Some figures facts needed.
Attribution and quotes from related people, even from anti-encroachment and Building control Authority officials.
This is not reporting, reporting needs supporting sources, secondary data, without that, its article or personal impressions etc
حیدرآبا د میں غیر قانونی تعمیرات
تعارف
ایک طرف شہر حیدرآباد میں جہاں دن بہ دن آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے تو دوسری طرف سرکاری ادارے مزید غفلت کا شکار ہوتے جارہے ہیں، اگر شہر بھر میں نظر دوڑائی جائے تو شاید ہی کوئی جگہ دیکھنے میں آئے جہاں غیر قانونی تعمیرات نہ کی گئی ہوں۔کہیں غیر قانونی طور پر گھر بنائے جارہے ہیں تو کہیں دکانیں اور اس سے بھی زیادہ تو یہ کہ غیر قانونی طور پر سرکاری زمینوں پر قبضہ کیا جارہا ہے۔
اب اگر بات ان مسائل سے نپٹنے کے لئے سرکاری اداروں کی جائے توہر سال ملنے والے لاکھوں روپے کے فنڈز اور موجودہ مشینری کے باوجود کوئی خاطر خواہ اقدامات ہوتے نہیں دکھائی دے رہے، اگر ماضی میں نظر ڈالی جائے تو 90 کی دہائی میں 2بارکاروائی کی گئی مگر وہ کاروائی دونوں بار عارضی ثابت ہوئی اور کوئی خاص اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے ان کاروائیوں پرمستقل عمل پیرہ نہیں کیا جا سکا۔
آج تقریباً16سال بعد اینٹی اینکروچمنٹ کے ادارے کی جانب سے ان کاروائیوں کا آغاز دوبارہ کیا گیا اور شہر بھر میں غیر قانونی تجاوز کے خلاف کریک ڈاﺅن شروع کیا گیاہے۔ اس کے علاوہ تا حال بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی کوئی کاروائی ماضی میں نظر نہیں آتی اور جس کا جیسے دل چاہتا ہے ویسے عمارات کو تعمیر کر سکتا ہے حالانکہ جب بھی کسی عمارت کی تعمیرات کا عمل شروع کیا جاتا ہے تو اس کی کھدائی کے عمل کے دوران سرکاری افسران کی ٹیمیں اس جگہ کا دورہ کر کہ بتاتی ہیں کہ یہاں کتنی منزلیں قائم کی جاسکتی ہیں ۔ مگر ان افسران کی نا اہلی کا یہ عالم ہے کہ انہیں رشوت دے کر جتنی منزلیں بنالوں کوئی روک ٹوک نہیں کی جائے گی۔
رشوت کا بازار اتنا گرم رہتا ہے کہ اسکی تپش کا اندازہ سڑکوں یا گلیوں میں گھوم کر بآسانی لگایا جا سکتا ہے، سرکاری افسران نہ صرف غفلت کا شکار رہتے ہیں بلکہ زیادہ پیسوں کی لالچ میں خاموش تماشائی کی صورت اختیار کئے نظر آتے ہیں اور اس وجہ سے شہر حیدرآباد کی عام عوام ان اداروں کی غفلت کی بناءپر ایک مفلوج عوام کی صورت بنی دکھائی دے رہی ہے جن کی لاکھ شکایتوں اور درخواستوں کے باوجود افسران کان نہیں دھر رہے، جب کہ ضرورت اس عمل کی ہے کہ اس مسئلے پر فل فور ناٹس لیا جائے اور کچھ خاطر خواہ کاروائی کی جائے جس سے نہ صرف شہر کی صورت حال کو بہتر کیا جاسکے گا بلکہ اپنے ان وعدوں کا بھی پاس رکھاجا سکے گا جو ووٹ لینے کے وقت عوام سے کئے گئے تھے۔
سمعئیہ کنول
رول نمبر 95
word count 629
سرکاری زمینوں پر قبضہ
