجون به تمنائون اڀاريندا آهن ته اسان کي به اهڙيو شيون ملن جيڪي ٻين ٻارن وٽ آهن ان حوالي سان اهي لالچي ٿي ويندا آهن جنهن کان پوءِ هو انهن واقعن جو شڪار ٿي ويندا آهن سنڌ ۾ بارن جي حقن لاءِ ڪم ڪندڙ تنظيمن طوڙِ قانون لاڳو ڪندڙن کي گھرجي ته بارن سان ٿيندڙ هڪ قسم جي ظلم کي روڪڻ لاءِ سنجيدگي اختيار ڪئي وڃي .
اسپارڪ مطابق اهڙي قسم جا واقعا جيڪي ٻارن سان پيش اچن ٿا انهن ۾ ڪوٽڙي شهر رينڪ تي آهي ان حوالي سان ان اين جي او جي 2004 ۽ 2005 ۾ ڪيل تحقيق مڀابق ڪوٽڙي شهر ۾ ڇوڪرين کان وڌيڪ چوڪرا ان حادثي جو شڪار ٿين ٿا سنڌ ۾ ٻارڙن سان جنسي زيادتين جو سلسلو بدترين حد تائين پهچي ويو آهي 2012 کان اڄ تائين 2000 ٻارڙن سان جنسي ڏاڍائي جا واقعا رپورٽ ٿي چڪا آهن .
ڊاڪٽرن جي تحقيق مطابق اهڙن قسم جي واقعن سان ٻارن تي ڪيتري ئي قسم جون بيماريون حملو ڪن ٿيون جيڪي ٻار جي اندروني سرشتي کي نابود بڻائي ڇڏينديون آهن ۽ ڪي ته نفسياتي بيمارين جا شڪار ٿين ٿا جنهن ڪري انهن واقعن خلاف ڀرپور آواز اٿاريو وڃي ٻارن جي حقن جي نالي تي ڪن ڪندڙ تنظينمن کي هر وقت هوشيار ۽ ڪم ۾ رهڻ
گھرجي ۽ اهڙن ٻارن جي نشاندهي ڪرڻ سان گڏ تحفظ به فراهم ڪرڻ گھرجي
-------------------------------------------------------------------------

Sub Topic:2) These type of child in kotri how are being victim of this activity, plus the reasons behind being victim , what is their situation , why do people sexually abuse childern , What are the confusions they have about their needs, especially why they believe they “need” to be sexual with a child?


Muhammad Amin
3rd year 2k14/mc115

هوئن ته اسان جي پياري ملڪ م جنسي زيادتي جو ڪو اهڙو قانون موجود نه آهي جو هن تي قابو پائي سگهجي اگر موجود به هجي ته عمل تمام گھٽ نظر ٿو اچي، سڄي سنڌ ۾ ڪيترائي جنسي زيادتي جا ڪيس ساموهن اچن ٿا . ڪيترائي جوبدار گرفتار به ٿين ٿا پر بعد انهن کي ريهائي ملي وڃي ٿي . ائين ڪوٽڙي شهر ۾ جڏهن 10 يا 11 سالن جا ٻار راند لاءِ نڪرن ٿا ته انهن کي ماڻهو پاڻ ڏانهن مائل ڪن ٿا ، مائل ڪرڻ جا ڪيترائي طريقا آهن . ماڻهو پهنجي نفس تي قابو نه پائڻ جي ڪري ڪيترائي طريقا اختيار ڪري ٿو اسان ڪجھ ملوث ماڻهن سان ٻارن سان جنسي زيادتي جر باري ۾ انهن سان ڳالھ ٻولھ ٿي انهن جو چوڻ هو ته اسان جي پهنجي نفس تي ڪنٽرول نٿا ڪري سگهون جنهن جون ڪيتريون ئي وجوهات آهن .
اسان جڏهن جوان ٿي وڃون ٿا ته اسان جي دير سان شادي ڪرائي وڃي ٿي ۽ اسان انٽرنيٽ تي غلط شيون ڏسي ان ڏاهن متوجه ٿيون ٿا ۽ پوءِ اسان غلظ ڪم ڪرڻ تي مجبور ٿي وڃون ٿا. جنهن جي ڪري ئي اسان جي معاشري ۾ بدنام رهون ٿا. وڌيڪ ملوث جوابدرن جو چوڻ هو ته ننڍن ٻارن کي اسان ڪجهه تريقن سان ڦاسائيندا آهيون جڏهن ننڍا ٻار راند جي بهاني گهر کانن ٻاهر اچن ٿا ته اسان انهن کي پاڻ ڏانهن مويز ڏيکاري متوجه ڪيون ٿا يا وري جڏهن ڪنهن ٻار وٽ پئسا نه هوندا آهن ته اسان پئسا ڏئي ان کي ان گناه ڏانهن مائل ڪندا آهيون ۽ ڪجهه ڇوڪرن جنسي زيادتي جون تصيرون ڪڍي انهن کي ڏيکاري بليڪ ميل شڪار ڪندا آهيون.
جوبدار انهي سوالن جي جوابن کي ظاهر ڪيو ته اسان پهنجي معاشري ۾ پهنجي ٻارن کي ٻاهر نٿا ڪڍي سهون ڇو جو اسان کي خبر آهي ته اسان جي ملڪ ۾ ڪيترا .ي اهڙا ڪيس ظاهر ٿيا آهن جيڪي ننڍن معصوم بارن جا اهن ڇو ته اسان جو معاشرو انهن تي گهٽ توجه ڏئي ٿو. اسان جي ملڪ ۾ ڪيتريون ئي اين جي او آهن جيڪي ڪم ڪن ٿيون ۽ انهن ڪيتريون ئي رپورٽون ڏنيون آهن جنهن ۾ عورتو 397 ۽ ننڍا ٻار 346 بڌايا ويا آهن ته انهن سان جنسي زيادتي ٿي آهي انهن ڪيسن م ڪيترا ئي جوابدر گرفتار ٿين ٿا ۽ ڪيترن کي ئي سزائون ملن ٿيون پر جن سان جنسي زيادتي ٿي ٿي اهي خواري کان بچڻ لاءِ چپ ڪري وهي ٿا رهن يا وري غريب هوئڻ جي ڪري پهنجي زبان نه کوليندا آهن ڇاڪاڻ جو اسان جي معاشري ۾ غريب ماڻهو جو ڪير به ڪونهي سب اميرن جي حق ۾ هوندا آهن ان ۾ پولسي هجي يا ٻيا ادارا جيڪي صرف جاگيردارن لاءِ ڪم ڪندا آهن
اسان جڏهن ملوث جوبدارن کان وڌيڪ سوال ڪيا ته ان جو چوڻ هو ته، صرف ٻارن سان جنسي زيادتي ڪرڻ جا ڪيترائي سبب آهن ڇو جو ننڍا ٻار بي سمجھ هوندا آهن ۽ انهن کي راند جي ذريعي پاڻ ڏانهن مائل ڪرڻ ۾ آساني ٿي ويندي آهي ڇو جو ڇوڪرا گهر کان ٻاهر نڪرن ٿا ۽ انهن کي ڪجھ پئسا ڏئي يا ڪو بهانو ڪري آرام سان وهي سمجهائي سگهندا آهيون ۽ ڪنهن کي شق نٿو ٿي سگهي ۽ ڇوڪرين اسان کان ان جي ڪري بچنديون آهن جو هو گهر کان ٻاهر گهٽ نڪرنديو آهن صرف ننڍڙا ٻارڙا ئي آهن جيڪي گھهٽين ۾ هلندا رهن ٿا تهن ڪري صرف اهي ئي زيادتين جو شڪار ٿين ٿا.


