Wednesday 10 August 2016

بے جوڑ شادیاں آفت کو دعوت

Composing mistakes


edited by rehma talpur
مصباح۔ار۔رودا
2k14/MC/52 (BS=3)
 فیچر
شادی یا آفت کی جڑ!
بے جوڑ شادیاں یا آفت کو دعوت
جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں شادی شدہ جوڑوں کی اکثریت حقیقی خوشی سے محروم جھگڑوں کابرا اثر بچوں کے دماغ پر پڑتا ہے۔ 
شادی ایک ایسا سماجی بندھن ہ ©ے جس میں ساری دنیا ک ©ے لوگ دلچسپی لیت ©ے ہیں۔شادی ک ©ے اس اہم بندھن کو زندگی کی رونق سمجھا جاتا ہ ©ے اس کی بنیاد پر خاندان پھلت ©ے پھولت ©ے ہیں ےہ بندھن ب ©ے حد خوبصورت،پرکشش اور نازک ہوتا ہ ©ے ہر شخص شادی کی تمنا رکھتا ہ ©ے۔سوائ ©ے چند لوگوں ک ©ے جو شادی کو اہمیت نہیں دیت ©ے۔یہ جانت ©ے ہوئ ©ے بھی کہ یہ وہ لڈو ہیں جو کھات ©ے ہیں وہ بھی پچھتات ©ے ہیں اور جو نہیں کھات ©ے وہ بھی پچھتات ©ے ہیں۔شادی ایک ایسا فریضہ ہ ©ے جس کی ادائیگی ہر ایک شخص کو بھلی لگتی ہ ©ے کہ میاں بیوی ایک دوسروں ک ©ے دکھ درد میں شامل ہوت ©ے ہیں۔ ہر قوم ومذہب میں شادی کرن ©ے ک © ©ے مختلف طریق ©ے ہیں۔ ©اس موقع پر ہر ملک کے خاندان اپن ©ے اپن ©ے رواج ک ©ے مطابق مختلف رسومات ادا کرت ©ے ہیں وقت ک ©ے ساتھ ساتھ ان رسموں ک ©ے انداز بھی بدلت ©ے ہیں مگر اہمیت کسی بھی دور میں کم نہیںہوتی لیکن کچھ شادیاں ایسی بھی ہوتی ہیںجن کا کوئی جوڑ نہیں ہوتا اور زبردستی ایک دوسر ©ے پر مسلط کردی جاتی ہیں۔
شادی شدہ جوڑوں ک ©ے بار ©ے میں بہت س ©ے لطائف اورقہاوتیں مشہور ہیںان میں س ©ے ایک ایسے ہے کہ ایک بادشا ہ ن ©ے اعلان کروایا کہ جو مرد حضرات اپنی اپنی بیویوںسے ڈرت ©ے ہیں وہ ایک لائن میں کھڑے ہو جائیں اور جو نہیں ڈرت ©ے وہ دوسری لائن میں کھڑ ©ے ہوجاہیں تھوڑی دیر بعد بیویوں س ©ے ڈرن ©ے والوں کی ایک لمبی لائن بن گئی اور نا ڈرن ©ے والوں کی لائن میں صرف ایک آدمی کھڑا تھابادشاہ ن ©ے اس ©ے قریب بلاکر پوچھا کہ تم واقعی اپنی بیوی س ©ے نہیں ڈرت ©ے ؟ تو آدمی ب ©ےچارہ بولا کہ بادشاہ سلامت پتہ نہیں، مجھ ©ے تو میری بیوی کہہ گئی ہ ©ے کہ اسی لائن میں کھڑ ©ے رہنا ورنہ ٹانگیں توڑدونگی۔
