Corrected
شیرزمان گورکن)
Saira nasir
نام: سائرہ ناصر
کلاس: بی ایس پارٹ ۳
رول نمبر: 2k14/MC/84
کیٹگری: پروفائل
زندگی کی چکا چوند اور افراتفری میں مگن انسان کس طرح اپنی زندگی کی اصل حقیقت سے منہ پھیر لیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ یہ دنیا اس کا عارضی ٹھکانہ ہے ۔ موت ایک ایسا معمہ ہے جسے نہ کوئی آج تک سمجھ سکا ہے نہ سمجھا سکا ہے ۔ روزانہ ناجانے کتنی جانیں اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں ۔ ان کو آخری آرامگاہ تک پہنچانے والے شیرزمان(گورکن) سے سننے کو ملا کہ شہرِخاموشاں میں دن رات کیسے گزرتے ہیں اوروہ اپنی زندگی عام لوگوں سے ہٹ کر کیسے بسر کرتے ہیں ۔
لوگ دنیا سے رخصت ہو کر قبرستان آتے ہیں مگر ۵۸ سالہ شیرزمان کا بچپن ہی یہیں گزرا ہے جو کافی حیرت کی بات ہے۔ شیرزمان کو پیار سے گردونواح کے لوگ شیرو بلاتے ہیں۔ شیرو کے والد صاحب کا نام خان بہادر تھا اور وہ بھی مقامی قبرستان میں بحیثیت گورکن کام کرتے تھے اور پودوں کو پانی لگاتے تھے۔ بقول شیرو کے : میں نے اپنی آنکھ یہیں کھولی بچپن سے یہیں قبرستان میں والد صاحب کے ساتھ رہا ہوں اور انکی وفات کے بعدوراثت میں یہ پیشہ مجھے منہ دکھائی میں ملا۔خاصا پڑھا لکھا نہیں ہوں میں پر اس دور کے چالا ک اور مطلبی خلق(پشتو میں لوگوں) کو پرکھنے کا سبق پڑھ چکا ہوں اس لئے خود کو پڑھا لکھا کہتا ہوں۔
شیرو کئی سالوں سے یہیں قبرستان کے پاس دو کمروں کے گھر میں انتہائی سادگی سے زندگی گزر بسر کر رہے ہیں۔ گھر کا جائزہ لیا جائے تو وہ خانہ بدوشوں کا منظر پیش کرتا ہے ۔ گھر میں کوئی آسائشات موجود نہیں ہیں۔ٹھاٹ باٹ رہن سہن سے تو کیا حلیے سے بھی دکھائی نہیں دیتے۔ دو پٹی کی انتہائی ادنی سی قیمت والی ہوائی چپل جو موچی کی منتظر تھی پہنے ہوئے جن میں سے میل جمی ایڑھیاں اپنی کہانی بیان کر رہی تھیں، حقیر سی شلوار قمیض زیب تن کئے ہوئے جس کی کالر میں نہ شان تھی نہ ہی کپڑے میں اکڑ ۔ پیلے دانت، بڑھی ہوئی داڑھی انکی حالت زار کی عکاسی کر رہی تھی۔
جہاں عالی شان محلات اور بڑے بڑے ٹاورز زندگی کا واحد مقصد ہوں، زندگی کی چکا چوند اور اسکی رعنائیوں کو جوانسان غفلت کی چادر اوڑھے حقیقت سمجھنے لگیں انکی قبرستانوں اور گورکنوں کے مسائل کی طرف نظر کہاں جاتی ہے۔
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
سیاسی جاہ و جلال عظیم الشان محلات، شاہی دسترخوان لیکن مرنے کے بعد قبر پر مکمل سکوت، ویرانی اور خاموشی ۔اپنے پیاروں کی قبروں کی دیکھ بھال کا واحد آسرا صرف گورکن لیکن ، بقول شیرو کے زندگی کا بھی عجیب ہی فنڈا ہے۔ ہمیں ساری زندگی معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ محلے میں اگر پڑوسیوں کے گھر شادی ہو تو ہمیں بلانا تک مناسب نہیں سمجھا جاتا البتہ اگر میت ہو جائے تو ہر سمت ہمیں ڈھونڈا جاتا ہے۔ پل پل ساتھ گزارنے والے لواحقین اپنے پیاروں کو ہمارے رحم و کرم پر چھوڑ جاتے ہیں۔ خود غرضی کا عالم تو اتنا عروج پر ہے کہ دو گھڑی اپنے پیاروں کی قبر پر پانی تک ڈالنے کے لئے آنے کی زحمت نہیں کرتے۔
