Monday, 20 November 2017

Tomb Of Mian Ghulam Shah Kalhoro - AMIN EMMANUEL

AMIN EMMANUEL
ROLL NO 2K14/MC/06
FEATURE
                   Tomb Of Mian Ghulam Shah Kalhoro
IMG_0446.JPG 
Mian Ghulam Shah Kalhoro was famous ruler of the kalhoro dynasty. His rule began in 1757 when he was appointed as ruler of Sindh by tribal chiefs of kalhoro. He was recognized and bestowed by given the title of Shah Wardi Khan by Afghan kin Ahmed Shah Durrani. He was able to bring stability in Sindh after the rule of Main Noor Mohammad Kalhoro. He re-organized the country and defeated the Marathas and conquered their permanent vassal the Rao of returned victoriously.
According to historian, Ghulam Shah’s father Noor Muhammad Shah Kalhoro was succeeded by three of his sons to the throne at different times. For same years people had stopped taking the name of Sindh as the areas under the rule of the three brothers were called by their respected names. It was then that Ghulam Shah. Who was throned at Thatta. Conquered Sindh and restored it to its present-day geographical status.
IMG_0472.JPG  IMG_0464.JPG
Mian Ghulam Shah Kalhoro’s tomb is a religious shrine in Pakistan. This shrine is the national heritage monument of Pakistan. It is the burial place of Mian Ghulam Shah Kalhoro. Ghulam Shah Kalhoro founded Hyderabad in 1768 and built its historical forts which are known today as Pakka Qila and Kacha Qila today. Historically, the khlhoras had their capital at Khudabad but a change in the course of the Indus river in 1750, necessitated the relocation of the capital from 1754 to 1768 untill they founded Hyderabad.
The tomb of Mian Ghulam Shah Kalhoro is 56 x 56 in width and 36 feet in height. The shrine built inside a rectangular shaped fort. The tomb is a wonderful example of Sindhi art which shaped windows and filled with terracotta grilles of geometrical pattern.
IMG_0448.JPGIMG_0468.JPG
IMG_0455.JPG  Around years ago endowment fund trust embarked two restore and 18th century mausoleum of the kalhoro dynasty’s ruler Mia Ghulam Shah Kalhoro .



Saturday, 18 November 2017

آٹو بھان روڈبرانڈ آﺅٹ لیٹس کا مرکز Shahryar Rasheed

آٹو بھان روڈ ملکی و غیر ملکی آﺅٹ لیٹس اور طعام خانوں کا مرکز 
Auto Bhan Road Hyderabad
 فیچر  شہریار رشید بی ایس پارٹiii رول نمبر147
Improver failure
آٹو بھان روڈ ملکی و غیر ملکی آﺅٹ لیٹس اور طعام خانوں کا ٰ مرکز 

ایک زمانہ تھا جب برانڈیڈ چیزیں حیدرآباد شہر میں بہت نایاب ہوا کرتی تھیں کیونکہ حیدرآباد میں کوئی غیر ملکی آﺅٹ لیٹس نہیں ہوا کرتے تھے ۔اور عوام کو کراچی کا رُخ کرنا پڑتا تھا۔ جیسے جیسے حیدرآباد ترقی کی طرف جانے لگا اُسی طرح بڑی بڑی غیر ملکی برانڈزاور طعام خانوں کا رحجان حیدرآباد کی طرف آنے لگا اور سب سے پہلے غیر ملکی طعام خانہ میک ڈانلڈکا حیدرآباد آٹوبھان روڈ پر افتتاح ہوا یہ ایک بڑی کامیابی تھی کیونکہ مک ڈانلڈ اس دور میں کراچی میں بھی صرف چند مقامات پر تھا۔ حیدرآباد آٹو بھان روڈ پر آنے کے بعد باقی غیر ملکی کمپنیوں کا رحجان تیزی سے حیدرآباد کی طرف آیا اور آہستہ آہستہ آٹوبھان روڈ پر غیر ملکی برانڈ کے آﺅٹ لیٹس اور طعام خانے اپنی جگہ لیتے رہے ۔یہی نہیں آٹو بھان روڈ پر بڑے بڑے انٹرنیشنل اسکول بھی کھلنا شروع ہوگئے 

آٹو بھان روڈ 2.29 کلو میٹر لمبا ہے اور اس روڈ کی اہمیت دن بہ دن بڑھتی جا رہی ہے ایک نجی رئیل اسٹیٹ ویب سائٹ سے معلوم ہوا کہ حیدرآباد کا آٹو بھان روڈ اس وقت پوری دنیا کے دس مہنگے ترین علاقوں میں سے ایک ہے ۔کیونکہ یہاں کی پراپرٹیز کی قیمتوں میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے چھوٹے سے چھوٹی جگہ کی قیمت لاکھ سے نہیں بلکہ کروڑ سے شروع ہو رہی ہے ۔