آج کے اس دور میں جب دنیا اتنی آگے نکل چکی ہے وہیںکچھ لوگ اب بھی پرانی سوچ میںاپنی زندگیاں بسر کر رہے ہیں۔ اسی طرح سندھ کے بیشتر علاقوں میں یہ پاےا جاتا ہے جیسے کہ حیدرآباد اور ٹنڈوجام کے درمیان میں موجود ہ کچھ گاﺅں جیسے مٹیاری اور اللہ ڈنو سانڈ میں آج بھی ایسی روایات چلی آ رہی ہیںجو سوچ کر بھی انسان گھبراجائے وہاں موجود جوان لڑکیوں کی شادی کم عمری بچوں سے کردی جاتی ہیں لڑکیاں 25 سال کی ہوجانے کے بعد اپنے شوہر کے بڑے ہوجانے کا انتظار کرتی ہیںجو ابھی صرف 10 سے15سال تک کے ہوتے ہیں۔ان کم عمر بچوں کے بڑے ہوجانے پر وہ لڑکیاں ادھیڑ عمر کی ہو جاتی ہیں اور وہ لڑکے بڑے ہوکر دوسری شادی کر لیتے ہیںاس طرح وہ لڑکیاں جو اپنے شوہر کابرسوں سے انتظار کرتی رہی ہیںان کی زندگی خراب اور ختم ہی ہوجاتی ہے وہاں کی عورتیں گھر سے باہر نہیں نکلتیں کوئی بھی کام ہو چاہے بازار ہی کیوں نہ جانا پڑے ہر چھوٹے سے بڑا کا م آدمی ہی سر انجام دیتے ہیں۔ان لڑکیوں سے بات کرنے پر لڑکیوں کا کہنا تھا کہ کوئی ہماری مدد کرکے ان ر وایتوں کو ختم کرے تا کہ ہم بھی خشحالی والی زندگی بسر کر سکیں ۔
 یہ سوچنے اور فکر کرنے کی بات ہے کہ اس روایت کے پیش نظر ان معصوم لڑکیوں کی زندگیاں کیوں خراب کی جارہی ہیں یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کڑوا سچ ہے جس پر کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں جہاں دیکھو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔یہ وہ بے جوڑ شادیاں ہیں جن کو کبھی کامیابی حاصل نا ہوسکیں۔
 بے جو ڑ شادیوں کے بہت سے نقصانات بھی ہیں جو ہمارے سامنے معاشرے میں موجود ہیں بس آنکھ کھول کر انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے سے غیرت کے نام پر اپنی مرضی چلانے والوں کا کالا چہرہ سب کے سامنے آسکے اور وہ ان روایات کو ختم کر کے خود بھی شرافت کی زندگی گزاریں اور دوسروں کو بھی سکون کی زندگی بسر کرنے دیں۔کسی بھی کامیاب رشتے میں جوڑ ہونا ضروری ہے تاکہ وہ اپنی زندگی خوشحالی اور آسانی سے بسر کر سکیں۔

مصباح۔ار۔رودا
2k14/MC/52 (BS=3)
فیچر
الفاظ=۸۶۵
بے جوڑ شادیاں یا آفت کو دعوت
جوڑے آسمانوں پر بنتے ہیں شادی شدہ جوڑوں کی اکثریت حقیقی خوشی سے محروم جھگڑوں کابرا اثر بچوں کے دماغ پر پڑتا ہے۔
انأنیر دولہا اور ڈاکٹر دولہن ہو تو ان کے شب وروز کیسے گزریں گے ۔ میاں کہے گا کہ بۂی میرا ہیلمٹ کہاں ہے، سیفٹی شوز کہاں ہے۔ ڈاکٹر بیوی اپنی اشیاء اس طرح ڈھونڈ رہی ہوگی کہ میرا تھرمامیڑ، ٹارچ نہیں مل رہی ۔ناشتے میں ڈاکٹر بیگم ٹوسٹ کا ٹیمپریچر 100ڈگری ہونا چاہیے، اور پرانٹا گھی کے بجائے ایک چمچ آئل میں پکا ہو،انڈا بغیر زردی ہو،دودھ ملائی اترا ہوا اور ملائی پھیکی ہو، ڈبل روٹی او ر بسکٹ شوگرفری ہو،کھانے میں چاول دال کے ساتھ اور بس۔