Is there any report?
Please see what is an artilce/
محمد زبیر -آرٹیکل
حیدرآباد میں ترقیاتی منصوبوں کے باعث درختوں کا خاتمہ
درخت انسان کو قدرت کی طرف سے دیا گیا ایک انمول تحفہ ہے۔درخت برکت کی علامت ہے جو اللہ نے ہم انسانوں کو عطا فرمائی ہے۔ درخت ایک اہم قومی دولت ہے۔ درخت اور پودے انسانی زندگی کے لے کئی فوائد کا باعث ہیں۔ اور انکی نشونما اور دیکھ بھال انسان کی فطرت سے وابستہ ہے۔آج دنیا بھر میں اس بات کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ آلودگی کا جو زہر آہستہ آہستہ اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اس سے انسانی زندگی کو سب سے زیادہ خطرہ کا ہے۔ اس خطرے سے آلودگی بہت زیادہ پھیل رہی ہے جس پر ماہر جنگلات کو سوچنا چاہیے اور اس پر اقدامات کرنے چاہیے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دوختوں اور پودوں کی کٹائی ہے۔ درخت جتنے زیادہ ہونگے وہاں کی آبادی اتنی ہی اچھی اور صاف ہوگی۔ قدرت نے درختوں اور پودوں میں ایسی چیزیں رکھی ہیں جس سے فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جسے جسے دنیا ترقی کر رہی ہے ویسے ویسے درختوں اور جنگلات کو ختم کرا جا رہا ہے۔ ماہریں بھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ صحت مند ماحول کے لیے دوختوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ جن شہروں میں زیادہ آبادی کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں کی بھی بہتات ہے وہاں درختوں کی بہت زیادہ کمی ہے۔ اس وجہ سے وہاں کے علاقہ مکینوں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔اور جن علاقوں میں درختوں کی کمی نہیں ہے وہاں نہ صرف ماحول خوشگوار ہے بلکہ اسکے مثبت اثرات انسانی زندگی پر بھی پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج درختوں کی اہمیت کے پیشے نظر دنیا بھر میں درخت اور پودے لگانے کی مہم چلائی جا تی ہے۔ لوگوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
پاکستان بلخصوص شہر حیدرآباد کی صورتحال اسکے برعکس ہے۔ جہاں پر ترقیاتی منصوبوں کے باعث درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ درخت کاٹنے کی وجہ سے حیدرآباد جو بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا آج اسکی حالت بہت ہی خراب ہے۔ حیدرآباد کے بہت سے علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے باعث درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ ان علاقوں میں لطیف آباد، قاسم آباد، قاسم چوک، وادوا اور بھی دیگر علاقے ایسے ہیں جہاں پر ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے درختوں کو کاٹا گیا ہے اسکی وجہ سے ماحول پر بہت زیادہ اثر پڑ رہا ہے۔درختوں کی کٹائی کی وجہ سے حیدرآباد میں کئی سالوں میں خاصی گرمی ریکاڈ کی گی ہے۔ درخت نہ صرف ماحول کو صاف کرتے ہیں بلکہ چرند پرند کے رہنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔
ماہر جنگلات کے مطابق کسی ملک کا چالیس فیصدحصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ یہ اس ملک کی آب و ہوا کے لے بہت اچھا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان کی حالت بہت خراب ہے۔ ہمارے ملک کا صرف پانچ فیصد حصہ ہی جنگلات پرمشتمل ہے۔ ان جنگلات میں سے بھی آئے دن درختوں کو کاٹا جاتا ہے۔اور اسکے اکثر علاقوں کی صورتحال تو بہت زیادہ خراب ہے جہاں پر اب درخت دکھائی بھی نہیں دیتے ۔ حیدرآباد کے کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں پر درخت بہت زیادہ دکھائی دیتے تھے مگر اب وہاں پر بھی درختوں کو کاٹ دیا گیاحیدرآباد میں کئی سالوں سے مقیم لیاقت صاحب کا کہنا ہے کہ آج سے تقریبا بیس سال پہلے جب میں لطیف آباد سے حیدرآباد کے کسی علاقے میں جایا کرتاتھا تو مجھے سڑکوں کے اطراف میں درخت ہی درخت دیکھائی دیتے تھے اور یہ بہت زیادہ تعداد میں ہوا کرتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔بیس سال پہلے کے مقابلے میں آج درختوں کی تعداد بہت کم ہے اسکی وجہ سے ماحول میں آلودگی اور بہت سی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ سڑکوں کی تعمیر کی وجہ سے جو درخت کاٹے جا رہے ہیں انکو دوبارہ کسی اور جگہ لگایا جائے ایسے ہم ماحول کی آلودگی سے بچ سکے گئے۔
فارسٹ ڈپارٹمنٹ حیدرآباد کے ایک عہدے دار ، محمد نور دین،نے بتایا کہ ہم ہر سال حیدرآباد میں دس ہزار پودے لگاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ HDAوالے بھی ہم سے پودے لے کر جاتے ہیں جو وہ مختلف سڑکوں کے اطراف لگاتے ہیں۔مگر سڑکیں بنے کی وجہ سے ان درختوں کو کاٹا جاتا ہے،اور کئی جگہوں پر لاپروائی کی وجہ سے ان درختوں کی حفاظت نہیں کی جاتی، ان درختوں کو پانی نہیں دیا جاتا جسکی وجہ سے وہ پودے بڑے درختوں میں تبدیل نہیں ہو پاتے اس سلسلے میں فارسٹ ڈپارٹمنٹ اور HDA کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا کہ درختوں کی حفاظت کیسے کی جائے۔
ان تمام صورتحال میں میرے خیال میں فارسٹ دپارٹمنٹ اور HDAکو انتہائی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ اس طرح ہی درختوں کو کاٹتے رہے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ شہر حیدرآباد میں درختوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔اور اس وجہ سے حیدرآباد میں آلودگی اور درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔ اس سلسلے میں فارسٹ دپارٹمنٹ، HDA اور بلدیاتی اداروں کو چاہیے کہ جلد از جلد ایسے اقدامات کرے کہ حیدرآباد ہرا بھرا ہوجائے۔
محمد زبیر(2K14/MC/67)
حیدرآباد میں ترقیاتی منصوبوں کے باعث درختوں کا خاتمہ
درخت انسان کو قدرت کی طرف سے دیا گیا ایک انمول تحفہ ہے۔درخت برکت کی علامت ہے جو اللہ نے ہم انسانوں کو عطا فرمائی ہے۔ درخت ایک اہم قومی دولت ہے۔ درخت اور پودے انسانی زندگی کے لے کئی فوائد کا باعث ہیں۔ اور انکی نشونما اور دیکھ بھال انسان کی فطرت سے وابستہ ہے۔آج دنیا بھر میں اس بات کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ آلودگی کا جو زہر آہستہ آہستہ اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اس سے انسانی زندگی کو سب سے زیادہ خطرہ کا ہے۔ اس خطرے سے آلودگی بہت زیادہ پھیل رہی ہے جس پر ماہر جنگلات کو سوچنا چاہیے اور اس پر اقدامات کرنے چاہیے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دوختوں اور پودوں کی کٹائی ہے۔ درخت جتنے زیادہ ہونگے وہاں کی آبادی اتنی ہی اچھی اور صاف ہوگی۔ قدرت نے درختوں اور پودوں میں ایسی چیزیں رکھی ہیں جس سے فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جسے جسے دنیا ترقی کر رہی ہے ویسے ویسے درختوں اور جنگلات کو ختم کرا جا رہا ہے۔ ماہریں بھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ صحت مند ماحول کے لیے دوختوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ جن شہروں میں زیادہ آبادی کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں کی بھی بہتات ہے وہاں درختوں کی بہت زیادہ کمی ہے۔ اس وجہ سے وہاں کے علاقہ مکینوں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔اور جن علاقوں میں درختوں کی کمی نہیں ہے وہاں نہ صرف ماحول خوشگوار ہے بلکہ اسکے مثبت اثرات انسانی زندگی پر بھی پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج درختوں کی اہمیت کے پیشے نظر دنیا بھر میں درخت اور پودے لگانے کی مہم چلائی جا تی ہے۔ لوگوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