آٹوبھان کی پراپرٹیز کی قیمتوں میں تیزی سے اضافے کی وجہ ملکی و غیر ملکی بڑی بڑی دکانیں اور طعام خانوں کا وہ مجموعہ ہے جو کہ ہر مہینے بڑھتا جا رہا ہے ہر آئے مہینے میں آٹو بھان روڈ پر ایک یا دو ملکی و غیر ملکی طعام خانے اور نکاس بدور کھلتے رہتے ہیں آٹوبھان روڈ حیدرآباد کا سب سے بڑا کمرشل روڈ ہے جو کہ ہر مہینے کروڑوں میں کمائی کرتا ہے ۔اور دوکانداروں کی طرف سے ایسا اندازہ لگایا گیا ہے کہ اکیلے آٹوبھان روڈ ہی ہر مہینے چھ سے سات ارب کا کاروبار کرتا ہے جو کہ ایک چونکا دینے والی بات ہے اس روڈ کے اتنا زیادہ کاروبار کرنے کی وجہ یہاں پر موجود ملکی و غیر ملکی نکاس بدور اور طعام خانے ہیں جو کہ رات گئے تک اپنے عروج پر چلتے رہتے ہیں ان میں شامل غیر ملکی نکاس بدور کی فہرست کچھ یوں ہے لیوائس ، آﺅٹ فٹرز ، ڈنیزن، آئیڈیاز، چین ون، باٹا ، سروس ، کپڑے ، ہینگ ٹین وغیرہ شامل ہیں اور طعام خانوں میں مک ڈانلڈ، کے ایف سی ،اور ملکی طعام خانوں میں باربی کیو ٹو نائٹ، رویل تاج وغیرہ شامل ہیں ۔آٹو بھان حیدرآباد کا وہ روڈ ہے جہاں حیدرآباد کی ساٹھ فیصد عوام روزانہ دن کے ایک سے دو گھنٹے یہیں گزارتی ہے اس کی وجہ یہاں موجود ریسٹورینٹ اور اعلیٰ دوکانیں ہیں جو کہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں ۔

آٹوبھان روڈ پر دیر رات تک لوگوں کی آمد و رفت روانی سے رہتی ہے اور زیادہ تر لوگ آئسکریم یا جوس کو ترجیح دیتے دکھائی دیتے ہیں جبکہ حیدرآباد کی بڑی بڑی شخصیات آٹو بھان روڈ پر شاپنگ کرتی نظر آتی ہیں اور حیدرآباد کی عوام کا کہنا ہے کہ آٹو بھان روڈ اب بلکل کراچی کے طارق روڈ کی مانندہو تا جا رہا ہے اور ان برانڈیڈ دوکانوں اور طعام خانوں کے کھل جانے سے حیدرآباد کی عوام کو کراچی جانے کی ضرورت پیش نہیں آتی کیونکہ اب ہر برانڈ یہی پر با آسانی مل جاتا ہے ۔بیرونے ملک سے آنے والے سیاہوں کا رحجان بھی سب سے پہلے آٹو بھان روڈ کی طرف ہی جاتا ہے اور وہ لوگ آٹو بھان روڈ پر ہی قیام کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ یہ وہ واحد روڈ ہے جو کہ دیر رات تک چلتا رہتا ہے اور بعض اوقات عید یا کسی تہوار کے موقع پر یہ روڈ ایسا لگتا ہے جیسے ہم کسی بیرونے ملک آگئے ہوںاور اب حیدرآباد کے لوگ کلاس کے رتبے میں کراچی کے لوگوں کو ٹکر دیتے دکھائی دے رہے ہیں ۔آٹوبھان روڈ پر انٹرنیشنل اسکول اور کالجز بھی واقع ہیں جو کہ اعلیٰ تعلیم فراہم کر رہے ہیں دیکھا جاسکتا ہے کہ حیدرآباد کا صرف 2.29کلومیٹر لمبا آٹوبھان روڈ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں مشہور ہو تا جا رہا ہے اور آگے بھی ہوتا رہے گا اور یہی وجہ ہے جو کہ آٹو بھان عید یا پھر کسی تقریب کو منانے کےلئے حیدرآباد کی عوام کی پہلی ترجیح ہوتی ہے اُمید کرتے ہیں کہ آنے والے وقت میں آٹو بھان روڈ اسی طرح نام کماتا رہے گا اور لوگوں کی توجہ کا مرکز بنا رہے گا ۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh
.......................................................................................................
 حیدرآباد اور بجلی کی چوری 
 آرٹیکل شہریار رشید بی ایس پارٹiii رول نمبر147

