سعود شیخ
آرٹیکل
2k14/MC/63
لطیف آباد میں دریا کے قریب کچی آبادیاں پکی آبادیوں میں تبدیل
دنیاچاند سے واپس آکر مریخ پر جانے کے لئے کمر بستہ ہے مگر پاکستان جیسے غریب ممالک کے افراد گھر کی تلاش میں سر گرداں ہیں ۔دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ رہائش ایک وبالِ جان بنتی جارہی ہے شہر میں قدیم آبادیوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح غیر انسانی رہائش اختیار کر نے والے سات سات افرادایک کمرے کے گھر میں رہتے ہیں جیسے جُگّی کہا جاتا ہے ۔اس ہی کمر ے میں غسل خانہ اور کچن شامل ہے اس طرح رہنے سے نہ صرف بیماریوں بلکہ غیر اخلاقی اقدار کو بھی فروغ ملتا ہے۔ ہجرت یا نکل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کے مسائل اس سے بھی بدتر ہیں یہ زیادہ تر شہر کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔
یہ کچی آبادیاں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں بھی موجود ہیں اور زیادہ تر دریائے سندھ کے کنارے پر علاقوں کی شکل اختیار کر گئی ہیں ۔ان آبادیوں میں چار قدم چلنا محال ہے، ہر طرف کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں جن کی بدبو سے دماغ پھٹنے لگتا ہے۔دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کی خرابی کے باعث گلی گلی کیچڑ بہتی ہے،جس میں اینٹیں رکھ کر آگے بڑھا جاسکتاہے مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت صفائی کرنا گوارا نہیں کرتے اور گندگی بڑھتی چلی جاتی ہے انہی گلیوں میں بے پناہ بچے دوڑتے بھاگتے اور کھیلتے رہتے ہیں۔جن کی مائیں کارخانوں اور گھروں میں ملازمت کر کے گھر کا پہیہ رواں دواں کرتی ہیں۔
شہر میں آبادی کے دباؤ کے باعث مکانات بے انتہا مہنگے ہیں ،اور جس طرح رہائشی سہولتوں نے صورتحال خراب کر دی ہے آگے جا کر مزید نقصان ہوگا۔سرکاری حکام سے اس سلسلے میں بات کی جائے تو وہ مختلف رکاوٹوں کارونہ روتے ہیں ۔ان آبادیوں میں رہنے والے کم آمدنی ،وسائل کی کمی اور بجلی ،پانی،گیس کے بحران میں مبتلاہیں. 1947 کی ہجرت کے بعد دوسرا دور مشرقی پاکستان الگ ہونے کی صورت میںآیاجب بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی صوبائی حکومت کے اہلکار کے مطابق سن 1972میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کراچی میں کچی آبادیوں کی تعداد تقریباً70تھی اور یہ تین ہزار ایکڑ تک پھلی ہوئی تھیں ۔یہ کچی آبادیاں مختلف حکومتوں میں مختلف اداروں کی زمین پر بھی آباد تھیں۔پھر یہ ملک کے دوسرے شہروں میں پھلنے لگیں۔
دریائے سندھ کے قریب موجود ان آبادیوں میں بھی بہت سے ایسے افراد موجود ہیں جو ہجرت کر کے آئے تھے اور اب یہاں قیام پذیر ہیں اس کے علاوہ یہاں بڑی تعداد میں افغانی بھی قیام پذیر ہیں ۔جو ہجرت کے بعد یہاں آکر رہے اور چھوٹا موٹا روز گار شروع کیاکسی نے مزدوری کی ،اور کوئی کچرا اٹھانے لگا۔اس ہی آبادی کے ایک رہائشی سرور بنگالی کا کہنا ہے کہ: ’ہم وہ بد نصب ہیں جنہیں دو ہجرتیں کرنے کے بعد بھی کچھ نہ ملا‘
لطیف آباد کے مغربی کنارے پر موجود دریا کے کنارے کے ساتھ یہ کچی آبادیاں کئی سالوں سے موجود ہیں اور نسل در نسل چل رہیں ہیں ان میں سے بہت سے ایسے گھر ہیں جو دریا کے بلکل ساتھ موجود ہیں اور انتہائی خطرناک ہیں پچھلے کچھ سالوں میں بعض اوقات دریا کا پانی بڑھنے کی وجہ سے غرق بھی ہو چکے ہیں لیکن لوگ ان زمینوں کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ۔اکرم جس کا گھر دو سال پہلے سیلابی ریلے کے باعث بہہ گیا تھا وہ اس پانی کے گزرنے کے بعد اب دوبارہ اِسی جگہ پر جُگّی ڈالے بیٹھاہے وہ کہتا ہے کہ: ’جائیں تو جائیں کہاں ! ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ شہر میں کرائے کا مکان لے سکیں اور اگر شہری علاقے میں بیٹھتے ہیں تو ہمیں وہاں سے بھگا دیا جاتا ہے ‘