انجئنیر صاحب اپنا مسئلہ پیش کریں گے۔میری روٹی کی پیمائش برابر ہونی چاہیے اور ناپ لیا جائے تھوڑی زیادہ ہوتو کاٹ دی جائے،بوٹیوں کا وزن برابر ہونا چاہیے۔روٹی پرکار کی طرح تکون نہیں بلکہ سی۔ڈی کی طرح گول ہونی چاہیے،پلیٹ میں سالن اور کپ میں چائے کا لیول برابر ہونا چاہیے ۔روٹی ، چاول اور چائے استعمال ہونے والے لیب ٹیسٹ کروائے جائیں وغیرہ وغیرہ۔
شادی ایک ایسا سماجی بندھن ہے جس میں ساری دنیا کے لوگ دلچسپی لیتے ہیں۔شادی کے اس بندھن کو زندگی میں رونق سمجھا جاتا ہے اس کی بنیاد پر خاندان پھلتے پھولتے ہیں۔شادی کا بندھن بے حد خوبصورت،پرکشش اور نازک ہوتا ہے۔ہر شخص شادی کی تمنا رکھتا ہے۔سوائے چند لوگوں کے جو شادی کو اہمیت نہیں دیتے۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ وہ لڈو ہیں جو کھاتے ہیں وہ بھی پچھتاتے ہیں اور جو نہیں کھاتے وہ بھی پچھتاتے ہیں۔شادی ایک ایسا فریضہ ہے جس کی ادائیگی ہر ایک شخص کو بھلی لگتی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسروں کے دکھ درد میں شامل ہوتے ہیں۔ ہر قوم ومذہب میں شادی کرنے کے مختلف طریقے ہیں۔شادی کے موقع پر ہر ملک میں خاندان اپنے اپنے رواج کے مطابق مختلف رسومات ادا کرتے ہیں وقت کے ساتھ ساتھ ان رسموں کے انداز بھی بدلتے ہیں مگر اہمیت کسی بھی دور میں کم نہیں ہوتی لیکن کچھ شادیاں ایسی بھی ہوتی ہیں جن کا کوئی جوڑ نہیں ہوتا اور زبردستی ایک دوسرے پر مسلط کردی جاتی ہیں۔
شادی شدہ جوڑوں کے بارے میں بہت سے لطیفے اور باتیں مشہور ہیں ان میں سے کچھ یون ہیں کہ ایک بادشاھ نے اعلان کروایا کہ جو مرد حضرات اپنی اپنی بیویوں سے ڈرتے ہیں وہ ایک لائن میں کھڑے ہو جائیں اور جو نہیں ڈرتے وہ دوسری لائن میں کھڑے ہوجاہیں تھوڑی دیر بعد بیویوں سے ڈرنے والوں کی ایک لمبی لائن بن گئی اور نا ڈرنے والوں کی لائن میں صرف ایک آدمی کھڑا تھابادشاہ نے اسے قریب بلاکر پوچھا کہ تم واقعی اپنی بیوی سے نہیں ڈرتے ؟ تو آدمی بیچارہ بولا کہ بادشاہ سلامت پتہ نہیں، مجھے تو میری بیوی کہہ گئی ہے کہ اسی لائن میں کھڑے رہنا ورنہ ٹانگیں توڑدونگی۔