Shahryar Rasheed
حیدرآباد جو کہ ایک ترقی یافتہ شہر ہے مگر آج بھی بجلی کے بحران سے دوچار ہے ۔حیدرآباد میں بجلی چوری معمول کی بات بن چکی ہے واپڈا ٹیم کے بار بار چھاپوں اور گرفتاریوں کے بعد بھی بجلی کی چوری قابو میں نہیں آسکی اور لوگ بجلی چوری کرنے سے بعض نہیں آ رہے ہیں پہلے حیدرآباد میں صرف چھوٹے علاقوں میں بجلی کی چوری کی جاتی تھی مثلاََلیاقت کالونی ، پھلیلی ، پریٹ آباد ، کالی موری ، سرفراز کالونی ، پٹھان کالونی ، لطیف آباد 12 نمبر اور دیگر علاقے شامل ہیں مگر اب شہر کے بڑے علاقوں میں بھی بجلی کی چوری زور و شور سے رواں دواں ہے مثلاََ ہیر اآباد ، قاسم آباد ، صدر اور چاندنی یہی نہیں لطیف آباد کے بڑے بڑے علاقے مثلاََ 6 نمبر، 8 نمبر اور 2 نمبرجیسے علاقوں میں بھی بجلی کی چوری کی وارداتوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے ۔لوگوں کے گھروں میں 2-3 ایئرکنڈیشنر عام طور پر چل رہے ہیں اور ہر چھوٹے بڑے گھر میں کم از کم ایک ایئر کنڈیشنر تو عام بات ہے مگر یہ لوگ ایئرکنڈیشنر میٹر پر نہیں بلکہ چوری کی تار پر چلا رہے ہیں تاکہ بجلی کے بل سے بچا جا سکے جبکہ بجلی چوری کرنا قانوناََ جرم ہے اور اس پر سزا اور جرمانہ بھی ادا کرنا پڑتا ہے مگر یہ یہ بجلی چوری کرنے والے حضرات چوری کرتے ہوئے پکڑے کیوں نہیں جاتے ہیں اور اتنی آسانی سے چوری کس طرح کر لیتے ہیں دراصل اس میں واپڈا ملازمین کی غفلت شامل ہے کچھ چند ہزار روپے کےلئے یہ ملازمین اپنا زمیر بیچ کھاتے ہیں اور باقاعدہ خود لوگوں کو چوری کی لائن لگا کر دیتے ہیں اور مہینہ وصول کرتے ہیں چونکہ یہ ملازمین واپڈا میں کام کرتے ہیں تو انہیں ہر طرح کی بجلی کی چوری بہت اچھے سے آتی ہے اور ان واپڈا ملازمین کی بجلی چوری کی غفلت کو پکڑنا لگ بھگ نا ممکن ہے کیونکہ تمام واپڈا ملازمین چھوٹے سے لیکر بڑے تک سب ہی کسی نہ کسی سے چوری کی بجلی کا مہینہ وصول کر رہے ہیں اور اپنے بچوں کو حرام کی کمائی کھلا رہے ہیں ۔ دراصل بات تو یہ ہے کہ یہ واپڈا ملازمین ایک گھر میں اگر چوری کی بجلی فراہم کرتے ہیں تو دوسرے کسی غریب کے گھر سے ناجائز بجلی چوری کا الزام لگا کر اُس کے بل میں ڈیڈکشن لگا کر مزید حرام کما رہے ہیں ۔

