مزنہ رئیس الدین
B.S III
رو ل نمبر: MC/156/2K15
کیٹگری : فیچر
پاکستان میں گدھوں کی کمی نہیں
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتاہے کی وقت کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدلتا جارہاہے اور ساتھ ہی اسکا ایمان بھی بدلتا جارہاہے۔ یا پھریوں کہا جاسکتا ہے ک اس میں کوئی شک نہیں ک انسان بھی حیوان بنتا جارہاہے۔
ترقی کے اس دور میں پاکستان میںآج بھی ٹرانسپورٹ میں گدھوں کا استعمال کیا جاتاہے۔ فیڈرل گورنمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 4.7 ملین گدھے اور گھوڑے پاکستان میں موجود ہیں جن کے ذریعے ذراعت، ریتی، بجری اور دیگر سامان کے لوڈنگ کے کام لیئے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سال 2014 کے مقابلے میں اس سال گدھوں کی آبادی میں اضافہ ہوتاجارہاہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کے انسان کو بھی گدھوں کا گوشت کھلا کر گدھا بنایا جارہا ہے۔
لوگ آج کل انسان کو حیوان کھلارہے ہیں، کبھی برڈفلو والی مرغیاں تو کبھی کھوتا بریانی، جس کی وجہ سے معاشرے میں حیوان والے گدھوں سے زیادہ انسانی گدھوں میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ کھوتا بریانی کا وجود سب سے پہلے پاکستان کے شہر لاہو ر میں وجود میں آیا اور آہستہ آہستہ یہ رواج کراچی سے لیکر حیدرآباد تک پھیل گیا۔
حیدرآباد میں لطیف آباد یونٹ ۱۱ میں اکرم اور منگل نامی مشہور بریانی کے ٹھیلوں پر کھوتابریانی فروخت کی گئی۔ حیدرآباد بلدیہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے پولیس کی مدد سے چھاپہ مارا تو پتہ چلا کہ مضر صحت گوشت (گدھے کاگوشت) برآمد ہوا۔
اس مضر صحت گوشت کھانے کے باعث لوگوں کے خون میں تبدیلی آجاتی ہے اور انھیں الرجی جیسی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ خون ٹیسٹ کے بعد پتہ چلتا ہے کل رات بیف نہیں کھوتا بریانی کھائی ہے۔
کبھی یہ بریانی تو کبھی وہ بریانی، جوجگہ جتنی ہو مشہور وہیں پڑتی ہے پولیس کی ریڈ۔
لوگوں نے ایمان تو جیسے بیچ کھایا ہے۔ جبہی گوشت فروختوں نے سوچ لیا ہے اور ان کاکہناہے کہ گدھے سے کمائی گئی کمائی حلال ہے تو پھر گوشت حرام کیوں؟
ؒ اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود بدلنے کی ہمت نہ کرے ۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا اور گدھو ں کی آبادی میں اضافہ ہوتاگیا تو وہ دن دور نہیں جب گدھا بریانی مصالحہ بھی وجود میں آجائے گا۔
رپورٹ کے مطابق بازار میں جن دوکانوں کم قیمت میں گوشت فروخت کیاگیا، وہاں مضر صحت گوشت فراہم کیا جارہاتھا۔بزرگوں کا قول ہے ۔ "ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور"
آج یہی کچھ بازاروں میں گوشت اور مشہور ٹھیلوں پر بریانی کے ساتھ کیا جارہاہے ۔ بتائی بیف بریانی جارہی ہے اور کھلائی کھوتا (گدھا) بریانی جارہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کچھ دن پہلے کراچی میں بھی گدھے کاگوشت گروخت کیا گیا، گدھے کو ذبح کرنے والے شخص کا موٗقف تھا کہ لوگوں کے پاس دال کھانے کے پیسے نہیں ہیں ہم گدھوں کا گوشت سستے داموں فروخت کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو گوشت کھانا نصیب ہو۔ گوشت فروخت نے بتایا ک وہ ایسے گدھوں کا گوشت فروخت کرتا ہے جو زخمی ، کمزور یاکسی کام کے نہ ہوں ۔