آج کے اس دور میں جب دنیا اتنی آگے نکل چکی ہے وہیں کچھ لوگ اب بھی پرانی سوچ میں زندگی گزار رہے ہیں۔حیدرآباد اور ٹنڈوجام کے درمیان میں موجود کچھ گاؤں جیسے مٹیاری اور اللہ ڈنو سانڈ ۔مٹیاری اور اللہ ڈنوسانڈ میں آج بھی ایسی روایات چل رہی ہیں جو سوچ کر بھی انسان گھبراجائے وہاں موجود جوان لڑکیوں کی شادی کم عمر بچوں سے کردی جاتی ہے لڑکیاں 25 سال کی ہوجانے کے بعد اپنے شوہر کے بڑے ہوجانے کا انتظار کرتی ہیں جو ابھی صرف 10 سے15سال تک کے ہوتے ہیں۔ان کم عمر بچوں کے بڑے ہوجانے پر وہ لڑکیاں ادھیڑ عمر کی ہو جاتی ہیں اور وہ لڑکے بڑے ہوکر دوسری شادی کر لیتے ہیں اس طرح وہ لڑکیاں جو اپنے شوہر کابرسوں سے انتظار کرتی رہی ہیں ان کی زندگی خراب اور ختم ہی ہوجاتی ہے وہاں کی عورتیں گھر سے باہر نہیں نکلتیں کوئی بھی کام ہو چاہے بازار ہی کیوں نا جانا پڑے ہر چھوٹے سے بڑا کا م آدمی ہی کرتے ہیں۔ان لڑکیوں سے بات کرنے پر لڑکیوں کا کہنا تھا کہ کوئی ہماری مدد کرے اور اس روایت کو ختم کرے۔
یہ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ اس روایت کے پیش نظر ان معصوم لڑکیوں کی زندگیاں کیوں خراب کی جارہی ہیں یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کڑوا سچ ہے جس پر کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں جہاں دیکھو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔یہ وہ بے جوڑ شادیاں ہیں جن کو کبھی کامیابی حاصل نا ہوسکیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی جوڑیاں ہیں جنہیں معاشرے میں بے جوڑ تصور کیا جاتا ہے جیسے لمبے کی جوڑی چھوٹی سے، بہت کالے کی کسی گوری سے، کسی موٹے کی کمزور سے، کم عمر کی بڑی عمر سے،پڑھے لکھے کی جاہل سے وغیرہ۔
بے جو ڑ شادیوں کے بہت سے نقصانات ہیں جو ہمارے سامنے معاشرے میں موجود ہیں بس آنکھ کھول کر انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے سے غیرت کے نام پر اپنی مرضی چلانے والوں کا کالا چہرہ سب کے سامنے آسکے اور وہ ان روایات کو ختم کر کے خود بھی شرافت کی زندگی گزاریں اور دوسروں کو بھی سکون کی زندگی گزارنے دیں۔کسی بھی کامیاب رشتے میں جوڑ ہونا ضروری ہے تاکہ وہ دونوں اپنی زندگی خوشی اور آسانی سے بسر کر سکیں۔

--------------------------------

مصباح۔ار۔رودا
2k14/MC/52 (BS=3)
  فیچر
الفاظ=۵۶۸
بے جوڑ شادیاں یا آفت کو دعوت
جوڑ ©ے آسمانوں پر بنت ©ے ہیںشادی شدہ جوڑوں کی اکثریت حقیقی خوشی س ©ے محروم جھگڑوں کابرا اثر بچوں ک ©ے دماغ پر پڑتا ہ ©ے۔
