Saira Nasir
رکشہ ٹرانسپورٹ کے مسائل
نام : سائرہ ناصر
رول نمبر : BS III 2K14/MC/84
کٹیگری : آرٹیکل
اکثر ہم اپنے اردگرد بہت سی ایسی چیزوں کو دیکھتے ہیں جو وiسے تو لا یعنی دکھائی دیتی ہیں ۔ لیکن اپنے اندر بہت سے حقیقتیں پہناں کیے ہوتی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ کی ذات بہت نوازتی ہے دولت، شہرت اور عزت عطا کرتی ہے ۔ ذاتی املاک آنے جانے اور سفر کرنے کیلیے زاتی سواریاں بھی ان کے پاس ہوتی ہیں ایسے لوگوں کو صاحب ثروت یا صاحب حیثیت لوگ کہا جاتا ہے ۔ اس کے بعد اک اور طبقہ جو پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر ذرائع ستعمال کرتا ہے ۔ اس کی وجہ طاہر ہے ذاتی سواری کا نا ہونا ہے س لیے لوگ یہ ذرائع استعمال کرتے ہیں ۔ ملک کی بیشتر آبادی متوسط طبقے پر مشتمل ہے ۔ اسلیے ٹرانسپورٹ کا استعمال ذیادہ ہے ۔س ٹرانسپورٹ میں مختلف سواریاں جن میں بسیں، تنگے اور رکشہ ۔ رکشہ کا کردار بھی ہمارے معاشرے میں بہت اہم نظر آتاہے چونکہ یہ ایک نجی سوری ہے ۔ جس کو لوگ اپنی مرضی کی جگہوں پر لے جانے کیلیے استعمال کرتے ہیں رکشہ تقریباً ہر جگہ ہی دستیاب ہوتا ہے ۔ایسے لوگ جن کو کہیں جلدی پہنچنا ہوتا ہے ۔ اور ان کے پاس ذاتی سواری نہ ہو تو وہ اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔
ہر گلی ، کوچے ، راستے پر باآسانی سے ملنے والی سواری رکشہ ، جو کہ آسانی سے چار سے پانچ افراد کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلیے باکفایت ہے ۔ ابتدائی زمانے میں رکشہ مشینی قوت سے نہیں بلکہ انسانی قوت سے چلنے والی سائیکل تھی جو کہ مغربی ممالک سے پزیرائی حاصل کرتے ہوئے مشرق میں آئی ۔ اور پاکستانی گورنمنٹ نے اسے قانونی اجازت 1960 میں دی ۔ مگر انسانی قوت سے چلنے والے اس رکشے میں ڈرائیور کے لیے پریشانی تھی بوڑھے ، کمزورڈرائیور کے لیے اس سواری کو کھینچنا مشکل ہوتا تھا ۔ اور پھر ہوا یوں کہ جلد ہی مشینی رکشے ہر جگہ غالب آگئے ۔ پاکستان میں چلنے والے رکشے جاپانی کمپنی ڈائی ہاٹسومیڈگیٹ کے تھے ۔ پھر بعد میں پاکستان میں بھی رکشے بننے لگے اور شہر لاہور سب سے بڑا پروڈیوسر بنا ۔
رکشہ جہاں ایک مفید سواری ہے وہیں اس کے چند مسائل بھی ہی وہ یہ ہیں کہ اپنی بلند اور کرخت آواز کے سبب ناپسند کیا جاتا ہے اور ماہرین ماحولیات کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کا باعث بھی بنتا ہے ۔کیونکہ اس سے نکلنے والا دھواں بہت خطرناک ہے ۔ پھر 2015 میں پاکستان میں سی -این -جی CNG یعنی گیس سے چلنے والے رکشے متعارف کروائے گئے ۔جو نا صرف ماحول کیلیے اچھے تھے بلکہ جگہ کی مناسبت سے بھی اچھے تھے ۔ سائز میں بڑے تھے اور کم خرچ بھی کیونکہ گیس سستی ہے ۔ حیرت اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ جس جگہ اس کے جانے سے لوگوں کو تکلیف ہو سکتی ہے وہیں اس کی موجودگی سب سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ جگہ ہے ہسپتال ۔ ہسپتالوں کے باہر ان کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے ۔
نام : سائرہ ناصر
رول نمبر : BS III 2K14/MC/84
کٹیگری : آرٹیکل
اکثر ہم اپنے اردگرد بہت سی ایسی چیزوں کو دیکھتے ہیں جو وiسے تو لا یعنی دکھائی دیتی ہیں ۔ لیکن اپنے اندر بہت سے حقیقتیں پہناں کیے ہوتی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ کی ذات بہت نوازتی ہے دولت، شہرت اور عزت عطا کرتی ہے ۔ ذاتی املاک آنے جانے اور سفر کرنے کیلیے زاتی سواریاں بھی ان کے پاس ہوتی ہیں ایسے لوگوں کو صاحب ثروت یا صاحب حیثیت لوگ کہا جاتا ہے ۔ اس کے بعد اک اور طبقہ جو پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر ذرائع ستعمال کرتا ہے ۔ اس کی وجہ طاہر ہے ذاتی سواری کا نا ہونا ہے س لیے لوگ یہ ذرائع استعمال کرتے ہیں ۔ ملک کی بیشتر آبادی متوسط طبقے پر مشتمل ہے ۔ اسلیے ٹرانسپورٹ کا استعمال ذیادہ ہے ۔س ٹرانسپورٹ میں مختلف سواریاں جن میں بسیں، تنگے اور رکشہ ۔ رکشہ کا کردار بھی ہمارے معاشرے میں بہت اہم نظر آتاہے چونکہ یہ ایک نجی سوری ہے ۔ جس کو لوگ اپنی مرضی کی جگہوں پر لے جانے کیلیے استعمال کرتے ہیں رکشہ تقریباً ہر جگہ ہی دستیاب ہوتا ہے ۔ایسے لوگ جن کو کہیں جلدی پہنچنا ہوتا ہے ۔ اور ان کے پاس ذاتی سواری نہ ہو تو وہ اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔
ہر گلی ، کوچے ، راستے پر باآسانی سے ملنے والی سواری رکشہ ، جو کہ آسانی سے چار سے پانچ افراد کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلیے باکفایت ہے ۔ ابتدائی زمانے میں رکشہ مشینی قوت سے نہیں بلکہ انسانی قوت سے چلنے والی سائیکل تھی جو کہ مغربی ممالک سے پزیرائی حاصل کرتے ہوئے مشرق میں آئی ۔ اور پاکستانی گورنمنٹ نے اسے قانونی اجازت 1960 میں دی ۔ مگر انسانی قوت سے چلنے والے اس رکشے میں ڈرائیور کے لیے پریشانی تھی بوڑھے ، کمزورڈرائیور کے لیے اس سواری کو کھینچنا مشکل ہوتا تھا ۔ اور پھر ہوا یوں کہ جلد ہی مشینی رکشے ہر جگہ غالب آگئے ۔ پاکستان میں چلنے والے رکشے جاپانی کمپنی ڈائی ہاٹسومیڈگیٹ کے تھے ۔ پھر بعد میں پاکستان میں بھی رکشے بننے لگے اور شہر لاہور سب سے بڑا پروڈیوسر بنا ۔
رکشہ جہاں ایک مفید سواری ہے وہیں اس کے چند مسائل بھی ہی وہ یہ ہیں کہ اپنی بلند اور کرخت آواز کے سبب ناپسند کیا جاتا ہے اور ماہرین ماحولیات کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کا باعث بھی بنتا ہے ۔کیونکہ اس سے نکلنے والا دھواں بہت خطرناک ہے ۔ پھر 2015 میں پاکستان میں سی -این -جی CNG یعنی گیس سے چلنے والے رکشے متعارف کروائے گئے ۔جو نا صرف ماحول کیلیے اچھے تھے بلکہ جگہ کی مناسبت سے بھی اچھے تھے ۔ سائز میں بڑے تھے اور کم خرچ بھی کیونکہ گیس سستی ہے ۔ حیرت اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ جس جگہ اس کے جانے سے لوگوں کو تکلیف ہو سکتی ہے وہیں اس کی موجودگی سب سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ جگہ ہے ہسپتال ۔ ہسپتالوں کے باہر ان کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے ۔
ایسی سواری جس کا استعمال دن با دن ضرورت بنتی جا رہی ہو ۔ اسکی فراہمی میں آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں ۔ لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے ۔ یہاں سدھراؤ کی بجائے معاملات کو تشویشناک بنایا جاتا ہے ۔ غیراخلاقی زندگی جینا تو مانو یہاں کی بیشتر آبادی کا مشغلہ ہے ۔ اب بھتہ مافیا کی ہی بات کر لیجئے ۔ حلال کی کمائی پر ایک کالا دھبا ہے ۔ اب یہ کہنے میں بھی کیسا مضا ئقہ کہ جیسے حکمران ویسی ہی عوام ۔ جنگل راج زندہ باد ہے ۔ اندھیری نگری چوپٹ راج ہے ۔ ہر طاقتور اپنے سے نیچے والے کو دبا کے اپنا الّو سیدھا کرتا ہے ۔ ر کشہ ٹرانسپورٹ ہر ایک کی پہنچ کے مطابق قابل متحمل ہے ۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ بھی ہے کہہر جگہ باآسانی مل جاتا ہے ۔ رکشہ اسٹینڈز جگہ جگہ لوگوں کی آسانی کیلیے بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن وہاں بھی رکشہ لگانے کا بھتا دینا پڑتا ہے رکشہ ڈرائیورز کو ۔ خاص کر حیدرآباد میں ریشم گلی اور صدر کے علاقے میں ۔
حیدرآباد شہر میں ٹریفک حادثات کی وجہ ڈرائیوروں کی لاپرواہی اور تیز رفتاری ہے ۔ جانے کب ہونگے کم ، اس دنیا کے غم انسانی جان پاکستان میں جتنی بے مول ہے اس کو بیان کرنا گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔ ایسی لا تعداد مثالیں روز حیدرآباد کی سڑکوں پر دیکھنے کو ملتی ہیں جب رکشہ ڈرائیورز دیگر گاڑیوں کو اوور ٹیک کرنے کے ساتھ غلط یو ٹرن اور قانون کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں ۔ او ر نتیجہ میں قیمتی جانیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں ۔ اسکی اہم وجہ بنا لائسنس کے گاڑے چلانا ہے ۔ نو فٹنس کے رکشہ ہیں ۔ اگر رکشہْ ڈرائیور کو پکڑ بھی لیا جائے تو وہ پولیس والے کو چائے پانی کی بخشش دے کرفرار ہو جاتا ہے ۔ بغیر رجسٹرڈ رکشے بھی چل رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ پیٹ کی آگ بجھانے کیلیے ہر ایک اپنے قانون پرعمل درآمد کرتے ہوئے روزی کمانے پر مجبور ہے ۔ اب یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ رکشے جیسے سواری کی پرسان حالت پر توجہ دے اور اور بہتر پالیسیز متعارف کروائے جو ہر ایک کے حق میں بہتر ثابت
ہو ۔
Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh
No comments:
Post a Comment