Thursday 25 August 2016

رافع خان, فیچر corrected

corrected  Fetaure is always reporting based
فیچر    رافع خان
خواتین میں حجاب کا بڑھتا ہوا رجحان
گزشتہ چند عرصے سے خواتین میں حجاب کا رجحان عام دکھائی دے رہا ہے۔بڑھتی ہوئی تعداد میں لڑکیاں اسے ضرورت اور فیشن سمجھہ رہی ہیں ۔ پہلے جہاں خواتین برقعے میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی تھیں اب وہاں آج کل برقعے سے زیادہ حجاب کو ترجیح دی جارہی ہے اور اس کا رجحان تیزی سے پروان چڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ حجاب اور عبائیہ کو اب صرف شادی شداہ یا گھریلو خواتین ہی نہیں بلکہ نوجوان لڑکیاں بھی بطور فیشن پہن رہی ہیں۔ حجاب کو عورت کا فطری حسن بھی کہا جا سکتا ہے۔

مارکیٹ میں ہر روز نت نئے انداز کے حجاب متعارف کرائے جا رہے ہیں جو کہ جدید ڈیزائن کے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ حجاب عورتوں اور لڑکیوں کی توجہ کا مرکز بنے دکھائی دیتے ہیں۔آج کل بہت سے اسکول،کالج اور یونیورسٹی کی لڑکیوں نے حجاب کو اپنایا ہوا ہے۔ اکثر اسکول کالج اور یونیورسٹی کی لڑکیاں حجاب ،اسکارف میں نظر آتی ہیں۔حجاب کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ دوپٹے کی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔
حجاب اور عبائیہ کا ایک دوسرے سے تعلق یہ ہے کہ پہلے عبائیہ کا فیشن خواتین ،لڑکیوں میں مقبول ہوا پہر حجاب کی اہمیت بڑھی مگر اب حجاب کو پردے کے ساتھ ساتھ فیشن کا بھی حصہ بنا لیا ہے۔جہاں زماے کے دوسرے شعبہ ہاے زندگی میں تبدیلی ظاہر ہو رہی ہے ایسے ہی حجاب اوڑھنے کے ڈھنگ میں بھی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے، پہلے خواتین فینسی گوٹے کناری والی چیزوں سے اپنے آپ کو ڈھک لیا کرتی تھیں مگر آج کل خواتین نے حجاب کو اپنایا ہوا ہے۔

ہر خطے اور علاقے کے لحاظ سے حجاب اوڑھنے کا طریقہ الگ الگ ہے مگر ان کا مقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے پردہ۔جامعہ سندہ کی طلبہ کا یہ کہنا ہے کہ حجاب کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ روز روز طرح طرح کے کپڑوں کی جھنجٹ سے چہٹکارا مل گیا، اور یے حجاب،عبائیہ یا اسکارف کو بطور فیشن استعمال کر رہی ہیں۔ روبی نامی خاتون کا یہ کہنا ہے کہ بازار جانا ہو یا کہیں اور وہ ڈیزائنر ڈریسز سے زیادہ حجاب کو ترجیح دیتی ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حجاب کو اپنانے سے ان کا خاصہ وقت بچ جاتا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کپڑے استری کیے بغیر اپنا وقت بچاسکتی ہیں اور حجاب سے اپنے آپ کو ڈھک کر باآسانی کہیں بھی جا سکتی ہیں۔

خواتین نے فیشن کے طور پر اور اپنی آسانی کے لیے بھی حجاب کو اپنایا ہو ہے۔خواتیں کی کثیر تعداد بازاروں میں حجاب پہنے دکھائی دیتی ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حجاب کے ہوتے ہوے کسی لڑکی یا خاتون کو مہنگے یا عمدہ جوڑے کی ضرورت نہیں ہوتی اسی لیے حجاب کا بڑھتا ہوا رجحان دکھائی دیتا ہے۔
ناہد نامی خاتون کے مطابق بجلی نہ ہونے کی صورت میں حجاب ان کا باخوبی ساتھ دیتا ہے اکثر کسی ایمرجنسی صورتحال میں جب بجلی موجود نہیں ہوتی اور ان کے عمدہ اور خاص جوڑے استری نہیں ہوئے ہوتے تو یہ عبایۂ اور اسکارف کو اپنا لباس بنا لیتی ہیں۔ جامعہ سندھ کے شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کی طلبہ سائرہ ناصر کے مطابق اس کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ شرعی پردہ جو اسلام میں ہے اور دوسرا حُسن کو بچانے کے لیے پردہ، زیادہ تر آج کل حُسن کو بچانے کے لیے پردہ عروج پر ہے جس کے لیے نت نئے انداز والے برقعے بازار میں متعارف کرائے جا رہے ہیں۔

اسلام کے نقطہ نظر سے پردہ اور حجاب عورت کو تقدس ہی نہیں بلکہ تحفظ بھی فراہم کرتا ہے
 لیکن آج کل اتنے چست برقعے پہنے جاتے ہیں کہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ خود کو بری نگاہوں سے بچانے کے لیے پہنے ہیں یا لوگوں سے تعریفیں سنے کرنے کے لیے۔

حیدرآباد کے مختلف مقامات پر حجاب ، برقعے، اسکارف اور عبایۂ کی خریدوفروغت کی جاتی ہے۔لطیف آباد نمبر آٹھ میں کڑہائی والے برقعے اور نئے نئے ڈیزائن کے برقعوں کے درمیان ریس چل رہی ہے جن کی قیمت تقریبا دو ہزار تک ہے ۔ حیدرآباد کا مشہور ریشم بازار کی بتاشا گلی میں خاص طور پر فرمایئشی برقعے تیار کیے جاتے ہیں۔چاندنی بازار میں جویریہ عبایۂ ایک ایسی واحد دکان ہے جس میں صرف اور صرف عبایۂ،برقعے اور اسکارف فروغت کیے جاتے ہیں۔ اس دکان کے مینیجر کے مطابق انکی دکان میں مختلف قسم اور مختلف ڈیزائن کے برقعے اور عبایۂ حجاب کے لیے دستیاب ہیں جن کی قیمت آٹھ سو سے لے کر آٹھ ہزار تک ہے۔

حجاب نہ صرف مسلمان خواتین بطور پردہ استمعال کرتی ہیں بلکہ ہر مزہب، ہر رنگ و نسل کی خواتین اسے فیشن کے طور پر ترجیح دے رہی ہیں۔بعض خواتین حجاب اپنے رنگ کو دھوپ اور آلودگی سے بچانے کے لیے بھی استعمال کر رہی ہیں۔
نام:محمد رافع خان
کلاس: بی ایس پارٹ ۳
رول نمبر:2k14/Mc/140


Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh

No comments:

Post a Comment