انج ¿نیر دولہا اور ڈاکٹر دولہن ہو تو ان ک ©ے شب وروز کیسے گزریں گے ۔ میاں کہے گا کہ بھ ¿ی میرا ہیلمٹ کہاں ہے، سیفٹی شوز کہاں ہے۔ ڈاکٹر بیوی اپنی اشیاءاس © © © © طرح ڈھونڈ رہی ہوگی کہ میرا تھرمامیڑ، © ٹارچ نہیں مل رہی ۔ناشتے میں ڈاکٹر بیگم ٹوسٹ کا ٹیمپریچر 100ڈگری ہونا چاہیے © © © ©، اور پرانٹا گھی کے بجا ©ئے ایک چمچ آئل میں پکا ہو،انڈا بغیر زردی ہو،دودھ ملائی اترا ہوا اور ملائی پھیکی ہو ©، ڈبل روٹی او ر بسکٹ شوگرفری ہو،کھان ©ے میں چاول دال ک ©ے ساتھ اور بس۔انجئنیر صا © © ©حب اپنا مسئلہ پیش کریں گ ©ے۔میری روٹی کی پیمائش برابر ہونی چاہی ©ے اور ناپ لیا جائ ©ے تھوڑی زیادہ ہوتو کاٹ دی جائ ©ے،بوٹیوں کا وزن برابر ہونا چاہی ©ے۔روٹی پرکار کی طرح تکون نہیں بلکہ سی۔ڈی کی طرح گول ہونی چاہی ©ے،پلیٹ میں سالن اور کپ میں چائ ©ے کا لیول برابر ہونا چاہی ©ے ۔روٹی ، چاول اور چائ ©ے استعمال ہون ©ے وال ©ے لیب ٹیسٹ کروائ ©ے جائیں وغیرہ وغیرہ۔
شادی ایک ایسا سماجی بندھن ہ ©ے جس میں ساری دنیا ک ©ے لوگ دلچسپی لیت ©ے ہیں۔شادی ک ©ے اس بندھن کو زندگی میں رونق سمجھا جاتا ہ ©ے اس کی بنیاد پر خاندان پھلت ©ے پھولت ©ے ہیں۔شادی کا بندھن ب ©ے حد خوبصورت،پرکشش اور نازک ہوتا ہ ©ے۔ہر شخص شادی کی تمنا رکھتا ہ ©ے۔سوائ ©ے چند لوگوں ک ©ے جو شادی کو اہمیت نہیں دیت ©ے۔یہ جانت ©ے ہوئ ©ے بھی کہ یہ وہ لڈو ہیں جو کھات ©ے ہیں وہ بھی پچھتات ©ے ہیں اور جو نہیں کھات ©ے وہ بھی پچھتات ©ے ہیں۔شادی ایک ایسا فریضہ ہ ©ے جس کی ادائیگی ہر ایک شخص کو بھلی لگتی ہ ©ے کہ میاں بیوی ایک دوسروں ک ©ے دکھ درد میں شامل ہوت ©ے ہیں۔ ہر قوم ومذہب میں شادی کرن ©ے ک © ©ے مختلف طریق ©ے ہیں۔شادی ک ©ے موقع پر ہر ملک میں خاندان اپن ©ے اپن ©ے رواج ک ©ے مطابق مختلف رسومات ادا کرت ©ے ہیں وقت ک ©ے ساتھ ساتھ ان رسموں ک ©ے انداز بھی بدلت ©ے ہیں مگر اہمیت کسی بھی دور میں کم نہیںہوتی لیکن کچھ شادیاں ایسی بھی ہوتی ہیںجن کا کوئی جوڑ نہیں ہوتا اور زبردستی ایک دوسر ©ے پر مسلط کردی جاتی ہیں۔
شادی شدہ جوڑوں ک ©ے بار ©ے میں بہت س ©ے لطیف ©ے اور باتیں مشہور ہیںان میں س ©ے کچھ یون ہیں کہ ایک بادشاھ ن ©ے اعلان کروایا کہ جو مرد حضرات اپنی اپنی بیویوںسے ڈرت ©ے ہیں وہ ایک لائن میں کھڑے ہو جائیں اور جو نہیں ڈرت ©ے وہ دوسری لائن میں کھڑ ©ے ہوجاہیں تھوڑی دیر بعد بیویوں س ©ے ڈرن ©ے والوں کی ایک لمبی لائن بن گئی اور نا ڈرن ©ے والوں کی لائن میں صرف ایک آدمی کھڑا تھابادشاہ ن ©ے اس ©ے قریب بلاکر پوچھا کہ تم واقعی اپنی بیوی س ©ے نہیں ڈرت ©ے ؟ تو آدمی ب ©ےچارہ بولا کہ بادشاہ سلامت پتہ نہیں، مجھ ©ے تو میری بیوی کہہ گئی ہ ©ے کہ اسی لائن میں کھڑ ©ے رہنا ورنہ ٹانگیں توڑدونگی۔
