Wednesday 10 August 2016

عابد علی زئی کا پروفائل : محمد راحیل

Un edited 
 No proper paragraphing.
It is reporting based, some interesting and informative comments  from people who know him, and from himself also.
 Photo is too dull

 محمد راحیل 
رول نمبر:68
بی ۔ایس پارٹ:3 (تھری)
پروفائل:سر عابد علی زئی

زند گی نا م ہی پریشانیوں کا ہے اور جو انسان ان پریشانیوں کا ڈٹ کر سامنا کرتا ہے اور ان پریشانیوں کو مسکرا کر جھیلتا ہے تو میرا یقین ہے کہ کامیابی اس انسان کے مقدر کا زیور ضرور بنتی ہے اور ایسی ہی ایک جیتی جاگتی مثال اور ہمارے لئے مشعل راہ عابد علی زئی ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کی کشتی میں کئی طوفانوں کا ڈٹ کر سامنا کیا اور اپنی زندگی کی کشتی کو کامیابی کی راہ پر گامزن کر نے کی جستجو میں لگے رہے عابد علی زئی نے نہ صرف حیدرآبا د کے کئی طلبا ءکو تعلیم کی روشنی سے ہمکنا ر کیا بلکہ خود بھی دن رات محنت کر کے کامیابی کی وہ منزلیں طے کی ہیں کہ آپ جیسی مثال ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی ہے 

عابد علی زئی نے حیدرآبا د کے علاقے لطیف آباد نمبر۵ کے ایک انتہائی غریب گھرانے میں آنکھیں کھولیں والد پیشے کے اعتبا ر سے پینٹر تھے آپکو پڑھنے کا بے حد شوق تھا مگر والد کی کم آمدنی آپ کی راہ میں رکاوٹ بن رہی بھی مگر عابد علی زئی ان رکا وٹوں سے پریشان نہیں ہوئے کیوں کہ انکا کہنا ہے زندگی میں آنے والی پریشانیاں کچھ نہ کچھ درس ضرور دے کر جا تی ہیں جن سے انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے اور اپنی مستقبل کی زندگی میں ان پریشانیوں کو جھیلنے کی ہمت پہلے سے ہی پیدا کر لیتا ہے عابد علی زئی نے ابتدائی تعلیم گورنمنٹ کمپرینسیو ہا ئی اسکو ل سے حاصل کی اور انٹر میڈیئٹ گورنمنٹ بوائز کالج لطیف آبا د سے حاصل کی آگے تعلیم حاصل کر نی تھی مگر آپ کے پاس وسائل کی بہت کمی تھی عابد علی زئی نے دوران تعلیم ہی دن میں ٹیچنگ کی اور رات میں ایک فیکٹری میں ملازمت اختیا ر کی تا کہ کچھ پیسے جمع کر سکیں اور اپنے تعلیمی اخراجات خود برداشت کر سکیں ۔۔۔
                عابد علی زئی نے کچھ عرصے بعد سندھ یونیورسٹی کے انٹری ٹیسٹ میں کامیا بی حاصل کی اور آپ کا داخلہ شعبہ ریاضی میں ہوا آپ اپنی تعلیم تو حاصل کر ہی رہے تھے مگر حیدرآبا د و سندھ کے دیگر علاقوں کے طلبہ کو دوران تعلیم ہی تعلیم کی روشنی سے نواز رہے تھے اسکے ساتھ ساتھ اپنے گھر کے اخراجا ت میںبھی اپنے والد کے بازو بنے دوران یونیورسٹی آپ ایک واردات کا شکا ر ہوئے ور س واردات میں آپ کے پا ﺅں پر گولی لگی جس نے آپ کی زندگی پر گہرے اثرات مرتب کئے اور آپ کئی مہینے ہسپتال میں ایڈمٹ رہے مگر اپنی تعلیم کو اس حادثہ کی وجہ سے متاثر نہیں ہونے دیا امتحانات کی تیا ری ہسپتال میں ہی کی امتحانا ت دیئے اور اعلی طریقے سے امتحانا ت پا س کئے ۲۰۰۶ میں تعکیم مکمل کر نے کے بعد آپ نے اپنے پیشہ کا با ضابطہ آغا ز کیا اور الفلاح کالج میں بطور لیکچرار ملاز مت اختیا ر کی ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ آپ کے والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا اور آپ کے کند ھوں پر کھر کی تما م تر ذمہ داریاں آگئیں مگر نہ تو آپ ان پریشانیوں سے ما یوس ہوئے اور نہ ہی آپ نے ہمت ہا ری انےک محنت و ایما ندا ری کے ساتھ نہ دن دہکھا نہ رات گھر کی ذمہ دا ریوں اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں جتے رہےاسہی دوران آپ کو حیدرآبا د کے مشہور کالج (ایکسیلینس)میں بطور لیکچرار ملازمت ملی آپکی محنت و ایمانداری رنگ لے آئی اور کچھ ہی عرصے میں آپکو کا لج کا ہیڈ پرنسپل مقرر کر دیا گیا ساتھ ہی ساتھ حیدرآباد کے کئی سینٹرز میں تعلیم کی روشنی پھیلا تے رہے کئی طلبہ کی فیسیں آپ اپنی تنحواہ سے کٹواتے تھے اور گھر پر بھی کئی طلبہ کوفی سبیل ا للہ تعلیم دیتے رہے حیدرآبا د میں تعلیم کے معیا ر کو مد نظر رکھتے ہوئے آپ نے اپنا سینٹر کھولنے کا فیصلہ کیا ۲۰۱۴ میں اپنے سینٹر کی بنیا د ڈالی اور دل میں عہد کیا کہ تعلیم کے معیا ر کو بہتر سے بہتر بنا نے کے لئے اپنا ایک نما یاں کردار اد ا کروں گا اس عزم کو پا ئے تکمیل تک پینچانے کی جدو جہد کا آغاز کیا ۔۔۔
              اور کچھ عرصے قبل عابد علی زئی نے حیدرآبا د میں ایک کا لج کی بنیاد ڈالی اور اس کالج کو (ٹیبز اکیڈمی ) کے نا م سے منسو ب کیا آج آپ اس کالج سے طلبہ کو تعلیم کے نور سے روشنا ز کر رہے ہیں عابد علی زئی نے یہ ثا بت کر کے دکھا یا کہ اگر انسان محنت کرے تو وہ اپنے عزم کی منزل کا سفر با آسانی طے کر سکتا ہے سر عابد علی زئی حیدرآباد کے مقبول ترین ٹیچر ہیں عابد علی زئی نے بہت ہی کم عرصے میں میں بہت کچھ کر کے دکھا یا کیو ں کہ آپ کی نیت صاف تھی اور جب نیت ساف ہوتی ہے تو منزل خود آسان ہو جاتی ہے اور آج عابد علی زئی کامیابی کی ایک خاص مثال اور ہمارے لئے مشعل راہ ہیں ۔۔
        
                کرے جو لگن سے جستجو منزل کی                  
 تو منزل مل ہی جا تی ہے
 اگر نیت صاف ہو تو
منزل خود چل کر آگے آتی ہے

No comments:

Post a Comment