Tuesday 29 November 2016

بورڈ امتحانات اور جعلی ڈگریاں

No quotes no attribution from sources
 Some figures
Photos

 Group
M.Saud Shaikh
M.Rafay Khan
M.Zubair
Hammad Zubair
Syed Uzair Shah
Mushtaq Ali Jamali
انویسٹیگیٹو رپورٹ

بورڈ امتحانات اور جعلی ڈگریاں

بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجو کیشن حیدر آبادایک ایسا ادارہ ہے جو پورے حیدر آباد کے اسکولوں کے امتحانات کے نظام کو سنبھالتا ہے ۔ اور اپنے مطابق ہر اسکول کے الگ الگ سینٹرز آف ایگزامینیشن لگاتا ہے۔ بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری اےجو کیشن حیدر آباد کا بل کمیشن اون نیشنل ایجو کیشن کے زیر صدارت1958ءمیں جنرل ایوب خان کے دور میں مقرر ہوا ۔ جس کا مقصد حیدر آباد اور اس ضلع میں سیکنڈری اور ہائر سیکنڈری ایجو کیشن کو عام کرناتھا اور بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری اےجو کیشن حیدر آباد کو1961ءمیں قائم کیا گیا


 اس بورڈ کا اسٹینڈرڈ بر قرار رکھنے میں کامیاب نہ رہے اور رشوت اور پیسوں کے عوض جعلی ڈگریاں نکلوانے اور امتحانات میں اپنے نمبروں کو بڑھانے لگے جس کی وجہ سے اس بورڈ میں غریب اسٹوڈنٹس کاپی کلچر کی طرف مائل ہوگئے اور پرچوں کو کاپی کلچر کی نظر کر دیا۔ لیکن 80 دھائی میں حیدرآباد بورڈ میں بدعنوانی شروع ہوگئیں اور امتحانی مراکز میں نقل کا دور دورہ ہوگیا اور یہ نقل رجحان بڑھتا ہی گیا۔ 

ابتدا میں تو نقل کا سلسلہ چند مراکز میں تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ یہ ایک رجحان بن گیا اور ہر بچہ جو آٹھویں کلاس پاس کرکے نوی میں آتا وہ اس امید کے ساتھ کتابوں کی شکل تک نہ دیکھتا کہ پیپرز تو ہوجائے گے۔ اس طرح تعلیم کا معیار گرتا گیا اور 90 کی دھائی میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب امتحانات کو ایک شغل بنالیا گیا اور امتحانی پرچے گھروں اور دکانوں پر حل کئے گئے۔ 
یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے اس کے علاوہ بورڈ آفس کے عملے نے تعلیم کے معیاد کو ختم کرنے میں کوئی کثر نہیں چھوڑی اس بات کی تو پہلے ہی آسانی تھی کہ ایک طالب علم امتحانی مرکز میں بیٹھ کر با آسانی اپنے پرچے نقل کے ذریعے حل کرلے اور اعلیٰ نمبر حاصل کرلے۔ 

اس سے بڑھ کر بات یہاں تک پہنچ گئی کہ کوئی بھی شخص بغیر ابتدائی تعلیم حاصل کرے با آسانی کچھ پیسوں کے عوض میٹرک اور انٹر کی ڈگری حاصل کرسکتا ہے اور ان جعلی ڈگریوں کے ذریعے اعلیٰ نمبروں سے کسی اعلیٰ عہدے پر بھی فائز ہوسکتا ہے۔ جس کی بہترین مثال موجودہ دور کے سیاستدانوں میں دیکھنے میں آئی جنہوں نے جعلی ڈگریوں کے ذریعے MPA اور MNA کی سیٹیں حاصل کی جن میں سے چند میٹرک پاس بھی نہیں تھے جب ان کی ڈگریوں کی جانچ پڑتال شروع ہوئی تو پتہ چلا کہ ہم ملک کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں سوپ رہے ہیں جو خود میٹرک پاس بھی نہیں ہیں تو ایسے لوگ تعلیم کو کس طرح فروغ دیں گے۔ یہ بھی ایک حیرانی کی بات ہے کہ موجودہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ پروفیسر محمد میمن خود ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد ہیں اور تعلیم کی قدر و قیمت سے باخوبی واقف ہیں تو وہ کونسی ایسی وجوہات ہیں جس کے باعث وہ اس نقل کے رجحان کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ نقل دراصل ہمارا کلچر بنتا جارہا ہے جس نے نوجوان نسل کو تباہی کے دھانے پر لاکے کھڑا کردیا ہے اور ان کی صلاحیتوں کو زنگ لگاکے رکھ دیا ہے ایک بچہ صرف اس وجہ سے اپنی پڑھائی میں دل نہیں لگاتا کہ اس کے چاچا، ماموں یا دوست وغیرہ امتحانی مرکز کے باہر موجود ہونگے اور پورا حل شدہ پرچہ مہیا کردینگے لیکن اس کو یہ نہیں سکھایا جاتا کہ یہ تو سیڑھی کا ایک قدم ہے اور یہ امتحان اس کی صلاحیتوں کو بڑھانے کا ایک ذریعہ ہے ہم ہمیشہ اپنے حکمرانوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کو برا بھلا کہتے رہتے ہیں لیکن ہم شاید بھول جاتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہیں ہم نے ناجائز اور غیر قانونی سہولیات فراہم کرکے اسی مقام تک پہنچایا ہے تو ایسے لوگ جن کی بنیاد کی ناجائز طریقے اٹھائی گئی ہے ان سے جائز کاموں کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔



محمد سعود 2K14/MC/63
بورڈ امتحانات اور کاپی کلچر

    30 اپریل 2016 کو حیدرآباد کے مختلف علاقوں میں موجود اسکولوں میں چھاپا مارا گےا45 افراد گرفتارہوے اخبار کو یہ سرخی جب نظر سے گزری تو بڑی حیرانی ہوئی کیونکہ یہ چھاپے اسکولوں پر مارے گئے تھے جس سے ذہن میں مختلف سوالوں نے جنم لیا اور بقیہ خبر پڑھنے کا ارادہ کیا بقیہ خبر پڑھنے سے پتہ چلا کہ اسکولوں سے گرفتار افراد کسی چوری یا ڈکیتی میں ملوث نہیں تھے بلکہ اس سے بھی کئی گناہ بڑے جرم یعنی قوم کے مستقبل کو تباہی کی جانب دھکیلنے میں مصروف تھے اور ان افراد میں 10 افراد وہ بھی شامل تھے جنہیں اس مستقبل کو سنوانے کا بیڑا دیا گیا تھا اور وہ اس کے عوض ایک اجرت بھی وصول کرتے تھے لیکن اس وقت وہ اپنی ڈیوٹی کے برخلاف عمل میں ملوث تھے اور طلبہ کو امتحانی مراکز میں سالانہ امتحان کے دوران نقل کے لئے ہر سہولت مہیا کرنے میں مصروف عمل تھے اسی دوران حیدرآباد بورڈ کی جانب سے تشکیل دی گئی مختلف ٹیموں نے چیئرمین بورڈ پولیس کے ہمراہ امتحانی مراکز پر چھاپے مارے اور ان افراد کو گرفتار کیا۔ اس کے علاوہ 500 طالب علموں کو نقل کرتے ہوئے پکڑا اور امتحانی مراکز سے بے دخل کردیا یہ بچے جنہیں اعلیٰ تعلیم و تربیت حاصل کرکے معاشرے کے مختلف شعبوں میں جاکر اپنے صلاحیتوں کے جوہر دکھانے تھے اپنے ملک کا نام روشن کرنا تھا لیکن امتحانی مراکز میں ان کی صلاحیتوں پر زنگ لگایا جارہا تھا اور انہیں زندگی کے ابتدائی ایام میں ہی مفلوج کیا جارہا تھا۔

    اس امر سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ کرپشن صرف بڑے اداروں اور بڑے لوگوں کے میراث ہی نہیں بلکہ ہمارے اس نظام میں ابتدا سے ہی باقاعدہ اسکی مشق کرائی جاتی ہے۔ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن سندھ کا وہ ادارہ ہے جو نویں، دسویں، گیارہویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات منعقد کراتا ہے حیدرآباد بورڈ نہ صرف حیدرآباد بلکہ لاڑکانہ، جامشورو، دادو، بدین، مٹیاری، ٹنڈوالہیار، شہیدبینظیرآباد، ٹھٹھہ اور سجاول میں ہونے والے امتحانات کا انعقاد بھی کراتا ہے جس میں چیئرمین بورڈ کے مطابق اس مرتبہ 115 مراکز قائم کئے گئے ہیں جس میں 100360 طلبہ نے امتحان دیئے جس میں 64701 لڑکے اور 35659 لڑکیاں امتحانات میں شریک تھے جس کے لئے باقاعدہ انتظامات کئے گئے اور نقل کی روک تھام کے لئے 22 ٹیمیں تشکیل دی گئیں جن کا مستقل کام مختلف امتحانات مراکز کا دورہ کرنا تھا اور نقل کے خلاف کریک ڈاو ¿ن تھا۔ اس کے علاوہ کچھ امتحانی مراکز کے باہر پولیس کی تعیناتی کی گئی ان تمام انتظامات کے بعد تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اس مرتبہ بورڈ نے نقل کی مکمل روک تھام کی تھان لی ہے لیکن جیسے ہی امتحانات کا آغاز ہوا تو یہ سارے انتظامات دھرے کے دھرے رہ گئے اور نقل کے لئے ہر وہ طریقہ اختیار کیا گیا جو ممکن تھا اور دفعہ 144 کے نافذ ہونے کے باوجود امتحانی مراکز کے باہر خاصے لوگ موجود تھے ان میں ہر عمر کے افراد موجود تھے بچے سے لیکر بوڑھے تک اور یہ لوگ اندر بیٹھے اپنے پیاروں کی بظاہر مدد کر رہے تھے لیکن اصلاً انہیں تباہ کر رہے تھے پولیس دور دور تک موجود نہ تھی اور اکثر امتحانی مراکز کی کھڑکیوں اور دروازوں پر افراد کھڑے نقل کا سامان مہیا کرنے میں مصروف تھے اس کے علاوہ اس سامان کو اندر تک لے جانے کا فریضہ ان کالجوں کے پٹے والے کر رہے تھے۔

    اختر جو ایک پرائیویٹ کالج میں پٹے والے کے فرائض انجام دیتا ہے اس سے پوچھا گیا تو اس نے بتایا کہ 300 سے 400 روپے میں ہم یہ حل شدہ پرچہ جات باہر سے اندر تک پہنچاتے ہیں اور وقت کے ختم ہوتے ہوتے یہ ریٹ نیچے ہوتے رہتے ہیں لیکن ہم باآسانی سے 1500 بنالیتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ

٭    اتنے انتظامات کے باوجود اس لینے والے کی ہمت ؟
٭    کس کی اجازت سے یہ ہوتا ہے موجودہ مرکز کا پرنسپل کی کیا حیثیت ہے؟
٭    ہر مرکز میں ایک ایکسٹرنل کی موجودگی کے باوجود ایسا کیسا ہوتے ہے؟
٭    باہر موجود افراد کو کس طرح موجودہ پرچے کا علم ہوتا ہے؟
٭    کون اتنے قلیل وقت میں اس کا حل بناتا ہے؟
٭    مشکوک طلبہ اور اساتذہ کو کیا سزا ملتی ہے؟

    یہ تمام سوال چونکا دینے والے ہیں کیونکہ میڈیا پر آکر اپنے انتظامات بتاکر لوگوں سے کریڈٹ لینے والے امتحانات کے دوران دکھائی نہیں دیتے اور چند امتحانی سینٹرز کا دورہ کرکے اپنے آپ کو بری ازمان سمجھنے لگتے ہیں۔ اس صورتحال کا ذمہ دار کوئی ایک شخص نہیں بلکہ اس عمل سے تعلق رکھنے والا ہر شخص ہے ایک حیران بات یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ ایک ایسی کتاب بھی ہے جو ان امتحانوں میں طلبہ کے لئے سب سے زیادہ مفید ثابت ہوتی ہے صرف امتحانوں سے 10-15 دن پہلے بھاری مقدار میں چھپائی جاتی ہے اور اس کی کھپت پورے سال استعمال ہونے والی کورس کی کتابوں سے بھی زیادہ ہے۔ یہ کتاب گائیڈ کے نام سے موجود ہے جو امتحانات میں نقل کا سب سے پرانا اور سب سے مسنتد ذریعہ ہے لیکن اصل بات تو یہ ہے کہ کون اس کو آسانی سے فراہم کرتا ہے ایک ریٹائر ٹیچر عزیز خان کے مطابق زیادہ تر بورڈ کے امتحانات کے دوران امتحانی مرکز کے پرنسپل ظاہر نہیں ہوتے اور اکثر اسکولوں میں موجود نہیں ہوتے ان امتحانات کے پرچوں کو بے انتہا خفیہ رکھا جاتا ہے اور صبح خفیہ طریقہ سے ایک حساس گاڑی میں سیکورٹی میں مراکز تک پہنچائے جاتے ہیں۔ یہاں سے غیرقانونی کام کا آغاز ہوتا ہے ان مراکز کے کچھ بدعنوان اساتذہ چند پیسوں کے عوض آو ¿ٹ کردیتے ہیں اور اب یہ امتحانی پرچہ باہر لوگوں کی پہنچ میں آجاتا ہے۔ جسکے بعد کسی استاد سے پیسے یا دوستی کے عوض حل کروایا جاتا ہے اور دوبارہ امتحانی مرکز لے جاکر طالب علموں کو فراہم کیا جاتا ہے جہاں بچوں کو نقل کی کھلی آزادی ملتی ہے اور وہ نقل میں مگن ہوجاتے ہیں اگر کوئی بورڈ کی ٹیم اتفاقاً دورہ بھی کرلے تو اسے آفس میں بٹھا کر ناشتہ کروایا جاتا ہے اور اندر باقاعدہ بچوں کو اپنے کارتوس چھپانے کی تشبیہہ کی جاتی ہے جس کے بعد یہ ٹیم رسماً مرکز کا دورہ کرکے واپس روانہ ہوجاتی ہے۔

