Thursday 25 August 2016

ریڈیو پاکستان سمعئیہ کنول,فيچر,

plz discuss

سمعئیہ کنول
رول نمبر 95
اردو فیچر

ریڈیو پاکستان
موسیقی روح کی غذا ہے، یہ جملہ با اثر ہونے کے ساتھ ہر خاص و عام میں اہمیت کا حامل ہے۔موسیقی تمام افراد کی زندگیوں کا ایسا اہم حصہ ہے جو ان کی زندگی میں ہونے والے اتُار چڑھاؤ کی عکاسی کرتا ہے۔دنیائے موسیقی میں پاکستان اپنی مثال آپ بنائے ہوئے ہے۔کوئی غزل ہو یا قوالی ،گیت ہو یا صوفیانہ کلام، کلاسیکل ہو یا سیمی کلاسیکل پاکستان کے گلوکار اپنی صلاحیتوں سے بین لاقوامی سطح پرپزیرائی حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔


14اگست 1947کو ریڈیو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی ریڈیو پاکستان نے موسیقی کو اہم مقام دیا، اس کی اہمیت کی وجہ لوگوں کی پسندیدگی اورموسیقی سے لگاؤکو کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے دنیائے موسیقی میں ایسے ناموں کو متعارف کروایا جن کا کوئی مد مقابل نہیں ۔ ان ناموں میں کلاسیکل میں استاد فتح علی خان، صوفیانہ کلام میں عابدہ پروین اور غزل گائیکی میں شفیع وارثی کا نام کسی تعرف کا محتاج نہیں۔ان تمام بڑے ناموں کے بعد سلسلہ ختم نہیں ہوا، بلکہ ان ہی لوگوں کے احباب اور شاگردوں نے بھی ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے اپنا نام اور الگ مقام حاصل کیا ۔ گلوکاری ہو یاموسیقی کے آلے بجانے کا ہنرہو ریڈیو پاکستان حیدرآبادنے ہمیشہ سچے اور نئے ٹیلنٹ کومتعارف کروایا ہے۔ ایسے میں محمد جمن ، استاد سلطان لودھی، ذولفقار قریشی، استاد نظیر خان ، بلاول بیلجیم بینجو اور مبارک خان صاحب اور ان جیسے مزید نامی گرامی لوگ ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا حصہ رہے ہیں اور ابھی بھی ہیں ۔یہ کہنا کسی طور غلط نہیں ہوگا

 کہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد ایک ثقافتی ادارے کے طور اپنا کام سر انجام دے رہا ہے۔
ریڈیو پاکستان حیدرآباد کو یہ رتبہ حاصل ہے کہ بیسویں صدی ہو یا اکیسویں صدی ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے ہر دور میں نئے ٹیلنٹ کوتلاش کیا، پروموٹ بھی کیا اور ایک معیاری پلیٹ فارم ہونے کا بھر پور حق ادا کیا ۔موسیقی کی مختلف اقسام کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں تفریق کئے بغیر موسیقی کو نشر کیا۔ ان زبانوں میں سندھی ، اردو، تھری، بلوچی اور سرائیکی زبان میں موسیقی سر فہرست ہیں۔ آج کے اس جدید دور میں مختلف پلیٹ فارم ہونے کے باوجود ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اگر دیکھا جائے تو بیسویں صدی میں ریڈیو پاکستان اورPTVکے علاوہ موسیقی یا کسی بھی طرح کے ٹیلنٹ کو متعارف کروانے کا کوئی زریعہ موجود نہ تھا تو لوگ زیادہ تر ریڈیو پاکستان کو ترجیح دیا کرتے تھے، مگر آج کے دور میں مختلف پلیٹ فارمز ہونے کے علاوہ بہت سے TVچینلزبھی موجود ہیں مگر پھر بھی ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے حمیرا چنا، مائی ڈھائی اور صنم ماروی جیسے آج کل مشہور ہوتے ناموں کو متعارف کروایا جو آج اپنی آواز کا جادو مختلف چینلز اورپروگرامز میں بکھیرتی نظر آرہی ہیں۔


غزل گائیکی ہو یا کلاسیکل یا پھر سیمی کلاسیکل ، گیت لکھنا ہو یا گیت گانا ہو ریڈیو پاکستان حیدرآبادکے متعارف کروائے جانے والے ٹیلنٹ کا کوئی ثانی نہیں ۔ چند ماہ پہلے ہی ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے ریڈیو پاکستان پر ہونے والے موسیقی کے مقابلے آواز پاکستان میں نئے موسیقاروں کوآگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا، جس میں حیدرآباد لیول پر جیتنے والی گلوکارہ کو اسلام آباد سیمی فائینل کے لئے بھیجا گیا۔ اسی طرح ریڈیو پاکستان حیدرآباد نئے لوگوں کے لکھے ہوئے گیت بھی متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔


ریڈیو پاکستان حیدرآباد ہر دور میں ہر دل عزیز اورحیدرآباد کے لوگوں کی اول ترجیح رہا ہے، اور اگر آگے بھی ایسے ہی کام کرتا رہا توپاکستان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر مزید نئے نام اور نئے باب رقم کرتا چلا جائے گا۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh

No comments:

Post a Comment