Wednesday 30 November 2016

نجی اسکولوں کا بڑھتا رجحان




تحقیقی رپورٹ : پڑھے گا، لکھے گا، روشن ہوگا پاکستان ۔۔ مگر کیسے ؟؟؟؟



ماہرہ ماجد علی
Mahira Majid : 2k14/MC/15 : 
نجی اسکولوں کی طرف بڑھتا رجحان اور انکی وجوہات

مصباح ار ردا : 2 k14/Mc/52 
: قانون (ن) امان کی صورتحال 

سائرہ ناصر ؔ : 2 k14/Mc/84:
 اشاعت خانے 

حسین بروہی : 2 k14/Mc/
:غیر تجربہ کار اساتذہ

فاطمہ جاوید کمال :2 k14/Mc/26
:غیر رجسٹرڈ سکولوں کی تعداد 



تعارف 

ماہرہ ماجد علی

ایک خیمہ جس میں ایک طرف سے چند طالبعلم بستہ اٹھائے داخل ہورہے ہیں جبکہ دوسری طرف سے چند گدھے بستہ اٹھائے بائر نکل رہے ہیں. یہ خیمہ ویب پر پاکستان کے تعلیمی نظام کو دیکھتے ہوئے بنایا گیا ایک کارٹون ہے جو کافی مشہور بھی ہورہا ہے اس خیمے کے اوپر لکھا ہے 

"PAKISTAN EDUCATION SYSTEM"
ٖٓپاکستان کو بننے ہوئے ۶۸ ؁ سال ہو چکے ہیں لیکن ہمارا تعلیمی نظام بہت خراب ہے ہمارے طالبعلم ابھی تک دد کشتیوں پر سوار ہیں جن میں سے ایک اردو اور ایک انگریزی ہے ان دو کشتیوں پر سوار ہونے کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ تو ہمارے طالب علموں کی اردو اچھی ہے اور نہ ہی انگریزی اسکول زیادہ تر گورنمنٹ کے ماتحت ہیں جہاں ڈنڈوں کے سائے تلے تعلیم دی جاتی ہے جس کی وجہ سے طلباء اسکول جانے میں گھبراتے ہیں اور طرح طرح کے بہانے کرکے چھٹی کو ترجیع دیتے ہیں بہانے بناکر چھٹی کرنے میں کامیاب ہونے کے بعد اسے ٹھنڈی اور سکون کی سانسیں بھرتے ہیں۔ جیسے کسی خوف کا بڑا سایہ ان کے سر سے ہٹا دیا گیا ہو۔

 اگر ہم پرائیویٹ اسکول کو دیکھیں تو وہاں جو طلبا میٹرک اور انٹر کے امتحان میں پاس ہوجاتے ہیں وہ اپنے ہی اسکول میں جاکر استاد بن جاتے ہیں اگر نظام تعلیم اسی طرح دن بہ دن خراب ہوتا گیا تو شاید ہی یہ ملک پاکستان کبھی ترقی کر پائیگا
کیونکہ یہ قول بہت مشہور ہے۔
طلباء کسی بھی قوم کے مستقبل کا قیمتی سرمایہ ہوتے ہیں۔

گورنمنٹ اور پرائیویٹ اسکول کی مثال ہم اس طرح دے سکتیے ہیں کہ کچھ دن قبل انٹرنیٹ پر ایک تصویر میں دکھایا جا رہا تھا دو گھروں کو ایک ساتھ دیکھایا جا رہا تھا ۔جس میں تعلیمی نظام صاف واضح ہوگیا۔ایک گھر پرائیویٹ اسکول کے استاد کا تھاجو بلکل ٹوٹا پھوٹا اور بری حالت میں تھا۔جبکہ دوسری جانب ایک گورنمنٹ اسکول کے استاد کا گھر تھا ۔جو بہت ہی عالیشان ہونے کے ساتھ ساتھ ہر سہولت سے بھرپور تھا۔
اس تصویر کو دیکھانے کا مطلب بلکل صاف ہے کہ گورنمنٹ اسکول میں استاد محنت کرنے کو ترجیع نہ دے کر صرف پیسوں پر عیش کرنے کو بڑی بات سمجھتے ہیں جبکہ اس کے برعکس پرائیویٹ اسکولوں کا نطام بلکل مختلف ہے جہاں اساتزہ محنت کر کے اپنی قابلیت کے بلبوتے پر پیسے کماتے ہیں۔یہ پاکستان کے تعلیمی نطام کی ایک چھوٹی سی جھلک ہے اگر اسی طرح پورے نطام پر غور کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ یہاں سب بڑے سے بڑا ہو یا چھوٹے چھوٹا عہدیدار صرف اپنی جیب بھاری کرکے عیش میں لگا ہے۔