    اس کے علاوہ ہر مرکز میں ایک ایکسٹرنل بھی مقرر کیا جاتا ہے جو امتحانی مرکز میں پیش آنے والے مسائل حل کرتا ہے اور نقل کی روک تھام کے لئے گشت کرتا رہتا ہے لیکن اس کام میں ناکام رہتے ہیں اور ایک ایکسٹرنل کے مطابق اگر شکایت کی بھی جاتی ہے تو اس کا ازالہ کرنے کے بجائے ڈیوٹی تبدیل کردی جاتی ہے جسے ایکسٹرنل کو ذاتی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے البتہ اگر بورڈ ٹیم کبھی کسی مرکز کی کلاس میں داخل ہوجاتی ہے تو وہ رسماً کچھ بچوں کی کاپی لے کر انہیں بے دخل کردیتی ہے لیکن یہ بچہ پھر رشوت کے ذریعہ اپنا مسئلہ بورڈ آفس سے بآسانی حل کروالیتا ہے۔

    اگر نقل کے لئے بنائے گئے قانون پر نظر ڈالی جائے تو اس کے مطابق اس عمل میں پائے جانے والے بچے کو تین سال تک امتحان دینے کیلئے نااہل قرار دیا جاتا ہے یہ سزا ایک بہترین سزا ہے جس سے نقل کی روک تھام کی جاسکتی ہے لیکن ہمارا سسٹم اور لوگ بہت کمزور ہیں اور اس طرح کے اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں۔





محمد رافع 2K14/MC/140
بورڈ آفس میں پیسوں کی عوض نتائج میں ردوبدل

اس معاشرے کے مختلف شعبوں میں رشوت عام سی دکھائی دیتی ہے پھر چاہے وہ محکمہ ہیلتھ ہو یا محکمہ پولیس یا پھر کوئی ادارہ ہو، یہاں تک کے ادارہ تعلیم بھی اس بیماری سے نہ بچ پایا اگر سرکاری نوکری حاصل کرنا ہو تو رشوت کا خیال ذہن میں آتا ہے ایسا لگتا ہے کہ میرٹ صرف نام کی رہ گئی ہے اگر بات کی جائے حیدرآباد بورڈ کی تو یہاں بھی رشوت پیش پیش نظر آتی ہے عوام پیسوں کی عوض اپنے من پسندنمبر اور گریڈ حاصل کرلیتی ہے پیسے دے کر نتائج میں ردوبدل کیا جاتا ہے کسی کو اپنا پیپر کلیئر کروانا ہو یا A1 گریڈ حاصل کرنا ہو وہ بورڈ کے کسی ایجنٹ سے رابطہ کرتا ہے تو پھر وہ ایجنٹ نمبروں کے حساب سے پیسے بتا کر نتائج تبدیل کراتا ہے دراصل یہ کسی ایک انسان کا کام نہیں بلکہ ایک پورا سسٹم بنا ہوا ہے جس میں بورڈ حیدرآباد کے چوکیدار سے لیکر اعلیٰ افسران تک شامل ہیں۔ اگر ہم 2015 سے پہلے کی بات کریں تو نتائج میں ردو بدل کے 30,000 سے 50,000 تک وصول کئے جاتے تھے جن میں سپلی کلیئر کروانے کے 10 سے 15 ہزار، B گریڈ حاصل کرنے کے 20 سے 25 ہزار اور A/A1 گریڈ حاصل کرنے کے 30 سے 50 ہزار تک وصول کئے جاتے تھے۔ مگر 2015 کے بعد اینٹی کرپشن کے چھاپے کے بعد سے یہ کاروبار کچھ سست سا دکھائی دیتا ہے مگر مکمل طور پر ختم نہیں ہوا بورڈ آفس کے چوکیدار کے مطابق اب نتائج میں ردوبدل میں کچھ کمی سی آگئی ہے اب نتائج تبدیل کرانے کےلئے زیادہ رقم ادا کرنی پڑتی ہے جن میں سپلی کلیئر کے 20 ہزار،B گریڈ کے 30 ہزار اور A/A1 گریڈ کے 60 ہزار وصول کئے جاتے ہیں یہ رقم صرف ایک ہی فرد کے حصے میں نہیں آتی بلکہ مختلف افراد کے حصہ میں آتی ہے جن میں چوکیدار، کلرک اور اعلیٰ افسران شامل ہیں۔
    یہ کام دو طرح سے ہوتا ہے ایک تو انفرادی طور پر اور دوسرا اسکولوں کے ذریعے، انفرادی طور پر بندہ اپنے مدد آپکے تحت مختلف ذرائع سے نتائج میں ردوبدل کرواتا ہے اور نتائج تبدیل کرنے کےلئے ایک بڑی رقم ادا کرتا ہے بڑے اور پرائیویٹ اسکول اپنے اسکول کی عزت کے خاطر اور اپنا معیار بلند کرنے کیلئے طلبہ کے نتائج تبدیل کرواتے ہیں اور یہ واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے ایک بڑے پرائیویٹ اسکول کے نتائج اور عام اسکول کے نتائج میں بہت فرق ہوتا ہے۔ بڑے اسکول کے نتائج میں A اور A1 گریڈ زیادہ تر دکھائی دیتے ہیں، B اور C گریڈ تو آٹے میں نمک کے مانند دکھائی دیتے ہیں بڑے اور اعلیٰ اسکولوں اور کالجوں کی بات کی جائے تو وہ اپنے اسکول اور کالج کا معیار بڑھانے کیلئے بورڈ انتظامیہ کو ایک بڑی رقم ادا کرتے ہیں اور یہ رقم 5 سے 7 لاکھ تک ہوتی ہے۔ ان اسکولوں اور کالجوں میں County Cambridge ، حیات اور فاو ¿نڈیشن پبلک اسکول نمایاں نظر آتے ہیں، ان اسکولوں کے نتائج باقی اسکولوں کے مقابلے میں واضح فرق دیکھا جاسکتا ہے، بعض طلبہ بورڈ امتحانات میں خالی کاپی چھوڑ دیتے ہیں اور بورڈ امتحانات میں اپنے تعلقات کی بنیاد پر پیسوں کی عوض اعلیٰ گریڈ حاصل کرلیتے ہیں جن کا مقصد اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لینا ہوتا ہے یا تو اچھی ملازمت۔ تو یوں پیسوں کے عوض تعلیم کو بیچا جارہا ہے اور اپنے ملک کے مستقبل کو برباد کیا جارہا ہے حکومت کو چاہئے کہ ایسے لوگوں کے خلاف کاروائی کرے اور حیدرآباد بورڈ کو کالے دھندے سے آزاد کرے۔