Sub Topic :3) Child sexual abuse statistics , organizations which are affiliated review , surveying in different perspective

Naveed Ahmed Panhwar
3rdyear

2k14/mc/160

اسان زندگي جي الجهنن ۾ ايترو ته مشغول ٿي ويا آهيون جو اسان کي معاشري ۾ ٿيندڙ ظلم نظر نٿو اچي ڪوٽري شهر ۾ ٻارن سان ٿيندڙ جنسي زيادتين ۾ اضافو اچي رهيو آهي اسان ڪوٽڙي شهر ۾ ان حوالي سان تحقيق ڪئي ته خبر پئي ته ڪيترائي ٻار آهن جيڪي زندگي جون رنگين شامون گذارڻ بجاءِ خوفناڪ اونداهين کي منهن ڏيڻو پيو آهي ان حوالي سان مهنجو موضوع ڪوٽڙي شهر انهن ٻارن جو ريشو ۽ جيڪي تنظيمون ٻارن جي فلاحي لاءِ ڪم ڪري رهيون آهن انهن جو موقف ڇا آهي ۽ انهن جو ان بابت ڇا چوڻ آهي.
ڪوٽڙي شهر ۾ اهڙا واقعا پيش اچن ٿا جيڪي گڏجي سنڌ ۾ هڪ دردناڪ ريشو ٺاهين ٿاڪوٽڙي شهر ۾ واقعه منظرِ عام ته نٿا ٿين ڇا جي ڪري جو ماڻهو پهنجي ۽ پهنجي ٻارن جي بدنامي کان بچڻ لاءِ اهڙا واقع ٻڌائين نٿا ۽ نه ۽ وري ڪنهن قسم جي شڪايت درج ڪرائين ٿا. سنڌ اندر ٻارن سان جنسي زيادتين جو بد ترين حد تائين پهچي ويو آهي سنڌ ڪميونٽي سروس اين جي او جيڪا هڪ سماجي تنظيم آهي ان مطابق ڪوٽڙي جي حوالي سان سال اندر 30 سيڪڙو بار زيادتين جو شڪار ٿين ٿا وڌيڪ تحقيقي سلسلي م ڪافي اهڙا فرد جيڪي سماجي تنطيمن سان واسطو رکن ٿا انهن جي چوڻ مطابق اهڙا ٻار جيڪي جنسي زيادتين جو شڪار ٿين ٿا انهن مان 95 سيڪڙو ٻآر 8 کان 15 سال جي عمر تائين ٿين ٿا هڪ سماجي تنظيم جي سالياني رپورٽ موجب 2012 ۾ 3861 ٻآرن سان جنسي زيادتين وارا واقعا پيش آيا آهن جنهن ۾ ننڍي عمر جي ڇوڪرن سان ٿيل زيادتين جو ريشو 71 سيڪڙو هو . ڪوٽڙي ۾ ننڍي عمر جي ٻآرن سان جنسي زيادتي جو سلسلو گهٽجڻ بدران وڌي رهيو آهي اهڙن بي رحم واقعن کي روڪڻ لاءِ اڃا تائين ڪي به قدم نه کنيا ويا آهن . سماجي تنظيم ملڪ ۾ ٻارن سان ٿيندڙ جنسي زيادتين تي ڳڻتي جو اظهار ڪندي اهڙن واقعن کي روڪڻ لاءِ حڪومت کي گھر ڪئي آهي ته عملي قدم کڻي معصوم زندگين کي بچايو وڃي.
جڏهن اسان تحقيق لاءِ سروي ڪئي سين ته خبر پئي ته ڪوٽڙي شهر سنڌ جو ٻيو نمبر اهڙو شهر آهي جنهن ۾ ننڍي عمر جي ٻارن سان گهڻي حد تائين جنسي زيادتيون ٿين ٿيون ان حوالي سان ڪوٽڙي ۾ اهڙا واقعا پيش آيا آهن جنهن ۾ ٻآر کي ڦاسائي جنسي زيادتي ڪري ۽ انهن جي ويڊيو ٺاهي ويندي آهي جنهن سان هو ان کي وڌيڪ بليڪ ميل ڪري يا ته مائيٽن کان پئسا وٺندا آهن يا وري ٻارن سان وڌيڪ جنسي زيادتي ڪندا آهن ٻارن جا والدين جيڪي بدنامي کان بچڻ لاءِ پوليس کي به نه ٻڌايندا آهن نه ئي وري ڪنهن قسم جي شڪايت درج ڪرائيندا آهن اسپارڪ پارا جنسي زيادتين کان ٻارن کي بچائڻ جي لاءِ هڪ هفتي جي هلندڙ مهم جي سلسلي ۾ تازو حيدرآباد پريس ڪلب ۾ پريس ڪانفرنس ڪئي وئي انهن واقعن بابت ڪيترن ئي سماجي اڳواڻن پهنجا خيال ونڊيا ان موقعي تي سماجي تنظيم جي اڳواڻ ڪاشف بجير چيو ته ٻارن سان وڌندڙ زيادتين وارا واقعا ڳڻتي جوڳي صورتحال اختيار ڪري چڪا آهن اهڙن واقعن کي روڪڻ جا حڪومت جوڳا اپاءَ وٺي.
گذريل ڪجھ مهينين کان ٻارن سان جنسي زيادتين جا واقعا رپورٽ ٿي چڪا آهن هن چيو ته مجموعي طور تي سڄي صورتحآل کي ڏسندي سنڌ حڪومت کي گھرجي ته انهن کي تحفظ مهيا ڪري ٻآرن جي بيچيني ختم ڪئي وڃي ۽ ان سان گڏوگڏ والدين جي پريشاني پڻ ختم ٿي ويندي .
------------------------------------------------------------
SubTopic:4) interviewing the particular victims, thier situations, reviews of these children some case study and asking the reasons
Pawan
3rd year 2k14/mc117

ملڪ ۾ ٻارن سان جنسي زيادتي ۽ ڏاڍائي جي واقعن ۾ تيزي سان اضافو ٿيندي نطر اچي ٿو ، اهڙي ئي ريت ان قسم جا واقعا ميڊيا ۾ رپورٽ ٿيندي به نظر اچن ٿا. ملڪ جي چئني طرفن هن قسم جي وحشيت اهڙو ته ڪهرڀرپا ڪيو آهي جن جا ڪيترن ئي معصوم ٻارن جو حياتون ڌاءُ تي لڳل آهن ، موجودو دور مائٽن طرفان ان وحشي ڌرنڌن کان پري رهڻ لاٰءِ سختي سان هدايتون به ڏنيون وينديو آهن ، تعليمي ماهرن موجب معصوم ٻارڙن سان جنسي زيادتي جا واقعا ملڪ توڙي سنڌ ۾ تعليم جو معيار بهتر نه هجڻ جي به عڪاسي ڪري ٿو . هڪ سماجي تنظيم اسپارڪ ۽ سنڌ ڪميونٽي فائونڊيشن جي گڏيل سروي موجب ڪوٽڙي جي ڀرپاسي وارن علائقن ۾ هر سال 25 کان 30 سيڪڙو ٻارن سان جنسي زيادتي جا واقعا پيش اچن ٿا، سروي موجب اڪثر جنسي حوس جو نشانو بڻجندڙ معصوم ٻارن جو تعلق غريب ۽ پورهيت گهراڻي سان هجي ٿو ۽ انهن معصوم ٻارڙن جي عمر 7 کان 12 جي سالن وچ ۾ هوندي آهي . هن قسم جا واقعا ڪوٽڙي شهر جي ٻهراڙي وارن علائقن جهڙوڪ خدا جي بستي ، بهار ڪالوني ، مهراڻ ڪالوني ، ڀٽائي ڪالوني ، خورشيد ڪالوني ، ايسا دل ڳوٺ سميت ٻيا اهڙا علائقا آهن جتي تعليم جو معيار بهتر نه هئڻ ۽ سهولتن جي اڻاٺ سبب جنسي جا واقعا اتي رپورٽ ٿين ٿا، هن سماج جي وڏيرڪي نظام ۽ خوف جي ڪري جنسي حوس جو نشانون بڻجندڙ معصوم ٻارڙن جي والدين طرفان سندس اولاد جي مستقبل ۽ پنهنجيّ خواري ۽ خوف کان بچڻ لاءِ ان قسم جي واقعن کي رومال ۾ ويهڙي لڪائڻ جي ڪوشش ڪئي وڃي ٿي ، ته ڪٿي وري راڄوڻي ذريعي معاملي کي حل ڪرڻ جي ڪوشش ڪئي ويندي آهي ، جنسي جا زيادتي جا واقعا ٿاڻن ۾ رپورٽ ٿيڻ توڙي ڪورٽ ۾ نظر نٿا اچن، جنسي زيادتي جي نشانو بڻجندڙ ٻارن ۾ ڪجهه ٻارن جي صحت تي گهرا اثر ۽ زخم پهچن ٿا جنهن جي ڪري ان ٻارڙن کي والدين پاران اسپتالن ڏانهن منتقل ڪيو وڃي ٿو ، جتي علاج ڪندڙن ۽ ٻين ماڻهن کي خبر پوڻ کانپوءِ وارثن کي مشورو ڏنو ويندو آهي ته واقعي جو ڪيس داخل ڪرايو يا وري ان کي ميڊيا تي آڻيو وڃي. جنسي زيادتي وارن واقعن جو سندس برادري ۾ ڪٺ ٿيڻ کانپوءِ ميڊيا تائين به رسائي ٿئي ٿي. هڪ سروي موجب جنسي حوس جو نشانو ٻڻائيندڙ يا ته معصوم ٻار جو مائٽ ، علائقي جو يا وري اسڪول جا پٽيوالا ان واقعن ۾ ملوث آهن . ڪوٽڙي شهر جي خدا جي بستي واري علائقي سان تعلق رکندڙ هڪ معصوم ٻار وارثن پاران برادري جو تعلق ۽ نالو نه ظاهر ڪرڻ جي شرط تي ٻڌايو ته جون 2014 ۾ ائون علائقي جي پرائمري اسڪول ۾ پڙهڻ لاءِ ويس جتي سمورن ٻارن کي موڪل جي وقت ڇڏيو ويو اتي مونکي اسڪول جي پٽيولي پاران ويهاريو ويو جتي اسڪول جي پٽيوالي سميت سندس ٻن دوستن پاران جنسي حوس جو نشانو بڻايو ويو ۽ ٻن ڪلاڪن کان پوءِ اسڪول م ڇڏي فرار ٿي ويو جتي مون گهر اچي پنهنجي مائٽن کي اهڙي واقعي بابت ڄاڻ ڏني ، سندس والد ٻڌايو ته ان ڏينهن کان بڄڙي هي حالت تمام خراب آهي اهڙي واقعي جو ڪيس ٿاڻي تي به درج ڪرايو ويو پر ڪو به انصاف نه مليو ، ۽ ڪوٽڙي جي سول اسپتال م 7 ڏينهن مسلس علاج ڪرائڻ بعد نيٺ ماٺ ڪري ويهي رهياسين ، ڪورٽ توڙي ٿاڻن تي وڃڻ جيتري سگهه نه هئي . پر انصاف جو ڪو به آسرو نه هو ، سرڪار کي گهرجي تي ان قسم جي واقعن جي روڪٿام بابب قانون سازي ڪري جنسي زيادتي واقعن کي روڪڻ لاءِ تڪڙا قدم کنيا وڃن .