پاکستان بلخصوص شہر حیدرآباد کی صورتحال اسکے برعکس ہے۔ جہاں پر ترقیاتی منصوبوں کے باعث درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ درخت کاٹنے کی وجہ سے حیدرآباد جو بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا آج اسکی حالت بہت ہی خراب ہے۔ حیدرآباد کے بہت سے علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے باعث درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ ان علاقوں میں لطیف آباد، قاسم آباد، قاسم چوک، وادوا اور بھی دیگر علاقے ایسے ہیں جہاں پر ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے درختوں کو کاٹا گیا ہے اسکی وجہ سے ماحول پر بہت زیادہ اثر پڑ رہا ہے۔درختوں کی کٹائی کی وجہ سے حیدرآباد میں کئی سالوں میں خاصی گرمی ریکاڈ کی گی ہے۔ درخت نہ صرف ماحول کو صاف کرتے ہیں بلکہ چرند پرند کے رہنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔
ماہر جنگلات کے مطابق کسی ملک کا چالیس فیصدحصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ یہ اس ملک کی آب و ہوا کے لے بہت اچھا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان کی حالت بہت خراب ہے۔ ہمارے ملک کا صرف پانچ فیصد حصہ ہی جنگلات پرمشتمل ہے۔ ان جنگلات میں سے بھی آئے دن درختوں کو کاٹا جاتا ہے۔اور اسکے اکثر علاقوں کی صورتحال تو بہت زیادہ خراب ہے جہاں پر اب درخت دکھائی بھی نہیں دیتے ۔ حیدرآباد کے کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں پر درخت بہت زیادہ دکھائی دیتے تھے مگر اب وہاں پر بھی درختوں کو کاٹ دیا گیاحیدرآباد میں کئی سالوں سے مقیم لیاقت صاحب کا کہنا ہے کہ آج سے تقریبا بیس سال پہلے جب میں لطیف آباد سے حیدرآباد کے کسی علاقے میں جایا کرتاتھا تو مجھے سڑکوں کے اطراف میں درخت ہی درخت دیکھائی دیتے تھے اور یہ بہت زیادہ تعداد میں ہوا کرتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔بیس سال پہلے کے مقابلے میں آج درختوں کی تعداد بہت کم ہے اسکی وجہ سے ماحول میں آلودگی اور بہت سی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ سڑکوں کی تعمیر کی وجہ سے جو درخت کاٹے جا رہے ہیں انکو دوبارہ کسی اور جگہ لگایا جائے ایسے ہم ماحول کی آلودگی سے بچ سکے گئے۔
فارسٹ ڈپارٹمنٹ حیدرآباد کے ایک عہدے دار ، محمد نور دین،نے بتایا کہ ہم ہر سال حیدرآباد میں دس ہزار پودے لگاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ HDAوالے بھی ہم سے پودے لے کر جاتے ہیں جو وہ مختلف سڑکوں کے اطراف لگاتے ہیں۔مگر سڑکیں بنے کی وجہ سے ان درختوں کو کاٹا جاتا ہے،اور کئی جگہوں پر لاپروائی کی وجہ سے ان درختوں کی حفاظت نہیں کی جاتی، ان درختوں کو پانی نہیں دیا جاتا جسکی وجہ سے وہ پودے بڑے درختوں میں تبدیل نہیں ہو پاتے اس سلسلے میں فارسٹ ڈپارٹمنٹ اور HDA کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا کہ درختوں کی حفاظت کیسے کی جائے۔
ان تمام صورتحال میں میرے خیال میں فارسٹ دپارٹمنٹ اور HDAکو انتہائی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ اس طرح ہی درختوں کو کاٹتے رہے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ شہر حیدرآباد میں درختوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔اور اس وجہ سے حیدرآباد میں آلودگی اور درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔ اس سلسلے میں فارسٹ دپارٹمنٹ، HDA اور بلدیاتی اداروں کو چاہیے کہ جلد از جلد ایسے اقدامات کرے کہ حیدرآباد ہرا بھرا ہوجائے۔
محمد زبیر(2K14/MC/67)
No comments:
Post a Comment