محمد زبیر 2K14/MC/67
 جعلی ڈگری

    جدید دور میں جہاں نئی نئی چیزیں متعارف کرائی جارہی ہیں وہاں ان کی نقل اور جعلی چیزیں پیش پیش دکھائی دیتی ہیں، چاہے وہ پیسے کے نوٹ ہی کیوں نہ ہو یا ہو ڈرائیونگ لائسنس ہی کیوں نہ ہو۔ گاڑی کے کاغذات ہو یا مکان کے کاغذات یہ سب پیسوں کے عوض بنوائے جاسکتے ہیں پیسوں کے عوض اندھے اور لنگڑے کو ڈرائیونگ لائسنس فراہم کردیا جاتا ہے دوسری جانب جیتے جاگتے انسان کا جعلی ڈیتھ سرٹیفکٹ بنواکر جائیداد کا بٹوارا کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح جعل سازوں نے تعلیم کو بھی نہ بخشا اور جعلی ڈگری معاشرے میں متعارف کروائیں۔ جس میں پاس سرٹیفکٹ اور مارکس شیٹ وغیرہ وغیرہ شامل ہیں۔

    اگر ہم حیدرآباد بورڈ کی بات کرے تو وہاں جعلی ڈگری کا جیسے کاروبار چل رہا ہو، حیدرآباد بورڈ کے بہت سے عہدیدار اس کام میں پیش پیش دکھائی دیتے ہیں اگر ہم حیدرآباد بورڈ میں جعلی ڈگری کی بات کرے تو اس میں دو کٹیگری آجاتی ہیں، ایک کٹیگری ان میں وہ ہے جو پیپر دینے کے بعد اپنے نتائج میں ردوبدل کرواکر اپنے نمبر میں اضافہ کرواتے ہیں یہ کام بورڈ آفس کے عہدیدار اور ایجنٹ مل کر کرتے ہیں اور لوگوں سے 40,000 ہزار سے لیکر 60,000 تک وصول کرتے ہیں یہ کام بھی ایک طریقے سے جعلی ہے، اگر دوسری کٹیگری کی بات کرے تو اس کا تو اللہ ہی حافظ ہے اس کٹیگری میں بورڈ آفس کے عہدیدار بغیر پیپرز دیئے گئے شاگرد کی مارکس شیٹ اور پاس سرٹیفکٹ جاری کردیتے ہیں اس شاگرد کا بورڈ آفس میں ریکارڈ تک نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود اس کی جعلی مارکس شیٹ اور پاس سرٹیفکٹ جاری ہوجاتے ہیں۔

    حیدرآباد بورڈ میں تو جعلی ڈگریوں کا کاروبار عروج پر دکھائی دیتا ہے مگر بورڈ آفس کے علاوہ بورڈ ایجنٹ کے ذریعے لوکل کمپیوٹر آپریٹر بھی جعلی ڈگری جاری کرنے میں مشغور دکھائی دیتے ہیں۔ مارکس شیٹ اور پاس سرٹیفکٹ اسکین کرکے ایڈیٹنگ کے ذریعے نتائج تبدیل کردیتے ہیں اور اسی کاغذ پر پرنٹ نکال کردیتے ہیں جو بورڈ آفس میں استعمال کیا جاتا ہے یہ کاغذ انہیں بورڈ ایجنٹ فروخت کرتے ہیں اور جعلی ڈگریاں بنوانے میں مدد کرتے ہیں یہ کام بورڈ آفس میں بھی ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ لوگوں سے 5,000 ہزار سے لیکر 10,000 ہزار تک وصول کرتے ہیں۔ مگر اس کام کی کوئی گارنٹی نہیں ہوتی، جعلی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اگر وہ نوکری کے لئے درخواست دیتے ہیں تو ان کی نوکری لگ جاتی ہے مگر جب بھی کبھی ان کی ڈگری کی جانچ پڑتال کی جاتی ہے تو ان کو اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے اور نوکری سے فارغ کردیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس پر کیس بھی چلایا جاتا ہے نوکری سے فارغ ہونے کے ساتھ ساتھ معاشرے میں اس کی الگ بدنامی ہوتی ہے۔
    جعلی ڈگری کی بات کی جائے اور جانچ پڑتال کے بعد کی تو جعلی ڈگری کے معاملے میں بہت سے ہمارے سیاستدان بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں، ہمارے ملک کے منتخب سیاستدان کی ڈگریوں کی جانچ بڑتال کی جاتی ہے تو ان میں سے چند سیاستدانوں کی ڈگریاں جعلی نکل آتی ہےں، ماضی میں بھی ایسے کیس سامنے آئے ہیں جن میں چند سیاستدانوں کو شرمندگی اٹھانی پڑی، صوبائی وزیر محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن مکیش کمار چاولا کے بارے میں بورڈ انتظامیہ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ یونیورسٹی آف سندھ نے جانچ پڑتال کا کہا اور جب حیدرآباد بورڈ نے اس کی جانچ پڑتال شروع کی تو پتہ چلا کہ مکیش کمار نے میٹرک اور انٹر کے پیپرز دیئے ہی نہیں ہے۔ مکیش کمار نے میٹرک اور انٹر کی جعلی ڈگری حاصل کی ہے اور یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری کرلی اور جب ان کی جعلی ڈگری کا پتہ چلا تو ان کی تمام ڈگریاں جعلی قراردے دی گئی اور ان کو نااہل قرار دے دیا گیا۔

    پیپلز پارٹی کی شازیہ مری کی ڈگریوں کی تحقیقات کی جارہی ہیں اور عدالت میں ان کی جعلی ڈگری سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے۔ اگر ان کی جعلی ڈگریاں ثابت ہو گئیں تو ان کو نااہل قرار دے دیا جائے گا اور یہ بات نہایت ہی شرمندگی کا باعث ہے۔ اگر ہم کو اس شرمندگی سے بچنا ہے تو ہمارے ملک کے بااثر اداروں کو چاہئے کہ اس پر اقدامات کرے اور ان جعلی ڈگریوں کے کاروبار کو ختم کرے اور بورڈ انتظامیہ میں بیٹھے کرپٹ لوگوں کے خلاف ایکشن کرے اور دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی سے بچائے۔


حماد زبیر2k14/mc/30
نجی اور سرکاری اسکولوں کے بورڈ امتحانات کے نتائج میں واضح فرق

نجی اور مشہورِ زمانہ اسکول اور کالجز کے نتائج میں پوزیشن واضح ایک ہی سلیبس ہونے کے با وجود دونوں کے شاگردوں کے معیار میں فرق۔
دورِ حاضرکے تعلیمی معیار کا اندازہ لوگ آج کل اپنے بچوں کو اچھے اسکولز میں پڑھا کرکر تے ہیں اےسے اسکولز جن کا نام مشہورِ زمانہ اور ساتھ ساتھ ا س اسکولز کے بچے پوزیشن ہولڈرز ہوتے ہیں ۔ لوگوں یا والدین کا معیارِتعلیم کو جانچنے کا دوسرا طرےقہ ےہ بھی ہو گیا ہے کہ وہ پہلے سے ہی اپنے بچوں کوA-level اور O-level کی تعلیم دلوانے لگے ہیں اور اس کا رجحان آج کل والدین میں زیادہ پایا جاتا ہے ۔ زیادہ تر والدین بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری اےجو کیشن حیدر آباد کے امتحانات میں کاپی کلچر سے پریشان ہو کر فیڈرل بورڈ اور O-level اور A-levelکو ترجیح دینے لگے ہیں۔ اگر ہم صرف حیدر آباد بورڈ کی بات کریں تو اس بورڈ میں سکھر اور میر پور خاص جےسے تعلقہ بھی شامل ہو جاتے ہیں کہ سکھر اور میر پور خاص کے امتحانات کے نتائج کا اعلان بھی حیدر آباد بورڈ کے ذمہ آتا ہے۔ حیدر آبادکے بہت سے تعلقہ موجود ہیں جن میں گورنمنٹ اسکولز کی تعداد بہت زیادہ ہے اگر ہم حیدر آباد سٹی کی بات کریں
 تو اس میں بوائز انسٹیٹیوٹ کی تعداد79ہے جبکہ اگر گرلز انسٹیٹیوٹ کی 103ہے اور پرائمری اسکولز کی تعداد170جبکہ مڈل اسکولز کی تعداد24ہے اور کو ایجو کیشنل انسٹیٹیوٹ اور ہائی اور ہائر سیکنڈری اسکولز 36ہیں ۔ ےہ سب اسکولز بورڈ آف انٹر میڈیٹ اینڈ سیکنڈری اےجو کیشن حیدر آباد سے رجسٹرڈ شدہ ہیں اور ان میں سے کچھ اسکولز گورنمنٹ کے ہیں اور کچھ پرائیوٹ ہیں اور سب سے زیادہ خوش نصیبی کی بات ےہ ہے کہ گورنمنٹ کے مہیا کئے ہوئے گورنمنٹ اسکولز کبھی بھی حیدر آباد بورڈ میں پوزیشن نہیں لے پاتے اور مہنگے مہنگے اسکولز جن کا سلیبس بالکل گورنمنٹ اسکولز جیسا ہے وہ ہمیشہ پوزیشن کے معاملے میں بازی لے جاتے ہیں ۔ ایسا صرف اسکولز میں نہیں بلکہ کالجز میں بھی ایسا ہی ہے ۔ جہاں بچے ہائر ایجو کیشن حاصل کرنے جاتے ہیں ۔ مشہورِ زمانہ اسکولز اور کالجز کے جن کے بچوں کی زیادہ تر پوزیشن آتی ہیں جیسا کہ سپےرےئر کالجز آف سائنس اور کاﺅنٹی کیمبرج اور حیات گرلز کالج کا دورہ کرنے کے بعد کافی سارے راز افشاںہوئے جیسا کہ ان اسکولز اور کالجز میں سلیبس کے ساتھ ساتھ ایکٹیویٹیز پر بھی توجہ دی جاتی ہے جیسا کہ اگر کوئی کرکٹ میں انٹرسٹ رکھتا ہے تو اسے موقع دیا جاتا ہے پرفارم کرنے کا ، اگر کسی بچے کا انٹرسٹ ہاکی یا دوسرے گیمز کی طرف ہے تو ان سب کو موقع فراہم کیا جاتا ہے جبکہ اگر ہم گورنمنٹ اسکولز اور کالجز کی بات کرتے ہیں تو وہاں سلیبس پڑھانے کے علاوہ ایسی کوئی ایکٹیوٹی نہیں ہوتی جس میں اسٹوڈنٹس اپنے اےجو کیشن کے ساتھ ساتھ اپنا ٹیلنٹ دکھا سکے۔
    پرائیوٹ انسٹیٹیوٹ اکیڈمک سال کے آخر میں ایک سالانہ امتحان ضرور لیتے ہیں جس سے اسٹوڈنٹس کے پورے سال کی تعلیمی پروگریس پتہ لگے لیکن گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ میں سالانہ امتحانات ہونے کے بجائے ہر طالب علم آخر میں بورڈ کے امتحانات ہی دیتا نظر آتا ہے شاید ےہی وجہ ہے کہ پرائےوٹ انسٹیٹیوٹ کے شاگرد زیادہ ہوشیار اور ذہین ہوتے ہیں بنسبت گورنمنٹ انسٹیٹیوٹ کے شاگردوں سے اور ےہی سوشل گرومنگ انہیں تعلیم میں آگے رکھتی ہے اور پوزیشنز کو مستحکم بناتی ہے ۔ ہر سال کی طرح اس سال بھی SSC اور HSCکے 21,786 طلباءامتحانات کے لئے انرولڈ ہوئے جس میں سے 18,977طلباءامتحانات میں کامیاب ہوئے جس میں8,582بوائز اور10,395گرلز تھیں۔ SSCکی طلباءسدرة المنتہیٰ نے سائنس گروپ سے پہلی پوزیشن حاصل کہ جو کہ پر فیکٹ اسکول ٹھٹھہ سے ہیں جبکہ دوسری پوزیشن فائزہ نے لطیف نیازی اسکول سے اور محمد شہر یار نے گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول ہالیپوٹہ سے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ HSCکے میڈیکل گروپ کے طلباءماہین نے پہلی ، سعدیہ نے دوسری اور ردا نے تیسری پوزیشن حاصل کی ۔ پری انجےنئرنگ گروپ کے طلباءروہاما اور محمد عمر نے سپیر ےئر کالج سے پہلی اور دوسری پوزیشنز لیں اور تیسری پوزیشن درشنہ نے حاصل کی نوابشاہ کے ایچ ۔ایم خواجہ کالج سے ۔