Sub topic :6) Conclude the report , opinion of the organizations of the child welfare , what is the reslut of report, and the theme of solution
Ali Aizaz
-3rd year 2k14/mc/126
سنڌ جي شهر ڪوٽڙي تجارتي مرڪز سان گڏ آبادي ۾ به اضافو ٿي رهيو آهي جتي هر قسم جا ماڻهو اچن وڃن ٿا ۽ اتان جي ريهواسين سان تعلق قائم ٿين ٿا چاهي اهي تجارتي هجن يا ٻيا ڪي پوءِ هڪ ٻئي سان ڌوکو ڪرڻ اتان جي تجارتي ماڻهن کي ڀنگ لاءِ اگوا ڪرڻ اتان جي ٻارڙن سان جنسي زيادتي جو پيش اچڻ روز جو معمول بڻيل آهي ان تمام مسئلن ما مون ۽ مهنجي ٽيم ڪوٽڙي ۾ ٿيندڙ ٻارن سان جنسي زيادتي جي باري ۾ هڪ تحقيقي رپورٽ تيار ڪئي آهي جنهن جي مطابق ڪوٽڙي شهر ۽ آس پاس جي علائقن ۾ هر روز اهڙا واقعا اسان کي نظر اچن ٿا جنهن ۾ ننڍڙا گلڙن جهڙا معصوم ۽ بي سمجھ ٻارن کي ظالم ۽ وحشي ماڻهن پهنجي حوس جو شڪار بڻائين ٿا اسان جي رپورٽ موجب ٻارن سان جنسي زيادتي کي روڪڻ لاءِ ڪوٽڙي ۾ تمام گھڻين سماجي تنظيمن جو آهم ڪردار رهيو آهي .
هڪ رپورٽ موجب حيدرآباد ۾ ڪم ڪندڙ سماجي تنظيم سپارڪ ۽ ان جي ٽيم جا ڪجھ نمائيندا ڪوٽڙي ۽ ڪوٽڙي جي آسپاس واري علائقن ۾ ڪم ڪري رهيا آهن انهن جو چوڻ آهي ته وڌيڪ ٻار گھٽ عمر ۽ بي سمجه هئڻ ڪري پئيسن جي لالچ ۾ اچي اهڙن ظالم ۽ وحشي ماڻهن جا شڪار ٿين ٿا ۽ تمام برين عادتن ۾ ايترا مشغول ٿي ويندا آهن جو انهن ڪمن کي خراب نه سمجهندا آهن پوءِ ان جي ان عادتن کي ڏسي انهن جا والدين به انهن جو ساٿ ڏيندا آهن تڏهن هي ٻارن جي فلاح لاءِ ڪم ڪندڙ تنظيمون (اين جي اوز) وارا انهن بي سهارا ٻارن کي انهن جي تمام ضرورتون پوريون ڪندا آهن
هڪ رپورٽ جي مطابق اين جي او جو چوڻ آهي ته ڪجھ ماڻهو اهڙا به هوندا آهن جيڪي ٻارن سان زبردستي جنسي زيادتيون ڪندا آهن ۽ پوءِ پهنجي روب ۽ پئسي جي ڪري انهن جي والدين جا وات بند ڪري ڇڏيندا آهن پوءِ ان جا والدين ۽ تمام فيملي جا ميمبر ۽ ماڻهو بدنامي جي ڊرپ کان اتان لڏي ويندا آهن رپورٽ موجب ڪوٽڙي ۽ آس پاس جي علائيقن ۾ 20 سيڪڙو ٻارن سان جنسي ڏاڍاين جا واقعا پيش اچن ٿا هڪ رپورٽ موجب اين جي او جو چوڻ آهي ته حڪومت کي گھرجي ته ٻارن سان جنسي زيادتي جي عبرت ناڪ سزا ڏني وڃي پر هتي گھڻي قدر اهڙا ماڻهو پئسن ۽ سياسي پهچ هجڻ ڪري جنسي زيادتي ڪرڻ باوجود سرِعام آزاد گھمن ٿا حڪومت کي گھرجي ته اهڙن ماڻهن کي به اهڙي ئي سزا ملڻ گھرجي جيڪا عام ۽ غريب ماڻهن کي ملندي آهي هڪ اين جي او جو چوڻ آهي ته وڌيڪ خاندان جنهن جي ٻارن سان جنسي زيادتي ٿيندي آهي اهي ڪنهن ڪيٻائيندا آهن ته متان معاشري ۾ اسان جي بدنامي نه ٿئي ۽ پوءِ هو نه پوليس نه ئي وري ڪنهن ٻئي اداري جي مدد وٺن ٿا جنهن جي ڪارڻ اسان ڪنهن جي خلاف ڪو ردِ عمل يا ڪا رپورٽ داخل نٿا ڪرا.ئي سگهون پر ڪجھ خاندان اهڙآ ب ه هوندا آهن جيڪي پهنجي بدنامي ۽ ماڻهن جي ڳالهين کي پاسي ڪري پاڻ سان ٿيل ظلم خلاف آواز بلند ڪن ٿا اسان انهن سان ڀرپور تعاون ڪيون ٿا ۽ هر قسم جي سڪيورٽي فراهم ڪيون ٿا رپورٽ موجب ڪجھ اهڙا ٻار موجود آهن جيڪي شوق خاطر اهڙا ڪم ڪن ٿا پوءِ اهي انيڪ بيمارين ۾ مبتلا ٿي وڃن ٿا آهڙن ٻارن جي لاءَ اسان جي هڪ تنظيم انهن کي سمجهائيندي ۽ اعلاج پڻ ڪرائيندي آهي ۽ پوءِ انهن کي صحيح ۽ بهتر رستي ڏانهن مائل ڪندي آهي.