حیدرآباد کے مختلف علاقہ مکینوں سے بات کر کے معلوم ہوا کہ واپڈا میں نا صرف چھوٹے طبقے کے لوگ بلکہ بڑے عہدوں پر فائز افسران بھی بجلی چوری کی غفلت میں شامل ہیں ۔علاقہ مکینوں سے بات کر کے اور ان کے بل دیکھ کر یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ واپڈا افسران غریب گھرانوں پر ناجائز ڈیڈکشن لگا کر حرام کا پیسہ اکھٹا کر رہے ہیں اور دوسری طرف امیر اور طاقتور شہریوں کو چوری کی بجلی اپنے منہ مانگے مہینے کے پیسوں پر فراہم کر رہے ہیں اب سوال یہ آتا ہے کہ کیا ان واپڈا ملازمین کےلئے کوئی سزا مقرر نہیں کی گئی ہے کیا سارے قانون صرف غریب و مسکین لوگوں کےلئے ہی محدود ہیں اگر ایسا ہے تو قانون کو ختم ہوجانا چاہیے یا پھر امیر ہو یا غریب ہر ایک کےلئے قانون یکساں ہونا چاہیے ۔ابھی کچھ روز قبل صدر میں پولیس لائن کے قریب ایک ٹرانسفارمر جل جانے کیوجہ سے علاقے میں پانچ دن تک بجلی کا کوئی اتہ پتہ نہیں ۔علاقہ مکین پریشان ہو کر واپڈا آفس گئے تو SDO کا کہنا تھا کہ واپڈا کے پاس پیسے نہیں ہیں اور آپ سب علاقہ مکین ستر ہزار روپے جمع کروائیں گے تو ہی ٹرانسفارمر کی مرمت کی جائے گی اور بجلی بحال ہوگی جس پر علاقہ مکینوں نے احتجاج کیا اور ٹائروں کو نظرے آتش کر کے روڈ بلاک کر دیا مگر ہمارے واپڈا افسران کو شرم پھر بھی نہیں آئی اور بالاآخر سٹی تھانہ میں فیصلے کے بعد تمام علاقہ مکینوں نے ستر ہزار جمع کر کے واپڈا افسران کو دیئے تو جاکہ بجلی علاقہ میں بحال ہوئی ۔
اب سوال یہ آتا ہے کہ اگر ٹرانسفارمر کی مرمت بھی عوام ہی ہی کروائی گی تو پھر عوام کو بل بھرنے کی کیا ضرورت ہے ۔کیونکہ واپڈا تو اب صرف نام کا رہ گیا ہے کام تو اب کچھ بھی نہیں کر رہا تو اس پر SDO صاحب کا کہنا تھا کہ آپ لوگ پیسے گورنمنٹ کو دے رہے ہیں ہم تو صرف ملازم ہیں اور اپنا دامن صاف کر کے اپنے راستے گھر کو روانہ ہوگئے ۔واپڈا افسران کی انہیں غفلتوں کی وجہ سے ولٹیج میں بھی اُتار چڑھاﺅ آرہے ہیں جن کی وجہ سے گذشتہ چھ ماہ میں بہت سے گھریلو حادثات پیش آئے ہیں مثلاََ بجلی کی چیزوں کا جل جانا اور گھر میں آگ لگ جانا اس طرح کی غفلت کو اگر نہ روکا گیا تو یہ جان کا نقصان بھی بن سکتی ہے ۔واپڈا حکمران کو غیرت کے گھونٹ پلانا لازمی ہے تاکہ اس طرح کی بجلی چوری نہ کی جاسکے اور بجلی کے بحران کو مٹایا جاسکے ۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh


...........................................................................................................................

انٹرویو
شہریار رشید بی ایس پارٹiii -رول نمبر147
Shahryar Rasheed
مائیکل جون (باڈی بلڈرسے انٹرویو
مائیکل جون ہے میں 28 جنوری1986 میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ۔سرکاری اسکول کمپری ہینسوسے میٹرک کیا اس کے بعد ڈگری کالج کوہسار سے انٹر پاس کیا پھر ایک سینٹری ورکر کے طور پر نوکری کی اور اپنی ایک کنفیکشنری کی دوکان لگائی اور وہ ابھی تک چل رہی ہے ۔

