Investigation Report Part-II
سمبل نزیر اقصیٰ قریشی
نرمین خان
Nothing new or impressive. No proper paragraphing. Photos should have been added.
It looks like article. In reporting always source is quoted.
رول نمبر 13 MA Previous
کمہار کا کام ماضی میں
اقصیٰ قریشی
کمہار کا مطلب ہے مٹی کے برتن بنانے والے ۔کے برتن استعمال کرنا ہمارے نبی کی سنت ہے اور اسی طرح کمہار کا کام بھی حضور پاک کے دور سے چلتا ہوا آرہا ہے س صدیوں کی داستان میں کمہار کئی تہذیبوں کی بنیاد بھی رکھتا آیا ہے جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پہچان کو مضبوط کرتے چلے آئے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ کمہار انسانی زندگی کا پہلا فنکار تھا اور اس کے ساتھ ساتھ انسانی تاریخ تاریخ کا پہلا تاریخ تھان بھی۔ کوئی 100سالوں سے کمہار تخلیق کی وہی منزلیں طے کرتے دکھائی دیتے تھے جو انسان کے اپنی ضرورتوں کو پوری کرنے کے لیے ، مٹی پانی اور آگ کی تخلیق کی تھی ۔کمہار کا کام بھی چیزوں کو نئے وجود میں ڈھالنا ہوتا تھا اور اسی کام میں ڈھلتے ڈھلتے وہ اپنی ساری زندگی اسی کام میں گزار دیتے تھے ۔
کمہار لوگ بہت ذہین ہوتے تھے کہ وہ بغیر کسی کمپیوٹر ، پیچیدہ مشین اور نفیس اوزار کے ان کے صدیوں کے تجربے میں دھلے ہاتھ مٹی کے وہ خوبصورت فن پارے تخلیق کرتے تھے جو کہ مشینوں اور کمپیوٹروں پر رکھے ہاتھ بھی دم بھر کو بے جان ہوجاتے تھے کمہار بہت ہی سادہ زندگی گزارتے تھے ان کے گھر بہت کچے کچے ہوتے تھے کمہار پورے دن سخت محنت کے بعد وہ صرف چند پیسے کماتے تھے ماضی میں مٹی کے برتن کا استعمال بہت زیادہ ہوتا تھا ۔
کیونکہ ماضی میں پلاسٹک اور شیشہ کے برتن نہیں ہوتے تھے اسی لیے پہلے کے لوگوں کا رجھا ن زیادہ تر مٹی کے بنے ہوئے برتنوں پر ہوتا تھا وہ کھانے پینے کے لیے مٹی کے برتن کا استعمال کرتے تھے اور مٹی کے برتن میں بنا ہوا کھانا بہت ہی لذیذ بنتا تھا ، مٹی کے برتن بنانے کے لیے صاف مٹی کی ضرورت ہوتی تھی مٹی کے برتن اور دوسری اشیاء خالص قسم کی چکنی مٹی سے تیار کیے جاتے تھے ان میں کسی قسم کی دوسری اشیاء استعمال نہیں ہوتی تھی کمہار کے کام کرنے اور رہائش کی جگہ الگ ہوتی تھی انہوں نے چھوٹے چھوٹے گاؤں میں مٹی کے کچے گھر بنا کر اپنی دنیا بسائی ۔مٹی کا برتن چھ دن میں تیار ہوتا تھا جس میں ایک دن مٹی کا برتن بنانے ، دو دن اس کو پکانے اور تین دن دھوپ میں سکھانے میں لگتے تھے مٹی کا تیار شدہ مال کو تین دن دھوپ میں سکھانے کے بعد ایک ایسے برتن میں پکایا جاتا تھا جس کا ایندھن مختلف قسم کے کچرا کنڈیوں سے جمع شدہ کچرے پر مشتمل ہوتا تھا یہ بھی صدیوں سے چلا آنے والے انکا اپنا فارمولا تھا جس میں نہ ہی بجلی خرچ ہوتی تھی نا ہی ایٹمی ایندھن کا استعمال ہوتا تھا ماضی میں تقریباََ 50فیصد عورتیں بھی یہ کام کرتی تھیں جبکہ اس دور میں تقریباََ 20فیصد عورتیں یہ کام کرتیں ہیں ۔ماضی میں کئی اقسام کے برتن بنائے جاتے تھے جس میں نادی ، گملے، گڑھے ، تندور ، مٹکے ، صراحی، غلق، گلاس، ہانڈی ، پلیٹیں ، اور مختلف قسم کی کئی اشیاء بنائی جاتی تھی ماضی میں مٹی کا کام بہت ہی سادہ ہوتا تھا اور ماضی میں مٹکے ، نادی اور صراحی کافی تعداد میں بنتے تھے کمہار پورے دن سخت محنت کے بعد صرف 200یا 300روپے کماتے تھے وہ اپنی بنائی ہوئی چیزیں شہر کی دکانوں میں بیچتے تھے ۔اور شہری اپنے خریدار کو دگنی قیمت میں دیتے تھے مٹی کا برتن پورے پاکستان اور ترقی یافتہ ممالک میں برآمد کیا جاتا تھا ۔ماضی میں کمہار اپنے بچوں کو بھی یہی کام سکھاتے تھے اسی لیے کمہار کا کام نسل در نسل چلتا آرہا ہے ۔ کمہار لوگ اپنی ذہانت کا استعمال کر کے نئی نئی اشیاء تیار کرتے تھے ان سادہ ہنرمندوں کی بنائی ہوئی یہ چیزیں آج تک دنیا بھر کے لیے باعثِ توجہ ہیں ۔
................................................................................................
کمہار کے کام کی اہمیت اور استعمال
اور ان کی حالت زندگی۔
تاریخ 29نومبر2016 تحریر : سمبل نزیر ، رول نمبر 61
Nothing new or impressive. No proper paragraphing. Photos should have been added.
It looks like article. In reporting always source is quoted.
It looks like article. In reporting always source is quoted.
کمہار کا کام آج بھی اچھے سے جانا پہچانا جاتا ہے ۔اور اس میں سے آنے والی آمدنی میں سے ان کاگذر بسر ہوتا ہے پر پھر بھی وہ اس کام سے کچھ حدتک مطمئن ہیں کیونکہ یہ ان کا خاندانی پیشہ ہے ۔ کمہار کا کام جہاں ہوتا ہے وہاں کچھ مزدور رکھے ہیں اور کافی جگہوں ان کے اپنے گھر کے افراد ہی اتنے ہوتے ہیں کہ آسانی سے مل جل کر ایک دوسرے کا کام میں ہاتھ بٹا دیتا ہے مزدوروں کو مزدوری دن کے حساب سے دی جاتی ہے جو کہ روز مرہ کام کے حساب سے 100ہوتی ہے پھر وہ چاہیے جتنا بھی کام کرلے جسے ایک مٹکے کی مزدوری ان کو 10روپے دی جاتی ہے اور جب آگے جاکر کہ یہ مٹکے بکتے ہیں تو 100,200تک ان کی کمائی ہوجاتی ہے اور پھر جب وہ آگے لوگوں تک پہنچے ہیں تو ان کی قیمت میں اور اضاضہ ہوجاتا ہے جب کے ایک گلک کی بنائی کی مزدوری صرف تین روپے ہوتی ہے اسطرح ہر دن کے حساب سے 100گلک بنتے ہیں تو اس حساب سے انہیں مزدوری دی جاتی ہے ۔جب بھٹی کے لیے لکڑی کابورادہ چاہیے ہوتا ہے تو تقریباً انہٰں 200ایک گاڑی 500روپے کی پڑتی ہے کمہاروں کی حالت زندگی زیادہ مختلف نہیں ہے عام لوگوں کی نسبت اور جو مزدور وہاں کام کرتے ہیں ان کا گذارا بہت مشکل سے ہوتا ہے ۔ ان کی محنت مزوری زیادہ ہے پر اس کا معاوضہ انہیں بہت کم ملتا ہے پر وہ اسی میں خوش ہیں کیونکہ وہ باہر جاکر کوئی کام نہیں کرنا چاہتے ہے کیونکہ بچپن سے ہی انہیں یہ کام سکھادیا جاتاہے ۔ اس کے علاوہ نہ وہ کوئی کام کرتے ہیں اورنہ ہی دلچسپی رکھتے ہیں کہ باہر جاکر وہ کوئی دوسرا کام کرے ۔ اور اگر اسی کام کے لیے جاتے بھی ہے تو انہیں بہت کم معاوضہ ملتا ہے اس کام کے حساب سے وہی کے ایک رہائشی سے بات چیت کے دوران معلوم ہوا کہ وہ پچپن سے ہی اس کام کو سر انجام دیتے آرہے ہیں پر باقیوں کی نسبت انہوںے اپنے بچوں کو پڑھایا لکھایا اور اس مقام پر پہنچایا کہ آج وہ بہت اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں جن میں سے ان کا ایک بیٹا پولیس میں نوکری کرتا ہے اور دوسرا بیٹا فوج میں ہیں ان کی بہو سماجی کارکن ہیں اور جو اس کے تین بیٹے ہیں اور ان کے بچے اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے وجہ سے اس کمہار کے کام کو زیادہ ترجیح نہیں دیتے اعلیٰ تعلیم کی وجہ سے ان کا رجحان اس کام کی طرف کبھی ہوا ہی نہیں اور ان کے والدین نے کبھی بھی انہیں اس کام کو کرنے کے لیے دباؤں بھی نہیں ڈالا اور یہ کام کرتے بھی نہیں دیا جاتا انہیں کمہار کی آمدنی کا ذریعہ ہیں مٹی کے برتن بناے تک ہی ہے جسے کے نادی اس کی بناوٹ کے مزدوروں کو 30,20روپے ملتے ہیں جو کہ آگے جاکر بازاروں میں فروخت کے بعد ان کی قیمت 400,300تک ہوتی ہے ۔کمہاروں کی آبادی بلکل الگ ہوتی ہے جس میں صرف کمہار کی برادری کے لوگ رہتے ہیں کوئی بھی باہر کا بندہ وہاں نہیں رہتا سندھ میں ہی نہیں تقریباً کمہار قوم جہاں جہاں آباد ہے انسوں نے اپنی الگ ہی بستی بنائی ہوئی ہے اور وہ اپنی برادری میں ہی شادیاں کرتے ہیں صدیاں گزر گئی ہے انہیں یہ کمہار کا کام کرتے ہوئے اور انہیں اس کام سے بے انتہا لگاؤ ہوگیا ہے وہ اس کے علاوہ اور کسی کام کا سوچ ہی نہیں سکتے اور نسل در نسل سے یہی کام کرتے آرہے ہیں اور مستقبل میں بھی یہی کام کرکے اسی طرح کمہار کے نام اور کام کو زندہ رکھیں گے ۔
...........................................................................
Repetition of Aqsa. Nothing new or impressive. No proper paragraphing. Photos should have been added.
It looks like article. In reporting always source is quoted.
نرمین خان رول نمبر 44
ایم اے پریوئیس
کمہار کی موجودہ صورتحال
مٹی سے بنے برتن آج کے دور میں بھی اور ماضی میں کافی مقبول اور قابل استعمال رہے ہیں اور کسی بھی دور میں مٹی سے بنے برتنوں کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا اور میڈیکل سائنس بھی اس بات کو ثابت کرتی ہے کہ مٹی سے بنے برتن کا استعمال انسانی صحت کے لئے بے حد مفید ہے۔ مٹی کے برتن استعمال کرنا سنت بھی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے ہمیشہ مٹی سے بنے برتنوں میں ہی کھانا پینا پسند فرمایا یہاں تک کہ آپ ﷺ نے اپنی صاحبزادی بی بی فاطمہ الزہرہ رضی اللہ عنہا کو جہیز میں بھی مٹی کے برتن ہی دئے تھے جب کہ آج کل تحفہتاًبھی یہ رواج ختم ہوچکا ہے ۔ تاریخی لحاظ سے مٹی کے برتنوں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے انسانی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ جب عقل انسانی نے شعور کی دنیا میں قدم رکھاتو کھانے پینے کے لئے مٹی کے برتنوں کا ہی استعمال شروع کیااور یہ ایک حقیقت ہے کہ آج کے دور کے انسانوں کے مقابلے میں اس دور کے انسان زیادہ صحت مند ہوا کرتے تھے اور یقیناًاُن کی صحت مند زندگی کا ایک راز مٹی کے برتن کا استعمال بھی تھا موجودہ دور میں مٹی کے برتن کا استعمال تقریباً ختم ہوچکا ہے اور مٹی کے برتنوں کی جگہ پلاسٹک ، اسٹیل، سلور، پیتل ، کانچ، ماربل اور مختلف دھاتوں سے بنے برتنوں نے لے لی ہے۔ اور جب سے لوگوں نے مٹی سے بنے برتنوں کا استعمال ترک کیا ہے متعدد بیماریوں میں گھر چکے ہیں شہروں میں مٹی سے بنی اشیاء کا استعمال کھانے پینے کے لئے تو نہیں البتہ گھروں کی سجاوٹ اور تزئین و آرائیش میں ضرور ہوتا ہے اور مٹی کے برتنوں کا استعمال گاؤں اور دیہاتوں تک ہی محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ شہری علاقوں میں مٹی سے بنے برتنوں کا استعمال ختم ہونے یا ترک ہونے کی وجہ سے برتن سازی کے کاروبار سے منسلک کاریگروں کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے اسی وجہ سے اس کاروبار سے جڑے لوگ آہستہ آہستہ یہ کام چھوڑتے جارہے ہیں اس صورتحال میں اگر دیکھا جائے توبرتن سازی کا کام موجودہ حالات میں کافی ابتر اور تنزلی کا شکار ہے حالانکہ برتن سازی کے کام کی ثقافتی اور تاریخی اہمیت سے کسی طور بھی انکار نہیں کیا جاسکتالیکن آج کے ترقی یافتہ دور میں انسانوں نے اپنا انداز زندگی تبدیل کرلیا ہے اور اس بدلتی صورتحال سے برتن سازی کے کاروبار سے جڑے کاریگر کافی حد تک متاثر ہوئے ہیں چاہے زمانہ نے ترقی میں انداز بدل لیے ہوں پر آج بھی حیدرآباد میں چند ایک جگہوں پر یہ کام اب بھی اسی لگن اور مہارت سے ہوتا ہے ان جگہوں میں ٹنڈو یوسف (اسلام آبادحیدرآباد) اور کمہار پاڑھ سرفہرست ہیں دیکھا جائے تو برتن سازی کا کام بے حد مشکل اور مہارت طلب کام ہے اور مٹی سے بنائی جانے والی اشیاء کئی مرحلوں سے گزر کر اپنی اصل شکل اختیار کرتی ہیں۔اگر کام کرنے والوں کی مشکلات کا اندازہ لگایا جائے تو کاریگر حیدرآباد سے میرپور جاکر خود کھیتوں سے مٹی کھود کر لے کر آتے ہیں پہلے زمیندار بلامعاوضہ وہ مٹی دے دیا کرتے تھے کیونکہ کھیتی کے دوران اضافی مٹی پانی کی رکاوٹ کا سبب بنتی تھی لیکن آج کل زمینداروں نے اس مٹی کی قیمت بھی وصول کرنا شروع کردی ہے جسکی وجہ سے برتن سازی کے کام کے لیئے مٹی کا حصول بھی مشکل ہوگیا ہے دوسرا میرپور سے حیدرآباد مٹی لانا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ایک مٹی کا ٹرک میرپور سے حیدرآباد تک لانے کی لاگت مبلغ 3000/- روپے پڑتی ہے لہذابرتن سازی کا کام دن بدن مہنگا ہوتا جارہا ہے اسکے علاوہ سب سے اہم اور توجہ طلب مسئلہ کہ پہلے مٹی کے برتن ہاتھوں سے بنائے جاتے تھے لیکن ترقی یافتہ دور کے مطابق اب برتن سازی مشینوں کے ذریعے کی جاتی ہے مشینوں کے استعمال سے بناوٹی خوبصورتی اور رنگ و روغن میں بہتری آئی ہے پر ان کمہاروں کے لئے روزگار مسئلہ بن گیا ہے جوکہ برسوں سے برتن سازی کے کام سے وابستہ تھے اگر حکومتی سطح پر اس کام سے وابستہ لوگوں کے لئے کوشش کی جائے اور ہاتھوں سے بنائے گئے برتنوں کوگھریلو صنعت کاری یا دست کاری کی صنعت کا درجہ دے کر اسکی ترقی کی کوشش کی جائے تو ان کاریگروں کی
صورتحال میں کافی بہتری آسکتی ہے۔
....................................................................................................
Tazmeen ur report is short. Not impressive. File name not proper. Composing mistakes.
Always write ur name in the file in ur medium
کمیا ر کے کام میں اشیاء یا سا مان تو ذیا رہ در کا ر نہیں ہو تاالبتہ محنت اور وقت کی طو الت کا کا م ہے ۔ وہ کمہا ر جو کہ دیہا تی علاقو ں میں رہتے ہیں انہیں تو اس کا م کے لئے درکا رمٹی دیہا ت کی زمین سے ہی مل جا تی ہے بنا کسی معا و ضے کے جب کے وہ کمہا ر جو شہری آبادمیں اپنا گزر بسر کر تا ہیں ان ہے چکنی مٹی یہ تو خو د کسی اور ذرئع سے منگو انی پڑ ھتی ہے مٹکہ بر تن سر اہی گملے گلدستے وغیرہ کو بنا نے میں جس سا زو سامان کی ضر ورت پڑ ھتی ہے ان میں ان کا کوئی خر چا نہیں ہو تا مٹی کو گند تا ہیں اس میں ریشہ پیدا کر نے کے لئے گد ھے کی لیت کا استعمال کر تا ہیں امومن ان کے پا س گدھا گا ڑیا ں ہو تی ہیں تو ان ہیں یہ بھی بہ آسا نی درکا ر ہو جا تی ہے چاک بنا تے ہیں جس کے گھمنا کی کی مدد سے اور ہا تھ کی انگلیو ں کے استعمال اور اپنے ہنر بر تن کو شکل دیتے ہیں اصل مہا رت اس کا م میں ہا تھ کی ہے بڑا برتن امو من یہ ایک دن میں دو بنا لیتا ہیں اور چھو ٹے جیسے گلے ،ڈھکن ،دیا پلیٹ 100کی تعداد میں بنا لیتے ہیں ۔
کو ئی بھی کمیشن ایجنٹ مخصو ص ہو جا تا ہے کہ رو ز مخصو ص تعداد میں سا مان دینا ہو تا ہے اور پھر وہ آگے شہر میں دو کا نو ں یا ٹھیو ں کو زیا دہ رقم میں فر وخت کر تا ہے اور پھر وہ اس کے دوگنی قیمت میں گا ہکو ں کو فروخت کر تے ہیں ۔
پاکستان کے تقر یباََ ہر بڑے چھو ٹے شہر میں کمہا ر پا ڑہ کا نام سے بستی آباد ہے جہا ں یہ کام کیا جا تا ہے اور پھر آگا اس کی سیل ہو تی ہے ہر بر تن کی بنا وٹ اور نزاکت کو مدہ نظر رکھتا ہو ئے محنت کی اجر ت دی جا تی ہے خو اہ اس کا استعمال اب کم ہوچکا ہے جوکہ اس کی خر ید وفرو خت ما ضی میں دیکھنا میں آیا کر تی تھی اب نہا یت ہی کم ہو کر رہا گئی ہے اتنی خریت نہیں مل پا تی جتنی محنت ہے ۔تو نئے نسلو ں کا بھی اس کام میں رجہا ن کم ہو تا جا رہا ہے یہ نسبت ما ضی کے کمہا رمو جو د ہیں کمہار پا ڑہ بھی آبادہیں لیکن کمہا ر کے ہا تھو ں کی بنا ئی ہو ئی چےئز وقت کا چلن بدلنے کے سبب کسا با زاری کا شکار ہے جس سے ثقا فتی ادارو ں کی جانب سے سر پرستی کی ضرو رت ہے تا کہ ہنر بھی زند ہ رہے اور ہنر مند بھی ۔
صورتحال میں کافی بہتری آسکتی ہے۔
....................................................................................................