محمد عزیر شاہ 2k14/mc/158
حیدرآباد بورڈ بلمقابل کیمبرج، آغا خان اور فیڈرل بورڈ

جہاں ہمارے معاشرے میں ایک غریب شخص کے اور ایک امیر شخص کے بچے کے معیارتعلیم میں واضح فرق نظر آتا ہے، ایک سرکاری اسکول اور ایک نجی اسکول کی تعلیم مختلف ہے بلکل اسی طرح ملک کے مختلف بورڈز میں بھی معیار تعلیم کا ایک بڑا فرق دیکھائی دیتا ہے۔ خواہ وہ فرق کتابوں کے انتخاب میں ہو، اساتذہ کی کارکردگی میں یا امتحانات کے طریقے میں۔یہ انتہائی افسوس کی بات ہے کہ ایک ہی ملک میں قائم، ایک ہی معاشرے میںکام کرنے والے مختلف بورڈز کے معیار تعلیم میں اتنا فرق ہے۔ یہاں یہ بات بھی افسوس کرنے والی ہے کہ یہ سندھ کی زمین جو کہ ادیبوں کے حوالے سے بہت مشہور رہی ہے آج اسی سندھ کے اسکولوں کا پاکستان کے دوسرے صوبوں سے تعلیم کے میدان میں کوئی موازنہ نہیں ہے۔یہ انتہائی شرم کی بات ہے کہ ہمارے ملک میں تعلیم کے معیار کو خطوں کی مناسبت سے تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ competitive امتحانات میں یہ واضح نظر آتا ہے کہ سندھ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں بہت پیچھے ہے۔
حیدرآباد بورڈ اور پاکستان میں موجود دوسرے بڑے بورڈز جو کہ پورے ملک میں موجود ہیں جیسے کہ کیمبرج ، آغا خان اور فیڈرل بورڈ کے مقابلے میں بے حالی کے اسباب میں سب سے پہلا اور اہم سبب کاپی کلچر نظر آتا ہے۔ جس بورڈ کا بھی معیار تعلیم اچھا ہے وہاں کوئی کاپی کلچر نہیں ہے۔ شہر حیدرآباد میں کئی ایسے اسکول اور کالجز بھی ہیں جہاں حیدرآباد بورڈ کے ساتھ ساتھ فیڈرل اور کیمبرج بورڈ بھی موجود ہیں۔ ایک ہی کالج میں جب حیدرآباد بورڈکے امتحانات ہوتے ہیں تو کاپی کلچر عروج پر ہوتا ہے اور وہاں ہی جب کسی اور بورڈ کے امتحان ہوتے ہیں تو کاپی کلچر کا نام و نشان تک نہیں ہوتا۔ حیدرآباد بورڈبلکے پورے سندھ میں جو کاپی کلچر ہے اسکے اسباب میں بھی ہر شخص ملوث نظر آتا ہے مگر کوئی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ شاگردوں سے جب پوچھا جاتا ہے کہ وہ امتحانات میں کاپی کیوں کرتے ہیں تووہ اسکول اور کالجز میں اساتذہ کی غیر حاضری کو سبب بتاتے ہیں کہ سرکاری اسکول اور کالجز میں یا تو اساتذہ آتے ہی نہیں اور اگر آتے ہیں تو پڑھاتے نہیں۔ اساتذہ اسکا سبب سہولتوں کی عدم دستیابی اور کم تنخواہ بتاتے ہیں ۔ جب حکومت سے بات کی جائے تو حکومت بجٹ کا رونا روتی ہے۔ گویا ہر شخص اس میں کسی نہ کسی طرح ملوث ہے مگر ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا ہے۔
حیدرآباد بورڈ اور دیگر بورڈز میں دوسرا واضح فرق نصاب میں نظر آتا ہے۔ اگر فیڈرل بورڈ کی بات کی جائے تو انکی تمام کتابیں up to date اور اعلی معیار کی ہیں بلکے اسی طرح کے دیگر بورڈز جیسے کے کیمبرج اور آغا خان بورڈ میں پڑھائی جانے والی کتابیں نہ صرف اعلی معیار کی ہیں بلکے علمی شہرت یافتہ اداروں کی شائع کردا ہیں۔ اسکے برعکس حیدرآباد اور صوبہ سندھ کے دیگر بورڈز میں آج تک وہی کتابیں
 پڑھائی جا رہی ہیں جو کہ پچھلی دو نسلوں کو پڑھائی گی ہیں یعنی ہمیں وہی کتابیں پڑھائی جاتی ہیں جو ہمارے باپ دادا کو پڑھائی گئی تھی۔ آج کے اس جدید سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں ہمارے نصاب میں وہ کتابیں شامل ہیں جنہیں ایک مدت سے update نہیں کیا گیا ہے۔
حیدرآباد بورڈاور سندھ میں تعلیم کی بے حالی کا ایک سبب اساتذہ کی نااہلی بھی ہے۔جیسے کرپشن نے سندھ کے دوسرے اداروں کی کارکردگی کو متاثر کیا ہے ویسے ہی تعلیم کے شعبے میں بھی نااہل لوگوں کے تقرر نے بڑا بیگاڑ پیدا کیا ہے۔ سرکاری اسکول اور کالجز میں اساتذہ کا تقرر یا تو رشوت دے کر ہوتا ہے یا پھر سیاسی بنیاد پر۔ اسی طرح حیدرآباد بورڈ بھی کیونکہ حکومت سندھ کا ایک ادارہ ہے تو اس ادارے کی کارکردگی پر بھی کرپشن کے برے اثرات پڑے ہیں۔ جہاں ہم دیگر بورڈز جیسے فیڈرل، آغا خان اور کیمبرج کی بات کرتے ہیں تو رشوت دے کر نمبرز میں تبدیلی کے کیسس نہ ہونے کے برابر ہیں۔ مگر حیدرآباد بورڈ کے لیے امتحانات کے نتائج میں کرپشن اور پیسوں میں بیچی جانے والی جعلی ڈیگریاں ایک بڑا مسلئہ ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہمارے نصاب کو update کرکے معیار تعلیم کو بلند کرنے کی سنجیدگی سے کوشش کرے تاکہ کوئی اس طرح کا فرق باقی نہ رہے۔