ان سب کو معصوم بچوں کے مستقبل کی کوئی پرواہ نہیں ہے بچوں کے خراب ہوتے مستقبل کا زمہدار ہے کون؟ اس کا جواب اگر والدین سے لیا جائے تو وہ اساتزہ کا نام لیکر جان چھٹا لیتے ہیں اور اساتزہ سے یہ سوال کیا جائے تو وہ اپنے سربراہوں کا نام لیکر اپنا دامن صاف کر لیتا ہے اور اگر ان سربراہوں سے پوچھا جائے تو وہ سیدھا حکومت کو الزام دے کر خود کو کرپشن مافیہ سے پاک و صاف کر لیتے ہیں اپنی غلطی ماننے کو کوئی تیار ہی نہیں ہے۔۔

غیر قانونی اسکولوں کی وجوہات 249قانون اور اصول وضوابط 249کتابوں کی چھپائی کا عمل249غیر تجربہ کار اساتزہ اور غیر قانونی اسکول ؂وں کی تعداد کے بارے میں اس رپورٹ میں آگے تفصیل سے بتایا گیا ہے۔
۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔

نجی اسکولوں کی طرف بڑھتا رجحان اور انکی وجوہات


ماہرہ ماجد علی


موجودہ دور کے اس افراتفری کے ماحول میں تعلیم حاصل کرنا مشکل سے مشکل ترین ہوتا جارہا ہے۔ والدین اپنی اولاد کو بہتر سے بہتر تعلیم دینا چاہتے ہیں۔ انکی یہی کوشش ہوتی ہے کہ ہماری اولاد سب سے آگے ہو اورپڑھ لکھ کر ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے اور اس دوڑ میں والدین ہر اس اسکول کا رخ کرتے ہیں جہاں انکی اولاد کوبہتر تعلیم مل سکے ۔ آجکل کے اس ماڈرن دور میں کوئی بشر سرکاری اسکول ،ہسپتال یا دیگر سرکاری اداروں کا رخ ہی نہیں کرتا ۔

ڈاکٹر ایڈرین کی تحقیق سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ وہ گھر جن کے معاشی حالات بہتر ہیں وہ سرکاری اداروں سے دور بھاگتے ہیں اور نجی اداروں میں ہی اپنی اولاد کو پڑھانا پسند کرتے ہیں۔ اسکی اہم وجہ سرکاری اداروں کی نا اہلی بھی ہے۔نا اہلی اسطرح کہ ان اسکولوں میں تعلیم کا معیار دن بدن بدترہوتا چلا جارہا ہے اسکے علاوہ ٹیچرز آرگنائزیشنز نے بھی تعلیم کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔گھوسٹ اساتذہ کاسرکاری اسکولوں کے معیار کو گرانے میں خاصہ ہاتھ ہے۔

اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے منہ موڑے بیٹھے ہیں۔ انکی نا اہلی کی باعث عوام مہنگے نجی اداروں کی طرف رخ کرتی ہے جن میں سے بیشترغیر قانونی اور سرکاری طور پر رجسٹرڈتک نہیں ہوتے لیکن عوام کی امیدوں پر پورے اترتے ہیں۔

ان نجی اداروں یعنی اسکولوں سے اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں جہاں انکے بچوں کو کورس کی کتابوں کے ساتھ ساتھ انگریزی بھی پڑھائی جاتی ہے جو کہ موجودہ دور کی ایک اہم ضرورت بن چکی ہے۔
۲۰۰۸ کی ایسوسیشن آف ٹیچرز اینڈ لیکچرز کی ایک رپورٹ سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پرائیوٹ اسکولوں میں فیس کے مسلسل اضافے کے باوجود بھی شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ان نجی اسکولوں کی طرف جاتی ہے ۔

عام طور پر غیر قانونی اسکو ل ایسے پسماندہ علاقوں میں پائے جاتے ہیں جن پر حکومت کی خاصی توجہ نہیں ہوتی ،جہاں آبادی بغیر کسی منصوبہ بندی کے ہوتی ہے اورلوگ اپنی مدد آپ کے تحت زندگی کی مختلف سہولیات مثلاٌگھر، ہسپتال اوردو کمروں پر مشتمل اسکول وغیرہ تعمیر کرتے ہیں۔

یہ غیر قانونی اسکول زیادہ تر پرائمری ہوتے ہیں کیونکہ اسکے بعد انکی رجسٹری ضروری اور لازمی ہوجاتی ہے۔حیدرآبادکے پسماندہ علاقوں جیسے کانچ میل،لطیف آباد یونٹ نمبر ۱۲ کے پچھلے علاقے، کوٹری اور خدا کی بستی میں ایسے کئی اسکول واقع ہیں۔

