Thursday 25 August 2016

سجاد علی,فیچر corrected

Corrected
منگھو پیر
سجاد علی
ؓB.S III
رول نمبر Mc/2k14/163:
فیچر



سندھ جو کے اعظیم سوفی بزرگ اور اولیاوں کی واجہ سے کافی شہرت اور مقبولیت کی حامل ہے ۔جن میں شاھ عبدللطیف بھٹائی ، لال شہباز قلندر ،عبدللہ شاھ غازی ،سچل سرمست،سخی عبدوھاب شاھ ،شاھ نورانی،اور کراچی کے مشہور بزرگ بھی شامل ہیں لکن اگر بات کی جا ئے قدرتی کرامت کے ہوالے سے تو منگھو پیر سب کی زبانوں کی زینت بن جاتے ہیں ،

منگھو پیر جو کے قدرتی کرامتی چشمے اور مگرمچھوں کی وجہ سے زیادہ مقبولیت رکھتے ہیں اس کرامات کے حوالے سے لوگوں کا عقیدہ تو اپنی جگہ لکن سائینس بھی زائرین کے عقیدہ کی روقاوٹ بن رہی ہے ۔یہاں کے زائرین کا ماننا ہے کہ منگھو پیرکے عقب میں واقعہ قدرتی چشمہ ہے جس میں سے کراماتی پانی بہتا رہتا ہے۔ ایسے منگھو پیر میں�آٹھ چشمہ موجود ہیں۔ اور اس میں کچھ ٹھنڈے پانی کے اور کچھ گرم پانی کے چشمے ہیں عبدلمالک رند(خدمت گار )کا کہنا ہے کہ اس میں ایک گرم پانی کا چشمہ ہے جسے ماماآباد چشمہ کہا جاتا ہے ۔جس کا درجہ حرارت تقریباْ اُبلتے پانی جیسا ہے لکن اس پانی کے دو مگے ڈالنے کہ بعد اس پانی کی تعسیر سے ٹھنڈ لگنے لگتی ہے ۔حنیف کھوسہ ( زائرین ) کا کہنا تھا کہ اس پانی کی تعسیر حقیقت میں نہانے کے بعد ٹھنڈی ہوجاتی ہے جو کہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے ۔ نہانے سے جلد کی کئی بیماریوں سے نجاعت ملتی ہے اور اس پانی میں نہانے کی قیمت صرف بیس روپے ہے جس میں دس منٹ تک نہا یا جاسکتا ہے ایک دن میں تقریباْسو سے زائد لوگ روزانہ کی تعداد میں آتے ہیں اور بیماری سے نجاعت حاصل کر کے جاتے ہیں ۔لکن دوسری طرف ڈاکٹر نجم جو کے اسکن سپیشلسٹ ہیں ان کا مننا ہے کہ یہ کوئی کرامتی پانی نہیں بلکہ یہ پانی بارش کے برسنے کی وجہ سے ہے۔ منگھو پیر پہاڑی علاقہ میں ہونے کی وجہ سے یہ بارش کا پانی پہاڑوں میں جما ہو جاتا ہے اور اس کے بعد زلزلہ آنے کی وجہ سے پہاڑوں میں دارار پڑنے کی وجہ سے پانی بہنے لگتا ہے ۔مزید ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک پانی گرم ہونے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پہاڑوں میں (لیم اسٹون) بھی موجودہے جس کی وجہ سیپانی کا درجہ ہرارت تبدیل ہو جاتا ہے اور رہی بات جلد کی بیماریوں کا ٹھیک ہونا تو ان پہاڑوں میں(سلفر )بھی موجود ہے جو کہ عام طور پر اسکن جیل میں استعمال کیا جاتا ہے جسے لوگ کرامت مان رہے ہیں ۔


منگھو پیر کا اصل نام حضرت بابا سلطان شاھ ہے اور یہ علاقہ منگھو کے نام سے مشہور ہے اس کی وجہ سے انہیں منگھو پیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ان کی پیدائش 1162میں ہوئی اور ان کی وفات 1252 میں ہوئی ۔ اس مزار سے منسلک بات جو کے مگرمچھو کے ہوالے سے کافی دلچسپ ہے کہ منگھو پیر کے ایہاتے میں ایک تالاب وقعہ ہے جہاں سو سے زائد مگر مچھ ہیں مزید مگرمچھ کے رکھوالے سجاد علی نے بتایا کے ہم اپنے باپ داداوں سے ہی ان مگرمچھوں کی خدمت میں مشغول ہیں زائرین انہیں دیکھنے آتے ہیں اور نظرانہ کے طور پر کچھ پیسے دی کر جاتے ہیں جسے ہم ان مگرمچھوں کے لئے گوشت خریدتے ہیں بابا منگھو پیر کی مننے والوں کا کہنا ہے کہ یہ مگرمچھ بابا منگھو پیرکی ساتھی بزرگ ہیں۔ چند لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بابا کی جوئیں ہے ۔جب بابا منگھو پیر کہ سر پر جوئیں پڑی تو انہیں کھوجلی ہونے لگی پھر انہوں نے اپنا پیرزمین پر مارا تویہ چشمہ وجود میں آیااور جوئیں مگرمچھو میں تبدیل ہو گئی لکن ماہرین کا کہنا ہے کئی سو سال پہلے منگھوپیر سے حب( ندی) بہتی تھی جب ندی نے روخ موڑا تو یہ مگرمچھ یہی رہ گئے اور ان کی نسلیں آج تک جاری ہے ۔مزید گل حسن کلمتی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بزرگ سلطان منگھو ،حضرت فرید گنج شکر اور قلندر شہباز کہ دائراہ احبابوں میں شامل ہے اور مزید لکھتے ہیں کہ جب لال شہباز قلندر حضرت بابا منگھوکے پاس ائے تو انہوں نے مگرمچوں کی سیر کی ،دوسری روایت ہے کہ منگھو بابا نے اس ندی میں پھول پھینکے تو وہ مگر مچ بن گئے حضرت بابامنگھو پیر کا سالانہ عرس نو زوالحج کو عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے جس میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں پورے پاکستان سے شرکت کرتے ہیں۔

No comments:

Post a Comment