Wednesday 10 August 2016

عامل ، حکیم اور سیاسی وال چاکنگ

Improved 
محمد سعود شیخ 
2K14/MC/63
فیچر
"حیدرآباد شہر میں عامل ، حکیم اور سیاسی وال چاکنگ"
من پسند شادی 
کیا آپ بے اولاد ہیں؟
محبوب آپ کے قدموں میں 
کچرا پھینکنے والا۔۔۔۔

ہم اپنے ارد گرد گلی، محلوں، بس اسٹاپ، پارکوں ، عمارتوں ، شاہراہوں اور فلائے اوورز کے قریب موجود د یواروں پر اس طرح کے سوالات اور خیالات کا اظہار دیکھتے ہیں اور ان میں سے کچھ تو ہمارے احساسات اور خیالات پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں اورکبھی ہم اسے اشتہارات کی ایک قسم سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں ۔لیکن حقیقت میں یہ بدنما داغ کی مانند ہے۔

کسی بھی ملک ، شہر یا علاقے کی دیواریں وہاں کے لوگوں کے خیالات ، احساسات اور انکی ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ ایک شہر کا چہرہ ہوتی ہیں اور اگر چہرہ ہی گندہ ہو تو باقی جسم کی اہمیت ماند پڑ جاتی ہے ۔ اسی طرح کے کچھ حالات پاکستان کے آٹھویں اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ہیں ۔ یہاں جگہ جگہ دیواریں مختلف قسم کے نعروں اور اشتہارات سے پر ہیں ۔ یہ دیواریں کبھی کسی کریم کی اہمیت بتا رہی ہوتی ہیں تو کبھی کسی عامل کا پتہ اور کہیں پرہر بیماری کا علاج ہے اور کہیں اپنے جذبات کا اظہار اور کسی کسی جگہ تو گالیاں بھی آویزاں ہوتی ہیں جسے ہر راہ گیر بچہ بڑا ایک بار ضرور اپنی زبان سے گزارتا ہے ۔ اس طرح کے اشتہارات کے ساتھ ساتھ آج کل سیاسی نعروں کو دیواروں کی زینت بنانے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ۔ ایسے میں ایک جماعت اپنا نعرہ یا خیال لکھ کر جاتی ہے تو دوسری جماعت اسے کاٹ کر برا بھلا لکھنے کو اپنا اولین فرض سمجھتی ہے اور اس لڑائی میں دیوار کا حشر نشر کردیا جاتا ہے ۔ 

کچھ لوگوں کے مطابق وال چاکنگ کی ابتداء قدیم مصری لوگوں نے کی ۔ جو غاروں میں دیواروں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے اور اب یہ مختلف شکلیں تبدیل کرتے ہوئے وال چاکنگ کی شکل اختیار کرگئی اور اسے لوگوں نے اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا ۔ کچھ لوگ یہ کام اپنی شناخت چھپاتے ہوئے معاشرے میں کسی نئے خیال کو اجاگر کرنے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ ایک سستی اشتہاری مہم بھی ہے ۔

ان اشتہاروں میں بیشتر اشتہارات دھوکے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتے اور معصوم اور کم علم لوگوں کو اپنا شکار بناتے ہیں ۔روڈ پر بیٹھنے والے ایک فقیر کا کہنا ہے کہ :

"جو بھی لگاؤ گے فوراً بک جائے گا کوئی کچھ نہیں پوچھتا" 

اگر حیدرآباد میں موجود مشہور شاہراہوں کی دیواروں پر ایک مجموعی نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں سیاسی نعروں کی بھرمار ہے لیکن سب سے زیادہ پیروں ، عاملوں اورحکیموں کے اشتہارات کی وال چاکنگ ہے۔ یہ جعلی پیر معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ۔پینٹر عاصم کے مطابق موجودہ دور میں زیادہ تر اشتہارات پینا فلیکس پر چھپوائے جاتے ہیں ۔لیکن ان کا کاروبار ان عاملوں اور باباؤں کی وجہ سے ابھی بھی کافی اچھا چل رہا ہے۔

حیدرآباد کے ایک شہری فاضل صاحب جو خود ایک ٹیچر ہیں ان کے مطابق وہ ایک پیر کے پاس اپنے دماغی مریض بیٹے کے علاج کیلئے گئے تو انہیں کہا گیا کہ اس مرض کے علاج کیلئے تین تولا سونا جمعرات کی رات کو دریا کے کنارے ڈال آؤ ۔


اس طرح کے بہت سے دوسرے واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں جو سڑک کنارے موجود دیوار پر لکھے اشتہارات کی وجہ سے رونما ہورہے ہیں اکثر جگہوں جیسے پبلک اسکول کی سڑک کے ساتھ موجود لمبی دیوار جسے متعدد دفعہ صاف کیا جاچکا ہے واپس چند دنوں میں انتہائی بدنما شکل میں تبدیل کردی جاتی ہے ۔