ان اسکولوں کی پسماندگی کی ایک اوراہم وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت پاکستان اور ورلڈبینک مل کر ایجوکیشن اور ہیلتھ ڈپارٹمنٹ کوپرائیوٹائز کر رہے ہیں جن میں سر فہرست نارائن جگن ناتھ اسکولNarayan Jagannath School (NJV Schools) ہے۔ سندھ کے ایجوکیشن انسپکٹر جگن ناتھ ودیا مدراسی نے تعلیمی سگرمیوں میں اضافہ کیا۔ انیسویں صدی میں اس سرکاری اسکول کی بنیاد رکھی پر حکومت نے اس اسکول کو بھی این جی او کے حوالے کردیا۔
سرکاری اسکولوں کو پرائیوٹ پارٹیوں کے ساتھ ضم کرکے حکومت فائدہ اٹھانا چاہتی ہے کیونکہ پاکستانی ملازمت کے۵.۶ لاکھ میں سے تقریباٌ۲.۳ لاکھ ملازمین ایجوکیشن پر مشتمل ہیں۔
اب تک تقریباٌ۶۵۰اسکول نجکاری کی زد میں آچکے ہیں اس معاملے میں عوام نے احتجاج کئے لیکن حکومت کے سر پر جوں تک نہیں رینگی۔ جس کے نتیجے میں خمیازہ عام عوام بھگت رہی ہے

۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔
مصباح ار رودا 
قانون اصول و ضوابط
ڈائریکٹوریٹ کے ریکورڈ کے مطابق پاکستان میں 1395پرائیویٹ اسکول ہیں ان میں سے تقریبا آدھے اسکول حیدرآباد میں ہیں جس میں ۳۵۱کے قریب اسکول غیر قانونی ہیں جو اب تک رجسٹرڈ نہیں کروائے گئے۔ان اسکولوں کے رجسٹرڈ کروانے کی کیا وجوہات ہیں ۔کیونکہ ہر جگہ کرپٹ مافیہ کام کررہا ہے؟ کیونکہ اس نظام کے خلاف کوئی اقدامات نہیں ہوئے؟

پرائیویٹ اسکول کی میڈم صابرہ سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ غیر قانونی اسکولوں کا زیادہ رجحان اس لئے بھی ہوتا ہے کیونکہ ایک اسکول جو رجسٹرڈ ہے دوسرا اسکول اسی کے نام پر اپنے اسکول کے طلباء کے نام آگے دے کر ان کو بورڈ کے امتحانات دلوارہے ہیں اور وہ اسکول جو دوسرے اسکول کی مدد کررہا ہوتا ہے وہ اپنا فائدہ لے لیتا ہے اس طرح ان لوگوں کو اپنے اپنے اسکول رجسٹرڈ کروانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوتی
 میڈم صابرہ نے چیک اینڈ بیلینس کے نظام کو خراب بتاتے ہوئے کہا ہے کہ یہاں کوئی دیکھنے والا نہیں ہے جس کی وجہ سے ہر کوئی اپنی من مانی کر رہا ہے .بہت سے قانون اور قواعدوضوابط آئے ہیں لیکن ان پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا. بس قانون آتے ہیں شور مچتا ہے اور کچھ ونوں میں وہ بھی ختم ہو جاتا ہے مانو جیسے کبھی کوئی قانون پاس ہی نہ ہوا ہو . تو ایسی حالات میں ان قانون پر عمل کرنا تو بہت ہی مشکل ہے۔


صوبائی گورنمنٹ انسپیکشن ڈائریکٹوریٹ اور پرائیویٹ اسکولوں کی رجسٹریشن جنوری ۲۱۰۲ میں حیدرآباد میں قائم کی گئی اور پھر وہ آہستہ آہستہ حیدرآباد کے ۰۱ ضلعوں میں بھی پھیل گئی۔ اسکولوں میں سال میں ایک دفعہ انسپیکشن ٹیم آتی ہیں چاہے وہ گورمینٹ اسکول ہوں یا پرائیویٹ ۔اور پھر دہ آفس میں بیٹھ کر چند پیسے لے کر اور چائے بسکٹ کھا کر سمجھتے ہیں کہ ہم نے اپنے فرائض انجام دے دئییاور اٹھ کر چلے جانا پسند کرتے ہیں۔

۱۰۰۲ اور ۵۰۰۲ میں پرائیوٹ اسکول سندھ پرائیوٹ ایجوکیشنل ادارے میں تبدیل ہوگئے اور ۳۱۰۲ میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا کہ بچوں کو مفت اور ضروری تعلیم دلانا ان کا حق ہے۔ سندھ اسمبلی میں فروری میں ایک ایکٹ پاس کیا گیا کہ اگر کوئی بندہ بغیر رجسٹریشن کے کوئی اسکول چلائے گا تو اس پر پانچ لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جاہے گا اور جیل کی سزا دی جائے گی یا پھر یہ دونوں سزا بھی دی جا سکتی ہیں. لیکن اس کے بعد بھی اب تک کوئی عمل درآمد نظر نہیں آیا۔