کمہار کا کام ماضی میں


Investigation Report Part-II
     سمبل نزیر   اقصیٰ قریشی
نرمین خان


Nothing new or impressive. No proper paragraphing. Photos should have been added. 
It looks like article. In reporting always source is quoted. 

رول نمبر 13 MA Previous
کمہار کا کام ماضی میں
اقصیٰ قریشی

کمہار کا مطلب ہے مٹی کے برتن بنانے والے ۔کے برتن استعمال کرنا ہمارے نبی کی سنت ہے اور اسی طرح کمہار کا کام بھی حضور پاک کے دور سے چلتا ہوا آرہا ہے س صدیوں کی داستان میں کمہار کئی تہذیبوں کی بنیاد بھی رکھتا آیا ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پہچان کو مضبوط کرتے چلے آئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کمہار انسانی زندگی کا پہلا فنکار تھا اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ تاریخ کا پہلا تاریخ تھان بھی۔ کوئی 100سالوں سے کمہار تخلیق کی وہی منزلیں طے کرتے دکھائی دیتے تھے جو انسان کے اپنی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے ، مٹی پانی اور آگ کی تخلیق کی تھی ۔کمہار کا کام بھی چیزوں کو نئے وجود میں ڈھالنا ہوتا تھا اور اسی کام میں ڈھلتے ڈھلتے وہ اپنی ساری زندگی اسی کام میں گزار دیتے تھے ۔
کمہار لوگ بہت ذہین ہوتے تھے کہ وہ بغیر کسی کمپیوٹر ، پیچیدہ مشین اور نفیس اوزار کے ان کے صدیوں کے تجربے میں دھلے ہاتھ مٹی کے وہ خوبصورت فن پارے تخلیق کرتے تھے جو کہ مشینوں اور کمپیوٹروں پر رکھے ہاتھ بھی دم بھر کو بے جان ہوجاتے تھے کمہار بہت ہی سادہ زندگی گزارتے تھے ان کے گھر بہت کچے کچے ہوتے تھے کمہار پورے دن سخت محنت کے بعد وہ صرف چند پیسے کماتے تھے ماضی میں مٹی کے برتن کا استعمال بہت زیادہ ہوتا تھا ۔
کیونکہ ماضی میں پلاسٹک اور شیشہ کے برتن نہیں ہوتے تھے اسی لیے پہلے کے لوگوں کا رجھا ن زیادہ تر مٹی کے بنے ہوئے برتنوں پر ہوتا تھا وہ کھانے پینے کے لیے مٹی کے برتن کا استعمال کرتے تھے اور مٹی کے برتن میں بنا ہوا کھانا بہت ہی لذیذ بنتا تھا ، مٹی کے برتن بنانے کے لیے صاف مٹی کی ضرورت ہوتی تھی مٹی کے برتن اور دوسری اشیاء خالص قسم کی چکنی مٹی سے تیار کیے جاتے تھے ان میں کسی قسم کی دوسری اشیاء استعمال نہیں ہوتی تھی کمہار کے کام کرنے اور رہائش کی جگہ الگ ہوتی تھی انہوں نے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں مٹی کے کچے گھر بنا کر اپنی دنیا بسائی ۔مٹی کا برتن چھ دن میں تیار ہوتا تھا جس میں ایک دن مٹی کا برتن بنانے ، دو دن اس کو پکانے اور تین دن دھوپ میں سکھانے میں لگتے تھے مٹی کا تیار شدہ مال کو تین دن دھوپ میں سکھانے کے بعد ایک ایسے برتن میں پکایا جاتا تھا جس کا ایندھن مختلف قسم کے کچرا کنڈیوں سے جمع شدہ کچرے پر مشتمل ہوتا تھا یہ بھی صدیوں سے چلا آنے والے انکا اپنا فارمولا تھا جس میں نہ ہی بجلی خرچ ہوتی تھی نا ہی ایٹمی ایندھن کا استعمال ہوتا تھا ماضی میں تقریباََ 50فیصد عورتیں بھی یہ کام کرتی تھیں جبکہ اس دور میں تقریباََ 20فیصد عورتیں یہ کام کرتیں ہیں ۔ماضی میں کئی اقسام کے برتن بنائے جاتے تھے جس میں نادی ، گملے، گڑھے ، تندور ، مٹکے ، صراحی، غلق، گلاس، ہانڈی ، پلیٹیں ، اور مختلف قسم کی کئی اشیاء بنائی جاتی تھی ماضی میں مٹی کا کام بہت ہی سادہ ہوتا تھا اور ماضی میں مٹکے ، نادی اور صراحی کافی تعداد میں بنتے تھے کمہار پورے دن سخت محنت کے بعد صرف 200یا 300روپے کماتے تھے وہ اپنی بنائی ہوئی چیزیں شہر کی دکانوں میں بیچتے تھے ۔اور شہری اپنے خریدار کو دگنی قیمت میں دیتے تھے مٹی کا برتن پورے پاکستان اور ترقی یافتہ ممالک میں برآمد کیا جاتا تھا ۔ماضی میں کمہار اپنے بچوں کو بھی یہی کام سکھاتے تھے اسی لیے کمہار کا کام نسل در نسل چلتا آرہا ہے ۔ کمہار لوگ اپنی ذہانت کا استعمال کر کے نئی نئی اشیاء تیار کرتے تھے ان سادہ ہنرمندوں کی بنائی ہوئی یہ چیزیں آج تک دنیا بھر کے لیے باعثِ توجہ ہیں ۔ 

................................................................................................


کمہار کے کام کی اہمیت اور استعمال
اور ان کی حالت زندگی۔
تاریخ 29نومبر2016 تحریر : سمبل نزیر ، رول نمبر 61

Nothing new or impressive. No proper paragraphing. Photos should have been added. 

It looks like article. In reporting always source is quoted.

کمہار کا کام آج بھی اچھے سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔اور اس میں سے آنے والی آمدنی میں سے ان کاگذر بسر ہوتا ہے پر پھر بھی وہ اس کام سے کچھ حدتک مطمئن ہیں کیونکہ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے ۔ کمہار کا کام جہاں ہوتا ہے وہاں کچھ مزدور رکھے ہیں اور کافی جگہوں ان کے اپنے گھر کے افراد ہی اتنے ہوتے ہیں کہ آسانی سے مل جل کر ایک دوسرے کا کام میں ہاتھ بٹا دیتا ہے مزدوروں کو مزدوری دن کے حساب سے دی جاتی ہے جو کہ روز مرہ کام کے حساب سے 100ہوتی ہے پھر وہ چاہیے جتنا بھی کام کرلے جسے ایک مٹکے کی مزدوری ان کو 10روپے دی جاتی ہے اور جب آگے جاکر کہ یہ مٹکے بکتے ہیں تو 100,200تک ان کی کمائی ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آگے لوگوں تک پہنچے ہیں تو ان کی قیمت میں اور اضاضہ ہوجاتا ہے جب کے ایک گلک کی بنائی کی مزدوری صرف تین روپے ہوتی ہے اسطرح ہر دن کے حساب سے 100گلک بنتے ہیں تو اس حساب سے انہیں مزدوری دی جاتی ہے ۔جب بھٹی کے لیے لکڑی کابورادہ چاہیے ہوتا ہے تو تقریباً انہٰں 200ایک گاڑی 500روپے کی پڑتی ہے کمہاروں کی حالت زندگی زیادہ مختلف نہیں ہے عام لوگوں کی نسبت اور جو مزدور وہاں کام کرتے ہیں ان کا گذارا بہت مشکل سے ہوتا ہے ۔ ان کی محنت مزوری زیادہ ہے پر اس کا معاوضہ انہیں بہت کم ملتا ہے پر وہ اسی میں خوش ہیں کیونکہ وہ باہر جاکر کوئی کام نہیں کرنا چاہتے ہے کیونکہ بچپن سے ہی انہیں یہ کام سکھادیا جاتاہے ۔ اس کے علاوہ نہ وہ کوئی کام کرتے ہیں اورنہ ہی دلچسپی رکھتے ہیں کہ باہر جاکر وہ کوئی دوسرا کام کرے ۔ اور اگر اسی کام کے لیے جاتے بھی ہے تو انہیں بہت کم معاوضہ ملتا ہے اس کام کے حساب سے وہی کے ایک رہائشی سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ وہ پچپن سے ہی اس کام کو سر انجام دیتے آرہے ہیں پر باقیوں کی نسبت انہوںے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا اور اس مقام پر پہنچایا کہ آج وہ بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جن میں سے ان کا ایک بیٹا پولیس میں نوکری کرتا ہے اور دوسرا بیٹا فوج میں ہیں ان کی بہو سماجی کارکن ہیں اور جو اس کے تین بیٹے ہیں اور ان کے بچے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے وجہ سے اس کمہار کے کام کو زیادہ ترجیح نہیں دیتے اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے ان کا رجحان اس کام کی طرف کبھی ہوا ہی نہیں اور ان کے والدین نے کبھی بھی انہیں اس کام کو کرنے کے لیے دباؤں بھی نہیں ڈالا اور یہ کام کرتے بھی نہیں دیا جاتا انہیں کمہار کی آمدنی کا ذریعہ ہیں مٹی کے برتن بناے تک ہی ہے جسے کے نادی اس کی بناوٹ کے مزدوروں کو 30,20روپے ملتے ہیں جو کہ آگے جاکر بازاروں میں فروخت کے بعد ان کی قیمت 400,300تک ہوتی ہے ۔کمہاروں کی آبادی بلکل الگ ہوتی ہے جس میں صرف کمہار کی برادری کے لوگ رہتے ہیں کوئی بھی باہر کا بندہ وہاں نہیں رہتا سندھ میں ہی نہیں تقریباً کمہار قوم جہاں جہاں آباد ہے انسوں نے اپنی الگ ہی بستی بنائی ہوئی ہے اور وہ اپنی برادری میں ہی شادیاں کرتے ہیں صدیاں گزر گئی ہے انہیں یہ کمہار کا کام کرتے ہوئے اور انہیں اس کام سے بے انتہا لگاؤ ہوگیا ہے وہ اس کے علاوہ اور کسی کام کا سوچ ہی نہیں سکتے اور نسل در نسل سے یہی کام کرتے آرہے ہیں اور مستقبل میں بھی یہی کام کرکے اسی طرح کمہار کے نام اور کام کو زندہ رکھیں گے ۔


