nvestigation Report
حیدرٓاباد کے سرکاری ہسپتالوں میں نا مناسب انتظامات
نام : محمد عمیر
رول نمبر: 42 حیدرآباد کا دماغی ہسپتال
کلاس:ایم اے(previous)
حیدرآبادکے دماغی امراض کے ہسپتال کو پاگل کھانے کے نا م سے بھی جانا جاتا ہے جس کی بنیاد1865 ء میں سر کاوسجی جہانگیر نے رکھی حیدرآباد کایہ ہسپتال اپنے طرز کا پورے ایشیاءمیں سب سے بڑا ہسپتال مانا جاتا رہا ہے یہاں پاکستان بھر سے خطرناک پاگل رکھے جاتے ہیں اور اس ہسپتال میں صرف ان مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے جو صر ف نفسیا تی مریض ہوں اس ہسپتال کے ہر مریض کی کہانی اپنی ہے اورہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ سے لے کر جھاڑوں دینے والے تک سب اپنی اپنی شہنشاہی سے کام کر رہے ہیں جبکہ کوئی پو چھنے والا نہیں ۔
ہسپتال کے سینئر ڈاکٹر دریا خان کے مطابق پاکستان میں 5% دماغی معذوری % 30 ڈپریشن اور 50 لاکھ سے زائد لوگ مختلف نشوں میں مبتلا ہیں اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔
عام طور پر نفسیا ت کے حوالے سے schizrophrenia نام کی بیماری کے کیس زیادہ پائے جار ہے ہیں اس بیماری کے لوگ اچانک غصے کا اظہار کرتے ہیں اور ایک وقت میں مختلف باتےں کرنے لگتے ہیں اور یہ بیماری زیادہ تر 14 سے 16سال کی عمر میں آتی ہے مگر یہ بیماری زیادہ تر کچھ سالوں کے بعد ظاہر ہوتی ہے۔
اس دماغی ہسپتال میںمختلف وارڈ ز ہیں جو کہ مریض کی موجودہ حالت کی مناسبت سے ویسے ہی وارڈ میں رکھا جاتا ہے جن میں) (5 A وارڈ میں سب سے خطرناک پاگلو ں کو رکھا جاتا ہے جو قتل بھی کر سکتے ہیں اور (11 A) وارڈ جو کہ نسبتاََکم پاگلوں کا وارڈ سمجھا جاتا ہے۔
وارڈز میں داخل مر یضو ں کی تعداد 300 سے زائد ہوتی ہے مردوں کے مقابلے میں یہاں عورتوں کی بہت کم تعداد ہے بچو ں کا کوئی وارڈ موجود نہیں ہسپتال کے ڈاکٹر وں کا کہنا ہے کہ ہم بچوں کا بہتر علاج ان کے ماں باپ کی زیرے نگرانی کرانا بہتر سمجھتے ہیں کیوں کہ انھیں گھر پر آسانی سے کنڑول کیا جاسکتا ہے ۔
اس ہسپتال میں روزانہ 4 سے6 مریضوں کو داخل کیا جا تا ہے جن میں( کوٹری)سے لائے جانے والوں کی تعداد سب سے زیادہ
ہے جوکہ کسی نہ کسی نشے میں مبتلا ہوتے ہیں ۔
گھریلومسائل غربت اور زیادہ تر نشہ کرنے سے دماغی امراض کی وجہ بنتے ہیں اس کے علاوہ بہت سوں کو ان کا کسی سے کیا عشق یہاں تک لے آتا ہے ۔
ایمرجنسی میں لائے جانے والے مریضوں کو نفساتی بیماری کے علاوہ خون ٹیسٹ فری میں کئے جاتے ہیں اگر کوئی دوسری بیماری جیسے ( ایڈس) وغیرہ کی بیماری سامنے آتی ہے تو مریض کو داخل نہیں کیا جاتا جس کے لیے تین دن کا وقت لگ جاتا ہے اور مریض کے ساتھ آئے لوگوں کو سردی ہو یا گرمی کھلے آسمان تلے بیٹھنابڑتا اس حوالے سے انتظامیا ں کی آنکھے بند ہیں ۔