مشتاق علی جمالی2k14/mc/142
کاپی چیکنگ

ملک میں میٹرک اور انٹر کے طباءکی تعداد میں بڑی تیز ی سے اضافہ ہو رہاہے اور یہ دونوں امتحان ایسے ہیں جن کے جن کے نتائج پربچوں کے پورے کیرئیر کا انحوار ہوتا ہے۔
کئی سال پہلے حیدرآباد تعلیمی بورڈ میں میٹرک اور انٹر کے طلباءوطلبات کے امتحانی پرچوں کا جائزہ لینے کے لئے ایک سسٹم مروج تھا، مرکز پر بورڈ نے نمبر لگائے اورپرچے دیکھنے کے لئے مراکز قائم کر دیئے جہان ان دہ امتحانوں کے تمام طلباءو طلبات کے پرچے سیکجا ہو جاتے تھے اور مرکز میں اساتذہ خود آکر بورڈ کی نگرانی میں پرچوں کی جانچ پڑتال کرتے اور ان کے نمبر لگاتے تھے اس سسٹم میں اساتذہ کو ایک معقول ڈیلی الاونس دیا جاتا تھا جو مناسب تھا اور ساتھ ہی انہیں ایک دن میں جانچنے کے لئے کسی بھی مضمون کے بیس سے تیس پرچے دیئے جاتے تھے نتیجہ یہ تھا کہ مارکنگ اطمیناں اور پوری احتیات کے ساتھ اور قابل اعتماد طریقے سے کی جاتی تھی اس نظام میں کسی قسم کی گڑ بڑ کا امکان نہ ہونے کے برابر تھا اور طلباءاور ان کے والدین اور تعلیمی ماہر اس طریق کار پر مطمئن تھے۔