میرے خیال میں اس وال چاکنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کم کرنے کیلئے حکومت کو کوئی خاص اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ پہلے کچھ قانون بنائے جاچکے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا ۔اس کے علاوہ بلدیاتی ادارے کو چاہیے کہ وہ وال چاکنگ کے خاتمے کے لئے عملی اقدامات اٹھائیں اور ان عاملوں،بابا ؤں اور اشتہار لکھوانے والی کمپنیوں جو اس وال چاکنگ کے اصل ذمہ دار ہیں ان کے خلاف ایکشن لیں۔ وال چاکنگ کی روک تھام کیلئے ایک قانون موجود ہے جس کے مطابق وال چاکنگ کرنے والے کیلئے 6 ماہ قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ رکھا گیا ہے ۔لیکن اس قانون پر عمل درآمد نہیں کیا جا تا۔ 

اس کے علاوہ اس رجحان کو ختم کرنے اور دیواروں کو خوبصورت شکل دینے کیلئے مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا ء نے میرا حیدرآباد کے نام سے مہم کا بھی آغاز کیا جس کے بعد حیدرآباد میں موجود سینٹ میریز اسکول کی دیواروں کو مختلف پینٹنگز کر کے خوبصورت اور دلکش بنایا گیا اس لیئے پر پورے طریقے سے قابو پانے کیلئے حکومت کو اس کی روک دھام کے ساتھ ساتھ ان دیواروں کو خوبصورت بنانے کیلئے بھی کچھ اقدام اٹھانے چاہیے جو خراب ہو چکی ہیں 

اس کے علاوہ عوام میں بھی شعور اجاگر کرنے کی نہایت ضرورت ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ مختلف نجی اداروں اور این۔جی۔اوز کی مدد سے ایسے پروگرامز کا انعقاد کروائے جو عوام کے ذہنوں سے اس غلط رجحان کو ختم کر سکیں۔ جس طرح لاہور اور اسلام آباد میں وال چاکنگ کا رجحان ختم کرنے کیلئے اسٹریٹ آرٹس مقابلوں کا انعقاد کیا گیا ہے جس سے دونوں شہروں کی دیواروں کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا اور وال چاکنگ کا خاتمہ بھی ہوا۔ اس طرح کے پروگرامز کی مدد سے باقی شہر وں کو بھی خوبصورت بنایا جائے ۔ 



Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi
---------------------------------------------------------------------------------------------------------------
NGO are only to create awareness, or set soem examples or models. Who others are stakeholders in wall chalking? People, general public, advertisers, municipalty,  govt departments (which one)
محمد سعود شیخ
2K14/MC/63
فیچر
"حیدرآباد شہر میں عامل ، حکیم اور سیاسی وال چاکنگ"
من پسند شادی
کیا آپ بے اولاد ہیں؟
محبوب آپ کے قدموں میں
کچرا پھینکنے والا۔۔۔۔

میں آپ اور دوسرے تمام لوگ اپنے ارد گرد گلی، محلوں، بس اسٹاپ، پارکوں ، عمارتوں ، شاہراہوں اور فلائے اوورز کے قریب موجود د یواروں پر اس طرح کے سوالات اور خیالات کا اظہار دیکھتے ہیں اور ان میں سے کچھ تو ہمارے احساسات اور خیالات پر بہت گہرا اثر ڈالتے ہیں اورکبھی ہم اسے اشتہارات کی ایک ستی قسم سمجھ کر نظر انداز کردیتے ہیں ۔لیکن حقیقت میں یہ بدنما داغ کی مانند ہے۔

کسی بھی ملک ، شہر یا علاقے کی دیواریں وہاں کے لوگوں کے خیالات ، احساسات اور انکی ذہنیت کی بھرپور عکاسی کرتی ہیں اور اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ ایک شہر کا چہرہ ہوتی ہیں اور اگر چہرہ ہی گندہ ہو تو باقی جسم کی اہمیت ماند پڑ جاتی ہے ۔ اسی طرح کے کچھ حالات پاکستان کے آٹھویں اور سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد میں ہیں ۔ یہاں جگہ جگہ دیواریں مختلف قسم کے نعروں اور اشتہارات سے پر ہیں ۔ یہ دیواریں کبھی کسی کریم کی اہمیت بتا رہی ہوتی ہیں تو کبھی کسی عامل کا پتہ اور کہیں پرہر بیماری کا علاج ہے اور کہیں اپنے جذبات کا اظہار اور کسی کسی جگہ تو گالیاں بھی آویزاں ہوتی ہیں جسے ہر راہ گیر بچہ بڑا ایک بار ضرور اپنی زبان سے گزارتا ہے ۔ اس طرح کے اشتہارات کے ساتھ ساتھ آج کل سیاسی نعروں کو دیواروں کی زینت بنانے کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ۔ ایسے میں ایک جماعت اپنا نعرہ یا خیال لکھ کر جاتی ہے تو دوسری جماعت اسے کاٹ کر برا بھلا لکھنے کو اپنا اولین فرض سمجھتی ہے اور اس لڑائی میں دیوار کا حشر نشر کردیا جاتا ہے ۔