ڈاکٹرز مریض کی دماغی حالت جاننے کے لیے Brif Psychiatric Rating Scale" " کی مدد لیتے ہیں ۔
Brif Psychiatric Rating Scale
Hostility
Suspiciousness
Hallucinatory behavior
Motor Retardation
Uncooperativeness
Unusual Thought Content
اس طرح کے تقریباََ 20 پوائینٹ ہوتے ہیں اور ان میں بھی کچھ پوائینٹ ہوتے ہیں جن کے زریعے مریض کی دماغی حالت کا اندازہ لگایاجاتا ہے مگر ڈاکٹرز پورے پوائینٹ پوچھنے کی بھی زحمت نہیں کرتے۔
ادویات فری میں دی جاتی ہیں مگر جو دوا ختم ہو جاتی ہے ڈاکٹر کو پہلے سے ہی بتا دیا جاتا ہے تاکہ وہ نہ لکھے جبکہ کہا یہ جاتا ہے کہ سب ادویات موجود اور فری میں ملتی ہیں ۔
اس ہسپتال کے اندر" © ©پاکستان پیرامیڈیکل ایسوسی ایشن حیدرآباد" او ر "امن فاونڈیشن "کے نام سےNGOs بھی کام کررہے ہیں ۔
یونین کا مطالبہ ہے کہ چھوٹے ملازمین جو کہ وارڈ ز میں خطرناک پاگلوں کو سنبھالتے ہیں اور مریض کسی بھی وقت حملہ کرسکتا ہے ان کے لیے فری ہیلتھ الاوَنسں دیا جائے جو کہ نہیں ملتا ۔
دوسری طرف ملازمین کو ملنے والا سلانہ 800بھی گزشتہ دو سالوں سے آفیسرز کی اپنی جیبوں میں جارہا ہے کوئی پوچھنے والا نہیں
اور NGOs کو اس گورنمنٹ ہسپتال میں لا کر بیٹھا دیا گیا ہے جو کہ اس ادارے اور آفیسرزکی ناکامیوں کامنہ بولتا ثبوت ہے جس کے لیے ایک بڑا احاطہ عطا کیا گیا ہے جس میں صرف 20 مریض جوکہ ٹھیک ہونے کے قریب ہوتے ہیں ان کو سنبھالا جاتا ہے
جبکہ جگہ کی کمی کی وجہ سے سر کاوسجی جہانگیر کی طرف سے بنا ئی گئی یادگار عمارت کوبھی مٹا دیا گیا ہے ۔
یونین اسٹاف کو دی جانے والی آفس کی چھت اور دیواریں بو ڑ ھیں ہو چکی ہیں کسی بھی وقت گرنے کا امکان موجود ہے ۔
حکومت پاکستان کی طرف سے کہا گیا ہے کہ فی وارڈ "Attendant" پانچ مریضوں کوسنبھالے مگر یہاں 35 مریضوں کو ایک "Attendant" سنبھال رہا ہے
ہسپتال میں بجلی غائب ہونے پر بھی جنریٹر کو بند رکھا جاتا ہے اور پیٹرول کی بچت کر کے آفیسر ز آپنی جیبیں گرما رہے ہیں ۔
ہسپتال میں پینے کے پانی کا بھی بڑامسلئہ دیکھنے میں آیا وارڈزکے Attendant" ©" پانی پینے کے لیے OPD آتے ہیں وارڈز میں صاف پانی کا انتظام موجود نہیں اور ڈاکٹر حضرات اپنے لیے پانی گھروں سے ساتھ لاتے ہیں۔
ہرسال لاکھوں روپے ہسپتال کی مینٹینس کے لیے مختص کیے جاتے ہیں مگر ایک سال سے موجودہ میڈیکل سپرنٹنڈنٹ جناب ©ناصر جلبانی کی بھی کارکردگی صفر رہی ہسپتال کے اندر کی مین سڑک جس کو 1980 ءمیں اُس وقت کے سپرنٹنڈنٹ قازی حیدر علی نے بنوایا تھا اس کے بعد کسی کو خیال نہ آیا اور انھی کے دور میںہی سب سے زیادہ وارڈ ز بنائے گئے۔
وارڈز کے واش رومز کے دروازے ٹوٹے ہوئے ہیں اور ان میںلگی پانی کی ٹونٹیاں بھی تقریباََ خراب ہیں جس کی وجہ سے سارا پانی ضائع ہو جاتا ہے انتظامیہ بے خبر ہے۔