بھٹّو پارک سے شروع ہونے والی یہ آبادی کوہسار تک موجود ہے۔ جس میں ہزاروں لوگ قیام پذیر ہیں جنہیں اینٹی انکچروچمنٹ والے متعدد دفع وارنگ دے چکیں ہیں اور کئی دفعہ ان میں سے کچھ گھروں کو توڑا بھی جا چکاہے لیکن یہ لوگ کچھ دن میں اپنی جگہ واپس آجاتے ہیں اور اس کے بعد یہ ادارہ کوئی ایکشن نہیں لیتا یہ آبادی اب اتنی بڑی تعداد میں اور اتنے بڑے رقبے پر پھیل چکی ہے کہ اس کے خلاف آپریشن کرنا کو ئی آسان کام نہیں ۔یہاں زیادہ تر آبادی غربت کا شکار ہے لیکن اکثر جگہوں پر تو باقاعدہ زمین کی خریدوفروخت چل رہی ہے ۔ قبضہ مافیاں ان زمینوں پر قبضہ کر کہ لوگوں کو فروخت کر رہی ہے ۔جس کی وجہ سے اکثر جگہوں پر تو باقاعدہ پکے مکان تعمیر کر لیے گئے ہیں جن میں سے اکثر تو دو اور تین منزلہ بہترین تعمیر شدہ عمارتیں بن چکی ہیں۔غربت تو اپنی جگہ لیکن ان ہزاروں لوگوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رکھی ہیں جو کسی بھی وقت بے رحم لہروں کا نشانہ ہو سکتے ہیں ان آبادیوں اور لوگوں کا کوئی پر سانِ حال نہیں انکروچمنٹ اس صورتحال پر بے بس دیکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سیاسی پشت پناہی کے باعث وہ کوئی اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں۔
شہر میں موجود یہ کچی آبادیاں ہماری ریاستی کمزوری کا منہ بولتاثبوت ہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری ریاست ملک کی ایک بڑی آبادی کو بنیادی سہولیات دینے میں نا کام ہے اس وجہ سے پسماندہ اور دیہی علاقوں کے لوگ ہر سال بڑی تعداد میں شہری علاقوں کی طرف بنیادی
سہولیات اور روزگار کی غرض سے ہجرت کر ر ہے ہیں اور یہ کچی آبادیاں کم ہونے کے بجائے ہر سال بڑھتی جا رہی ہیں اس وقت حیدرآباد میں ان کچی آبادیوں کی تعداد 417ہوگئی ہے ۔جن میں 375 آبادیاں سرکاری زمین پر قائم ہیں اور42 نجی زمینوں پر قائم ہیں ۔
ان کچی آبادیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر اور ان کو ایک حقیقت جانتے ہوئے سن 1987ء میں سندھ اسمبلی میں ایک قانون پاس کیا گیاجس کا مقصد ان کچی آبادیوں کو مسمار کر نا نہیں تھا بلکہ ان آبادیوں اور یہاں کے رہائشیوں کو مستقل رہائش دینا مقصد تھا جس کے لئے سندھ کچی آبادی اتھارٹی کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا گیا جس کا مقصد ان کچی آبادیوں کی تعمیر تھااور ان کو باقاعدہ قانونی حق دلانا تھا۔ اس ادارے نے ابتداء میں تو اپنا کام نہایت پھرتی سے کیااور 97آبادیوں کو باضابطہ کیااور یہاں کے رہائشیوں سے لیس کی مد میں حاصل ہونے والے پیسوں کی مدد سے تعمیر و ترقی شروع کی اور بنیادی سہولیات مہیا کی لیکن اب یہ ادارہ اپنے فرائض صحیح طریقے سے انجام نہیں دے رہا۔
سندھ کچی آبادی اتھارٹی اور انکروچمنٹ اداروں کو چاہیئے کہ اس مسلئے کے حل کے لئے کوئی جامع حکمتِ عملی بنائے جس کے ذریعے ان نا جا ئز تجاوزات کو ختم کیا جاسکے۔کیونکہ اس کاحل صرف اب ان کے خلاف آپریشن یا کریک ڈاؤن کرنا نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ایک افراتفری کی صورتحال برپا ہوجائے گی جو نقصان دہ ثابت ہوگی اس کے بجائے ان لوگوں کو اس زمین سے قبضہ چھوڑنے کے عوض انہیں شہر سے تھوڑا دور موجود خالی زمینوں پر سستے داموں میں زمین دے کر آباد کیا جائے جس کے ذریعے اس مسلئے کا حل بھی نکلے گا اور نئے شہر بھی آباد ہونگے۔
-----------------------------------------------------
More work is required. Number of katchi abadis in Hyd? why??