سوال : باڈی بلڈنگ کا شوق کیسے ہوا اور پہلی بار باڈی بلڈنگ کہاں سے شروع کی ؟
ج : بچپن ہی سے ریسلنگ دیکھنے کا بہت شوق تھا اور ریسلر کو دیکھ کے دل چاہتا تھا کہ ان کے جیسا بنوں اور پھر (آرنلڈ )جو کہ اپنے وقت کے مشہور باڈی بلڈر رہے ہیں اُنہیں میں نے اپنا آئیڈیل بنایا ۔اُس کے بعد پہلے تو بچپن میں گھر پر ہی تھوڑی بہت بھاری چیزیں اُٹھاتا تھا پھر ہمارے علاقے میں ہی موجود ایک باڈی بلڈنگ کلب تھا جس کا نام اعجاز باڈی بلڈنگ کلب تھا وہاں سے میں نے باڈی بلڈنگ شروع کی اور مجھے باڈی بلڈنگ کرتے ہوئے چودہ سال ہوگئے ہیں ۔
سوال: آپ نے باڈی بلڈنگ سے کیا کیا کامیابیاں حاصل کی ؟
ج : باڈی بلڈنگ سے سب سے پہلی کامیابی یہ تھی کہ میں نے سال2009میں جونیئر مسٹر حیدرآباد کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا اور پھر سال2011 میں مسٹر حیدرآباد بنا ۔باڈی بلڈنگ سے میں نے ابھی تک دو بار مسٹر حیدرآباد کا ٹائٹل اپنے نام کیا ہے اور یہ میرے لئے بہت فخر کی بات ہے ۔ان سب موقعوں پر مجھے بہت سے انعامات بھی حاصل ہوئے مسٹر حیدرآباد بننے پر مجھے دونوں بار موٹر سائیکل ملی اور اسکے علاوہ سندھ اولمپکس گیمز میں ایک گولڈ اور دو سلور میڈل جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا اور ہر بار ٹائٹل پر ٹرافیز ملی ۔
سوال: باڈی بلڈنگ کا حیدرآباد میں کیا کردار ہے ؟
ج : جیسا کہ آج کا زمانہ ہے باڈی بلڈنگ ہر نوجوان نسل کا شوق ہے اور حیدرآباد میں گذشتہ وقت کی نسبت اب زیادہ جمز اور فٹنس کلب ہیں اور یہ شوق صرف لڑکوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اب لڑکیاں بھی خود کو فٹ رکھنے کےلئے باڈی بلڈنگ کر رہی ہیں ۔

سوال : باڈی بلڈنگ کا آنے والے وقتوں میں کوئی فائدہ ہے یا بس یہ وقتی شہرت دیتی ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ کے بہت سے فائدے ہیں اور یہ ایک اچھا کرئیر بھی بن سکتا ہے ایسا نہیں ہے کہ باڈی بلڈنگ وقتی شہرت دیتی ہے بلکہ اگر ایک اچھے پلیٹ فارم سے کوشش کی جائے تو زندگی بھی سنور جاتی ہے ۔اس بات کو ثابت کرنے کے لئے میں (آرنلڈ) کی مثال دینا چاہونگا جو کہ باڈی بلڈنگ کے ذریعے ہالی ووڈ مویز میں بطور ہیرو کام کرنے لگ گئے تھے اور بہت شہرت کمائی تھی اور اب تک اُن کابڑے اداکاروں میں نام شامل ہے ۔
سوال : باڈی بلڈنگ سے پیسہ کسطرح کمایا جاسکتا ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ ایک ایسا شعبہ ہے جو کہ ہر ملک اور شہر میں بہت نام رکھتا ہے اگر آپ کراچی جاتے ہیں تو وہاں بھی باڈی بلڈنگ کا رحجان بہت عروج پر ہے اور اگر آپ کے اندر لگن و جذبہ ہو تو آپ محنت کر کے اپنی باڈی کو اس قابل بناسکتے ہو کہ ہر بڑا کلب آپکو سپورٹ کرے اور آپکو مقابلے کےلئے آفر کرے انہیں مقابلوں سے باڈی بلڈر پیسا کماتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نام بھی کماتے ہیں ۔
سوال : آپ کے خیال میں باڈی بلڈنگ کا مستقبل کیا ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ کا مستقبل بہت کامیاب ہے اگر اُس کو صحیح طرح سے سر انجام دیا جائے یعنی بہت سے باڈی بلڈر جلد ہی باڈی بلڈ اپ کرنے کےلئے طرح طرح کی دوائیوں کا ستعمال کرتے ہیں جو کہ صحت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ہے اگر اس طرح باڈی بلڈنگ کی جائے گی تو باڈی بلڈنگ کا مستقبل خسارے میں چلا جائے گا ۔

سوال : اگر حیدرآباد میں ہی رہ کر باڈی بلڈنگ کی جائے تو کون سا کلب بہتر ہوگا ؟
ج حیدرآباد میں مسل مینیا فٹنس جم وہ واحد جم ہے جو کہ بہترین باڈی بلڈرز کو ٹریننگ دیتا ہے اور اُن کو آگے بڑھنے کے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے میرا ماننا تو یہی ہے کہ اگر حیدرآباد میں ہی رہ کر باڈی بلڈنگ میں شہرت حاصل کرنی ہے تو مسل مینیا فٹنس جم سے منسلک ہو کر حاصل کی جاسکتی ہے ۔