پرانی وارڈزکا خستہ حال اور وارڈزمیں صفائی نا ہونے کے برابر ہے جبکہ ڈاکٹرزسے لے کر صفائی کرنے والے تک ہر کوئی اپنی مرضی سے آتا جاتاہے۔
ا س ہسپتال کا مریض کے لیے ایک مہانہ بورڈ بیٹھتا ہے جو کہ مریض کو ٹھیک یا ٹھیک نا کرراردینے کا جائزہ لیتا ہے۔
20 سال سے دماغی مریض عقیل جو کہ لطیف آباد نمبر "10"کا رہاشی ہے جس کے تین بیٹے اور چار بھائی ہیں پیسے کی بھی کوئی کمی نہیں
ہسپتال کا بورڈ عقیل کو دو سا ل پہلے ٹھیک کرار دے چکا تھا مگر عقیل کے گھر والے اسے رکھنے کو تیار نہیں حقیقت یہ ہے کہ عقیل کی دماغی حالت صرف 40% ٹھیک ہے اور وہ گھر میں اُلٹی سیدھی حرکتیں کرنا شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے عقیل دوبارہ ہسپتال کا مہمان بننے پر مجبور ہے اور عقیل جیسے نا جانے اورکتنے۔
ڈاکٹرزکے مطابق ہمارے ہاں جو ایک بار پاگل ہو جاتا ہے اسے ہمارا معا شرہ ہمیشہ کے لیے پاگل سمجھتا ہے جب کہ مریض کے ٹھیک ہو جانے پر بھی لوگوں کا پاگل پاگل بو لنا انھیں دو بارہ مریض بنا دیتا ہے ہمیں ان کے معطلق اچھی سوج رکھنے کی ضرورت ہے ۔
نام: احسن شکیل سول ہسپتال حیدرآباد
رول نمبر:7 کلاس:ایماے(پریویئس)
سول ہسپتال حیدرآبادسندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ٹاور مارکیٹ کے قریب واقع ہے۔سول ہسپتال لیاقت یونیورسٹی ہسپتال حیدرآباد کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔اس ہسپتال کی بنیاد 1881ءمیں رکھی گئی اُس وقت سول ہسپتال © © © بمبئی فیکلٹی آف میڈیسن سے منسلک تھا اور آج سول ہسپتال لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنس سے منسلک ہے۔
سول ہسپتال میں کہیں مریض کی آہو پکار دل کو ہلا دیتی ہے تو کہیں ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل عملہ ادم تحفظ کا شکار ہے لیکن ان تمام مسائل کو حل کرنے والے کہاں ہیںیہ کسی کو معلوم نہیں ،،
سول ہسپتال حیدرآباد میں صحت کی ادویات اور سہولیات کے فقدان کی کمی کے باعث لواحقین کی آہو پکار روز کا معمول بن چکی ہے۔لیکن اسکے باوجود انتظامیہ مسائل حل کرنے کو تیار نہیں ،
ڈاکٹرز ،عملہ اور مریضوں کی سکیورٹی کے لئے بھاری اخراجات کے باوجود آئے دن کسی ڈاکٹر یاعملے پر تشدد کے خلاف ہڑتال ہوتی ہے جو کہ مریضوں کے لئے پریشانی کا باعث بنتی ہے۔سول ہسپتال کی دن بہ دن خراب ہوتی صورت حال محکمہ صحت کے لئے ایک سوالیہ نشان ہے۔
سول ہسپتال کی لیبارٹری کی 30%مشینریز ناکارہ پڑی ہیں اور جو70%مشینیں کام کر رہی ہیں انکے غریب مریضوں سے پیسے وصول کیئے جاتے ہیں۔سول ہسپتال میں 1450بیڈ موجود ہیں ،جن میں سے 300بیڈکی حالت انتہائی خستہ اور نازک ہے۔اسی طرح ہر شعبے میں فرنیچر کی کمی اورکھڑکی دروازوں کی ٹوٹ پھوٹ کا سامنا ہے۔