...........................................................................
Repetition of Aqsa. Nothing new or impressive. No proper paragraphing. Photos should have been added. 
It looks like article. In reporting always source is quoted.

 نرمین خان رول نمبر 44
 ایم اے پریوئیس
کمہار کی موجودہ صورتحال
مٹی سے بنے برتن آج کے دور میں بھی اور ماضی میں کافی مقبول اور قابل استعمال رہے ہیں اور کسی بھی دور میں مٹی سے بنے برتنوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور میڈیکل سائنس بھی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ مٹی سے بنے برتن کا استعمال انسانی صحت کے لئے بے حد مفید ہے۔ مٹی کے برتن استعمال کرنا سنت بھی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے ہمیشہ مٹی سے بنے برتنوں میں ہی کھانا پینا پسند فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی بی بی فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں بھی مٹی کے برتن ہی دئے تھے جب کہ آج کل تحفہتاًبھی یہ رواج ختم ہوچکا ہے ۔ تاریخی لحاظ سے مٹی کے برتنوں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب عقل انسانی نے شعور کی دنیا میں قدم رکھاتو کھانے پینے کے لئے مٹی کے برتنوں کا ہی استعمال شروع کیااور یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کے دور کے انسانوں کے مقابلے میں اس دور کے انسان زیادہ صحت مند ہوا کرتے تھے اور یقیناًاُن کی صحت مند زندگی کا ایک راز مٹی کے برتن کا استعمال بھی تھا موجودہ دور میں مٹی کے برتن کا استعمال تقریباً ختم ہوچکا ہے اور مٹی کے برتنوں کی جگہ پلاسٹک ، اسٹیل، سلور، پیتل ، کانچ، ماربل اور مختلف دھاتوں سے بنے برتنوں نے لے لی ہے۔ اور جب سے لوگوں نے مٹی سے بنے برتنوں کا استعمال ترک کیا ہے متعدد بیماریوں میں گھر چکے ہیں شہروں میں مٹی سے بنی اشیاء کا استعمال کھانے پینے کے لئے تو نہیں البتہ گھروں کی سجاوٹ اور تزئین و آرائیش میں ضرور ہوتا ہے اور مٹی کے برتنوں کا استعمال گاؤں اور دیہاتوں تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ شہری علاقوں میں مٹی سے بنے برتنوں کا استعمال ختم ہونے یا ترک ہونے کی وجہ سے برتن سازی کے کاروبار سے منسلک کاریگروں کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اسی وجہ سے اس کاروبار سے جڑے لوگ آہستہ آہستہ یہ کام چھوڑتے جارہے ہیں اس صورتحال میں اگر دیکھا جائے توبرتن سازی کا کام موجودہ حالات میں کافی ابتر اور تنزلی کا شکار ہے حالانکہ برتن سازی کے کام کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتالیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں انسانوں نے اپنا انداز زندگی تبدیل کرلیا ہے اور اس بدلتی صورتحال سے برتن سازی کے کاروبار سے جڑے کاریگر کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں چاہے زمانہ نے ترقی میں انداز بدل لیے ہوں پر آج بھی حیدرآباد میں چند ایک جگہوں پر یہ کام اب بھی اسی لگن اور مہارت سے ہوتا ہے ان جگہوں میں ٹنڈو یوسف (اسلام آبادحیدرآباد) اور کمہار پاڑھ سرفہرست ہیں دیکھا جائے تو برتن سازی کا کام بے حد مشکل اور مہارت طلب کام ہے اور مٹی سے بنائی جانے والی اشیاء کئی مرحلوں سے گزر کر اپنی اصل شکل اختیار کرتی ہیں۔اگر کام کرنے والوں کی مشکلات کا اندازہ لگایا جائے تو کاریگر حیدرآباد سے میرپور جاکر خود کھیتوں سے مٹی کھود کر لے کر آتے ہیں پہلے زمیندار بلامعاوضہ وہ مٹی دے دیا کرتے تھے کیونکہ کھیتی کے دوران اضافی مٹی پانی کی رکاوٹ کا سبب بنتی تھی لیکن آج کل زمینداروں نے اس مٹی کی قیمت بھی وصول کرنا شروع کردی ہے جسکی وجہ سے برتن سازی کے کام کے لیئے مٹی کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے دوسرا میرپور سے حیدرآباد مٹی لانا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ایک مٹی کا ٹرک میرپور سے حیدرآباد تک لانے کی لاگت مبلغ 3000/- روپے پڑتی ہے لہذابرتن سازی کا کام دن بدن مہنگا ہوتا جارہا ہے اسکے علاوہ سب سے اہم اور توجہ طلب مسئلہ کہ پہلے مٹی کے برتن ہاتھوں سے بنائے جاتے تھے لیکن ترقی یافتہ دور کے مطابق اب برتن سازی مشینوں کے ذریعے کی جاتی ہے مشینوں کے استعمال سے بناوٹی خوبصورتی اور رنگ و روغن میں بہتری آئی ہے پر ان کمہاروں کے لئے روزگار مسئلہ بن گیا ہے جوکہ برسوں سے برتن سازی کے کام سے وابستہ تھے اگر حکومتی سطح پر اس کام سے وابستہ لوگوں کے لئے کوشش کی جائے اور ہاتھوں سے بنائے گئے برتنوں کوگھریلو صنعت کاری یا دست کاری کی صنعت کا درجہ دے کر اسکی ترقی کی کوشش کی جائے تو ان کاریگروں کی
صورتحال میں کافی بہتری آسکتی ہے۔


....................................................................................................