سوال : آپ اپنا بتائے کہ باڈی بلڈنگ میں کس مقام تک جانے کا سوچا ہے ؟
ج : اس دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ہر کسی کا ایک ہی خواب ہوتا ہے اپنے اپنے شعبہ کے مطلق اورمیرا بھی وہی ایک خواب ہے کہ میں  "مسٹر یونیورس "اور " مسٹر اولمپکس" کا ٹائٹل اپنے نام کروں ۔

سوال نمب : نوجوان نسل کےلئے کوئی پیغام ؟
ج میں نوجوان لڑکوںکو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کےلئے تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے اور جب آپ اپنے خوابوں کو پہچان کے ان کو پورا کرنے کی تھان لیتے ہو تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے ۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh
............................................................................................................................ 
انٹرویو
شہریار رشید بی ایس پارٹiii رول نمبر147

مائیکل جون (باڈی بلڈرسے انٹرویو
مائیکل جون ہے میں 28 جنوری1986 میں ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے ۔سرکاری اسکول کمپری ہینسوسے میٹرک کیا اس کے بعد ڈگری کالج کوہسار سے انٹر پاس کیا پھر ایک سینٹری ورکر کے طور پر نوکری کی اور اپنی ایک کنفیکشنری کی دوکان لگائی اور وہ ابھی تک چل رہی ہے ۔

سوال : باڈی بلڈنگ کا شوق کیسے ہوا اور پہلی بار باڈی بلڈنگ کہاں سے شروع کی ؟
ج : بچپن ہی سے ریسلنگ دیکھنے کا بہت شوق تھا اور ریسلر کو دیکھ کے دل چاہتا تھا کہ ان کے جیسا بنوں اور پھر (آرنلڈ )جو کہ اپنے وقت کے مشہور باڈی بلڈر رہے ہیں اُنہیں میں نے اپنا آئیڈیل بنایا ۔اُس کے بعد پہلے تو بچپن میں گھر پر ہی تھوڑی بہت بھاری چیزیں اُٹھاتا تھا پھر ہمارے علاقے میں ہی موجود ایک باڈی بلڈنگ کلب تھا جس کا نام اعجاز باڈی بلڈنگ کلب تھا وہاں سے میں نے باڈی بلڈنگ شروع کی اور مجھے باڈی بلڈنگ کرتے ہوئے چودہ سال ہوگئے ہیں ۔
سوال: آپ نے باڈی بلڈنگ سے کیا کیا کامیابیاں حاصل کی ؟
ج : باڈی بلڈنگ سے سب سے پہلی کامیابی یہ تھی کہ میں نے سال2009میں جونیئر مسٹر حیدرآباد کا ٹائٹل اپنے نام کیا تھا اور پھر سال2011 میں مسٹر حیدرآباد بنا ۔باڈی بلڈنگ سے میں نے ابھی تک دو بار مسٹر حیدرآباد کا ٹائٹل اپنے نام کیا ہے اور یہ میرے لئے بہت فخر کی بات ہے ۔ان سب موقعوں پر مجھے بہت سے انعامات بھی حاصل ہوئے مسٹر حیدرآباد بننے پر مجھے دونوں بار موٹر سائیکل ملی اور اسکے علاوہ سندھ اولمپکس گیمز میں ایک گولڈ اور دو سلور میڈل جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا اور ہر بار ٹائٹل پر ٹرافیز ملی ۔
سوال: باڈی بلڈنگ کا حیدرآباد میں کیا کردار ہے ؟
ج : جیسا کہ آج کا زمانہ ہے باڈی بلڈنگ ہر نوجوان نسل کا شوق ہے اور حیدرآباد میں گذشتہ وقت کی نسبت اب زیادہ جمز اور فٹنس کلب ہیں اور یہ شوق صرف لڑکوں تک ہی محدود نہیں بلکہ اب لڑکیاں بھی خود کو فٹ رکھنے کےلئے باڈی بلڈنگ کر رہی ہیں ۔