قبروں کو کھودنااور مردوں کو دفنانا شیرو کا روز کا معمول ہے۔ جب پوچھا گیا کہ اس سے موت کا خوف بڑھ گیا یا کم ہو گیا؟ تو بتایا کہ موت کا خوف بہت بڑھ گیا ہے۔ مردوں کے کبھی کبھی خالی ڈھانچے دیکھ کر دل دہل جاتا ہے پر اب عادی ہوگیا ہوں اور دل پختہ ہو گیا ہے۔
صحیح ہے یا غلط پر مشہور ہے کہ مردے رات کے وقت آپس میں ملتے جلتے ہیں باتیں کرتے ہیں کیا آپ نے کبھی دیکھا؟ ہاہاہا!! زوردار قہقہ لگا کر شیرو نے بتایا کہ ہم خود رات کو نشے کی لپیٹ میں ہوتے ہیں زندہ انسان بھی روحیں لگنے لگتی ہیں۔
رات کو لوگوں کو قبرستان جانے سے ڈر لگتا ہے، کہا جاتا ہے کہ جن چڑیل ہوتی ہیں لیکن شیرو کو کبھی ڈر نہیں لگا سوائے ایک دفعہ کے، جس نے زندگی پر گہرا اثر ڈالا ۔ شیرو بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ قبرستان میں اپنے خیالات میں گم بیٹھا سگریٹ سلگا رہا تھا کہ اچانک مجھے کسی چیز نے جھنجھوڑا اور میں انتہائی خوف ذدہ ہو گیا۔ ناجانے وہ ناگہانی آفت تھی یا غیبی چیز تھی جو اچانک مجھ پر حاوی ہوئی تھی لیکن اس دن جان بال بال بچی تھی۔
شیر زمان نمکین میں بریانی بہت شوق سے کھاتے ہیں اور میٹھے میں پان۔ موسیقی سننے کا بھی شوق ہے اور پسندیدہ گلوکارعطاء اللہ اور رمحمد رفیع ہیں جبکہ پسندیدہ اداکارہ شمیم آرا ہیں۔انتہائی ٹھنڈے مزاج کے مالک ہیں کبھی گر م جوشی سے کام نہیں لیتے ۔ ان کے ساتھی گورکن مشائم کا کہنا ہے کہ : بعض اوقات کفن دفن کے وقت لواحقین تلخ زبان کا استعمال کر جاتے ہیں مگر شیرو موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کبھی جواب نہیں دیتا بلکہ صبر کا مظاہرہ کرتا ہے ۔
قبرستانوں کو برائیو ں کی آماجگاہ کہا جاتا ہے۔ ہر برائی یہاں کی تاریکی میں پل رہی ہوتی ہے۔ جب شیرو سے انکی مصروفیات کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا کہ لوگوں کی رنگینیوں سے دور رات کی تنہائی میں دل کا سکون شراب پی کر حاصل کرتا ہوں۔ جانتا ہوں کہ غلط ہے مگر سینے میں بھڑکتی آگ کوسگریٹ کے دھوئیں میں اڑا کر بہت سکون ملتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ زبیدہ آپا کی طرح مجھے بھی ٹوٹکا آفر کر ڈالا۔
شیرو کے ایک گراہک جو ہر ماہ اپنے والد کی قبرکی دیکھ بھال کے لئے پیسے دیتا ہے اس کا کہنا تھا کہ : شیرو میں کئی برائیاں سہی مگراپنے پیشے سے مخلصیت اور احساس زمہ داری ہے جو ایک حلال کمانے والے کی نشانی ہے ۔
شیرو کا پیغام ہے کہ ہم سب مشت خاکی سے بنے ہیں او ر ایک دن سپرد خاک ہو جائیں گے۔ پتا نہیں کب زندگی کا بلبلا پھٹ جائے اور تہہ خاک ہوجائیں ، ہم خلق (پشتو میں لوگ) ساری زندگی اس تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو خوبصورت بنائیں کاش ہم پر بھی کوئی نگاہ کرم ڈالے کہ ہم زندہ لاشوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ شاید اس سے ہماری زندگیوں میں بھی روشنی کی کرن آئے اور ہمیں زندگی کا احساس ہو۔
------------------------------------------
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
...........................................................................................