Tazmeen ur report is short. Not impressive. File name not proper. Composing mistakes.
Always write ur name in the file in ur medium
Nothing new or impressive. No proper paragraphing. Photos should have been added.
It looks like article. In reporting always source is quoted.
کمہا ر کے کام میں خر ید فر و خت
M.A Previos
Tazmeen
Tazmeen
کمیا ر کے کام میں اشیاء یا سا مان تو ذیا رہ در کا ر نہیں ہو تاالبتہ محنت اور وقت کی طو الت کا کا م ہے ۔ وہ کمہا ر جو کہ دیہا تی علاقو ں میں رہتے ہیں انہیں تو اس کا م کے لئے درکا رمٹی دیہا ت کی زمین سے ہی مل جا تی ہے بنا کسی معا و ضے کے جب کے وہ کمہا ر جو شہری آبادمیں اپنا گزر بسر کر تا ہیں ان ہے چکنی مٹی یہ تو خو د کسی اور ذرئع سے منگو انی پڑ ھتی ہے مٹکہ بر تن سر اہی گملے گلدستے وغیرہ کو بنا نے میں جس سا زو سامان کی ضر ورت پڑ ھتی ہے ان میں ان کا کوئی خر چا نہیں ہو تا مٹی کو گند تا ہیں اس میں ریشہ پیدا کر نے کے لئے گد ھے کی لیت کا استعمال کر تا ہیں امومن ان کے پا س گدھا گا ڑیا ں ہو تی ہیں تو ان ہیں یہ بھی بہ آسا نی درکا ر ہو جا تی ہے چاک بنا تے ہیں جس کے گھمنا کی کی مدد سے اور ہا تھ کی انگلیو ں کے استعمال اور اپنے ہنر بر تن کو شکل دیتے ہیں اصل مہا رت اس کا م میں ہا تھ کی ہے بڑا برتن امو من یہ ایک دن میں دو بنا لیتا ہیں اور چھو ٹے جیسے گلے ،ڈھکن ،دیا پلیٹ 100کی تعداد میں بنا لیتے ہیں ۔
کو ئی بھی کمیشن ایجنٹ مخصو ص ہو جا تا ہے کہ رو ز مخصو ص تعداد میں سا مان دینا ہو تا ہے اور پھر وہ آگے شہر میں دو کا نو ں یا ٹھیو ں کو زیا دہ رقم میں فر وخت کر تا ہے اور پھر وہ اس کے دوگنی قیمت میں گا ہکو ں کو فروخت کر تے ہیں ۔
پاکستان کے تقر یباََ ہر بڑے چھو ٹے شہر میں کمہا ر پا ڑہ کا نام سے بستی آباد ہے جہا ں یہ کام کیا جا تا ہے اور پھر آگا اس کی سیل ہو تی ہے ہر بر تن کی بنا وٹ اور نزاکت کو مدہ نظر رکھتا ہو ئے محنت کی اجر ت دی جا تی ہے خو اہ اس کا استعمال اب کم ہوچکا ہے جوکہ اس کی خر ید وفرو خت ما ضی میں دیکھنا میں آیا کر تی تھی اب نہا یت ہی کم ہو کر رہا گئی ہے اتنی خریت نہیں مل پا تی جتنی محنت ہے ۔تو نئے نسلو ں کا بھی اس کام میں رجہا ن کم ہو تا جا رہا ہے یہ نسبت ما ضی کے کمہا رمو جو د ہیں کمہار پا ڑہ بھی آبادہیں لیکن کمہا ر کے ہا تھو ں کی بنا ئی ہو ئی چےئز وقت کا چلن بدلنے کے سبب کسا با زاری کا شکار ہے جس سے ثقا فتی ادارو ں کی جانب سے سر پرستی کی ضرو رت ہے تا کہ ہنر بھی زند ہ رہے اور ہنر مند بھی ۔
No comments:
Post a Comment