شہر حیدرآباد جو رقبے کے لحاظ سے پاکستان کاچھٹا بڑا شہر اور صوبہ سندھ کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ اسی لحاظ سے حیدرآباد پاکستان کی معیشت میں کافی حد تک اپناحصہ بھی ادا کرتا ہے مگر پھر بھی 70سال سے حکومت سندھ کی نظروں سے دور رہا ہے، جہاں افسران صرف ذاتی مفادوں کے عیوض ہی اس پر نظر ڈالتے ہیں اور اس کی ترقی یا اس کے کاموں کوبآسانی نظر انداز کردیا جاتا ہے۔
وزیر کھیل سوشل میڈیا پرچھائے رہنے کے لئے مختلف ہربے اپناتا ہے اور اس بات سے بلکل لاتعلق ہے کہ حیدرآباد کے 90فیصد میدانوں پر سیاسی گروپوں کا قبضہ ہوگیا ہے اور کچھ دفاتر پر سیاسی جماعتوں کے آفس تعمیرکئے ہوئے ہیںجہاں روزانہ کی بنیادوں پر سیاسی کام سر انجام دیئے جاتے ہیںاور ان میدانوں کو اپنی ذاتی ملکیت تصور کیا جاتا ہے، قبضہ کے ساتھ ساتھ وہاں گنڈہ گردی بھی زوروں پر رہتی ہے، جو کہ ایک غیر قانونی عمل ہے اور افسران اس عمل پر کبوتر کی مانند آنکھیں بند کر کے بیٹھے ہوئے ہیں۔
بات صرف میدانوں پر ہی ختم نہیں ہوتی بلکہ کالج ،اسکول اور پارکوں میں میں بھی قبضہ گروپ کا مکمل طور پر قبضہ ہوچکا ہے، کہیں پارکنگ کے ٹھیکوں کے نام پر رشوت ،تو کہیں کسی اسکول یا کالج کے میدان میں شادی کا ٹینٹ لگا کر عوام سے کرایہ وصول کیا جاتا ہے اور یہ سب ایک غیر قانونی کاروبار کی صورت اختیار کر چکا ہے جو کہ سرکاری زمینوں پر غیرقانونی قبضہ کر کے بآسانی کیا جارہا ہے۔ شہر حیدرآباد کے علاقے کوہسار میں سرکاری زمینو ں پر پکے مکانات قائم کئے جا چکے ہیں، رشوت کا عالم یہاں تک پہنچ چکا ہے کہ ایک ہی مکان ےا زمین کوکاغذات بنوا کر دو تین افراد کو ایک ہی وقت میں بیچا جا تا ہے، اور عوام سستے گھر اور سستی زمینوں کے لالچ میں بڑا نقصان اٹھالیتے ہیں۔ جس زمین پر یہ فراڈ کیا جارہا ہے وہ زمین سرکار کی امانت ہے جس کا افسران غلط فائدہ اٹھا رہے ہیںاور جن کی بھاری قیمت عوام کو کبھی بھی ادا کرنی پڑ جائے گی۔
لطیف آباد میں موجود عائشہ پارک جو کہ بلدیہ کی ملکیت ہے مگر وہاں بھی حال کچھ ایسا تھا کہ ایک سیاسی جماعت نے اس پارک کو پارکنگ کی شکل دے دی تھی جہاں سے روز کی بنیاد پر ہزاروں روپے کی پارکنگ کی پرچیاں وصول کی جاتی تھیں پھر بلدیہ کوخیال آیا اور ایکشن کے بعد اس کوپارک کی شکل واپس دی گئی اور سرکاری زمین کو قبضہ سے نکلوایا گےا۔
جس طرح اس پارک کی پارکنگ کے خلاف کاروائی کی گئی اسی طرح پورے شہر میں بلدیہ نے کاروائی کی اور شہر بھی میں سرکاری زمینوں پر قبضہ ختم کروایااور ناجائز چلنے والے کاروبار کو بھی ختم کروایا، ایسے ناجائز کاروبار سے نہ صرف حکومت کو نقصان پہنچتا ہے بلکہ ملک کی معیشت پر بھی فرق پڑتا ہے۔
اسی طرح لطیف آباد میں موجود محبوب گراﺅنڈ کے لئے سندھ اسمبلی میں 12کروڑ کا بجٹ پاس کروایا گیا تھا مگر آج بھی اس کا حال دیکھ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس پر ایک روپیہ تک خرچ نہیں کیا گیا ، ٹھیکیداروں اور اہلکاروں نے سارا پیسا اپنی جیب کی نظر کردیا۔ آج اس گراﺅنڈ میں ترقی کے نام پر گدھے اور گائیں باندھے ہوئے ہیں اور ایک کونے پر مسجد تعمیر کردی گئی ہے۔
بلدیہ کروائی کرتا ہے تعمیرات بھی کرواتا ہے مگر یہ سب عمل چند دن کا ہوتا ہے جس کے بعد بلدیہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر ایسے بیٹھ جاتا ہے جیسے شاید کسی غیبی مدد کے انتظار میں بیٹھا ہو، اس طرح دوبارہ قبضے بھی ہوجاتے ہیں اور کاروبار بھی شروع کردیا جاتا ہے۔
---------------------------------------------------
بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی غفلت
محمد وقاص
رول نمبر66
words count 741
بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا نام سنتے ہی دماغ میں فوراایک ہی بات آتی ہے کہ یہ وہ ادارہ ہوگا جہاں عمارت بننے کے لیے اس کا نقشہ پاس کروانہ ، عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والا مٹیرئیل، اس کی زمین غرض ہر چیز کی مکمل دیکھ ریکھ رکھی جاتی ہوگی پر سچائی اس کے مکمل بر عکس ہے کیونکہ یہ ادارہ بری طرح غفلت کا شکار ہے اور ٹھیک طریقے سے کام نہ کرنے پر بزد ہے پھر وہیں بات آتی ہے ان اظہارآزادی کا راگ الاپنے والے ٹی وی چینلز، اخبارات اور ان سے وابستہ صحافی کہاں سوئے ہوئے ہیں کیا انہیں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ادارے کی غفلت کے بارے میں پتہ نہیں یا انہیں بھی سرکاری افسران کی طرح لفافوں سے کچھ نہ کچھ مل رہا ہے جس کی وجہ سے یہ بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
اب یہاں شہر حیدرآباد میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ادارے کے کام پر نظر ڈالی جائے تو غفلت ہی غفلت دکھائے دے گی شہر حیدرآباد میں جہاں دن بدن آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں آبادی کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں تعمیر ہونے والی نئی عمارات بھی ایک مسئلہ بن گئیں ہیں جنکی کوئی پوچھ گچھ نہیں اس کی مثال اس سے لگائی جا سکتی ہے کہ جس کا مرضی طاﺅ چلتا ہے وہ گھر اور دکانیں کئی کئی فٹ اپنی قانونی حد سے تجاوز کر جاتا ہے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جسے اس پر مﺅثر کاروائی کرنی چاہیے وہ بس چپی سادی ہوئی ہے ۔
حیدرآباد کے وسط میں واقع صدیق پلازہ جسے حیدرآباد کا سب سے پہلا اور قدیم ترین پلازہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے یہ پلازہ 1980 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھاجس میں اس وقت معلومات کے مطابق 410 فلیٹس تعمیر کیے گئے تھے اور جو ایک رہائشی پلازہ تھاپر بعد ازاں اس رہائیشی پلازہ کو ایک کمرشل پلازہ میں بغیر اجازت تبدیل کر دیاگیا جس کی وجہ سے رہائیشی فلیٹس کم ہو کر صرف 250 رہ گئے ہیں اس رہائیشی پلازہ میں یہ کمرشل دکانیں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ملی بھگت سے بنائی گئی ہیں جہاں صدیق پلازہ میں یہ کمرشل دکانیں بنائی گئی وہین اس پلازہ کی مدت معیاد پوری ہو چکی ہے اور پلازہ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے پر اس پلازہ کے خلاف بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے کوئی خاطر خواہ کاروائی نظر میں نہیں آتی۔
جب بھی کسی عمارت کی تعمیر کے لیے زمین کی کھدائی کی جاتی ہے تو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس جگہ کاصحیح طریقے سے معائنہ کیا جائے اور زمین کی جانچ کی جائے تاکہ آنے والے وقتوں میں عمارت کو قدرتی یا کسی بھی قسم کا نقصان نہ ہو سکے مگر یہ معائنہ چند پیسوں کے عیوض دریا کے کنارے والی زمینوں پر بھی 4 سے 5 منزلہ عمارتیں کھڑی کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے جو کہ انسانی زندگیوں کا سودا کرنے کے مترادف ہے اور اس کی جیتی جاگتی مثال شہر میں قابض ایک بلڈر کی ہاﺅسنگ سوسائیٹی بسم اللہ سٹی ہے جس میں 6 سے7 پلازہ ریتیلی زمین پر کھڑے ہیںاور زرا سے زلزلے کے جھٹکوں سے ہی زمین بوس ہو سکتے ہیں مگر یہ انہی افسران کی ناک کے نیچے ہوا جو باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر کرنے کے وقت کرتے ہوئے کچھ نظر نہیں آتے
اب یہاں بات کی جائے شہر بھر میں نقشے کے برعکس تعمیر ہوئی عمارتوں کی جو کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے شہر میں واقع 11 اور 09 نمبر کی مین سڑک پر تقریبا ہر گھر اپنی حد سے بڑھ کر بنا ہوا ہے اور نقشے کے مطابق یہ گھر 20 سے 25 فٹ حد سے تجاوز بنے ہوئے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں مقامی لوگوں سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا تو پتہ چلا کہ گھر بناتے وقت بلدیہ کا وفد آیا جسے 05 سے 06 ہزار دے کر ہم نے یہ تجاوزات کی ہیں غرض یہ کہ یہاں ہرافسر اپنے طور پر پیسے کمانے میں لگا ہواہے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور حکومت بھی ان افسران کے خلاف کبھی ایکشن نہیں لیتی غرض یہ کہ یہ سب متعلقہ فسران اور حکومت کی ملی بھگت سے ہوتا ہے اور اگر یہی حال رہا تو آنے والے وقتوں میں اس شہر کا حال بد سے بدتر ہو جائے گا۔۔
---------------------------------------------------
رول نمبر 57
word count 752
رہائشی علاقوں میں کمرشل تعمیرات
جس طرح وطن عزیز پاکستان میں ہر سرکاری دفتر بد عنوانی کا شکار ہے ٹھیک اسی طرح اینکروچمنٹ بلڈنگ کنٹرول اور ایچ ۔ڈی۔اے کا بھی یہی حال ہے۔ لاکھ شکایتوں ،لاکھ درخواستوں کے باوجود ان شعبوں کے افسرانوں کے کانوں پر ایک جوں تک نہ رینگی۔ عام طور پر دنیا بھر میں لوکل گورنمنٹ کافی حد تک کام کرتی نظر آتی ہے،مگر پاکستان میں جب پانی سر سے اوپر چڑھ جاتا ہے تو افراتفر ی کا عالم برپا کر کے کریک ڈاﺅن کر دیتے ہیں۔اسی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت بآسانی شہر حیدرآباد میں رہائشی علاقوں کا کمرشل علاقوں میں تبدیل ہونا ہے۔دنےاوی سطح پر رہائشی علاقے کمرشل علاقوں سے علیحدہ قائم کیئے جاتے ہیں مگر یہاں سب الٹ ہی نظر آتا ہے، ان دونوں علاقوں کاساتھ ہونے میں نہ صرف ان عہدیدرانوں کا ہاتھ ہے بلکہ ہمارا بھی قصور صاف نظر آتا ہے۔
آج سے 20 25 سال پہلے کمرشل علاقوں کے لئے ایک الگ جگہ مقرر کی گئی تھی ، مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا عوام کے ذہنوں میں یہ خیال زور پکڑتا گےاکہ گھر میں ہی دکان بنا کر کرائے پر چڑھادی جائے، اس طرح یہ عمل عام ہوگیا اور بلدیہ کے ساتھ ساتھ اینٹی اینکروچمنٹ خاموش تماشائی کی صورت اختیار کیئے رہا اور پھر ایک وقت ایسا آیا کہ یہ علاقے رہائشی کم کمرشل زیادہ لگنے لگے اور کاروبار کے لئے اہم جگہ بنتے چلے گئے ، جس بات کا منہ بولتا ثبوت 10 11 12 نمبر کی مارکیٹوں کو لطیف آباد میں باخوبی دیکھا جا سکتا ہے۔
رہائشی علاقوں کا کمرشل علاقوں کے ساتھ ہونا بہت نقصانات کو جنم دیتا ہے، جن میں سر فہرست سیورج کا نظام ہے، دن بھر کا گند ، کچرا اور دکانوں سے نکلی گندگی نالیوں اور گٹروں کی زینت بن جاتا ہے ، اس وجہ سے مارکیٹ میں گندا پانی کھڑا رہتا ہے اس حوالے سے جب بلدیاتی افسر سے بات کی تو انہوں اس کا ذمہ دار WASAکو ٹھراتے ہیں تو کبھی اینٹی اینکروچمنٹ کو۔ بس حال کچھ یوں ہے کہ اپنا دامن بچا کر دوسرے پر کیچڑ اچھال دیا جاتا ہے، اور خود کو الزام سے بری کر لیا جاتا ہے۔ اس صورت حال میںاپنی ذمہ داریوں فرار ہو کر بس الزامات کی ایک دوسرے پر بارش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے شہر کی صفائی کوبھی نظراندا ز کیا جارہا ہے اور غیر قانونی طور پر روز باروز ان رہائشی علاقوں میں دکانوں کا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے جس سے اور بھی کئی سنگیں نقصانات جنم لے رہے ہیں ان میں ایک مسئلہ پارکنگ کا بھی ہے۔ کہ اب رہائشی علاقوں میں پارکنگ کہاں کی جائے؟ کوئی کاروباری شخص بھی اس حوالے سے کام کرتا نظر نہیں آیا بس دکانیں بنائیں، کرائے پر چڑھائیں اور رشوت دے کر ناجائز کو جائز بنا دیا۔
شہر کی مارکیٹوں میں عام طور پر ٹریفک جا م دیکھنے میں آرہا ہوتا ہے جس کی خبر لینے کوئی نہیں آتا بس جیسے چل رہا ہے چلنے دو،لطیف آبادنمبر 8کی مارکیٹ میں اسٹال ےا ٹھیلے کے مالکان روزانہ کی بنیاد پر بلدیاتی افسران کو 20سے30روپے دیتے ہیں جس سے ناجائز جگہ کا کاروبار جائز بن جاتا ہے اور اس وجہ سے پوری مارکیٹ کے اردگرد ٹھیلوں کا راج ہوچکا ہے۔ان ٹھیلوں کے روڈ کے کنارے پر ہونے کی وجہ سے ٹریفک کے شدید مسائل کا سامنہ درپیش رہتا ہے۔اگر ٹھیلے والوں سے بات کی جائے تو انکا کہنا یہ ہوتا ہے کہ اگر ہم یہاں بھی ٹھیلا نہ لگائیں تو کہاں جائیں ؟ پیٹ بھی پالنا ہوتا ہے، جیب میں اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ ہم کرائے پر دکان لے سکیں بس اس لئے یہاں کھڑے ہوجاتے ہیں۔
دوسری جانب بلدیاتی افسران ان لوگوں سے کھلے عام رشوت لیتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی حال 11اور12نمبر کی مارکیٹوں کابھی ہے جہاں افسران کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ملتا ہے۔ اگر ایسا ہی چلتا رہا تو وہ وقت دور نہیں جب شہر حیدرآباد کا حال بد سے بدتر ہوجائے گا۔ رہائشی اور کمرشل علاقوں کا ایک ساتھ ہونا نہ صرف بد حالی پیدا کر رہا ہے بلکہ سیورج کا نظام بھی درہم برہم کر رہا ہے اور ٹریفک کے مسائل کو بھی پروان چڑھا رہا ہے۔ اگر ان مسائل سے بچنا ہے تو ان تعمیرات کو الگ الگ کروانا ہوگایا پھر سرکاری افسران کو اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے کوئی خاطر خواہ اقدام کرنا ہوگا جس سے شہر حیدرآباد کو ترقی کے ساتھ رونق بھی میسر ہو۔
---------------------------------------------------
رول نمبر66
words count 741
بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی غفلت
بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا نام سنتے ہی دماغ میں فوراایک ہی بات آتی ہے کہ یہ وہ ادارہ ہوگا جہاں عمارت بننے کے لیے اس کا نقشہ پاس کروانہ ، عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والا مٹیرئیل، اس کی زمین غرض ہر چیز کی مکمل دیکھ ریکھ رکھی جاتی ہوگی پر سچائی اس کے مکمل بر عکس ہے کیونکہ یہ ادارہ بری طرح غفلت کا شکار ہے اور ٹھیک طریقے سے کام نہ کرنے پر بزد ہے پھر وہیں بات آتی ہے ان اظہارآزادی کا راگ الاپنے والے ٹی وی چینلز، اخبارات اور ان سے وابستہ صحافی کہاں سوئے ہوئے ہیں کیا انہیں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ادارے کی غفلت کے بارے میں پتہ نہیں یا انہیں بھی سرکاری افسران کی طرح لفافوں سے کچھ نہ کچھ مل رہا ہے جس کی وجہ سے یہ بھی خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔
اب یہاں شہر حیدرآباد میں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ادارے کے کام پر نظر ڈالی جائے تو غفلت ہی غفلت دکھائے دے گی شہر حیدرآباد میں جہاں دن بدن آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے وہیں آبادی کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں تعمیر ہونے والی نئی عمارات بھی ایک مسئلہ بن گئیں ہیں جنکی کوئی پوچھ گچھ نہیں اس کی مثال اس سے لگائی جا سکتی ہے کہ جس کا مرضی طاﺅ چلتا ہے وہ گھر اور دکانیں کئی کئی فٹ اپنی قانونی حد سے تجاوز کر جاتا ہے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی جسے اس پر مﺅثر کاروائی کرنی چاہیے وہ بس چپی سادی ہوئی ہے ۔
حیدرآباد کے وسط میں واقع صدیق پلازہ جسے حیدرآباد کا سب سے پہلا اور قدیم ترین پلازہ ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے یہ پلازہ 1980 کی دہائی میں تعمیر کیا گیا تھاجس میں اس وقت معلومات کے مطابق 410 فلیٹس تعمیر کیے گئے تھے اور جو ایک رہائشی پلازہ تھاپر بعد ازاں اس رہائیشی پلازہ کو ایک کمرشل پلازہ میں بغیر اجازت تبدیل کر دیاگیا جس کی وجہ سے رہائیشی فلیٹس کم ہو کر صرف 250 رہ گئے ہیں اس رہائیشی پلازہ میں یہ کمرشل دکانیں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ملی بھگت سے بنائی گئی ہیں جہاں صدیق پلازہ میں یہ کمرشل دکانیں بنائی گئی وہین اس پلازہ کی مدت معیاد پوری ہو چکی ہے اور پلازہ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے پر اس پلازہ کے خلاف بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے کوئی خاطر خواہ کاروائی نظر میں نہیں آتی۔جب بھی کسی عمارت کی تعمیر کے لیے زمین کی کھدائی کی جاتی ہے تو بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ اس جگہ کاصحیح طریقے سے معائنہ کیا جائے اور زمین کی جانچ کی جائے تاکہ آنے والے وقتوں میں عمارت کو قدرتی یا کسی بھی قسم کا نقصان نہ ہو سکے مگر یہ معائنہ چند پیسوں کے عیوض دریا کے کنارے والی زمینوں پر بھی 4 سے 5 منزلہ عمارتیںکھڑی کرنے کی اجازت دے دی جاتی ہے جو کہ انسانی زندگیوں کا سودا کرنے کے مترادف ہے اور اس کی جیتی جاگتی مثال شہر میں قابض ایک بلڈر کی ہاﺅسنگ سوسائیٹی بسم اللہ سٹی ہے جس میں 6 سے7 پلازہ ریتیلی زمین پر کھڑے ہیںاور زرا سے زلزلے کے جھٹکوں سے ہی زمین بوس ہو سکتے ہیں مگر یہ انہی افسران کی ناک کے نیچے ہوا جو باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر کرنے کے وقت کرتے ہوئے کچھ نظر نہیں آتے اب یہاں بات کی جائے شہر بھر میں نقشے کے برعکس تعمیر ہوئی عمارتوں کی جو کہ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی نا اہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے شہر میں واقع 11 اور 09 نمبر کی مین سڑک پر تقریبا ہر گھر اپنی حد سے بڑھ کر بنا ہوا ہے اور نقشے کے مطابق یہ گھر 20 سے 25 فٹ حد سے تجاوز بنے ہوئے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں مقامی لوگوں سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا تو پتہ چلا کہ گھر بناتے وقت بلدیہ کا وفد آیا جسے 05 سے 06 ہزار دے کر ہم نے یہ تجاوزات کی ہیں غرض یہ کہ یہاں ہرافسر اپنے طور پر پیسے کمانے میں لگا ہواہے اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں اور حکومت بھی ان افسران کے خلاف کبھی ایکشن نہیں لیتی غرض یہ کہ یہ سب متعلقہ فسران اور حکومت کی ملی بھگت سے ہوتا ہے اور اگر یہی حال رہا تو آنے والے وقتوں میں اس شہر کا حال بد سے بدتر ہو جائے گا۔۔
---------------------------------------------------
رول نمبر68
word count 659
اینٹی اینکروچمنٹ کی نا اہلی