شیرزمان گورکن)
Saira nasir
نام: سائرہ ناصر
کلاس: بی ایس پارٹ ۳
رول نمبر: 2k14/MC/84
کیٹگری: پروفائل
زندگی کی چکا چوند اور افراتفری میں مگن انسان کس طرح اپنی زندگی کی اصل حقیقت سے منہ پھیر لیتا ہے اور یہ بھول جاتا ہے کہ یہ دنیا اس کا عارضی ٹھکانہ ہے ۔ موت ایک ایسا معمہ ہے جسے نہ کوئی آج تک سمجھ سکا ہے نہ سمجھا سکا ہے ۔ روزانہ ناجانے کتنی جانیں اس دنیا سے رخصت ہو جاتی ہیں ۔ ان کو آخری آرامگاہ تک پہنچانے والے شیرزمان(گورکن) سے سننے کو ملا کہ شہرِخاموشاں میں دن رات کیسے گزرتے ہیں اوروہ اپنی زندگی عام لوگوں سے ہٹ کر کیسے بسر کرتے ہیں ۔
لوگ دنیا سے رخصت ہو کر قبرستان آتے ہیں مگر ۵۸ سالہ شیرزمان کا بچپن ہی یہیں گزرا ہے جو کافی حیرت کی بات ہے۔ شیرزمان کو پیار سے گردونواح کے لوگ شیرو بلاتے ہیں۔ شیرو کے والد صاحب کا نام خان بہادر تھا اور وہ بھی مقامی قبرستان میں بحیثیت گورکن کام کرتے تھے اور پودوں کو پانی لگاتے تھے۔ بقول شیرو کے : میں نے اپنی آنکھ یہیں کھولی بچپن سے یہیں قبرستان میں والد صاحب کے ساتھ رہا ہوں اور انکی وفات کے بعدوراثت میں یہ پیشہ مجھے منہ دکھائی میں ملا۔خاصا پڑھا لکھا نہیں ہوں میں پر اس دور کے چالا ک اور مطلبی خلق(پشتو میں لوگوں) کو پرکھنے کا سبق پڑھ چکا ہوں اس لئے خود کو پڑھا لکھا کہتا ہوں۔
شیرو کئی سالوں سے یہیں قبرستان کے پاس دو کمروں کے گھر میں انتہائی سادگی سے زندگی گزر بسر کر رہے ہیں۔ گھر کا جائزہ لیا جائے تو وہ خانہ بدوشوں کا منظر پیش کرتا ہے ۔ گھر میں کوئی آسائشات موجود نہیں ہیں۔ٹھاٹ باٹ رہن سہن سے تو کیا حلیے سے بھی دکھائی نہیں دیتے۔ دو پٹی کی انتہائی ادنی سی قیمت والی ہوائی چپل جو موچی کی منتظر تھی پہنے ہوئے جن میں سے میل جمی ایڑھیاں اپنی کہانی بیان کر رہی تھیں، حقیر سی شلوار قمیض زیب تن کئے ہوئے جس کی کالر میں نہ شان تھی نہ ہی کپڑے میں اکڑ ۔ پیلے دانت، بڑھی ہوئی داڑھی انکی حالت زار کی عکاسی کر رہی تھی۔
جہاں عالی شان محلات اور بڑے بڑے ٹاورز زندگی کا واحد مقصد ہوں، زندگی کی چکا چوند اور اسکی رعنائیوں کو جوانسان غفلت کی چادر اوڑھے حقیقت سمجھنے لگیں انکی قبرستانوں اور گورکنوں کے مسائل کی طرف نظر کہاں جاتی ہے۔
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
سیاسی جاہ و جلال عظیم الشان محلات، شاہی دسترخوان لیکن مرنے کے بعد قبر پر مکمل سکوت، ویرانی اور خاموشی ۔اپنے پیاروں کی قبروں کی دیکھ بھال کا واحد آسرا صرف گورکن لیکن ، بقول شیرو کے زندگی کا بھی عجیب ہی فنڈا ہے۔ ہمیں ساری زندگی معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ محلے میں اگر پڑوسیوں کے گھر شادی ہو تو ہمیں بلانا تک مناسب نہیں سمجھا جاتا البتہ اگر میت ہو جائے تو ہر سمت ہمیں ڈھونڈا جاتا ہے۔ پل پل ساتھ گزارنے والے لواحقین اپنے پیاروں کو ہمارے رحم و کرم پر چھوڑ جاتے ہیں۔ خود غرضی کا عالم تو اتنا عروج پر ہے کہ دو گھڑی اپنے پیاروں کی قبر پر پانی تک ڈالنے کے لئے آنے کی زحمت نہیں کرتے۔