نئے اسکولوں کو کچھ مہینے دئیے جانے ہیں رجسٹریشن کے لیے اگر وہ پھر بھی رجسٹریشن نہیں کرواتے تو ان پر جرمانہ لگتا ہے.ان غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ہے جو بھی قانون آئے ہیں ان پر عمل کتنا کیا گیا؟
گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول کے اسسٹینٹ کا کہنا تھا کہ یہ سب قانون دماغی فطور ہیں کیونکہ ان پر عمل تو کوئی کرتا نہیں ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے مطلب اگر کوئی قانون پر پابندی کرتا بھی ہے تو دوسروں کو دیکھ کر وہ بھی عمل کرنا چھوڑ دیتا ہے۔
گائیڈ کے خلاف کہتے ہوئے کہا کہ گائیڈ بند ہوجانی چاہئیں تاکہ طلباء کا رجحان نقل کی طرف سے ہٹ کر محنت کی طرف آئے۔

قانون اور قواعدوضوابط کے اصول کے لئے بہت سے ایجوکیشن اداروں پر چھاپے بھی مارے گئے لیکن ان چھاپوں کے بعد بھی ان کو کوئی سزا نہیں دی گئی۔جس کی وجہ سے ایسے لوگوں کو برائی کا حوصلہ ملا اور آگے بڑھ چڑھ کر اور غلط راستے اختیار کئے۔

مزید پاکستان کا یہی حال رہا تو قوم کو تاریکی کی طرف جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ طلبہ جو اس قوم کا قیمتی اثاثہ ہیں ان کے مستقبل کو مزاق سمجھ رکھا ہے۔

۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔
سائرہ ناصرؔ 

اشاعت خانے 

تعلیم کسی بھی قوم کے عروج اور بلندیوں کا پہلا زینہ شمار ہوتی ہے ۔ نہایت افسوس کی بات ہے کہ آج ہمارے وطن عزیز میں تعلیم سے اچھا کوئی اور بزنس نہیں ہے ۔
ہم اکثر سنتے ہیں کہ ’’علم حاصل کرو چاہے تمھیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ چین ہی کیوں جائیں اگر اپنے ملک کے نظامِ تعلیم بہتر ہوں تو لندن ، چین ، امریکہ جیسے دیگر ممالک میں جا کر تعلیم حاصل کرنے کی نوبت ہی نہ آئے مگر ہمارے یہاں تعلیم کے نام پر سیکڑوں اسکول کھول تو لئے جاتے ہیں مگر صرف پیسے کمانے کا ایک بہترین زریعہ سمجھ کر۔۔ 

ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم بہت ہی فرسودہ اور ناقص ہوگیا ہے کیونکہ ایک طویل عرصہ سے ہمارے یہاں کا نظامِ تعلیم کئی نظاموں میں تقسیم ہو چکا ہے جس کی وجہ نجی تعلیمی ادارے، لوکل نجی تعلیمی ادارے اور سرکاری تعلیمی ادارے ہیں ۔ ان سب اداروں میں الگ الگ قسم کے نصاب پڑھائے جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ان تمام اداروں میں اساتذہ کرام کی بھی الگ الگ قسم دیکھنے کو ملتی ہے ۔ اگر بات کی جائے لوکل نجی تعلیمی اداروں کی جو کہ آج کل ہر گلی محلوں میں دکھائی دیتے ہیں یہاں پر پڑھائے جانے والے نصاب بلکل ہی علیحدہ ہیں اور پڑھانے والے اساتذہ میٹرک پاس ، انٹر پاس اور سادہ گریجوئیٹ ہیں جبکہ وہ نجی تعلیمی ادارے جعوانتہائی مہنگے ہیں وہاں کا نصاب تعلیم علیحدہ ہے ۔ اور پڑھانے والے اساتذہ کرام ماسٹر، پی ایچ ڈی ، ایم فل ہیں اور سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ تو انتہائی تعلیم یافتہ ہیں مگر نصابِ تعلیم نجی اداروں سے بلکل ہی مختلف ہے 

بہت سے مسائل کے ساتھ ہمارا سب سے بڑا اور اہم مسئلہ تعلیمی نصاب کا بھی ہے ۔ جو میرے خیا ل میں اربابِ اختیار کے لئے کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے ۔ پاکستان کو آزاد ہوئے 60 سال سے زائد ہو چکے ہیں اور ہمارا ملک آج بھی وہیں ہے جہاں پر 60 سال پہلے تھا کچھ ردّوبدل کو تبدیلی نہیں کہا جا سکتا ۔