Tazmeen ur report is short. Not impressive. File name not proper. Composing mistakes. 
Always write ur name in the file in ur medium 
Nothing new or impressive. No proper paragraphing. Photos should have been added. 
It looks like article. In reporting always source is quoted.
کمہا ر کے کام میں خر ید فر و خت

M.A Previos
Tazmeen

کمیا ر کے کام میں اشیاء یا سا مان تو ذیا رہ در کا ر نہیں ہو تاالبتہ محنت اور وقت کی طو الت کا کا م ہے ۔ وہ کمہا ر جو کہ دیہا تی علاقو ں میں رہتے ہیں انہیں تو اس کا م کے لئے درکا رمٹی دیہا ت کی زمین سے ہی مل جا تی ہے بنا کسی معا و ضے کے جب کے وہ کمہا ر جو شہری آبادمیں اپنا گزر بسر کر تا ہیں ان ہے چکنی مٹی یہ تو خو د کسی اور ذرئع سے منگو انی پڑ ھتی ہے مٹکہ بر تن سر اہی گملے گلدستے وغیرہ کو بنا نے میں جس سا زو سامان کی ضر ورت پڑ ھتی ہے ان میں ان کا کوئی خر چا نہیں ہو تا مٹی کو گند تا ہیں اس میں ریشہ پیدا کر نے کے لئے گد ھے کی لیت کا استعمال کر تا ہیں امومن ان کے پا س گدھا گا ڑیا ں ہو تی ہیں تو ان ہیں یہ بھی بہ آسا نی درکا ر ہو جا تی ہے چاک بنا تے ہیں جس کے گھمنا کی کی مدد سے اور ہا تھ کی انگلیو ں کے استعمال اور اپنے ہنر بر تن کو شکل دیتے ہیں اصل مہا رت اس کا م میں ہا تھ کی ہے بڑا برتن امو من یہ ایک دن میں دو بنا لیتا ہیں اور چھو ٹے جیسے گلے ،ڈھکن ،دیا پلیٹ 100کی تعداد میں بنا لیتے ہیں ۔
کو ئی بھی کمیشن ایجنٹ مخصو ص ہو جا تا ہے کہ رو ز مخصو ص تعداد میں سا مان دینا ہو تا ہے اور پھر وہ آگے شہر میں دو کا نو ں یا ٹھیو ں کو زیا دہ رقم میں فر وخت کر تا ہے اور پھر وہ اس کے دوگنی قیمت میں گا ہکو ں کو فروخت کر تے ہیں ۔
پاکستان کے تقر یباََ ہر بڑے چھو ٹے شہر میں کمہا ر پا ڑہ کا نام سے بستی آباد ہے جہا ں یہ کام کیا جا تا ہے اور پھر آگا اس کی سیل ہو تی ہے ہر بر تن کی بنا وٹ اور نزاکت کو مدہ نظر رکھتا ہو ئے محنت کی اجر ت دی جا تی ہے خو اہ اس کا استعمال اب کم ہوچکا ہے جوکہ اس کی خر ید وفرو خت ما ضی میں دیکھنا میں آیا کر تی تھی اب نہا یت ہی کم ہو کر رہا گئی ہے اتنی خریت نہیں مل پا تی جتنی محنت ہے ۔تو نئے نسلو ں کا بھی اس کام میں رجہا ن کم ہو تا جا رہا ہے یہ نسبت ما ضی کے کمہا رمو جو د ہیں کمہار پا ڑہ بھی آبادہیں لیکن کمہا ر کے ہا تھو ں کی بنا ئی ہو ئی چےئز وقت کا چلن بدلنے کے سبب کسا با زاری کا شکار ہے جس سے ثقا فتی ادارو ں کی جانب سے سر پرستی کی ضرو رت ہے تا کہ ہنر بھی زند ہ رہے اور ہنر مند بھی ۔ 

ڪنڀار ڪو ڪم

This seems to be article and hearsay, not supported thru primary and secondary data
Quotes, attributions from related people 
Opinion of experts.
Not supported by secondary data
Photos 
 No new or hidden aspect is disclosed

Investigative Report-Part I 
Rajesh, Mumtaz Jamali Group

ڪنڀار ڪو ڪم:

ڪنڀار ڪي ڪم جو طريقو:
راجيش ڪمار 78
ڪنڀار ڪو ڪم جو سڄو دارو مدار مٽي مهارت تي آهي جيتوڻيڪ هي ڪاروبار صدين کان پراڻو آهي پر حيرت جهڙي ڳالهه اها آهي ته هن جديد ٽيڪنالاجي واري دوُر ۾ به ان  ڪم جي ڪا واضع ڪا تبديلي ناهي آهي، هن ڪم ۾ عام ماڻهو جو وس ناهي هلندو، ٻين مهارتي ڪمن جيان هن ۾ به مهارتي ماڻهن جي محنت  مشتمل  هوندي آهي .جنهن ۾ ڪجهه  مرحلا شامل آهن، ڏسجي ته هي ڪم ٻين ڪمن کان ڪافي ڏکيو ۽ جلدي تيار ٿيندڙ آهي. ڪنڀار ڪي ڪم ۾ هٺين مرحلا ذير استعمال ايندا آهن.
مٽي جي چونڊ:
 سڀ کان اول سٺي ٿانون لاءِ سٺي مٽي جي چونڊ ڪبي آهي اها مٽي رنگ جي ڀوري هوندي آهي ۽ اها اڪثر ڪري شاخن، تلائون، کاڻون ۽ کڏن جي مٽي هوندي آهي جيڪا عام مٽي کان ڏسڻ ۾ مختلف هوندي آهي.
مٽي کي ڀورڻ ۽ ڇاڻن:
 اها مٽي جڏهن اڏي تي پهچندي آهي ته ڪجهه مذدور ۽ ڪاريگر ان مٽي مان سڀ ڀتر ڪُٽي ڀوري سنهي ڪندا آهن، ۽ ان کي ڪٿي ڪٿي پروڻ سان به کي ڇاڻيندا آهي،
مٽي کي پُسائڻ، ڳوهڻ ۽ ان ۾ مصالعو وجهڻ: جڏهن مٽي ڇاڻي صفا ڀور ڀور ٿيندي آهي  ته پوءِ ان ۾ پاڻي ويجهبو آهي ۽ پوءِ ان ۾ ڪُت ۽ واري ملائي وڃي ٿي ۽ ان کي اٽي وانگي ڳهبو آهي  پر پهريان ان کي لتن سان پوءِ ان کي وري هٿ سان پڻ ڳوهبو آهي ۽ ان ڳوهيل مٽي کي سٿڙين ۾ الڳ الڳ ٺاهيو ويندو آهي. 
چڪ تي چاڙهڻ:
 چڪ هڪ گول ڦيٿي وانگي هوندو آهي جنهن تي مٽي جا سٿڙ رکبا آهن ان چڪ کي هيٺيان ڪاريگر پيرن سان هلائيندو آهي ۽ جڏهن اهو چڪ ڦرڻي وانگي ڦرڻ شروع ڪندو آهي ته ڪاريگر مٿي رکيل ڳهيل مٽي جي سٿڙ کي هٿن ۽ آنڱرين جي مدد سان پنهنجي مهارت سان ان جي شڪل يا ڊزائين ٺاهيندو آهي، هر  ٿانو لاءِ مٽي جو مقدار الڳ هوندو آهي، ان دوران ڪاريگر پاڻي جو به استعمال ڪندو ويندو آهي جيئن هن کي ڊزائين ٺاهڻ ۾ آساني ٿي. 
ٿانون کي سڪائڻ:
 جڏهن ٿانو چڪ مان تيار ٿي لهندا آهن ته اتي ڪاريگر وڏي مهارت سان ان ڪچي ٿانو کي ٻاهر ڪنهن ڪشادي جڳهه تي سڪائڻ لاءِ رکندا آهن، ڇو جو اهي ڪچا ٿانو ننڍي چر پر سان پنهنجي شڪل وڃائي وهندا آهي جنهن جو نقصان ڪنڀر کي ٿيندو آهي، ۽ تقريبن اهو ٿائون سڪڻ ۾ هڪ کان مٿي ڏينهن لڳندا آهي ڇو جو انهي شئ جو دارومدار موسم جي صورتحال تي آهي. اڪثر ڪري گرمي جي موسم ۾ هڪ ڏينهن ۾ ٿانو سڪي ويندا  آهن. هڪ ڏينهن سڪائڻ بعد ان جي گهڙائي وارو مرحلو اچي ٿو هن لاءِ به الڳ ڪاريگر مختص هوندو آهي شروعاتي نموني بعد هن جي گھڙائي ڪري وري مجهي (ڪاٺ جي ٽهيل پٽي) هڻدا آهن ۽ ٻيهر هڪ ڏينهن لاءِ  سڪائيندا آهن، جيئن ٿانو سهڻو لڳي.