قبروں کو کھودنااور مردوں کو دفنانا شیرو کا روز کا معمول ہے۔ جب پوچھا گیا کہ اس سے موت کا خوف بڑھ گیا یا کم ہو گیا؟ تو بتایا کہ موت کا خوف بہت بڑھ گیا ہے۔ مردوں کے کبھی کبھی خالی ڈھانچے دیکھ کر دل دہل جاتا ہے پر اب عادی ہوگیا ہوں اور دل پختہ ہو گیا ہے۔
صحیح ہے یا غلط پر مشہور ہے کہ مردے رات کے وقت آپس میں ملتے جلتے ہیں باتیں کرتے ہیں کیا آپ نے کبھی دیکھا؟ ہاہاہا!! زوردار قہقہ لگا کر شیرو نے بتایا کہ ہم خود رات کو نشے کی لپیٹ میں ہوتے ہیں زندہ انسان بھی روحیں لگنے لگتی ہیں۔
رات کو لوگوں کو قبرستان جانے سے ڈر لگتا ہے، کہا جاتا ہے کہ جن چڑیل ہوتی ہیں لیکن شیرو کو کبھی ڈر نہیں لگا سوائے ایک دفعہ کے، جس نے زندگی پر گہرا اثر ڈالا ۔ شیرو بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ قبرستان میں اپنے خیالات میں گم بیٹھا سگریٹ سلگا رہا تھا کہ اچانک مجھے کسی چیز نے جھنجھوڑا اور میں انتہائی خوف ذدہ ہو گیا۔ ناجانے وہ ناگہانی آفت تھی یا غیبی چیز تھی جو اچانک مجھ پر حاوی ہوئی تھی لیکن اس دن جان بال بال بچی تھی۔
شیر زمان نمکین میں بریانی بہت شوق سے کھاتے ہیں اور میٹھے میں پان۔ موسیقی سننے کا بھی شوق ہے اور پسندیدہ گلوکارعطاء اللہ اور رمحمد رفیع ہیں جبکہ پسندیدہ اداکارہ شمیم آرا ہیں۔انتہائی ٹھنڈے مزاج کے مالک ہیں کبھی گر م جوشی سے کام نہیں لیتے ۔ ان کے ساتھی گورکن مشائم کا کہنا ہے کہ : بعض اوقات کفن دفن کے وقت لواحقین تلخ زبان کا استعمال کر جاتے ہیں مگر شیرو موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کبھی جواب نہیں دیتا بلکہ صبر کا مظاہرہ کرتا ہے ۔
قبرستانوں کو برائیو ں کی آماجگاہ کہا جاتا ہے۔ ہر برائی یہاں کی تاریکی میں پل رہی ہوتی ہے۔ جب شیرو سے انکی مصروفیات کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا کہ لوگوں کی رنگینیوں سے دور رات کی تنہائی میں دل کا سکون شراب پی کر حاصل کرتا ہوں۔ جانتا ہوں کہ غلط ہے مگر سینے میں بھڑکتی آگ کوسگریٹ کے دھوئیں میں اڑا کر بہت سکون ملتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ زبیدہ آپا کی طرح مجھے بھی ٹوٹکا آفر کر ڈالا۔
شیرو کے ایک گراہک جو ہر ماہ اپنے والد کی قبرکی دیکھ بھال کے لئے پیسے دیتا ہے اس کا کہنا تھا کہ : شیرو میں کئی برائیاں سہی مگراپنے پیشے سے مخلصیت اور احساس زمہ داری ہے جو ایک حلال کمانے والے کی نشانی ہے ۔
شیرو کا پیغام ہے کہ ہم سب مشت خاکی سے بنے ہیں او ر ایک دن سپرد خاک ہو جائیں گے۔ پتا نہیں کب زندگی کا بلبلا پھٹ جائے اور تہہ خاک ہوجائیں ، ہم خلق (پشتو میں لوگ) ساری زندگی اس تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو خوبصورت بنائیں کاش ہم پر بھی کوئی نگاہ کرم ڈالے کہ ہم زندہ لاشوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ شاید اس سے ہماری زندگیوں میں بھی روشنی کی کرن آئے اور ہمیں زندگی کا احساس ہو۔
------------------------------------------
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
...........................................................................................
