Wednesday 17 August 2016

سرکاری ہسپتالوں سے زیادہ نجی کلینکوں میں رش



محمد بلال حسین صدیقی 

فیچر
بی ایس پارٹ iii
رول نمبر:57



سرکاری ہسپتالوں سے زیادہ نجی کلینکوں میں رش


کہنے کو تو شہر حیدرآباد میں سرکاری ہسپتال موجود ہیں مگر اس شہر حیدرآباد میں ایک نئی شکل ابھر کر سامنے آئی ہے لوگ جیسے نجی کلینک کے نام سے جانتے ہیں۔ یوں تو لوگ جہاں پہلے سرکاری ہسپتالوں علاج کر وا کر صحت یاب ہوتے تھے اب وہی ہر ایک ڈاکٹر کی ایک الگ نجی کلینک موجود ہے سرکاری ہسپتالوں کے ڈاکٹرز اب ہسپتالوں میں مریضوں کو وہ توجہ نہیں دیتے جن کے وہ حق دار ہوتے ہیں اور مریضوں کو اپنی کلینک پر آنے کی دعوت دیتے ہیں اور یوں مفت میں ہی ان کی کلینک کو شہرت بھی مل جاتی ہے۔


جہاں سرکاری ہسپتالوں میں پہلے خاصا رش دیکھائی دیتا تھااب وہی نجی کلینکوں میں دیکھائی دیتا ہے اکثر اوقات تو مریضوں کو بنا معائنہ کروائے واپس لوٹنا پڑتا ہے اس وقت شہر حیدرآباد کی کلینکوں کی تعداد لگ بھگ ہزارہے جو ایک اندازہ ہے اگر ان کی گنتی کی جائے چھوٹی بڑی کلینکوں کو ملا کر ہزار سے زائد ہی ہونگی حیدرآباد کی ڈاکٹرز لائن میں ہی تقریباً پچاس سے زائد سرکاری و نجی ڈاکٹرز کی نجی کلینک موجود ہیں 



ان کلینکوں میں ہر طرح کی مریضوں کے لئے سہولت موجود ہے دیکھاجائے تو ہرکلینک اپنے اندر ایک چھوٹا سا ہسپتال سموئے ہوئے ہے جیسا کہ اس ملک میں ہر ایک چیز کو کاروباری حیثیت حاصل ہے ویسے ہی ان کلینکوں کے ذریعے علاج کو بھی کاروبارکی شکل دے دی گئی ہے اب فوری و باقائدہ علاج ایک خاص طبقے کے لئے مختص ہو کر رہ گیا ہے حیدرآباد شہر میں کچھ کلینک تو ایسی بھی موجود ہیں۔ جہاں 30سے50روپے میں معائنہ کے ساتھ ساتھ ادویات تک مفت دی جاتی ہیں اب ان ڈاکٹرز نے MBBSکہاں سے کی یہ سمجھ سے بلاتر ہے ایسے ہی ایک ڈاکٹر سے بات کر نی چاہی تو ان کے مطابق وہ کسی ڈاکٹر کے ہاں کمپوڈر تھے اور پھر بعد میں کچھ چھوٹے ڈپلوماز کئے ۔


ان کلینکوں کے بر عکس کچھ میاناز اور کولیفائیڈ ڈاکٹرز کی کلینکیں بھی موجود ہیں جن کی فیس سے مریض کا مرض اور بڑھ جاتا ہے صرف مریض کی منہ دیکھائی کے 1000سے1500یا اس سے بھی زائد ہوتی ہیں اور ادویات باہر کسی میڈیکل اسٹور سے لینی پڑتی ہیں ان کلینکوں میں رش کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اگر چلے جاؤ تومعلوم یوں ہوتا ہے کہ یہاں مفت علاج ہوتا ہو اکثر و بیشتر لوگ کالز کر کہ اپنا نمبر پہلے کروا لیتے ہیں اور پہلے آنے والے افرادوں سے پہلے علاج یا معائنہ کروا کر نکل بھی جاتے ہیں۔ 


کچھ ڈاکٹرز تو ہفتے میں بس دو دن ہی اپنی کلینکوں میں موجود ہوتے ہیں ان ڈاکٹرز سے ملنے یا معائنہ کروانے کی ریس کی دوڑ دیکھنے کے قابل ہو تی ہے کبھی کبھی تو مریضوں کو ایک ایک مہینے طویل انتظار کرنا پڑتا ہے سمجھ نہیں آتا کہ مریض بیچارہ علاج کے لئے اتنا سبر کیسے کرے گااتنے طویل عرصے کے دوران مریض کا حال اور برا ہوجاتا ہے اور ڈاکٹرز کی فیس بھی ڈبل۔


حال تو اب کچھ یوں ہو چکا ہے کہ ایک ڈاکٹر دو گھنٹے کے دورانیہ میں سو سے دو سومریضوں کا معائنہ کر لیتے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر آرام سے ایک لاکھ روپیہ کما لیتے ہیں اکثر اوقات تو اس سے زیادہ بھی ہو جاتا ہے ۔ڈاکٹرز مریضوں کو ہسپتالوں میں وہ توجہ نہیں دیتے جو مریضوں کو کلینکوں میں ملتی ہے یہی وجہ ہے کہ اب کلینکوں مین روزانہ کی بنیاد پر رش دیکھنے کو ملتا ہے۔ 


کبھی کبھی تو انتظار اتنا طویل ہو تا ہے کہ مریض کا مرض تک بدل جاتا ہے جی ہاں! یہ بات بلکل درست ہے انتظار میں بیٹھے ایک مریض سے معلوم کیا تواس نے بتایا کہ میں یہاں ٹانگ کے مرض میں آیا تھا مگر اب کمر کے درد کی دوا لے کر جا رہا ہوں ان کلینکوں کی ڈور میں اب ہر ڈاکٹر حصہ لے رہا ہے اور ہر ایک ڈاکٹر یہ کلینک کھولنے میں لگا ہو ا ہے اور اکثر ڈاکٹرز تو ایک کے بجائے دن میں دو سے تین کلینک یا نجی ہسپتالوں میں وقت گزارتے ہیں ڈاکٹرز کے لئے سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ یہ کلینک کا پیشہ سر فہرست ہے۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh

No comments:

Post a Comment