آج تک ہمارے ملک میں 1947 کا تعلیمی نصاب پڑھایا جا رہا ہے ۔ پھر اس پر طرہ یہ کہ سرکاری اسکولوں کا تعلیمی نصاب الگ ہے اور نجی اسکولوں کا الگ اور پھر ہر نجی اسکول کا اپنا تعلیمی نصاب ہے ۔ جو وہ اپنی مرضی سے رائج کرتے ہیں ۔ گلی گلی، محلے محلے میں گھروں میں اور فلیٹس تک میں اسکول کھولے ہوئے ہیں جن کا تعلیمی معیارکسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔


آج جہاں گاؤں دیہات میں بھی علم کی افادیت کو مانا جارہا ہے لیکن افسوس ان اداروں پر جو آج کل گلی کوچوں میں کھلے ہوئے ہیں اور تعلیم کا مذاق اڑا رہے ہیں ان اداروں میں اساتذہ کی تعلیم کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ انہیں پاکٹ منی کے لئے ٹیچر کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ دورانِ تحقیقات گورنمنٹ کامپریہینسو ہائی اسکول کے استاد عاصم رضا خان کا کہنا تھا کہ ’’آج کل اساتذہ پیدائشی طور پر نہیں بلکہ پیشے کے لحاظ سے آرہے ہیں مطلب وہ خاندا نی نہیں ہیں جنہیں بچے کی نوعیت کے مطابق تدریس کا کوئی علم ہو ‘‘

حکومت کی طرف سے کمزور حکمرانی عمل درآمد کا فائدہ اٹھاتے ہوئے چھوٹے بڑے چھاپے خانے کھل گئے ہیں جو اپنا سلیبس تیار کر کے مارکیٹ میں متعارف کرواتے ہیں ۔ درجنوں سے زائد نجی ناشرین باقاعدگی سے خصوصی مراعات کے ساتھ انکی کتابوں کی خریداری کے لئے مالکان کو قائل کرنے کے لئے اپنے ایجنٹ بھیجتے ہیں ۔

میڈم صابرا، حیدرآباد کے نجی اسکول کی پرنسپل کا کہنا تھا کہ ’’ہم طالبعلموں کے بہتر مستقبل کو تیار کرنے کے لئے مواد کے معیار کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ سندھ ٹیکسٹ بورڈکی کتابیں عمر دراز ہو چکی ہیں جن میں وقت کی ترقی کے مدِ نظر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ نجی ناشرین کی کتابوں کا مواد بہتر دیکھ کر ہم اسکولوں میں نجی پبلیکیشنز کے نصاب کو استعمال کرتے ہیں ‘‘۔ 

حیدرآباد میں کثرت سے بکنے والی ہاؤس آف ایجوکیشنل بک کے مالک سید زاہد علی جنکی کتابیں احباب پبلیکیشن ، چللڈرن بک کلب اور بابا ایجوکیشنل بک کے نام سے گردش کرتی ہیں ، کا کہنا تھا کہ’’ ہمیں لائسنس باآسانی مل جاتا ہے ۔ اور اسکے بعد ہماری مرضی ہوتی ہے کہ جس طرح کا بھی نصاب تیار کئے جائیں بس اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کچھ غلط نا شائع کریں ۔ ہر طبقے کی پہنچ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے نصاب تیار کیا جاتا ہے ۔ مہنگی انگلش میڈیم کتابیں بھی لکھتے اور پبلش کرتے ہیں اور سستی بھی ۔

نصابی معیار کے متعلق سوال پر انکا کہنا تھا کہ پاکستان میں کوئی معیار نہیں دیکھا جاتا ۔ ہمارا پبلیکیشن ہاؤس تو رجسٹرڈ ہے جب کہ مارکیٹ میں کئی ایسے پبلیکیشن ہاؤسز کی کتابیں آپکوبک اسٹورز پر ملیں گی جو رجسٹر نہیں جن کے پاس لائسنس نہیں ۔ کیا ابھی تک وہ بند ہوئے ؟ کیا کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے ہمارے ملک میں ؟ تحقیق بطور لفظ بہت آسان معلوم ہوتا ہے ۔

جب آپ معاملات کی تہہ تک جائینگی تو پتا چلے گا کہ پورا کا پورا نظام ہی غلط سمت میں بہہ رہا ہے ۔ ہر ایک ملا ہوا ہے ۔

 پاکستان کے باقی سنگین مسائل کی طرح تعلیمی مسئلہ اور نصابی مسئلہ ہے جو دور سے دیکھا تو انڈے ابل رہے تھے پاس جا کر دیکھا تو گنجے اچھل رہے تھے پورے نظام کا آوے کا آوا بگڑا ہوا ہے ‘‘