شیرزمان گورکن
نام: سائرہ ناصر
کلاس: بی ایس پارٹ ۳
رول نمبر: 2k14/MC/84
کیٹگری: پروفائل
make this para bit interesting.
دنیا نے ترقی تو بہت کر لی مگرموت ایک ایسا معمہ ہے جسے نہ کوئی آج تک سمجھ سکا ہے نہ سمجھا سکا ہے ۔ موت کا راز جاننے میں تو شاید کئی صدیاں لگ جائیں لیکن جستِ خاکی کو آخری آرامگاہ تک پہنچانے والے شیرزمان(گورکن) سے سننے کو ملا کہ شہرِخاموشاں میں دن رات کیسے گزرتے ہیں اوروہ اپنی زندگی عام لوگوں سے ہٹ کر کیسے بسر کرتے ہیں ۔
لوگ دنیا سے رخصت ہو کر قبرستان آتے ہیں مگر ۸۵ سالہ شیرزمان کا بچپن ہی یہیں گزرا ہے جو کافی حیرت کی بات ہے۔ شیرزمان کو پیار سے گردونواح کے لوگ شیرو بلاتے ہیں۔ شیرو کے والد صاحب کا نام خان بہادر تھا اور وہ بھی مقامی قبرستان میں بحیثیت گورکن کام کرتے تھے اور پودوں کو پانی لگاتے تھے۔ بقول شیرو کے : میں نے اپنی آنکھ یہیں کھولی بچپن سے یہیں قبرستان میں والد صاحب کے ساتھ رہا ہوں اور انکی وفات کے بعدوراثت میں یہ پیشہ مجھے منہ دکھائی میں ملا۔خاصا پڑھا لکھا نہیں ہوں میں پر اس دور کے چالا ک اور مطلبی خلق(پشتو میں لوگوں) کو پرکھنے کا سبق پڑھ چکا ہوں اس لئے خود کو پڑھا لکھا کہتا ہوں۔
شیرو کئی سالوں سے یہیں قبرستان کے پاس دو کمروں کے گھر میں انتہائی سادگی سے زندگی گزر بسر کر رہے ہیں۔ گھر کا جائزہ لیا جائے تو وہ خانہ بدوشوں کا منظر پیش کرتا ہے ۔ گھر میں کوئی آسائشات موجود نہیں ہیں۔ٹھاٹ باٹ رہن سہن سے تو کیا حلیے سے بھی دکھائی نہیں دیتے۔ دو پٹی کی انتہائی ادنی سی قیمت والی ہوائی چپل جو موچی کی منتظر تھی پہنے ہوئے جن میں سے میل جمی ایڑھیاں اپنی کہانی بیان کر رہی تھیں، حقیر سی شلوار قمیض زیب تن کئے ہوئے جس کی کالر میں نہ شان تھی نہ ہی کپڑے میں اکڑ ۔ پیلے دانت، بڑھی ہوئی داڑھی انکی حالت زار کی عکاسی کر رہی تھی۔
جہاں عالی شان محلات اور بڑے بڑے ٹاورز زندگی کا واحد مقصد ہوں، زندگی کی چکا چوند اور اسکی رعنائیوں کو جوانسان غفلت کی چادر اوڑھے حقیقت سمجھنے لگیں انکی قبرستانوں اور گورکنوں کے مسائل کی طرف نظر کہاں جاتی ہے۔
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا
سیاسی جاہ و جلال عظیم الشان محلات، شاہی دسترخوان لیکن مرنے کے بعد قبر پر مکمل سکوت، ویرانی اور خاموشی ۔اپنے پیاروں کی قبروں کی دیکھ بھال کا واحد آسرا صرف گورکن لیکن ، بقول شیرو کے زندگی کا بھی عجیب ہی فنڈا ہے۔ ہمیں ساری زندگی معاشرے میں عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔ محلے میں اگر پڑوسیوں کے گھر شادی ہو تو ہمیں بلانا تک مناسب نہیں سمجھا جاتا البتہ اگر میت ہو جائے تو ہر سمت ہمیں ڈھونڈا جاتا ہے۔ پل پل ساتھ گزارنے والے لواحقین اپنے پیاروں کو ہمارے رحم و کرم پر چھوڑ جاتے ہیں۔ خود غرضی کا عالم تو اتنا عروج پر ہے کہ دو گھڑی اپنے پیاروں کی قبر پر پانی تک ڈالنے کے لئے آنے کی زحمت نہیں کرتے۔
