Thursday, 8 September 2016

پروفائل, محمد وقاص عامر,


محمد وقاص عامر
رول نمبر: 66
بی ۔ایس پارٹ3(تھری)
پروفائل محمد زبیر احمد

محمد زبیر احمد

محنت کیے بغیر زندگی میں کچھ حاصل نہیں ہوتا چاہے جتنی مجبوریاں و مشکلات انسان کا گھیرا تنگ کرلیں۔اسی کی منہ بولتی مثال محمد زبیر احمد نامی ایک آدمی جو حیدرآباد کے علاقے لطیف آباد نمبر8 میں رہائیش پزیر ہیں۔35 سالہ زبیر احمد ایک ایسا ہیرا جس کی پہچان کرنا نا ممکن ہے جوچلنے پھرنے کی طاقت سے تو محروم ہیں پر اسکے باوجود انکی عزم و ہمت انکی شخصیت کی عقاصی کرتی ہے۔معزوری کے باوجود اپنی زندگی کا بوجھ خود سنبھالنے کو ترجیح دی۔کبھی کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کوبہتر نا سمجھا۔پڑھنے لکھنے کا بچپن ہی سے شوق تھا پر معزوری اور غربت کے باعث یہ خواب پورا نہ ہوسکا اور ساتھ ساتھ گھر کے حالات نے بھی ساتھ نہ دیا۔ 8 سال کی کمسن عمر میں والد صاحب کے انتقال کے بعد گھر کی کفالت کرنا اپنا اولین فریضہ سمجھا، لحاظہ اس فریضے کے حصول کے لیے پہلے چوکیداری کی پھر سبزی بیچی اور پھر دکانداری بھی کی اور اب آخر کار ڈولتے ڈولتے اور خود کو اس دنیا کی بھٹی میں جھونکتے ہوئے اب گلاب اور چمبیلی کے پھولوں سے گجرے بنا بنا کر بیچتے ہیں ۔حالات و واقعات نے زندگی کے کسی پوڑ پر ساتھ نہ دیابلکہ ہمیشہ پیچھے دھکیلا پر زبیر احمد نے ہمت نہ ہاری اور ثابت قدمی سے تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔

پڑھائی کا بہت شوق تھاپر قسمت نے موقع نہ دیا۔پر شوق کے آگے مجبور یہ انسان اپنے پڑھنے کے اس شوق کو نہ دبا سکے اور جیسے ہی وقت ملتا تو محلے کے کچھ بچوں کے ساتھ بیٹھ کر روز کا تھوڑا تھوڑا سبق سیکھ لیتے ہیں ۔خود پیروں سے معزور زبیراحمد نے پوری دنیا کے لوگوں کی مدد کرنے کو اپنا فلسفائے زندگی بنا رکھا ہے۔حالات مستحکم نہیں پر پھر بھی کسی ضرورت مند کو دیکھتے ہیں توخود سے اسکی مدد کرنے کی اور ایک دیے سے دوسرا دیا جلانے کی پوری اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔کہتے ہیں جس ہال میں خود ہوں اس ہال میں کسی اور کو نہیں دیکھ سکتا ۔اس غربت و مفلسی کے عالم میں روز کے 250 سے 300 کما لیتے ہیں کہتے ہیں یہ ہانڈی پکانے کے لیے کافی ہیں باقی شکر ہے خدا کا زندگی تو گزر ہی رہی ہے۔جب ایک ماہ کی عمر کو پہنچے تو ٹائیفائیڈ کے بخار نے زبیر احمد کو بری طرح جکڑ لیاجس کے باعث نہ اسکول جا سکے اور نہ کتابیں کھول سکے پر پھر بھی بات کرنا بخوبی جانتے ہیں اور کوئی انسان اس بات کا اندازہ تک نہیں لگا سکتا کہ اس سے مخاتب یہ معزور شخص غیر تعلیم یافتہ یا انپڑھ ہے۔ کہتے ہیں ڈھونڈنے سے تو خدا بھی مل جاتا ہے زبیر احمد نے اپنی صحتیابی کے لیے بہت سی درگاہوں پر حاضری دی پر جو اللہ کو منظور آکر کار اللہ کی رضا میں ہی اپنی خوشی جان لی اور اسی حال میں زندگی گزارنے کی ٹھانلی پر محنت سے کبھی منہ نہ موڑااور معزوری کی حالت میں بھی محنت کر کے دوسروں کے لیے مثال پیش کی جس سے سب کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ 

پیروں سے معزوری اور غربت کے باوجود اپنے اخلاق کو دوسوں کے لیے متعاصر کن بنایااور محنت ومزدوری کرنے میں کبھی شرمندگی محسوس نہ کی ۔ میں اپنے آپ کو کمزور نہیں سمجھتا بقول زبیر احمد کیوں کہ میری ہڈیوں میں اتنی طاقت اب بھی باقی ہے کہ میں اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ اچھی طرح سے پال سکوں اسی لیے شروع دن سے محنت کو اپنایا اور غلامی کو لعنت سمجھتا ہوں ۔8 سال کی کمسن عمر میں والد صاحب کے انتقال کے بعد ایک ماں اور دو بہنوں کی کفالت کی ذمہ داری پوری لگن اورثابت قدمی سے نبھائی اور کبھی دلبرداشتہ نہ ہوئے۔دو بہنوں میں سے چھوٹی بہن ثانیہ زیادہ عزیز جان ہے اور بھائی کے دل کے بہت قریب ہے۔ بہنوں سے محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ روز دونوں بہنوں اور ماں کے لیے الگ سے دودو گجرے صبح اٹھتے ہی بنا کر رکھ دیتے ہیں۔پودوں سے بہت لگاؤ ہے اور خود اپنے پودوں کی دیکھ بھال بھی کرتے ہیں ،کہتے ہیں پودے بہت خاموش ہوتے ہیں چاہے انہے توڑ لو یہ کچھ نہیں کہتے بس خاموش رہتے ہیں اور اپنے اوپر ظلم ہونے دیتے ہیں پودوں کے ساتھ یہ سلوک مجھ سے دیکھا نہیں جاتا۔حالات وواقعات نے زبیر احمد کو بہت حساس طبیعت کا مالک بنادیاہے پر شاعری پسند کرتے ہیں ۔قدآور شخصیت رنگ بھورا پر جسم غربت کی وجہ سے ڈھانچے کی مانند ہے مگر حوصلے بلندوباری ہیں ۔ زندگی میں اتنی محنت کے باوجود بھی اپنی غربت نہ مٹاسکے اور کسماپرثی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں پر یقین قامل اتنا ہیں کہ کوئی نہ امیدی نہیں ۔زبیر احمد کی یہ زندگی ہر شخص کے لیے مکمل نمونہ اور بہترین مشعل راہ ہے۔انکی زندگی سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ چاہے معزوری انسان کا مقدر بن جائے پر اگر ثابت قدم رہ کر محنت کی جائے اور زندگی تمام مشکلات کا ڈٹ کر مقابلہ کیاجائے تو بعزت اور خوشحال زندگی گزارنا آسان ہو جاتا ہے۔۔

No comments:

Post a Comment