Friday 19 August 2016

تاریخی تھانہ سٹی، حیدرآباد

Intro is not interesting
تاریخی تھانہ سٹی، حیدرآباد: 1909 ء میں قیام ہونے والا شہر کا پہلا تھانہ جس کا نام وقت کی گردش کیساتھ بدلتا رہا ۔ 


نام: سائرہ ناصّر 
رول نمبر : 2K14/MC/84 
کٹیگری : فیچر 



جدید ٹیکنالوجی کے دور میں آج ہر شخص اپنی،اپنی فہم و فراست کے مطابق اپنے ریاستی قانون ،سماجی قدروں کا ادراک رکھتا ہے ۔ کیونکہ جب انسان نے اپنی ضرورتوں کو لامحدود کیا تو مسائل بڑھنے لگے ۔کہا جاتا ہے کہ :سزائیں سخت ہوں تو قوانین پر بھی عمل درآمد نہیں ہوتا ۔ اس لئے اسلام نے اصلاحِ معاشرے کے لئے محض سزائیں تجویز نہیں کیں بلکہ ایک مکمل ضابطہ حیات دیا ۔َ 


برِصغیر میں انگریزوں کی آمد کے بعد 1845ء کے دوران سندھ میں نو آبادیاتی آئرش کانسٹیبلری کی طرز پر ایک نظام قائم کیاجس کی 1858 ء میں باضابطہ آر پی سی قائم کی گئی۔سپاہیوں کی شناخت کے لیے لفظ پولیس کو رائج کیا ۔ 1860 ء کے دورا ن ایک پویس کیمپس قائم ہوا ۔ اس وقت صدیوں کا شہر حیدرآباد بمبئی سے ملحق تھا ، یہاں تعینات کئے جانے والے انگریز کمشنر جے ڈی انوریٹی نے محکمۂ پولیس کو ایک منظم ادارے کی حیثیت میں ازسرنو قائم کیا۔چوں کہ اس وقت حیدرآبادمیونسپل کمیٹی فعال تھی ، اس لیے 1872 ء کے دوران پہلی بار اس شہر کی مردم شماری کرائی گئی چنانچہ شہریوں کو قانونی سہولتوں کی فراہمی کے لیے میروں کے مصاحب اور سردار فقیر جونیجو کے نام سے منسوب کرتے ہوئے 1901 ء میں پہلا ’’تھانہ پڑ فقیرو‘‘ قائم کیا گیا چونکہ اس تھانے میں تعینات افسر فوجی یونٹ جیسا ماحول رکھتے تھے ، اس لیے اس تھانے کو ’’ فوجداری تھانہ‘‘ کہا جانے لگاْ ۔ یہ نام لوگوں میں اتنا معروف ہوا کہ حیدرآباد میونسپلٹی نے ریلوے اسٹیشن کو جانے والے راستے کا نام فوجداری روڈ رکھ دیا ، بعد ازاں دیہی علاقوں سے سی آنے والے لوگ حیدرآباد کے قدیم علاقے چھوڈکی گھٹی (چھوٹکی گھٹی ) کی چاڑی کی بنا پر اس تھانے کو ’’چاوڑی تھانہ یا چاڑی تھانہ ‘‘کہہ کر متعارف کرانے لگے ۔ 1906 ء میں جب انگریزوں کے خلاف اشتعال میں اضافہ ہونے لگا تو کسی بھی ناخوشگوار واقع کی روک تھام کے لیے اس تھانی کی پچھلے حصے میں بیرکیں بن اکر اسے سب جیل کا درجہ دے دیا گیا ۔ یہ تھانہ وقت کی غلام گردشوں سے گزرتا رہا ، شہر کی آبادی میں جس تیزی سے اضاٖفہ ہو رہا تھا ، اسی تیزی سے تھانے اور اس کے انتظامی حدود میں بھی تبدیلیاں آرہی تھیں ۔ لوگ تھانے کے سارے نام بھلا کر (تھانہ سٹی ) پکارنے لگے ، اور اب قانون اور سرکاری ریکارڈ میں اس تھانے کا نام ’’تھانہ سٹی ‘‘ ہی ملتا ہے ۔ 
؂؂؂
جودھپور کے پتھر اور سرخ اینٹوں سے بنی یہ تھانہ سٹی کی عمارت اور تزین و آرائش پر اس دور میں 14326 روپے کی لاگت آئی تھی ، یہ محض 19 دن میں تعمیر ہوئی ۔ اس وقت لوگ طویل مسافت بھی پیدل ہی طے کر لیا کرتے تھے ، چنانچہ تھانے اور اس کے عملے کو اس وقت کوئی جدید سہولت حاصل نہیں تھی ۔ کسی ملزم یا مجرم کو گرفتار کرنا یا فوری نوعیت کے امور انجام دینا ہوتے تو اہلکار تانگے کی سہولت حاصل کرتے تھے ۔ گلیوں میں تھانے کے اہلکار پیدل اور گھوڑوں پر سوار ہوکر گشت کرتے تھے ۔ تھانے کے پچھلے حصّے میں ان گھوڑوں کا اصطبل تھا جہاں اہلکار اپنے گھوڑوں کو چمکانے کے لیے کھوپرو کا تیل استعمال کرتے تھے ۔ ؂، جس کا بٹ بھی محکمہ پولیس ادا کرتا تھا ۔یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ ۔ یہ کمرہ محض ایک کمرے پر مشتمل تھا ، جس سے ملحقہ افسر و عملے کے آرام کے لیے ایک چھوٹا کمرہ تھا ۔ دفتری کاروائی قلم ودوات یا رنگین نیلی پینسل سے کی جاتی تھی ، بجلے نہ ہونے کے باوجود شدید گرمیوں کے دنوں میں بھی ٹھنڈا رہتا تھا ۔ شام ہوتے ہی تھانے کے مرکزی دروازے کے دائیں بائیں جانب لگے دو آہنی پول پر لٹکنے والی لالٹینیں روشن کردی جاتی تھیں ۔ 



پھر ہو ا یوں کہ تھانہ کے احاطے میں تحصیل پولیس آفیس تعمیر کر دیا گیا ، اور اسکا افتتاح 26 اکتوبر 2009 ء کو اس وقت تعینات ایڈشنل ڈی پی او قمر رضاجسکانی نے کیا ۔جب تھانہ سٹی کے قیام کو سو سال مکمل ہوئے تو اس تھانے کو جدید طرز تعمیر کا حامل ماڈل بنانے کے لیے تعینات ڈی پی او اے ڈی خواجہ نے لاکھوں روپے کی لاگت سے تعمیر و مرمت کرائی ، اس عمارت میں ایک برآمدہ ، ای ایچ او کا کمرہ ، ریکارڈ اور محر ر روم ، فارسیلنگ کی چھتیں ، شیشہ لگے المونیم کے دروازے اور کھڑکیاں ، دیواروں پر چکنے ٹائلز ، اور تھانے کی بیرونی دیواروں پر ہالا کی کاشیگری کے حامل ٹائلز نصب کرا دیے گئے ۔ جس کی بنا پر تھانہ باہر سے کسی مزار اور اندر سے کسی غسل خانہ کا منظر پیش کرتا ہے ۔ جب کہ مرکزے دروازے پر نصب نادر قیمتی لالٹین پول اکھاڑ کر پھینک دیے گئے ، حتی کہ مرکزی دروازے پر ایک موٹر سوار پولیس جوان کا مونومینٹ نصب کردیا گیا۔ 


تھانہ سٹی میں 1952 ء سے تمام ریکارڈ تھانے کے ایک کمرے میں موجود تھا ۔ جو 4 اکتوبر 2004 ء تک موجود رہا ۔ ۔ ان دنوں تھانے کے قیام کو سو سال مکمل ہو چکے تھے ۔ تھانے کے ریکارڈ کی حالت اس قدر خراب ہے کہ کپڑوں میں بندھی فائلیں ، اہم دستاویزات ،ریکارڈ دیمک کی خوراک بن رہی ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ انڈیا کے سابق وزیراعظم ایل کے ایڈوانی کا گھر بھی تھانہ سٹی عمارت کے عقبی علاقہ ایڈوانی گھٹی میں واقع تھا ، اور ان کے خلاف اسی تھانے میں ایک مقدمہ بھی درج ہے ۔ جس میں وہ تاحال مفرور ہیں ۔ اس واقعہ کی صداقت تحقیق طلب ہے ۔ برصغیرمیں جب تحریک جدوجہد آزادی نے زور پکڑا تو انگریزوں نے حیدرآباد کے محب وطن (باغیوں) کو اسی تھانے مہں قید کیا گیا ۔ ان پر بے رحمانہ تشدد کیا گیا ۔ ان باغیوں کی صدائیں اور چیخیں تھانے کے در و دیوار کا کلیجہ پھاڑتی ہوئی آسمان کی وسعتوں میں کہیں کھو جاتی تھیں
۔ 



تھانہ سٹی کو 1906 ء کی مارکیٹ پولیس چوکی کو اپ گریڈ کر کے 1928 ء میں تھانے کا درجہ دینے ، اور 1925 ء میں تھانہ کینٹ کے علاوہ قیام پاکستان کے بعد تقریباً36 تھانے وجود میں آنے کے باوجود مرکزی حیثیت حاصل رہی ، لیکن مقامی حکومتوں کے نظام کو مروج کرنے سے قبل تھانہ سٹی کی حدود میں شامل سائٹ، فورٹ، حالی روڈ اور مکی شاہ کی حدود کو بھی خارج کر کے انہیں بھی تھانے کا درجہ دے دیا ۔ 


یہ تھانہ حیدرآباد کی درخشاں سیاست ، تاریخ و ثقافت کا امین ہے ۔ یہ اس تھانے کا فخر ہے کہ اس تھانے سے متعلق تاریخ اور قانون کے صفحات روشن ہیں ۔ تھانہ سٹی کی طرزِتعمیر گو کہ حیدرآباد کی عام عمارتوں کی طرح ہی ہے ، مگر کسی طور بھی اس عمارت کی اہمیت اور حیثیت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ، کیونکہ اس عمارت سے حیدرآباد کی تاریٖ کے صفحات جڑے ہوئے ہیں ۔ اس لیے اس کے کھوئے ہوئے حسن کو بحال کیا جائیگا ۔ یہ امر میرے لیے باعثِ مسر ت ہے کہ تھانہ سٹی نے اپنے قیام کے 115 سال مکمل کر لیے ہیں ۔ 



حیدرآباد کے اس معروف تھانے میں عام لوگوں کے علاوہ تاجر بھی اپنے مسائل کے بہتر حل کے لیے رجوع کرتے ہیں ۔ حیدرآباد کے تاجر سلامالدین نے بتایا کہ ’’تاجروں نے ہمیشہ پولیس کے ساتھ تعاون کیا ہے ۔ پولیس نفری کم ہونے کے باوجود محکمہ پولیس نے عوام کے دل موہ لیے ہیں ۔ پولیس پر عوام کا اعتماد بڑھ رہا ہے ۔ یہ امر باعثِ طمانیت ہے ۔ تھانہ سٹی حیدرآباد کا اعزاز ہے ، مگر یہ تھانہ اب بھی سرکاری توجہ کا طلبگار ہے


Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh ۔ 

No comments:

Post a Comment