آج کے اس دور میں جب دنیا اتنی آگے نکل چکی ہے وہیںکچھ لوگ اب بھی پرانی سوچ میں زندگی گزار رہے ہیں۔حیدرآباد اور ٹنڈوجام کے درمیان میں موجود کچھ گاﺅں جیسے مٹیاری اور اللہ ڈنو سانڈ ۔مٹیاری اور اللہ ڈنوسانڈ میں آج بھی ایسی روایات چل رہی ہیںجو سوچ کر بھی انسان گھبراجائے وہاں موجود جوان لڑکیوں کی شادی کم عمر بچوں سے کردی جاتی ہے لڑکیاں 25 سال کی ہوجانے کے بعد اپنے شوہر کے بڑے ہوجانے کا انتظار کرتی ہیںجو ابھی صرف 10 سے15سال تک کے ہوتے ہیں۔ان کم عمر بچوں کے بڑے ہوجانے پر وہ لڑکیاں ادھیڑ عمر کی ہو جاتی ہیں اور وہ لڑکے بڑے ہوکر دوسری شادی کر لیتے ہیںاس طرح وہ لڑکیاں جو اپنے شوہر کابرسوں سے انتظار کرتی رہی ہیںان کی زندگی خراب اور ختم ہی ہوجاتی ہے وہاں کی عورتیں گھر سے باہر نہیں نکلتیں کوئی بھی کام ہو چاہے بازار ہی کیوں نا جانا پڑے ہر چھوٹے سے بڑا کا م آدمی ہی کرتے ہیں۔ان لڑکیوں سے بات کرنے پر لڑکیوں کا کہنا تھا کہ کوئی ہماری مدد کرے اور اس روایت کو ختم کرے۔
 یہ سوچنے اور غور کرنے کی بات ہے کہ اس روایت کے پیش نظر ان معصوم لڑکیوں کی زندگیاں کیوں خراب کی جارہی ہیں یہ ہمارے معاشرے کا ایک ایسا کڑوا سچ ہے جس پر کوئی آواز اٹھانے کو تیار نہیں جہاں دیکھو اندھیرا ہی اندھیرا نظر آتا ہے۔یہ وہ بے جوڑ شادیاں ہیں جن کو کبھی کامیابی حاصل نا ہوسکیں۔ اس کے علاوہ بھی بہت سی ایسی جوڑیاں ہیں جنہیں معاشرے میں بے جوڑ تصور کیا جاتا ہے جیسے لمبے کی جوڑی چھوٹی سے، بہت کالے کی کسی گوری سے، کسی موٹے کی کمزور سے، کم عمر کی بڑی عمر سے،پڑھے لکھے کی جاہل سے وغیرہ۔
 بے جو ڑ شادیوں کے بہت سے نقصانات ہیں جو ہمارے سامنے معاشرے میں موجود ہیں بس آنکھ کھول کر انہیں دیکھنے کی ضرورت ہے تاکہ معاشرے سے غیرت کے نام پر اپنی مرضی چلانے والوں کا کالا چہرہ سب کے سامنے آسکے اور وہ ان روایات کو ختم کر کے خود بھی شرافت کی زندگی گزاریں اور دوسروں کو بھی سکون کی زندگی گزارنے دیں۔کسی بھی کامیاب رشتے میں جوڑ ہونا ضروری ہے تاکہ وہ دونوں اپنی زندگی خوشی اور آسانی سے بسر کر سکیں۔

No comments:

Post a Comment