لیکن چند سال پہلے حیدرآباد تعلیمی بورڈ کے معاملات سے وابستہ کسی شخص یا بعض اشخاص کے ذہن یہ خیال آیا کہ موجودہ طریق کار بہت سست رفتار ہے جس کی وجہ سے نتائج مرتب ہونے میں کافی تاخیر ہوجاتی ہے اس لئے اس سسٹم پر نظر ثانی کی ضرورت ہے چناچہ فیصلہ کیا گیا کہ امتحانی پرچوں کی جانچ پڑتال کرنے والے استائذہ صاحبان کو یومیہ الاونس دینے اور ایک محدود تعداد میں پرچے دینے کے بجائے یہ اصول اپنایا جائے کہ جو استاد ایک دن میں جتنے بھی پرچوں کی مناسب مارکنگ کر سکتا ہو اسے اس کے اجازت ہونی چاہیے اور یومیہ الاونس بند کر دیا جائے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ پرچوں کی مارکنگ کا نظام بھت تیز رفتار ہوجائے گا اور نتائج جلد مرتب کرنا ممکن ہو جائے گا۔
لیکن یہ فیصلہ کرنے والوں نے یہ نہ سوچا کہ اگر اساتذہ کو ان کے مطالبے پر عملا غیر محدود تعداد میں جانچنے کے لئے امتحانی پرچے دینے شروع کر دیئے گئے تو زیادہ سے زیادہ معاوضے کے لالچ میں بہت سے اساتذہ کوشش کریں گے کہ وہ اتنے پرچوں کی مارکنگ کریں کہ ان کے لئے ایک دن کا معاوضہ کافی بڑھ جائے۔
چناچہ جب اس نئے طریق کار پر عملدر آمد شروع کیا گیا اور یومیہ الاونس ختم کر کے مارکنگ کے لئے پرچے عملا غیر محدود اور غیر معینہ تعداد میں دیئے جانے لگے تہ اساتذہ صاحبان نے بھی پرچے جانچنے کی رفتار بھت تعز کر دی اور اس تیزی کی وجہ سے بچوں کے ساتھ کماحقہ انواف کرنا ممکن نہ رہا۔
زرائع کے مطابق جلد بازی میں مارکنگ کرنے کی وجہ سے طرح طرح کی خرابیاں پیدا ہو ئیں اور کچھ اساتزہ نے پرچوں کی کی عملا غیر محدود مارکنگ سے فائدہ اٹھانے کے لئے جانچ پڑتال کے عمل میں احتیات اور باریکی بینع کے تقاضوں کو نظر انداز کرنا شروع کر دیا یوں پرچے جانچنے کا عمل تو لازمن تیز تر ہوگیا لیکن بچوں کے ساتے انصاف کرنا مشکل تر ہوگیا۔
ظاہر ہے کہ میٹرک کے نتیجے پر ان بچوں اور بچیوں کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں داخلے کا انحصار ہوتا ہے اور اگر ان کے پرچے پوری ذمیداری اور پوری احتیاط سے مارک نہ کئے جائیں تو انہیں نقوان پہچانے کا قوی احتمال بھی ہوسکتا ہے۔ اس طرح انٹر میڈیٹ کے امتحان میں بچوں کے نتائج ان کے لئے غیر معمولی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں کیونکہ انہی کی بنیاد پر انہیں ہمیشہ وارنہ کالجوں میں داخلے کا موقع ملتا ہے۔ انٹر کے امتحانی پرچوں کے بے اگر پوری احتیاچ اور باریک بینی سے جانچ پڑتال نہ کی جائے تو بھت سے بچوں کے ساتھ ہی انصافی ہونے اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔
اس کا ایک نتیجہ یہ ہو رہا ہے کہ بہت سے بچے اپنے اعلان کردہ نتائج سے مطمئن نہیں ہوپاتے اور اپنے پرچوں کی دوبارہ چیکنگ کے لئے اپنے ثانوی بورڈ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
زرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جب پرچے ری چکنگ کئے جاتے ہیں تو ان میں سے قابل لحاظ تعداد میں غلطیاں نکلتی ہیں یا تہ ٹوٹل غلط ہوتا ہے یا بہت سے سوالات مارکنگ سے رہ جاتے ہیں۔ اس قسم کی غلطیوں کی بے شمار مثالیںہیں۔ مثال کے طور پر جب ایک پچےکا پرچہ بورڈ نے دوبارہ چیک کیا تو معلوم ہوا کہ طالب علم نے کسی خاص مضموں میں76 نمبر حاصل کئے تھے لیکن ممتحن صاحب نے جلد بازع میں16 لیکھ دیا۔
اس طرح کی اور بہت سی غلطیاں ری چکنگ کے دوران سامنے آتی رہی ہیں۔ ایک اور مشکل یہ ہے اگر ایک طالب علم اپنا ایک پرچہ دوبارہ چیک کرانے کی درخواست دینا چاہے تو اسے فی پرچہ ۶۰۰ سے۶۷۰ روپے تک فیس جمع کرانی پرتی ہے ستم بالائے یہ ہے کہ ری چیکنگ کے دوران صرف ٹیکنیکل غلطیوں کو پکڑا جاسکتا ہے، اور ان کی درستگی کی جا سکتی ہے یعنی اگر کسی پرچے کا ٹوٹل غلط ہے وہ ٹھیک کرایا جا سکتا ہے، اس طرح اگر کسی سوال کا جواب مارک ہونے سے رہ گیا ہو تو اس کے نمبر لگوائے جاسکتے ہیں لیکن بچے اور اس کے والدیں کو ایک عدالتی فیصلے کے تحت یہ چیلنج کرنے کی اجازت نہیں ہے کہ سوالات کی جو مارکنگ ہے وہ بے جواز اور معیار ی نہیں ہے۔
یعنی ایک استاد صاحب نے ایک دن میں سو پرچے چیک کرنے کے دوران جس بے احتیاطی کا امکانی مظاہرہ کیا ہو اس کی غلطی پکڑی جا سکتی ھے نہ اس کی اصلاح ہوسکتی ہے چناچہ اس وجہ سے بچوں اور ان کے والدیںکو پورا اطمینان میسر نہیں آتا۔
یہ ساری خرابی مارکنگ کے لئے پرچوں کے یومیہ تعداد عملا مقرر نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہو رہا ہے ضروری ہے کہ نہ صرف مناسب تعداد مقرر کی جائے بلکہ ممتحن حضرات کو یومیہ الاونس دیا جاتا تھا اسے بحال کیا جائے تا کہ ان کی بھی حق تلفی نہ ہو اور وہ ایک دن کی محنت کے بعد صرف بھت تھوڑے معاوضے پر کام کرنے پر مجبور نہ ہوں۔
کسی بھی امتحانی نظام کی خوبی یا کمزوری کہ پر کھنے کا سب سے بڑا معیار یہ ہوتا ہے کہ مارکنگ کس قدر درست طریقے سے اور کس قدر احتیاط کے ساتھ غیر جانبداری سے کی گئی ہے۔
اگر یہی نظام درست نہ ہو تو پورے امتحانی طریقہ کار پر اعتماد اور اعتبار ساقط ہو جاتا ہے۔ موجود طریقہ کار کے مطابق مارکنگ کے غیر معیاری ہونےکا اندیشہ بڑھ جاتا ہے جس سے طلباءو طلبات کا سارا کرئیر خطرے میں پڑ سکتا ہے میری اطلاع کے مطابق ۲۵ یا ۳۰ پرچوں کے بنڈل کی مارکنگ کے لئے تیں گھنٹے کی پابندی پر عمل نہیں ہو رہا۔ ہوسکتا ہے کہ ضوابط میں ایسا لکھا ہو لیکن حقیقت کی دنیا میں ایسا ہر گز نہیں ہو رہا۔
جوابی کاپی میں غلطی ہونے کی صورت میں correction کی جاتی ہے جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے مطابق کاپی کی Re-Evaluation کی اجازت نہیں ہے جوابی کاپیوں کو چیک کرنے کے لئے امیدوار ان کو پندرہ دن کی مہلت دی جاتی ہے تا کہ ری چیکنگ کا کام کالجوں میں داخلوں سے پہلے ہو سکے۔


.......................... 
Outline 

Group Members:
1) Muhammad Saud
2) Muhammad Rafay Khan
3) Muhammad Zubair
4) Mushtaque Jamali
5) Hammad Zubair
6) Muhammad Uzair
بورڈ امتحانات اور جعلی ڈگریاں

(1)امتحانات اور کاپی کلچر (محمد سعود)
بورڈ امتحانات میں بے انتہا اور کھلے عام نقل
بورڈ تیمیں بنائی جاتی ہیں لیکن ایکشن لینے سے قاصر
اکثر اوقات پیپر آؤٹ کردیا جاتا ہے اور حل شدہ سوال باآسانی دوران پیپر مل جاتے ہیں

(2)بورڈ امتحانات میں پیسوں کے عوض نتائج میں ردوبدل (محمد رافع خان)
پیسے دیکر نمبروں میں اضافہ
اکثر فیل طلبہ کو پاس کردیا جاتا ہے
اس کام میں عملے کے مختلف لوگ ملوث
80000 کے ذریعے A1

(3)جعلی ڈگریاں (محمد زبیر)
ایسے افراد جو امتحان نہ دیں اور اکثر پرائمری فیل بھی میٹرک کی ڈگری حاصل کر سکتے ہیں
یہ کام بورڈ آفس کے باہر موجود کچھ ایجنٹ بھی کروا دیتے ہیں

(4)کاپی چیکنگ (مشتاق جمالی)
چیکر کی اہلیت
کاپیوں کی تعداد اور انکی چیکنگ کا وقت
نمبر اسکول کے نام کو دیکھ کر دیئے جاتے ہیں

(5)نجی اور سرکاری اسکولوں کے بورڈ امتحانات کے نتائج میں واضح فرق (حماد زبیر)
پرائیوٹ اور مشہور زمانہ اسکول اور کالجز کے نتائج میں پوزیشن واضح
ایک ہی سلیبس ہونے کے باوجود دونوں کے شاگردوں کے معیار میں فرق

(6)حیدرآباد بورڈ بلمقابل کیمبرج، آغا خان اور فیڈرل بورڈ (محمد عزیر شاہ)
حیدرآباد بورڈ دوسرے بورڈز کے مقابلے میں بے حال
دوسرے بورڈز میں تعلیم کا معیار اعلی
بورڈ امتحانات کے نظام میں تبدیلی کی ضرورت

No comments:

Post a Comment