کچھ لوگوں کے مطابق وال چاکنگ کی ابتداءقدیم مصری لوگوں نے کی ۔ جو غاروں میں دیواروں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا کرتے تھے اور اب یہ مختلف شکلیں تبدیل کرتے ہوئے وال چاکنگ کی شکل اختیار کرگئی اور اسے لوگوں نے اپنے خیالات کے اظہار کا ذریعہ بنا لیا ۔ کچھ لوگ یہ کام اپنی شناخت چھپاتے ہوئے معاشرے میں کسی نئے خیال کو اجاگر کرنے کیلئے بھی استعمال کرتے ہیں اور یہ ایک سستی اشتہاری مہم بھی ہے ۔

ان اشتہاروں میں بیشتر اشتہارات دھوکے سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتے اور معصوم اور کم علم لوگوں کو اپنا شکار بناتے ہیں ۔روڈ پر بیٹھنے والے ایک فقیر کا کہنا ہے کہ :

"جو بھی لگاﺅ گے فوراً بک جائے گا کوئی کچھ نہیں پوچھتا"

اگر حیدرآباد میں موجود مشہور شاہراہوں کی دیواروں پر ایک مجموعی نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا کہ یہاں سیاسی نعروں کی بھرمار ہے لیکن سب سے زیادہ پیروں ، عاملوںاورحکیموںکے اشتہارات کی وال چاکنگ ہے۔ یہ جعلی پیر معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہے ہیں ۔پینٹر عاصم کے مطابق موجودہ دور میں زیادہ تر اشتہارات پینا فلیکس پر چھپوائے جاتے ہیں ۔لیکن ان کا کاروبار ان عاملوں اور باباﺅں کی وجہ سے ابھی بھی کافی اچھا چل رہا ہے۔

حیدرآباد کے ایک شہری فاضل صاحب جو خود ایک ٹیچر ہیں ان کے مطابق وہ ایک پیر کے پاس اپنے دماغی مریض بیٹے کے علاج کیلئے گئے تو انہیں کہا گیا کہ اس مرض کے علاج کیلئے تین تولا سونا جمعرات کی رات کو دریا کے کنارے ڈال آﺅ ۔


اس طرح کے بہت سے دوسرے واقعات روزانہ کی بنیاد پر ہو رہے ہیں جو سڑک کنارے موجود دیوار پر لکھے اشتہارات کی وجہ سے رونما ہورہے ہیں اکثر جگہوں جیسے پبلک اسکول کی سڑک کے ساتھ موجود لمبی دیوار جسے متعدد دفعہ صاف کیا جاچکا ہے واپس چند دنوں میں انتہائی بدنما شکل میں تبدیل کردی جاتی ہے ۔

میرے خیال میں اس وال چاکنگ کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کم کرنے کیلئے حکومت کو کوئی خاص اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے کیونکہ پہلے کچھ قانون بنائے جاچکے ہیں لیکن ان پر عمل درآمد نہیں کیا جاسکا ۔وال چاکنگ کی روک دھام کیلئے ایک قانون موجود ہے جس کے مطابق وال چاکنگ کرنے والے کیلئے 6 ماہ قید اور پانچ ہزار روپے جرمانہ رکھا گیا ہے ۔لیکن اس قانون پر عمل درآمد نہیں کیا جا سکا۔

اس کے علاوہ اس رجحان کو ختم کرنے اور دیواروں کو خوبصورت شکل دینے کیلئے مختلف یونیورسٹیوں کے طلبا ءنے میرا حیدرآباد کے نام سے مہم کا بھی آغاز کیا جس کے بعد حیدرآباد میں موجود سینٹ میریز اسکول کی دیواروں کو مختلف    پینٹنگز کر کے خوبصورت اور دلکش بنایا گیا اس لیئے پر پورے طریقے سے قابو پانے کیلئے حکومت کو اس کی روک دھام کے ساتھ ساتھ ان دیواروں کو خوبصورت بنانے کیلئے بھی کچھ اقدام اٹھانے چاہیے جو خراب ہو چکی ہیں

اس کے علاوہ عوام میں بھی شعور اجاگر کرنے کی نہایت ضرورت ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ مختلف نجی اداروں اور این۔جی۔اوز کی مدد سے ایسے پروگرامز کا انعقاد کروائے جو عوام کے ذہنوں سے اس غلط رجحان کو ختم کر سکیں۔ جس طرح لاہور اور اسلام آباد میں وال چاکنگ کا رجحان ختم کرنے کیلئے اسٹریٹ آرٹس مقابلوں کا انعقاد کیا گیا ہے جس سے دونوں شہروں کی دیواروں کی خوبصورتی میں اضافہ ہوا اور وال چاکنگ کا خاتمہ بھی ہوا۔ اس طرح کے پروگرامز کی مدد سے باقی شہر وں کو بھی خوبصورت بنایا جائے ۔
Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment