Wednesday 10 August 2016

جنید اقبال انجینئر

نوٹ : شہریار، مسلسل ہدایات اور یاد دہانیوں کے باوجود آپ نے پروفائل میں پانا نام لکھنے کی زحمت نہیں کی۔ اس لئے آپ کے مارکس کاٹے جائیں گے
very weak personality. What is his contribution to society? Nothing interesting. Profile needs comments and attributions

پروفائل 
جنید اقبال انجینئر
دورِ جدید میں جہاں تعلیم ہر ایک کی ضرورت ہے وہی کچھ ماں باپ اپنے بچوں کو اسکول مکمل کرتے ہی کام پر لگا دیتے ہیں ۔جنید اقبال کے والد کی بھی یہی سوچ تھی۔جنید اقبال کا تعلق ٹنڈوالہیار سے ہے ۔1987ٹنڈو الہیار کے علاقے پریم نگر میں پیدا ہوئے اور ان کے والد ٹنڈو الہیار میں کریانہ کی دوکان چلاتے تھے جیند کو پڑھنے کا بہت شوق تھا اور وہ کلاس میں ہمیشہ اول آتے تھے ،

جنید نہایت سنجیدہ رہتے تھے ماں باپ کی عزت کرنا اور بڑوں کا ادب کرنا ، اسکول سے آنے کے بعد والد کے ساتھ دوکان سنبھالتے تھے اور دکان کے کاموں سے فارغ ہونے کے بعد کچھ دیر پڑھائی کرتے ، میٹرک میں گریڈ A-1سے پاس ہونے کے بعد پڑھنے کی چاہ اور بھی بڑھ گئی ،لیکن والد نے آگے پڑھائی کرنے سے روک دیا ، ان کے والد کا کہنا تھا کہ تم کو پڑھ لکھ کر دوکان ہی سنبھالنی ہے تو لہٰذا پڑھائی میں پیسا اور وقت برباد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ،مگر جنید کی سوچ اپنے والد سے بالکل الگ تھی،جنید نے اپنے والد کو سمجھانے کی کوشش کی کہ تعلیم دورِ جدید کی اہم ضروریات میں سے ایک ہے اور دوکان پر کام کرکے میں زندگی میں آگے نہیں بڑھ سکتا ، مجھے انجینئرنگ کرنی ہے خو د کو آگے لے کر جانا ہے اپنے والدین کانام روشن کرنا ہے ،مگر جنید کے والد نے جنید کی ایک نا سنی اور جنید کو دکان کا کام تھما دیا مگر جنید نے ھار نہیں مانی اس نے اپنے والد سے چھپ کر حیدرآباد کے کالی موری کالج میں داخلہ لیا۔کیونکہ ٹندو الہیار میں کالجوں کی حالت ایسی نہیں تھی کہ وہاں پڑھا جائے ،اس طرح جنید نے دکان اور کالج کی ذمہ داری سنبھالی ہر ہفتے دو دن جنید کے والد اس کو حیدرآباد بھیجا کرتے تھے دوکان کا سامان لانے کےلئے تو جنید صبح جلدی حیدرآباد پہنچ کر پہلے اپنے کالج جاتے اور وہاں سے فارغ ہوکر دکان کا سامان لے کر ٹنڈو الہیار چلے جاتے ،اور امتحانوں کے درمیان کچھ نہ کچھ بہانا بنا کر حیدرآباد آتے ۔
جنید نے اپنا کالج A-1گریڈ کے ساتھ سال 2003میں مکمل کیا۔ مگر والد کو نہیں بتایا اور خود کو انجینئرنگ یونیورسٹی کے امتحان کے لئے تیار کرنا شروع کردیا ۔اور اللہ کا نام لے کر مہران یونیورسٹی آف انجینئرنگ میں انٹری ٹیسٹ دینے گئے ،اللہ کے فضل و کرم سے ٹیسٹ میں کامیابی حاصل ہوئی اور شعبہ پیٹرولیم انجینئرنگ میں ان کا داخلہ ہوگیااور انہوںنے جب یہ خبر اپنے والد کو سنائی تو وہ خوشی کے مارے روپڑے اور جنید کو گلے لگا لیا،مگر مشکلات ابھی ختم ہی نہیں ہوئی تھی اب جنید کو حیدرآباد میں رہنے کے لئے جگہ اور کھانے پینے کے خرچے بھی اُٹھانے تھے اور والد صاحب کی دوکان سے صرف یونیورسٹی کی فیس دی جاسکتی ۔
لہٰذا جنید نے پارٹ ٹام نوکری کرنا شروع کی بالآخر 2008ئ میں کڑی محنت کے بعد انجینئرنگ مکمل کی اور سال2009ئ کراچی میں ہیسکول پیٹرولیم کمپنی میں نوکری کرنا شروع کی۔4سال حیسکول میں کام کرنے کے بعد آپریشن منیجر کے عہدے پر تعینات ہوگئے اور اب جیند کراچی میں دودکانوں اور ایک فلیٹ کے مالک ہے اور اپنے ماں باپ کو اچھی زندگی بسر کروارہے ہیں۔

No comments:

Post a Comment