سوال : باڈی بلڈنگ کا آنے والے وقتوں میں کوئی فائدہ ہے یا بس یہ وقتی شہرت دیتی ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ کے بہت سے فائدے ہیں اور یہ ایک اچھا کرئیر بھی بن سکتا ہے ایسا نہیں ہے کہ باڈی بلڈنگ وقتی شہرت دیتی ہے بلکہ اگر ایک اچھے پلیٹ فارم سے کوشش کی جائے تو زندگی بھی سنور جاتی ہے ۔اس بات کو ثابت کرنے کے لئے میں (آرنلڈ) کی مثال دینا چاہونگا جو کہ باڈی بلڈنگ کے ذریعے ہالی ووڈ مویز میں بطور ہیرو کام کرنے لگ گئے تھے اور بہت شہرت کمائی تھی اور اب تک اُن کابڑے اداکاروں میں نام شامل ہے ۔
سوال : باڈی بلڈنگ سے پیسہ کسطرح کمایا جاسکتا ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ ایک ایسا شعبہ ہے جو کہ ہر ملک اور شہر میں بہت نام رکھتا ہے اگر آپ کراچی جاتے ہیں تو وہاں بھی باڈی بلڈنگ کا رحجان بہت عروج پر ہے اور اگر آپ کے اندر لگن و جذبہ ہو تو آپ محنت کر کے اپنی باڈی کو اس قابل بناسکتے ہو کہ ہر بڑا کلب آپکو سپورٹ کرے اور آپکو مقابلے کےلئے آفر کرے انہیں مقابلوں سے باڈی بلڈر پیسا کماتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نام بھی کماتے ہیں ۔
سوال : آپ کے خیال میں باڈی بلڈنگ کا مستقبل کیا ہے ؟
ج : باڈی بلڈنگ کا مستقبل بہت کامیاب ہے اگر اُس کو صحیح طرح سے سر انجام دیا جائے یعنی بہت سے باڈی بلڈر جلد ہی باڈی بلڈ اپ کرنے کےلئے طرح طرح کی دوائیوں کا ستعمال کرتے ہیں جو کہ صحت کے لئے بہت زیادہ نقصان دہ ہے اگر اس طرح باڈی بلڈنگ کی جائے گی تو باڈی بلڈنگ کا مستقبل خسارے میں چلا جائے گا ۔

سوال : اگر حیدرآباد میں ہی رہ کر باڈی بلڈنگ کی جائے تو کون سا کلب بہتر ہوگا ؟
ج حیدرآباد میں مسل مینیا فٹنس جم وہ واحد جم ہے جو کہ بہترین باڈی بلڈرز کو ٹریننگ دیتا ہے اور اُن کو آگے بڑھنے کے بہترین مواقع فراہم کرتا ہے میرا ماننا تو یہی ہے کہ اگر حیدرآباد میں ہی رہ کر باڈی بلڈنگ میں شہرت حاصل کرنی ہے تو مسل مینیا فٹنس جم سے منسلک ہو کر حاصل کی جاسکتی ہے ۔

سوال : آپ اپنا بتائے کہ باڈی بلڈنگ میں کس مقام تک جانے کا سوچا ہے ؟
ج : اس دنیا میں قدم رکھنے کے بعد ہر کسی کا ایک ہی خواب ہوتا ہے اپنے اپنے شعبہ کے مطلق اورمیرا بھی وہی ایک خواب ہے کہ میں "مسٹر یونیورس "اور " مسٹر اولمپکس" کا ٹائٹل اپنے نام کروں ۔

سوال نمب : نوجوان نسل کےلئے کوئی پیغام ؟
ج میں نوجوان لڑکوںکو یہی پیغام دینا چاہتا ہوں کہ اپنے خوابوں کو حاصل کرنے کےلئے تکلیف اُٹھانی پڑتی ہے اور جب آپ اپنے خوابوں کو پہچان کے ان کو پورا کرنے کی تھان لیتے ہو تو ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے ۔


شہریار رشید بی ایس پارٹiii رول نمبر147

آصف علی موچی کا پروفائل 
اس دور جدید میں جہاں تعلیم ایک اہم نکات میں شامل ہوتی ہے وہیں لاکھوں بچے اس تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں ۔پاکستان جیسا ملک جہاں ادیبوں کی تعداد 68 فیصد ہے اور باقی ایک بڑ ی تعداد تعلیم سے محروم ہے ان کی تعلیم سے محروم رہنے کی وجہ غریبی اور تعلیم کی ضرورت سے آگاہی نہ ہونا ہے ۔ایسے لوگوں کے لئے آصف علی موچی ایک بہت بڑی مثال قائم کرچکا ہے آصف علی حیدرآباد کا رہائشی ہے جو کہ ٹاور مارکیٹ پر اپنی موچی کی دوکان لیئے بیٹھا ہے آصف علی کی عمر 18 سال ہے اور اس کی پیدائش حیدرآباد میں ہی ہوئی ہے سال2003 میں آصف علی کے ماں باپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے تھے اور آصف علی کو ان کے چاچا اصغر علی نے پالا ان کے چاچا بھی موچی تھے اور بھتیجے کو بھی اسی کام کا ہنر دیا ۔