لطیف آباد کے علاقے یو نٹ نمبر آٹھ میں عا ئشہ پارک جو کہ حکومت سندھ کے ادارہ تعلقہ میو نسپل کا ر پو ریشن کی ملکیت ہے اس پارک کا رقبہ تقریبا سا ڑھے چا ر ہزار گز ہے مگر دن بہ دن اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی دیکھتے سیاسی جما عتوں و کاروبا ری طبقے نے اس پا رک پر قبضہ کر لیا پا رک میں سا تہ سا ک سے ایک سیا سی جماعت نے غیر قا نو نی پارکنگ قائم کی ہو ئی تھی پا رک کے اندر لا ئبریرہز،ڈسپنسریز اور پا رک کے ا حا طہ میں دکا نیں قائم کی ہو ئی ہیں پارک کے چاروں گرد تقریبا ساٹھ سے زائد دکانیں قائم ہیں جن کا ماہانہ کرایہ صرف ایک سو ساٹھ سے ڈھائی سو روپے تک تعلقہ میو نسپل کا ر پو ریشن کو ادا کیا جا تا ہے یہ دکا نیں کچھ با ا ثر لوگوں نے تعلقہ میو نسپل کا ر پو ریشن سے کرائے پر لی ہو ئی ہیں اور آ گے کرا ئے پر دے کر ما ہا نہ پندرہ سے بیس ہزار رو پے وصول کیا جا تا ہے اس ہی ما ر کیٹ میں کچھ ایسی اکا نیں ہیں گو کہ تعلقہ میو نسپل کا ر پو ریشن کی ملکیت نہیں ان کا ما ہا نہ کرا یہ تیس سے چا لیس ہزار رو پے تک لیا جا تا ہے مگر تعلقہ میو نسپل کا ر پو ریشن کی جن دکا نو ں پر با اثر لو گو ں نے قبضہ کیا ہوا ہے یہ صرف ما ہا نہ ایک سو ساٹھ سے ڈھائی سو روپے تک تعلقہ میو نسپل کا ر پو ریشن کو ادا کیا جا تا ہے اور یہ کرایہ بھی بلد یہ کے کچھ افسران و اہلکا ران کی جیبو ں میں چلا جا تا ہے اور اس سرکا ری ادارہ کا اکا و ¿ نٹ اپنے ہی پیسے وصول کے نے سے قا صر ہے۔
حال ہی میںتعلقہ میو نسپل کا ر پو ریشن کی مدد سے اینٹی انکراچمنٹ کی جا نب سے شہر کے کئی علا قوں میں غیر قانو نی تجا وزات کے خلا ف کا روا ئی کی گئی جس میں یہ پا رک بھی شامل تھا اس پا رک کے اندر مو جود پا رک غیر قانو نی پا ر کنگ اور پا رک کے احا طہ میں مو جود دکا نوں کے خلا ف کا روائی کی گئی مگر ابھی چند ہی ما ہ گز رے تھے پا رک میں دوبا رہ غیر قانو نی پا ر کنگ کی جا رہی ہے ارو پارک کے ارد گرد تجاوزات کا آغاز بھی ہو چکا ہے اس کے علا وہ شہر کے دیگر علا قوں کی با ت کی جا ئے تو لطیف آبا د کے علا قے یو نٹ نمبر ساتھ،آٹھ،گیا رہ،با رہ،دس،پانچ یہ رہائشی علا قے ہیں مگر ان علاقوں میں پوری کی پو ری ما ر کیٹز قائم کی ہوئی ہیں اور جن اداروں کی یہاں سے ان کو ہٹانے کی ذمہ داری عائد ہو تی ہے وہ ان سے رشوت لے کر انہیں ان علا قوں میں کھڑے ہو نے کی اجا زت دے دی جا تی ہے ان با زاروں میں کھڑے ہوئے ٹھیلے والوں سے یومیہ دس روپے اور ٹھیہ و دکا ندا روں سے پچاس سے سو روپے رشوت وصول کر کے انہیں یہاں کھڑے ہو نے کی اجا زت دے دی جا تی ہے شہر کے دیگر علا قے نیا پل،گاڑی کھاتہ،اسٹیشن روڈ،ریشم بازار،کلاتھ مارکیٹ کی حالت اس سے بھی بد تر ہے اینٹی انکراچمنٹ کی جا نب سے ان علاقوں میں نوے کی دہائی میں غیر قانو نی تجا وزات کے خلاف دو با ر کا روائی کی گئی مگر انکروچمنٹ کی روک تھام کے لئے کو ئی خاطر خواہ حکمت عملی نہ ہونے کے با عث انکروچمنٹ پر قابو نہیں پا یا جا سکا اور یہ دہکھتے ہی دیکھتے بڑھتی چلی گئی جو کہ حکومت سندھ و اینٹی انکراچمنٹ کی ففلت کا منہ بو لتا ثبو ت ہے ؛
No comments:
Post a Comment