اور وہ کسی کو یہ کہہ کر گوشت فروخت نہیں کرتاکے یہ گائے کا ہے بلکہ جو لوگ ہم سے گوشت خریدتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کے یہ گوشت گدھے کا ہی ہے ۔اور گدھے کا گوشت فروخت کرنے پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں ہے، یہ کام چوری اور کسی کا گلا کاٹنے سے بہتر ہے اور مذہب اسلام اس کی اجازت بھی دیتا ہے۔
گدھے کے گوشت کھانے سے متعلق مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والے علماء سے رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کی اسلام میں گدھے کا گوشت مکمل طور پر حرام قرار دیا گیاہے، البتہ اگر کوئی انسان بھوک سے مر رہا ہو اور کھانے کیلئے کو ئی چیز میسر نہ ہو تو اس صورت میں گدھے کا گوشت کھایا جا سکتاہے۔
محکمکہ لائیو اسٹالک کی رپورٹ کے مطابق گدھے کے گوشت کو جانچنے کا آسان طریقہ ہے جس سے آپ اس گوشت کی خریداری میں احتیاط کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں عوام نے گدھوں کے گوشت کے فروخت کی کہانیاں سب نے سن رکھی ہیں لیکن عوام کو یہ معلوم نہیں کہ وہ گوشت بکرے کا خرید رہے ہیں یا مردار دجانور کاگوشت نوش کرنے جارہے ہیں ۔ بکرے اور گائے کے گوشت کے ریشے ذرا سخت ہوتے ہیں ، گوشت کا ایک بڑا ٹکرا پکڑیں، اس کو ہتھیلی پر بالکل سیدھا رکھیں اور اگر نہ گرے تو سمجھ لیں کہ حلال گوشت ہے لیکن اگر گر جائے تو کچھ گڑبڑ ہے کیونکہ گدھے کے گوشت کے ریشے بالکل نرم ہوتے ہیں ۔ گدھے کے
گوشت کا رنگ گہرا جامنی ہوتاہے، ہڈیاں بکرے سے مختلف اور گوشت میں ہلکی سی مٹھاس ہو تی ہے۔
B.S III
رو ل نمبر: MC/156/2K15
کیٹگری : فیچر
پاکستان میں گدھوں کی کمی نہیں
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتاہے کی وقت کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدلتا جارہاہے اور ساتھ ہی اسکا ایمان بھی بدلتا جارہاہے۔ یا پھریوں کہا جاسکتا ہے ک اس میں کوئی شک نہیں ک انسان بھی حیوان بنتا جارہاہے۔
ترقی کے اس دور میں پاکستان میںآج بھی ٹرانسپورٹ میں گدھوں کا استعمال کیا جاتاہے۔ فیڈرل گورنمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 4.7 ملین گدھے اور گھوڑے پاکستان میں موجود ہیں جن کے ذریعے ذراعت، ریتی، بجری اور دیگر سامان کے لوڈنگ کے کام لیئے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سال 2014 کے مقابلے میں اس سال گدھوں کی آبادی میں اضافہ ہوتاجارہاہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کے انسان کو بھی گدھوں کا گوشت کھلا کر گدھا بنایا جارہا ہے۔
لوگ آج کل انسان کو حیوان کھلارہے ہیں، کبھی برڈفلو والی مرغیاں تو کبھی کھوتا بریانی، جس کی وجہ سے معاشرے میں حیوان والے گدھوں سے زیادہ انسانی گدھوں میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ کھوتا بریانی کا وجود سب سے پہلے پاکستان کے شہر لاہو ر میں وجود میں آیا اور آہستہ آہستہ یہ رواج کراچی سے لیکر حیدرآباد تک پھیل گیا۔
حیدرآباد میں لطیف آباد یونٹ ۱۱ میں اکرم اور منگل نامی مشہور بریانی کے ٹھیلوں پر کھوتابریانی فروخت کی گئی۔ حیدرآباد بلدیہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے پولیس کی مدد سے چھاپہ مارا تو پتہ چلا کہ مضر صحت گوشت (گدھے کاگوشت) برآمد ہوا۔