سعود شیخ
آرٹیکل
2k14/MC/63
لطیف آباد میں دریا کے قریب کچی آبادیاں پکی آبادیوں میں تبدیل
دنیاچاند سے واپس آکر مریخ پر جانے کے لئے کمر بستہ ہے مگر پاکستان جیسے غریب ممالک کے افراد گھر کی تلاش میں سر گرداں ہیں ۔دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ رہائش ایک وبالِ جان بنتی جارہی ہے شہر میں قدیم آبادیوں میں کیڑے مکوڑوں کی طرح غیر انسانی رہائش اختیار کر نے والے سات سات افرادایک کمرے کے گھر میں رہتے ہیں جیسے جُگّی کہا جاتا ہے ۔اس ہی کمر ے میں غسل خانہ اور کچن شامل ہے اس طرح رہنے سے نہ صرف بیماریوں بلکہ غیر اخلاقی اقدار کو بھی فروغ ملتا ہے۔ ہجرت یا نکل مکانی کر کے آنے والے لوگوں کے مسائل اس سے بھی بدتر ہیں یہ زیادہ تر شہر کی کچی آبادیوں میں رہائش پذیر ہیں۔
یہ کچی آبادیاں سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں بھی موجود ہیں اور زیادہ تر دریائے سندھ کے کنارے پر علاقوں کی شکل اختیار کر گئی ہیں ۔ان آبادیوں میں چار قدم چلنا محال ہے، ہر طرف کچرے کے ڈھیر نظر آتے ہیں جن کی بدبو سے دماغ پھٹنے لگتا ہے۔دیگر عوامل کے ساتھ ساتھ نکاسی آب کی خرابی کے باعث گلی گلی کیچڑ بہتی ہے،جس میں اینٹیں رکھ کر آگے بڑھا جاسکتاہے مقامی افراد اپنی مدد آپ کے تحت صفائی کرنا گوارا نہیں کرتے اور گندگی بڑھتی چلی جاتی ہے انہی گلیوں میں بے پناہ بچے دوڑتے بھاگتے اور کھیلتے رہتے ہیں۔جن کی مائیں کارخانوں اور گھروں میں ملازمت کر کے گھر کا پہیہ رواں دواں کرتی ہیں۔
شہر میں آبادی کے دباؤ کے باعث مکانات بے انتہا مہنگے ہیں ،اور جس طرح رہائشی سہولتوں نے صورتحال خراب کر دی ہے آگے جا کر مزید نقصان ہوگا۔سرکاری حکام سے اس سلسلے میں بات کی جائے تو وہ مختلف رکاوٹوں کارونہ روتے ہیں ۔ان آبادیوں میں رہنے والے کم آمدنی ،وسائل کی کمی اور بجلی ،پانی،گیس کے بحران میں مبتلاہیں. 1947 کی ہجرت کے بعد دوسرا دور مشرقی پاکستان الگ ہونے کی صورت میں آیاجب بڑی تعداد میں لوگوں نے نقل مکانی کی صوبائی حکومت کے اہلکار کے مطابق سن 1972میں سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کراچی میں کچی آبادیوں کی تعداد تقریباً70تھی اور یہ تین ہزار ایکڑ تک پھلی ہوئی تھیں ۔یہ کچی آبادیاں مختلف حکومتوں میں مختلف اداروں کی زمین پر بھی آباد تھیں۔پھر یہ ملک کے دوسرے شہروں میں پھلنے لگیں
دریائے سندھ کے قریب موجود ان آبادیوں میں بھی بہت سے ایسے افراد موجود ہیں جو ہجرت کر کے آئے تھے اور اب یہاں قیام پذیر ہیں اس کے علاوہ یہاں بڑی تعداد میں افغانی بھی قیام پذیر ہیں ۔جو ہجرت کے بعد یہاں آکر رہے اور چھوٹا موٹا روز گار شروع کیاکسی نے مزدوری کی ،اور کوئی کچرا اٹھانے لگا۔اس ہی آبادی کے ایک رہائشی سرور بنگالی کا کہنا ہے کہ:
’ہم وہ بد نصب ہیں جنہیں دو ہجرتیں کرنے کے بعد بھی کچھ نہ ملا‘
لطیف آباد کے مغربی کنارے پر موجود دریا کے کنارے کے ساتھ یہ کچی آبادیاں کئی سالوں سے موجود ہیں اور نسل در نسل چل رہیں ہیں ان میں سے بہت سے ایسے گھر ہیں جو دریا کے بلکل ساتھ موجود ہیں اور انتہائی خطرناک ہیں پچھلے کچھ سالوں میں بعض اوقات دریا کا پانی بڑھنے کی وجہ سے غرق بھی ہو چکے ہیں لیکن لوگ ان زمینوں کو چھوڑنے پر آمادہ نہیں ۔اکرم جس کا گھر دو سال پہلے سیلابی ریلے کے باعث بہہ گیا تھا وہ اس پانی کے گزرنے کے بعد اب دوبارہ اِسی جگہ پر جُگّی ڈالے بیٹھاہے وہ کہتا ہے کہ:
’جائیں تو جائیں کہاں ! ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں کہ شہر میں کرائے کا مکان لے سکیں
اور اگر شہری علاقے میں بیٹھتے ہیں تو ہمیں وہاں سے بھگا دیا جاتا ہے ‘
بھٹّو پارک سے شروع ہونے والی یہ آبادی کوہسار تک موجود ہے۔ جس میں ہزاروں لوگ قیام پذیر ہیں جنہیں اینٹی انکچروچمنٹ والے متعدد دفع وارنگ دے چکیں ہیں اور کئی دفعہ ان میں سے کچھ گھروں کو توڑا بھی جا چکاہے لیکن یہ لوگ کچھ دن میں اپنی جگہ واپس آجاتے ہیں اور اس کے بعد یہ ادارہ کوئی ایکشن نہیں لیتا یہ آبادی اب اتنی بڑی تعداد میں اور اتنے بڑے رقبے پر پھیل چکی ہے کہ اس کے خلاف آپریشن کرنا کو ئی آسان کام نہیں ۔یہاں زیادہ تر آبادی غربت کا شکار ہے لیکن اکثر جگہوں پر تو باقاعدہ زمین کی خریدوفروخت چل رہی ہے ۔ قبضہ مافیاں ان زمینوں پر قبضہ کر کہ لوگوں کو فروخت کر رہی ہے ۔جس کی وجہ سے اکثر جگہوں پر تو باقاعدہ پکے مکان تعمیر کر لیے گئے ہیں جن میں سے اکثر تو دو اور تین منزلہ بہترین تعمیر شدہ عمارتیں بن چکی ہیں۔غربت تو اپنی جگہ لیکن ان ہزاروں لوگوں نے اپنی زندگیاں خطرے میں ڈال رکھی ہیں جو کسی بھی وقت بے رحم لہروں کا نشانہ ہو سکتے ہیں ان آبادیوں اور لوگوں کا کوئی پر سانِ حال نہیں انکروچمنٹ اس صورتحال پر بے بس دیکھائی دیتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ سیاسی پشت پناہی کے باعث وہ کوئی اقدام اٹھانے سے قاصر ہیں۔
حکومت اور انکروچمنٹ اداروں کو چاہیئے کہ اس مسلئے کے حل کے لئے کوئی جامع حکمتِ عملی بنائے جس کے ذریعے انا جا ئز تجاوزات کو ختم کیا جاسکے۔کیونکہ اس کاحل صرف اب ان کے خلاف آپریشن یا کریک ڈاؤن کرنا نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے ایک افراتفری کی صورتحال برپا ہوجائے گی جو نقصان دہ ثابت ہوگی اس کے بجائے ان کوگوں کو اس زمین سے قبضہ چھوڑنے کے عوض انہیں شہر سے تھوڑا دور موجود خالی زمینوں پر سستے داموں میں زمین دے کر آباد کیا جائے جس کے ذریعے اس مسلئے کا حل بھی نکلے گا اور نئے شہر بھی آباد ہونگے۔
No comments:
Post a Comment