قبروں کو کھودنااور مردوں کو دفنانا شیرو کا روز کا معمول ہے۔ جب پوچھا گیا کہ اس سے موت کا خوف بڑھ گیا یا کم ہو گیا؟ تو بتایا کہ موت کا خوف بہت بڑھ گیا ہے۔ مردوں کے کبھی کبھی خالی ڈھانچے دیکھ کر دل دہل جاتا ہے پر اب عادی ہوگیا ہوں اور دل پختہ ہو گیا ہے۔
صحیح ہے یا غلط پر مشہور ہے کہ مردے رات کے وقت آپس میں ملتے جلتے ہیں باتیں کرتے ہیں کیا آپ نے کبھی دیکھا؟ ہاہاہا!! زوردار قہقہ لگا کر شیرو نے بتایا کہ ہم خود رات کو نشے کی لپیٹ میں ہوتے ہیں زندہ انسان بھی روحیں لگنے لگتی ہیں۔
رات کو لوگوں کو قبرستان جانے سے ڈر لگتا ہے، کہا جاتا ہے کہ جن چڑیل ہوتی ہیں لیکن شیرو کو کبھی ڈر نہیں لگا سوائے ایک دفعہ کے، جس نے زندگی پر گہرا اثر ڈالا ۔ شیرو بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ قبرستان میں اپنے خیالات میں گم بیٹھا سگریٹ سلگا رہا تھا کہ اچانک مجھے کسی چیز نے جھنجھوڑا اور میں انتہائی خوف ذدہ ہو گیا۔ ناجانے وہ ناگہانی آفت تھی یا غیبی چیز تھی جو اچانک مجھ پر حاوی ہوئی تھی لیکن اس دن جان بال بال بچی تھی۔
شیر زمان نمکین میں بریانی بہت شوق سے کھاتے ہیں اور میٹھے میں پان۔ موسیقی سننے کا بھی شوق ہے اور پسندیدہ گلوکارعطاءاللہ اور رمحمد رفیع ہیں جبکہ پسندیدہ اداکارہ شمیم آرا ہیں۔انتہائی ٹھنڈے مزاج کے مالک ہیں کبھی گر م جوشی سے کام نہیں لیتے ۔ ان کے ساتھی گورکن مشائم کا کہنا ہے کہ : بعض اوقات کفن دفن کے وقت لواحقین تلخ زبان کا استعمال کر جاتے ہیں مگر شیرو موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے کبھی جواب نہیں دیتا بلکہ صبر کا مظاہرہ کرتا ہے ©۔
قبرستانوں کو برائیو ں کی آماجگاہ کہا جاتا ہے۔ ہر برائی یہاں کی تاریکی میں پل رہی ہوتی ہے۔ جب شیرو سے انکی مصروفیات کے بارے میں پوچھا گیا تو بتایا کہ لوگوں کی رنگینیوں سے دور رات کی تنہائی میں دل کا سکون شراب پی کر حاصل کرتا ہوں۔ جانتا ہوں کہ غلط ہے مگر سینے میں بھڑکتی آگ کوسگریٹ کے دھوئیں میں اڑا کر بہت سکون ملتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ زبیدہ آپا کی طرح مجھے بھی ٹوٹکا آفر کر ڈالا۔
شیرو کے ایک گراہک جو ہر ماہ اپنے والد کی قبرکی دیکھ بھال کے لئے پیسے دیتا ہے اس کا کہنا تھا کہ : شیرو میں کئی برائیاں سہی مگراپنے پیشے سے مخلصیت اور احساس زمہ داری ہے جو ایک حلال کمانے والے کی نشانی ہے ۔
شیرو کا پیغام ہے کہ ہم سب مشت خاکی سے بنے ہیں او ر ایک دن سپرد خاک ہو جائیں گے۔ پتا نہیں کب زندگی کا بلبلا پھٹ جائے اور تہہ خاک ہوجائیں ، ہم خلق (پشتو میں لوگ) ساری زندگی اس تگ و دو میں لگے رہتے ہیں کہ زندگی کو خوبصورت بنائیں کاش ہم پر بھی کوئی نگاہ کرم ڈالے کہ ہم زندہ لاشوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔ شاید اس سے ہماری زندگیوں میں بھی روشنی کی کرن آئے اور ہمیں زندگی کا احساس ہو۔
No comments:
Post a Comment