جیسے جیسے آصف علی بڑا ہوتا رہا ان کے چاچا نے ان کے اندر پڑھائی کا جذبہ دیکھا تو اپنی تھوڑی بہت جمع کونجی سے آصف علی کو ایک چھوٹے سے اسکول میں داخلہ کروایا باقی بچوں کی نسبت جو کہ ہر آسائش سے آراستہ تھے آصف علی پڑھائی میں اُن سے بھی زیادہ ہوشیار تھا اور ہر سال کلاس میں اوّل آتا تھا جبکہ جن بچوں کے پاس ہر آسائش ہونے کے باوجود بھی ان بچوں میں پڑھائی سے کوئی لگاﺅ نہیں تھا پانچویں جماعت سے آصف علی اپنے چاچا اصغر علی کے ساتھ اُن کی موچی کی چھوٹی سی دوکان پر جانے لگا اور کام سیکھنے لگا ۔اسکول سے آکر وہ چاچا کی دوکان پر جاتا اور رات 9 بجے کے بعد گھر آکر نہایت تھکا ہوا ہونے کے باوجود بھی پہلے اپنے اسکول کا کام کرتا اور پھر سوجاتا تھا اور پھر چھٹی جماعت سے آصف علی نے چاچا کی دوکان کے ساتھ ہی اپنی بھی ایک چھوٹی سی موچی کی دوکان لگائی اور حق حلال کی روزی کمانے لگا محنت مزدوری کر کے آصف علی نے اپنی پڑھائی جاری رکھی اور اپنے آپ کو آنے والے وقت میں ایک اچھے مقام پر دیکھنا شروع کردیا ۔آصف علی اپنی زیادہ تر کمائی اپنی پڑھائی اور کتابوں میں خرچ کرتا تھا آصف علی کو کمپوٹر سیکھنے کا بھی بہت شوق تھا تو اس نے موچی کی دوکان کے ساتھ ساتھ بچوں کے کچھ کھلونے بھی اپنی دوکان پر رکھ رلئے جس سے کمپوٹر کورس کرنے کے پیسے باہر آسکے بالاآکر آٹھویں جماعت میں انہوں نے اپنے کمپوٹر کورس کا آغاز ہیرا آباد کے ایک چھوٹے سے کمپوٹر سینٹر سے کیا اور ایک سال تک کمپوٹر کی تعلیم حاصل کرتے رہے اور کمپوٹر پر بھی عبور حاصل کر لیا ۔

آٹھویں جماعت کے اختتام پر آصف علی نے نور محمد ہائی اسکول سے نویں اور دسویں جماعت کے امتحانات دیئے اور اللہ کے فضل و کرم سے A-1گریڈکیساتھ میٹرک مکمل کی یہ ان کے لئے بہت فخر کی بات تھی اور آصف علی اپنی اس کامیابی پر بہت خوش تھا ۔ان کی محنت رنگ لائی اور انہیں آنے والے وقت میں خود کو ایک اچھے مقام پر دیکھنے کا خواب سچ ہوتا نظر آرہا تھا اس کامیابی کے بعد آصف علی نے اپنے کالج کے سفر کا آغاز کیا اور اس وقت وہ مسلم سائنس کالج میں بارہویں جماعت کے طالب علم ہیں اور گیارہیویں جماعت میں بھی اے ون گریڈ حاصل کیا تھا اور اب بارہیوں جماعت کے نتیجے کا انتظار کر رہے ہیں اور آصف خود کو یونیورسٹی کےلئے بھی تیار کر رہا ہے آصف علی مستقبل میں انجینئر بننا چاہتا ہے ہم اُمید کرتے ہیں کہ اللہ پاک آصف علی کو ان کی کوششوں میں کامیابی عطاءفرمائے اور اس کے خوابوں کو حقیقت بنائے آصف علی جیسے نوجوان آج کی نسل کےلئے ایک بہترین مثال ہیں جو لوگ محنت کرنے سے کتراتے ہیں اُنہیں چاہیے کہ آصف علی کی طرح محنت کر کے اپنے خوابوں کی تعبیر اپنے ہاتھوں سے کریں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے سے بہتر ہے حق حلال کی روزی کمائیں اور پڑھنے لکھنے پر زور دیں یاد رہے پڑھائی ایک ایسا زیورہے جو کوئی چوری نہیں کرسکتا اور تعلیم ہی کامیاب زندگی گزارنے کا بہترین ذریعہ ہے ۔آصف علی کی کہانی اس پوری قوم کے نوجوانوں کے لئے بہت بڑی مثال ثابت ہوتی ہے ۔