سول ہسپتال کے Obs&Gynaeوارڈکی گندی اور میلی بیڈ شیٹ، جرنل وارڈ سے آتی ہوئی بدبو، جرنل سرجری وارڈ کے و اشروم میں پڑی ہوئی گندگی اور نیوکلئیروارڈ کے سامنے سیوریج کی لیکیج سے پھیلتی ہوئی بیماریاں انتظامیہ کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔انتظامیہ کی نا اہلی کی ایک اور مثال 8اکتوبر2016بروزہفتہ کو سول ہسپتال میں پیدائش کے بعد اغواءکیاجانے والا بچہ ہے اور اس جیسے ناجانے کتنے ہی بچے صرف ہسپتال انتظامیہ کی نا اہلی کی وجہ سے محفوظ نہ رہسکے۔
اس ہسپتال کے چار مین دروازے ہیںلیکن کسی بھی دروازے پر کسی بھی قسم کی کوئی چیکنگ نہیں کی جاتی جو کہ کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔تمام دروازوں پر صرف چار سے پانچ سیکیورٹی گارڈنظر آتے ہیں۔
اسی کے ساتھ ساتھ بات کرتے ہیں سول اور پرائیویٹ ہسپتال میں موازنے کی، پرائیویٹ ہسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ نرم لحجہاور وہیں دوسری طرف سول ہسپتال میں ڈاکٹرز اور عملے کا غریب مریضوں کے ساتھ غیر سنجیدہ لہجہ نظر آتا ہے جسکی ایک وجہ تو پرائیوٹ ہسپتالوں میں وصول کی جانے والی موٹی رقم ہے اور دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ سول ہسپتال میں روزانہ ہر شعبے میں تقریباََ پندرہ سو سے دو
ہزار مریض آتے ہیں لیکن ڈاکٹرز اور عملے کی تعداد میں کمی کی وجہ سے غیر سنجیدہ رویہ دیکھنے میں آتا ہے۔
شعبے حادثات میں دن کے اوقات میں بہت اچھے انتظامات کے ساتھ ساتھ مریضوں کا اچھا چیک اپ اور اچھا ٹریٹمنٹ کیا جاتا ہے لیکن وہیں رات کے اوقات میں ڈاکٹرز اور عملے کی شدید کمی دیکھنے کو ملتی ہے جسکی وجہ سے قیمتی جانیں زاےہ ہوتی ہیں۔
اب کچھ بات کرتے ہیں دیوان مُشتاق (آئی سی یو وارڈ)کی،جہاں اکثر اوقات آکسیجن نا ہونے کے باعث مریضوں کو شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔عملے کے مطابق وارڈ میں آکسیجن سلینڈر کی بھی کمی ہے۔مریضوں کا کہنا ہے کہ آئی سی یو وارڈمیں بیڈز کی قلت ہونے کے باوجود ہسپتال کے ملازمین بیڈز پر سوئے ریہتے ہیں،ڈاکٹرز عملہ اور ای سی جی عملہ موبائل پر باتیں کرتے رہتے ہیں ،رات کے اوقات میں کسی سینئر ڈاکٹرکی رہنمائی پانا بھی کسی موجزے سے کم نہیں ۔
سول ہسپتال حیدرآباد کے نامناسب انتظامات کی وجہ انتظامیہ کی شدید نا اہلی کے ساتھ ساتھ حکومت کی غفلت بھی ہے۔ حکومت کے محکمہ صحت سے مودبانہ التماس ہے کہ سول ہسپتال حیدرآباد کے تفتیشی دورے کروائے جائیں تاکہ سول ہسپتال کے بجٹ کا صیح استعمال ممکن ہو سکے اور علاج و ابتدائی سہولیات کو بہتر سے بہتر بنایا جا سکے۔
bluesoleil activation key
ReplyDeleteCrack
reimage license key 100 working