اس مضر صحت گوشت کھانے کے باعث لوگوں کے خون میں تبدیلی آجاتی ہے اور انھیں الرجی جیسی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ خون ٹیسٹ کے بعد پتہ چلتا ہے کل رات بیف نہیں کھوتا بریانی کھائی ہے۔
کبھی یہ بریانی تو کبھی وہ بریانی، جوجگہ جتنی ہو مشہور وہیں پڑتی ہے پولیس کی ریڈ۔
لوگوں نے ایمان تو جیسے بیچ کھایا ہے۔ جبہی گوشت فروختوں نے سوچ لیا ہے اور ان کاکہناہے کہ گدھے سے کمائی گئی کمائی حلال ہے تو پھر گوشت حرام کیوں؟
ؒ اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود بدلنے کی ہمت نہ کرے ۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا اور گدھو ں کی آبادی میں اضافہ ہوتاگیا تو وہ دن دور نہیں جب گدھا بریانی مصالحہ بھی وجود میں آجائے گا۔
رپورٹ کے مطابق بازار میں جن دوکانوں کم قیمت میں گوشت فروخت کیاگیا، وہاں مضر صحت گوشت فراہم کیا جارہاتھا۔بزرگوں کا قول ہے ۔ "ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور"
آج یہی کچھ بازاروں میں گوشت اور مشہور ٹھیلوں پر بریانی کے ساتھ کیا جارہاہے ۔ بتائی بیف بریانی جارہی ہے اور کھلائی کھوتا (گدھا) بریانی جارہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کچھ دن پہلے کراچی میں بھی گدھے کاگوشت گروخت کیا گیا، گدھے کو ذبح کرنے والے شخص کا موٗقف تھا کہ لوگوں کے پاس دال کھانے کے پیسے نہیں ہیں ہم گدھوں کا گوشت سستے داموں فروخت کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو گوشت کھانا نصیب ہو۔ گوشت فروخت نے بتایا ک وہ ایسے گدھوں کا گوشت فروخت کرتا ہے جو زخمی ، کمزور یاکسی کام کے نہ ہوں ۔
اور وہ کسی کو یہ کہہ کر گوشت فروخت نہیں کرتاکے یہ گائے کا ہے بلکہ جو لوگ ہم سے گوشت خریدتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کے یہ گوشت گدھے کا ہی ہے ۔اور گدھے کا گوشت فروخت کرنے پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں ہے، یہ کام چوری اور کسی کا گلا کاٹنے سے بہتر ہے اور مذہب اسلام اس کی اجازت بھی دیتا ہے۔
گدھے کے گوشت کھانے سے متعلق مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والے علماء سے رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کی اسلام میں گدھے کا گوشت مکمل طور پر حرام قرار دیا گیاہے، البتہ اگر کوئی انسان بھوک سے مر رہا ہو اور کھانے کیلئے کو ئی چیز میسر نہ ہو تو اس صورت میں گدھے کا گوشت کھایا جا سکتاہے۔
محکمکہ لائیو اسٹالک کی رپورٹ کے مطابق گدھے کے گوشت کو جانچنے کا آسان طریقہ ہے جس سے آپ اس گوشت کی خریداری میں احتیاط کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں عوام نے گدھوں کے گوشت کے فروخت کی کہانیاں سب نے سن رکھی ہیں لیکن عوام کو یہ معلوم نہیں کہ وہ گوشت بکرے کا خرید رہے ہیں یا مردار دجانور کاگوشت نوش کرنے جارہے ہیں ۔ بکرے اور گائے کے گوشت کے ریشے ذرا سخت ہوتے ہیں ، گوشت کا ایک بڑا ٹکرا پکڑیں، اس کو ہتھیلی پر بالکل سیدھا رکھیں اور اگر نہ گرے تو سمجھ لیں کہ حلال گوشت ہے لیکن اگر گر جائے تو کچھ گڑبڑ ہے کیونکہ گدھے کے گوشت کے ریشے بالکل نرم ہوتے ہیں ۔ گدھے کے
گوشت کا رنگ گہرا جامنی ہوتاہے، ہڈیاں بکرے سے مختلف اور گوشت میں ہلکی سی مٹھاس ہو تی ہے۔
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
No comments:
Post a Comment