Monday 22 August 2016

مصباح۔ار۔رودا,آرٹیکل


مصباح۔ار۔رودا
2k14/MC/52
آرٹیکل :مویشی منڈیاں
حیدرآباد کی مویشی منڈیاں
مویشی منڈیاں سال میں ایک دفعہ عیدلاضعی کے موقع پر لگائی جاتی ہیں جہاں ملک بھر سے ہر نسل کے مختلف جانور لائے جاتے ہیں اور ان کی خریدوفروخت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ویسے تو جمعرات کے دن ہر شہر میں مختلف بکرا منڈیاں لگائی جاتی ہیں لیکن وہ بکرا منڈی مویشی منڈی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔لوگ سستے بکرے خرید کر پورے سال اسے پالتے ہیں اور عیدلاضعی کے موقع پر مویشی منڈیوں میں بھاری قیمت میں فروخت کر دیتے ہیں۔
سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لئے ملک بھر کی مویشی منڈیوں میں گہما گہمی بڑھتی جا رہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ خریدار اور بیوپاری دونوں ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نالاں نظرآرہے ہیں،تاہم سال بہ سال جانوروں کی قیمتوں میں اضافے نے قربانی کے فریضے میں تو کمی نہیں کی تاہم مہنگائی کے باعث اجتماعی قربانی کی روایت میں اضافہ ضرور کردیاہے ۔ چونکہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتااس لئے کہیں کوئی خریدار بکروں کے دانت پرکھتا دکھائی دے رہا ہے تو کہیں کسی کی تمام تر توجہ اس کے وزن اور خوبصورتی پر ہے،خریدار تگڑے جانور دیکھ کر خوشی کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن جب ان کی قیمتیں سنتے ہیں تو ساری خوشی کافور ہوجاتی ہیں۔ مگر بیوپاریوں کو بھرپور توقع ہے جیسے جیسے عید قریب آئے گی خریداروں کی تعداد میں اور اضافہ ہوگااور ساتھ ہی وہ یہ دلاسہ بھی دیتے ہیں آخری چند روز میں قیمتوں میں کمی آسکتی ہے۔ساڑھے چھ سو ایکڑ سے زائد رقبے میں قائم کی گئی ایشیاء کی سب سے بڑی عارضی مویشی منڈی یعنی حیدرآباد میں ڈیڑھ لاکھ گائے اور چالیس ہزار بکرے لائے جا چکے ہیں مگر ہوشربا قیمتوں کے باعث اکثرلوگ انہیں دیکھ کر ہی گزارہ کر رہے ہیں۔منڈی میں زیریں پنجاب اور بالائی سندھ کے اضلاع سے خوبصورت اور صحت مند مویشی فروخت کے لئے لائے گئے ہیں۔حیدرآباد میں دومویشی منڈیاں بہت مشہور ہیں ایک جو بائے پاس پر بدھ کے روز لگتی ہے اور دوسری جو لطیف آباد نمبر ۷ میں لگائی جاتی ہے۔
بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ مہنگے چارے اور مہنگے کرایوں کے باوجود سستا بیچنا ممکن ہی نہیں اور اگرنہیں بکا تو مال واپس لے جانے کو ترجیع دیں گے ،دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگے جانوروں کے باعث اس سال سنت ابراہیمی کی پیروی مشکل ہورہی ہے ۔ مگر یہ بات ضرور ہے کہ بائے پاس پر موجود یہ مویشی منڈی رات بھر میلے کا منظر پیش کرتی ہے کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد وہاں کا رخ کرتی ہے ۔ صرف مرد نہیں خواتین اور بچے بھی وہاں لگتا ہے کہ پکنک منانے کے لئے آتے ہوں اور ننھے فرشتے اپنے والدین سے اپنی پسند کے جانوروں کی فرمائش کرتے نظرآتے ہیں۔ بات بائے پاس تک ہی محدود نہیں ہے حیدرآباد کی شاید ہی کوئی ایسی جگہ گلی یا محلہ ہوگا جہاں فروخت کے لئے گائیں249 بکریاں موجود نہ ہوں۔شاہراہوں اور سڑکوں پر فروخت کا کام انتظامیہ کی ناک کے نیچے سے ان کی مرضی سے ہو رہا ہے۔
کوئی ایک بکرے کی رسی تھامے گاہک کا منتظر ہے تو کسی نے تین249 چار بکرے فروخت کرنے ہیں۔خواتین بھی فروخت میں پیش پیش ہیں249 کسی نے سڑک کنارے باقاعدہ باڑہ قائم کردیا ہے جہاں اعلی قسم کے جانور برائے فروخت ہیں۔

خریداروں کا کہنا ہے کہ مرکزی منڈی اور سڑک کنارے منڈیوں میں قیمتیں ایک جیسی ہیں مگر وقت اور کرایہ مدنظر رکھیں تو گھر کے قریب منڈیوں سے سودا برا نہیں تاہم حیدرآباد کی بائے پاس منڈی نے عوام کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ یہاں جانوروں کی خریداری کے لئے آئے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں شہر کی دیگر منڈیوں کے مقابلے میں قربانی کے جانور سستے ہیں۔ حیدرآباد کی بائے پاس منڈی میں سیکیورٹی کیمناسب انتظامات بھی عوام کی توجہ اور اطمینان کا باعث ہیں۔عید قربان کی مناسبت سے قصائیوں کی بھی چاندی ہوگئی ہے نہ صرف منہ بولی رقم حاصل کر رہے ہیں بلکہ ان کے نکھرے بھی آسمانوں پرہیں۔سرکاری مویشی منڈیوں میں صوبے بھر سے جانور لائے جا رہے ہیں جو عوام کو کم قیمت میں فروخت کئے جا رہے ہیں۔
مویشی منڈیوں میں جانوروں کی ادائیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں خریدار کو لبھانے کے
لئے بیوپاریوں کے پاس اپنے اپنے جانوروں کی مختلف اور دلچسپ کہانیاں موجود ہیں۔ہر شہر کی مویشی منڈی میں کوئی نہ کوئی جانور اپنے نام اور شرارتوں سے مشہور ہے خاص طور پرموڈا بکرا نامی بکرا جو بڑے بڑے بیلوں سے نہیں ہچکچاتا اور شیر کی طرح چلتا ہے۔
اگر مہنگائی کا یہی حال رہا اور قیمتیں یوں ہی آسمان سے باتیں کرتیں رہیں تو ایک عام شہری اس فریضے کو ادا کرنے سے قاصر ہوجائے گا۔آج کل لوگ قربانی کے اصل مقصد کو بھول گئے ہیں اورمویشی منڈیوں کو پیسہ کمانے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے جو کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔یہ ایک اہم فریضہ ہے جسے ہر مسلمان خوشی سے ادا کرنا چاہتا ہے۔حکومت کو اس عمل کے لئے سخت قانون بنانا ہوگا تا کہ کوئی اس تہوار کا فائدہ اٹھا کر عوام کو بے جا پریشان نہ کرسکے اور عوام کو بھی احتیاط سے خریدوفروخت کرنے کی ضرورت ہے۔

No comments:

Post a Comment