نتیجہ 
دور حاضر میں دس مرلے کا ایک بنگلہ کرائے پر لیں ، چھ سات بے روزگاروں کو ٹیچر اور پرنسپل بھرتی کریں ۔ اسکوکل کا کوئی مشکل سا انگریزی میں نام رکھیں ۔ مبارک ہو! آپ پاکستان کے سب سے منافع بخش کاروبار اور مہنگے اسکول کے مالک بن گئے ۔ ان نجی اسکولوں میں تعلیم کا معیار بھی بہت کم ہے ان اسکولوں میں وہ اساتذہ پڑھاتے ہیں جو خود انٹر پاس ہوتے ہیں یا وہ جنہیں کہیں اور روزگار نہیں ملتا وہ یہاں آکر پڑھاتے ہیں ۔ 

بیروزگاروں کو تو روزگار مل جاتا ہے لیکن طالبعلموں کے مستقبل کو بہت نقصان پہنچتا ہے ۔ کیونکہ وہ اساتذہ جو پڑھانے کے عمل اسکے طریقہ کار سے ناواقف ہوں وہ کس طرح بچوں کے مستقبل کی یقین دہانی کروا سکتے ہیں ۔ ایسے اساتذہ جن کی اپنی کوئی نفسیاتی پلاننگ نہ ہو اور جو صرف نصاب کو رٹوانے پر منحصر ہوں جو بچوں سے مختلف تجرباتی کام نا کروانا جانتے ہوں وہ کسطرح اپنے شاگردوں کی دماغی نشونما کروانے میں مفید ثابت ہونگے ؟ 

ہمارے ملک میں تعلیم عام کرو اور اس کو بڑھاؤ نعرہ ایک خوش اخلاق اور سب سے اچھا معلوم ہوتا ہے تاکہ ہمارے ملک کا ایجوکیشن ریٹ اوپر ہوجائیگا او ر اس سر فائدہ پورے سسٹم کو ہوگا معیشت مضبوط ہوگی ۔ ملک ترقی کریگا لوگوں میں شعور آئیگا سوچ میں تبدیلی آئیگی لیکن یہ سب بلی کے خواب میں چھچھڑوں تک ہی محدود ہے ۔ کیونکہ یہ سب تب ہی ممکن ہے جب نظامِ تعلیم میں تبدیلی رونما ہوگی ۔ عرصہ پرانے نصابوں میں دور کے مناسب ردّ و بدل کیجائیگی ۔

اعلٰی ، متوسط اور نیچلے طبقے کا فرق مٹایا جائیگا ۔ کیونکہ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جہاں صلاحیت کا اندازہ انگریزی بولنے آنے سے کیاجاتا ہے ۔دماغوں پر لگی دھول کا یہ عالم ہے کہ زرا غور دیں تو امریکہ اور لندن میں تو چپڑاسے بھی انگریزی بولتا ہے ۔ تو کیا وہ صلاحیت کار ہے ؟ 

ہماری قوم کا المیہ ہے کہ ہم ہاتھوں سے کھوتے اور پیروں سے دھونڈتے ہیں ۔ دراصل ہمارے ارباب اختیاروں کی لاڈلی اولادیں تو باہر ممالکوں میں اعلی تعلیمیں حاصل کر رہی جب کہ غریب عوام کے لئے سرگاری اسکول کھولے ہوئے ہیں جو سہولتوں سے لیس ہیں۔ اب یہ ذہنی فطور ہمارے حکمرانوں کا ہی پیدا کردہ ہے جسکی خواہش میں والدین اپنے بچوں کو بھی بیرونی تعلیمی نظام والے بھاری فیسوں والے نجی اسکولوں میں داخلہ کروا دیتے ہیں اور جبکہ نیچلے طبقے کے والدین بھی اولاد کو بہتر نا سہی پر اچھا دینے کی خواہش میں پیٹ پر پٹی باندھ کر لوکل نجی اسکولوں میں داخل کروا دیتے ہیں جو انکی دسترس سے بہت دور ہوتے ہیں ۔ اسکی بڑی اہم وجہ یہ ہے کہ نجی اداروں میں نئے نصاب پڑھائے جاتے ہیں انگلش میڈیم سبجیکٹس جبکہ سرکاری اسکول وہی عمر دراز نصاب پڑھا رہے ہیں ۔
سمجھ سے باہر ہے کہ آخر اس حد تک علیحدہ تعلیمی نصاب اور فرق کیوں ؟ جب ملک ایک ہے ،عوام ایک ہے، حکومت ایک ہے ، پھر نظامِ تعلیم علیحدہ کیوں ہے ؟؟؟

اگر حکومت پورے ملک میں یکساں تعلیمِ نظام کردے تو ہر لوکل سرکاری سٹینڈرڈ اداروں میں تعلیم حاصل کرنے والے طالبعلم در بدر ٹھوکریں کھاتے نظر نہیں آئینگے ۔ احساس کمتری کا شکار نہ ہونگے ۔اور بہؤین الاقوامی سطح پر بھی کوئی فرق نہیں کیا جائیگا ۔
رومن شاعر اووڈ نے ۱۷ عیسوی میں کہا تھا کہ ’’سالوں سے زیادہ کوئی چیز تیز نہیں چل سکتی ‘‘ لہٰذا اس تیز رفتار
دنیا کا ساتھ دینے کے لئے ہمیں اپنے ملک کی فنی تعلیمی ترقی میں ایک بڑا قدم، بلکہ چھلانگ لگانی پڑے گی کیونکہ 60 سالوں کی مسافت کھائی ہم دو چھلانگوں میں پار نہیں کر سکتے ۔ لیکن آخر میں پھر ایک اہم زمیداری حکمرانوں پر آتی ہے کہ خدارا تعلیمی نظام پر توجہ دیں ملک کے معماروں کے مستقبلوں سے نہ کھیلیں

۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔   ۔۔۔  ۔۔۔  ۔۔۔ ۔۔۔  ۔۔۔   ۔۔۔۔