ٿانو کي پچائيڻ: 
مختلف ٿانو جهڙوڪ دلو، مٽ، گگهر، چاڏي، نادي، پاٽوڙو گهڙو جهڙا وڏا ٿانو هوندا آهن اهي جڏهن سڪي ويندا آهن ته انهن کي الڳ سان بٺي ۾ پچايو ويندو آهي، پر ننڍا ٿانو، جنهن ۾ ڪوپ، گلاس، ڪنورو، ڪنڊيون، ۽ ٻارن جا رانديڪا وري الڳ سان پچايا ويندا آهن ڇو جو ڳڏيل پچائڻ سان ننڍا ٿانو سڙي ڪارا ٿي ويندا آهي ۽ پوءِ اهي پنهنجي خاصيت وڃائي ويندا آهن، بٺي ۾ بوهه، ڪٽ، ۽ توتڙ وغيره استعمال ٿيندو آهي. جڏهن پچي تيار ٿيندو آهي ته  ڪاريگر ان کي بٺي مان ڪڍي ٻي هند قطار سان لڳائندو آهي ۽ واري واري هر هڪ ٿانو کي ڪپڙو هڻدا آهن جيئن اندر يا ٻاهر ڪاراڻ مٽجي سگهي ۽ اهو ٿانو لسو ٿي سگهي. ٿانو پچائڻ کان پهريان ٿانو جو رنگ ڀورو هوندو آهي پر پچائيڻ بعد ٿانو پنهنجو رنگ تبديل ڪندو آهي پر جوهي ڪاڇو ۽ اترين علائقن جي مٽي جي ٿانو پچائڻ بعد ايترو رنگ تبديل گهٽ ڪندا  آهن ۽ ميٽوڙو  رهندا آهن جڏهن ٻين سنڌ جي ٻين علائقن اڪثر ڪري ٿانو پچڻ بعد ڳاڙهو هوندا آَهن.
نتيجو:
 ڪنڀار ڪو ڪم قديمي هنر ليکيو ويندو آهي جيتوڻيڪ هن ڪم ۾ مختلف مرحلا درپيش ايندا آهن. هر مرحلي ۾ اتي الڳ ڪاريگر مختص هوندو آهي، هر مرحلي ۾ مهارت سان گڏ محنت ۽ لڳن شامل هوندي آهي.




ڪنڀرن جي حالت زندگي:
ممتاز علي جمالي: 159
ڪنڀار اصل هڪ هنر جو نالو آهي ۽ ڪافي ڪنڀرن جو اصل تعلق پنجاب سان آهي جيڪي ڪنهن نه ڪنهن طريقي سان زندگي بثر ڪرڻ لاءِ اچي هتي  سنڌ ۾ آباد ٿيا. سنڌ ۾ رهندڙ ڪنڀارن جي اڳ کان زندگي هاڻي اڃا وڌيڪ اجيرن بڻجي وئي آهي، جيترو هن جو خرچو آهي ايتري هنن جي آمدني ناهي، ڏسجي ته هن هنر ۾ مهارت جي ضرورت هوندي آهي پر ان ماهرن کي ان پورو اجرو نٿو ملي.
مزدور ۽ ڪاريگر:
هي ڪم مرحلي وار آهي هر مرحلي ۾ الڳ ڪاريگر مختص هوندو آهي جيئن مٽي ڳوڏڻ تي، چڪ هلائڻ، ۽ ٿانو بچائڻ کان وٺي هر ڪم ۾ ڪاريگر الڳ هوندو آهي.
هنن جي آمدني: اڄ جو جديد دوُر بجلي جو دوُر سڏيو ويندو آهي  پهريان جتي پاڻي ٿڌي ڪرڻ لاءِ مٽ استعمال ٿيندو هو اتي اڄ فرج ۽ برف ماڻهو استعمال ڪندا آهن، ائين ئي ٺڪر جي نادي جي جڳه تي پلاسٽيڪ جي بالٽي، ٺڪر گلاس جي جڳهه تي شيشي ۽ پلاسٽڪ استعال ٿيندو آهي انهي جي ڪري ڪنڀرن جي ٺهيل جي شين جي خريدو فروخت تقريبن ختم ٿي ويو آهي انهي جي ڪري هنن جي آمدني گهٽ ٿي وئي آهي.  ٻي طرف وڏا واپاري هنن کان گهٽ قيمت تي شيون خريد ڪري مهانگي اگهه ۾ فروخت ڪندا آهن،  سروي ۾ اها خبر پئي آهي ته هڪ مٽ جنهن جي قيمت بازار ۾ 50  رپيا آهي ته ڪاريگر کي وڃي 15 رپيا نصيب ٿيندا آهن جنهن ۾ هو مزدورن جو اجرو ڪڍي ته هن کي وڃي هڪ مٽ مان صرف 4 رپيا بچندا آهن، انهي سڄي معامري کي ڏسجي ته ڪاريگر پنهنجو پيٽ گزر ڪرڻ ۾ ئي پورا آهن، عام طور هن صنعت ۾ سڀ کان وڌيڪ فائدو دڪان دار ۽ واپاري کي ملندو آهي. اڪثر ڪري جڏهن سياري جي موسم هوندي آهي ته هن شين جي خريد و فروخت تمام گهٽجي ويندي آهي ته واپاري بازار ۾ موڙي پيدا ڪندا آهن جنهن ۾ واپاري فائدو وٺي وڏي پيماني تي شيون خريد ڪري اسٽور ڪندا آهن ۽ گرمي جي موسم ۾ انهن کي فروخت ڪندا آهن. 

هنن جي حالت زندگي:
انسان جي زندگي جيئڻ جو سڄو دارومدار ان جي ڪاروبار سان ۽ ان جي آمدني سان هوندو آهي، جيئن ڪنڀارن جو جيڪي پنهنجي پوري زندگي مٽي سان کيڏندي گزارن ٿا ۽ ماڻهن جي سک لاءِ نهائين جي گرمي ۽ سختي برداشت ڪن ٿا. هنن جي حالت زندگي لاءِ خود شاهه عبدالطيف فرمايو آهي ” سڙي سارو ڏينهن ٻاهر ٻاڦ نه نڪري“ هن مان مراد ته سڄو ڏينهن  محنت ڪرڻ باوجود ڪنهن کي شڪايت ناهن ڪندا نه ئي ڪنهن جي در وڃي فرياد ڪندا آهن، هنن جا گهر ڪکائون هوندا آهن جيڪي وڏي برسات  ۾ پاڻي به روڪي ناهن سگهندا نه ئي سياري ۾ سئ ۽ گرمي ۾ سيج جي تپش روڪي سگهن ٿا. ڪنڀر صبح جي ماني کائيندا آهن ته منجهد جي ماني قسمت تي ڇڏي ڏيندا آهن، انهي جي ڪري ڪافي ڪنڀرن اهو خانداني ڪم ڇڏي ٻيو ڪاروبار ڪرڻ شروع ڪيو آهي. ڏسجي ته اڪثر ڪري اهي ٿانو ٺاهيندڙ ڪنڀر جي اولاد به پير سنڀباليندي ئي هن ڪم سان لڳي ويندا آهن ۽ پڙهي ناهن سگهندا. سماج ۾ طبقاتي نظام جي ڪري هنن کي ماڻهن ڪم تر سمجهندا آهن انهي جي ڪري ڪافي ڪنڀر پاڻ کي ٻي ذات وارو سڏائڻ تي مجبور پڻ آهن. 
ڪنڀرن جو مستقبل:
 عام طور اهو موقف پڻ اختيار ڪيو ويندو آهي ته ڪنڀار ڪو ڪم سنڌ جي ثقافت آهي پر ڏسجي ته هنن کي هاڻي نه ثقافتي تور استعمال ڪيو ويندو آهي ۽ نه ئي وري حڪومتي ستح تي هنن جي ڪا مالي مدد ٿيندي آهي. جديد اليڪٽرانيڪ شيون اچڻ جي ڪري هنن جي شين جي خريد و فروخت تمام هاڻي گهٽجي ويو آهي. ۽ اها صورتحال رهي ته هن ڪم جو مستقبل ۽ هنن جي ڪاريگرن جو مستقبل به تباهه آهي.
نتيجو:
 ڪنڀارن جيڪي قديمي تهذيبن ۾ به هنن جا آثار ملن ٿا جنهن کي تاريخ ۾ به ڳوليو ويو آهي پر جديد اليڪٽرانيڪ دور جي ڪري هنن جي اهميت گهٽجي وئي آهي، 100 مان 95 ڪاريگر قرضائي ٿي ويا آهن ۽ ايتري قدر ڪٿي ڪٿي هنن پاڻ کي ۽ پنهنجي اولاد کي به گروي ڪري رکي ڇڏيو آهي.

Outline 
انويسٽيگيشن رپورٽ:
آئوٽ لائين.
موضوع: ڪنڀار ڪو ڪم.
1: ڪنڀار ڪو ڪم جو طريقو (تفصيلي جائزو)
2: ڪنڀار ڪو ڪم مان ٺهندڙ شين جا قسم ۽ ان جي خاصيت 
3: ڪنڀار ڪو ڪم مان ٺهندڙ شين جي خريد و فروخت 
4: ڪنڀارن ڪي ڪم مان ايندڙ آمدني ۽ ان جي حالت ءِ زندگي
5: ڪنڀار ڪي ڪم  جو ماضي 
6: ڪنڀار ڪو ڪم جو حال 
7:ڪنڀار ڪي ڪم جو مستقل 


ميمبر: ممتاز علي جمالي
راجيش ڪمار
سيدا ثناء شاهـه
سمبل
اقصيِٰ قريشي

تظمين رحمنٰ


Tuesday 29 November 2016

کوٹری میں فلٹر پلانٹ نکارہ

Composing and spelling  mistakes. A few are marked in blue.
No paragraphing for which u have been repeatedly told. 
 Do not use English words while writing in Urdu. 
When this plant was installed? It valuation? 
No quote or attribution from people, experts and officers responsible for it. Version of those people is must who are alleged for some act. 
At least name of the writer should be correctly spelled.
Photo 
It does not mention which portion is written by whom? 
Format is not proper.
 Nothing new is disclosed 
It is short and seems to be written by one person


        کوٹری میں فلٹر پلانٹ نکارہ
سجاد علی
کلاس ÎB.S iii
رول نمبر: 2k14/MC/163
نومان میر
کلاس :bs iii
رول نمبر :75

Piece:Investigation


پانی زندگی کی علامت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میںاس کی قدر کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کا تو یہ بھی کہنا ہے کی آئندا جنگیں بھی پانی پر ہو نگی پانی انسانی جسم کے لئے بنیادی ضرورت ہے اسی وجہ سے انسانی جسم کا دو فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے ایک ادمی کے جسم میں 50 سے 55 لیٹر تک پانی موجود ہوتا ہے ۔
 اور اگر بات کی جائے حکومت سندھ کی تو جو کام ان سے نہیںہو تا وہ اسے جھوٹے وعدوں کے رنگ میں ڈھال کر اپنی سُستی اور ناہلی کا مظاہرا ایک اور نئے وعدہ کی راہ دیکھا کرتی ہے ،گزشتہ 8 سال سے کوٹری کا فلٹر پلانٹ بھی اپنی لاچاری کی داستان کی مثال اپنے آپ خود ہے ۔ کوٹری پریس کلب کے چند صحافی سے اس فلٹر پلانٹ کے مطالق پوچھا گےا تو انہوں نے بتاےا کہ اس فلٹر پلانٹ کی منظوری سابق وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاھ نے کوٹری کے شہریوں کو تحفہ میں دی تھی لکن اب فلٹر پلانٹ مشینری
کا استعمال نہ ہونے کی وجہ سے یہ فلٹر پلانٹ اپنی بربادی کا منظر اپنی انکھوں سے دیکھ رہا ہے جس پر اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر سید نظیر شاھ نے 2009 میں سخت اکشن لے کر ورک اینڈ سروس کے ڈائریکٹرکو سخت اہقامات جاری کیے کہ فورن اس کی رپورٹ پیش کی جائے لکن اس کے چند دن بعد ہی ڈسی جامشورو کا تبادلہ ہو گیا اور یہ فلٹر پلانٹ غفلت کی بھیٹ چڑھ گیا، اور کوٹری کی عوم گندا پانی پی کر موت کو دعوت دینے پر مجبور ہو گئی جس سے کئی بیماریا پھیلنے لگی،مزید داکٹرز کاکہنا ہے کہ کو منہ کوٹری کی آبادی تقریبن تین لاکھ ہے جس میں ہر تبکے کی لوگ ریہائش پزیر ہےں تو جن لوگو کی امدانی اچھی ہے ان کا گزار بسر مینرل واٹر سے ہو جاتا ہے لکن جو میڈل کلاس کے لوگ اور لویر کلا س کے لوگ اس رحمت سے محروم ہےں جن کی واجہ سے اُنہیں زحمت کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے جگہ جگہ فلٹر پلانٹ کی مشینری لگائی گئی ہے تاکہ صاف پینے کے پانی کو یقینی بناےا جا سکے ۔گندے پانی ہونے کی کئی وجوہات ہےں جن میں بارش کا پانی ،ڈینیج سسٹم،ماحول کی الودگی،کوڑہ کرکٹ،واٹر لائنگ سسٹم،ان مسائل کی اصل وجوہات ہیں۔لکن حکومت ہمیشہ خاموشی کی طرح کا مظاہرا کر کے اپنے ہاتھ اُپر اُٹھا تی آئی ہے۔ گندا پانی پینے سے لاکھو بیماریاںجنم لیتی ہےں جن میں اندرونی بیماریاں اور بیرونی شامل ہے۔جن کے موضی مرض انسانی جسم میں اس طرح سے اپنے گھر بناتے ہےں جس کے بعد انسان کو اس دنےاں سے اپناگھر چھوڑنا پڑتا ہے ، اور نہلے پر دہلہ یہ ہے کہ سرکاری اسپتال میں سہولیات نہ ہونے کی واجہ سے لوگ پرئیویٹ اسپتال کا رخ کرنے پر مجبور ہے گندا پانی پینے سے ہزاروں بچوں کی زندگیاں داﺅ پر لگی ہوئی ہےں مقامی ڈاکڑرز کے متابق کوٹری روزانہ 50 سے60 بچے گندے پانی پینے کی وجہ سے بیمار ہو رہے ہےں،بچوں میں ڈائریا پیٹ کے دیگر امر اض اور جلد ی بیماریاں پھیل رہی ہےںشہریوں کا کہنا ہے کہ ہم مجبور ہےں گندا پانی پینے پر کیونکہ کے منرل واٹٹر خریدنے کی ان کی سقت نہیں ہے ۔اس پر کئی بار شہریعں کی جانب سے احتجاج کیا جا چکا ہے ۔عبرت آخبار کے رپوٹر جامشورو سے جب میں نے اصل کہانی پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ اس میں سب سے بڑی لاپرواہی t.m.cکی ہے وہ ایک سیاسی پار ٹی سپوٹر ہے اس وجہ سے وہ اس پلانٹ کے مطالق حکومت سے اور مقامی m.n.a اور m,p,aکے سامنے سب اچھا ہے کی بین بجاے جا رہا ہے۔اس مطالق پبلک ھیلتھ والے اس فلٹر پلانت کو کمپلیٹ کر چکے ہےںلکن ان سے tmcوالی چارج نہیں لے رہے ہےں ان کا یہ کہنا ہے کہ اس میں نکارہ مٹیریل استعمال ہوا ہے اس وجہ سے ہم اس میں ہاتھ نہیں ڈالے گے اب اس سارے گیم میں عوام پیس رہی ہے اور حکومت اس پر خاموش ہے۔اس کے مطالق میں نے جب خود جاکے پبلک ھیلتھ والوں سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کے اس کی بجت ایک کروڑ پچاس لاکھ ہے(کلارک) مزید اس نے نام ظاہر نہ کرنے کی صورت پر بتاےا اس پلانٹ کی دوسری بڑی وجہ ٹھیکادار کا حکومتی پارٹی کا ہونہ اور پبلک ھیلتھ کی کرپشن ہے۔دوسری جانب جب میں نے عوام سے پوچھا تو انہوں نے لاچاری کا رونہ رو کہ بتایا کہ دونوں کی ضد کے بیچ میں ہم پیس رہے ہے۔اور اس سارے معملے میں mna mpaاس وجہ سے خاموش ہے کیونکہ حکومت بھی خاموش ہے۔ اس سارے معملے میں اصل چہرے حکومت کے ہ ہےں اور زمیدار بھی حکومت ہی ہے