تحقیقاتی رپورٹ

حسین بروہی  (BS-III)
سندھ  میں تعلیم کو سنگین
 بہران کا سامنا ہے Annual states of education survey report (ASER) 2013  کے مطابق سندھ میں ادہے فیسد بچے اسکولوں میں نہیں ہے سندھ میں 12 لاکھ بچے جو کہ 5 سے 16 سال کے عمر کے بیچ ہیں 6.1 لاکھہ یا 50 فیسد بچے اسکول میں نہیں ہے حکومتِ تعلیم کی رسائی کے ناکافی ہونے کی وجھہ سے تعلیمی ادارے بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔ سندھ میں 47394 گورنمینٹ اسکول ہیں جن میں 91 فیسد تعداد پرائمری اسکولوں کا ہے 1 فیسد ہایر سیکنڈری اسکولوں کا ہے سہولیات نا ہونے کی وجھہ سے بچوں کی تعداد میں کمی پائی جاتی ہے پہلی جماعت کی کلاس میں 722931 بچے داخل کیے جاتے ہیں جو کہ چھٹی کلاس تک وہ تعداد کم ہوکر 228015 تک پائی جاتی ہے جوکہ بہت کم ہے۔ اگر ہم تشبیھہ کریں تو ملک سے دوسرے سوبوں کے اسکولوں کی حاضریوں کا تعداد 80 فیسد بنتا ہے لیکن سندھ میں بڑی مشکل سے 67 فیسد بنتا ہے جوکہ پورے ملک میں بہت کم ہے (ASER) 2013 کے سروی کے مطابق سندھ کے بچے پڑھائی میں بہت کمزور ہیں پانچوی جماعت کہ 59 فیسد بچے اردو یا سندھی زبان میں لکھا ایک خط کو بھی نہیں پڑ ھ پاتے  ہیں 75 فیسد بچوں کو انگریزی زبان کا ایک جملا بھی پڑھنا نہیں آتا 71 فیسد بچوں کو دو آسان الفاظ لکھنے میں بھی دشواری ہوتی ہے ایک نظر فاٹا کو دیکھا جائے جہاں پے لوگوں کو جنگی مسائلوں کا سمنہ کرنا پڑرہا ہوتا ہے وہاں پے سیکھنے اور سکھانے کا تعداد سندھہ سے کافی بہتر ہے سندھ کے 77 فیسد پرائیویٹ اسکولوں کی عمارتیں متمعین کردا حالت میں نہیں ایجوکیشن ڈپارٹمینٹ کے مطابق پورے ملک میں 50 فیسد ایسے اسکول ہیں جوکہ بنیادی سہولتوں سے پوری طرح محروم ہیں 4 سے 5 پرائیویٹ اسکولوں میں پینے کے پانی تک کا انتظام بھی نہیں 3 میں سے 2 ایسے اسکول بھی پائے جاتے ہیں جہاں پر بجلی کی سہولیات بھی موجود نہیں 7 پرائیویٹ اسکولوں میں مشکل میں کوئی ایک اسکول ایسا ہوتا ہے جس کی چار دیواری ہوتی ہے ہماری تعلیم کے نظام کو متاثر کرنے کا ایک عنصر اچھی تعلیم کا نا ہونا ہے بہت سے لوگوں کے پاس ڈگریاں تو ہیں مگر ان کے پاس بہتر تعلیم نا ہونے کی وجھہ سے وہ پوری زندگی مشکلاتوں کا سامنا کرتے ہیں جن کو دیکھ کر سماج کے لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہوتی ہے کہ بچوں کو پڑہانے سےکچھ فائدا نہیں جسکی وجھہ سے باز لوگ اپنے بچوں کو اپنے ساتھ کام کرنے لیجاتے ہیں اصل میں تعلیم ہی زندگی بدل دینے کا ایک راستا ہے مگر تعلیم کا اچھا معیار نا ہونے کی وجھہ سے ایسے لوگ پوری طرح سے ناکام ہوجاتے ہیں کیوں کہ وہ ایک بھی صفا سندھی یا انگریزی زبان میں لکھنے کی قابلیت نہیں رکھتے ۔ اور ایسے لوگوں کو پرائیویٹ اسکول میں استاد کے طور پے رکھا جاتا ہے جس کی وجھ سے وہ بچوں کو تعلیم کا اچھا معیا ر دینے میں ناکام ہوجاتے ہیں بدقسمتی سے ہمارے پرائیویٹ ادارے بھی اچھی تعلیم دینے میں ناکام رہیں ہیں تعلیم کے متوازی نظام کی وجھہ سے ہماری تعلیم پر کافی برے اثرات پڑے ہیں کیوں کہ پرائیویٹ  اسکولوں میں تعلیم کا اچھا معیار نہیں ہوتا اصل میں وہاں پے تعلیم کے نام پے کاروبار چل رہا ہوتا ہے کیوں کہ وہاں غیر تجربیات لوگوں کو رکھا جاتا ہے جو چند پیسے کمانے کے خاطر بچوں کو پڑہانے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں اور اسی وجھ سے پرائیویٹ اسکول معیاری تعلیم فراھم کرنے میں ناکم ہوچکے ہیں سندھ کے اند بہت سے ایسے گاؤں پائے جاتے ہیں جہاں پر لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے صرف ایک ہی اسکول ہوتا ہے۔ جس میں پہلی سے پانچوی جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے ایسے گاؤں میں ھاءِ اسکول اور کالیج نا ہونے کی وجھہ سے بچوں کی تعلیم ادھوری رہجاتی ہے جس طرح اوپر بیان کیا گیا ہے کہ ہمارے اسکولوں کو بنیادی سہولیات کی کمی کا سامنا کرنا پڑہتا ہے جیسے پینے کا پانی بجلی، فرنیچر وغیرہ ۔ بہت سی طلباء اسکول میں ٹائیلیٹ نا ہونے کی وجھہ سے آنا چھور دیتی ہیں اور دوسری طرف اگر تھوڑی سہولیات موجود ہوتی ہیں تو وہاں پر والدیں اپنی بچیوں کو اسکول بیجنے کے لیے راضی نہیں ہوتے ۔ 
کجھ تجاویز اور اقدامات جو تبدیلی لانے کے لیے اٹھائی جانی چاہیے ۔
مکمن نہیں کہ معاشرے سے کرپشن کو ختم کیا جا سکے مگر تعلیمی اداروں میں تعلیم یافتہ اور تجربے کار لوگوں کو رکھہ دیا جائے تاکہ وہ جچوں کو معیاری تعلیم فرہام کرنے کی قابلیت رکھتے ہوں۔ 
دلچسپ نصاب اور پڑہانے کا انداز بھی دلچسپ ہونا چاہیے ۔
استاد بھرتی کرنے سے پہلے ایک امتحان  لازمی لینا چاہیے اور جو پاس نا کرپائے تو ایسے لوگوں کو کسی اور شعبے میں منتقل کردیا جائے ۔
امتحانوں کے دنوں میں نقل کو روکنے کیلیے سخت انتظامات ہونے چاہیے اور یے اسکول کے استاد حضرات کا فرض ہے کہ وہ بچوں کو بہتر طریقے سے پڑھائیں اگر بچوں کو اچھے سے پڑہایا جائے تو ان کو شاید نقل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
امتحان کا طریقا وقت بہ وقت بدلنا چاہیے نقل کو روکنا آسان تو نہیں لیکں ایسی کوششیں ہونے کی وجھہ سے کافی حد تک کمی ہوسکتی ہے۔
ضلعے کی لیول پے ایسے آفسران بھی ہیں جو پھلی حکومت کہ دور میں رشوت کہ دم پر ڈیوٹی پہ فائز ہوئے ہیں ایسے آفسران کو واپس بیجھنا چاہیے۔ 
مادری زبان کو نصاب میں لازمی شامل کرنا چاہیے۔ 
ضلعے لیول پے اسکولوں  میں تعلیمی اور کھیلوں کے مقابلے کروائے جائیں اور جیتنے پے انعام بھی دیے جائے ۔

SMC  شعبے کو چاہیے کہ اسکولوں کے لیے ملنے والے فنڈ کا استعمال انکی مرحمت اور وہاں کی سہولیات کو مکمل کرنے کیلے کریں 

Practical work carried under supervision of Sir Sohail Sangi, at Department of Media & Communication Studies University of Sindh 

No comments:

Post a Comment