محمد بلال حسین صدیقی
2k14/MC/57
پروفائل: پروفیسر شاہدہ سراج
پروفیسر شاہدہ سراج
زندگی میں دشواری انسان کے ساتھ جُڑی رہتی ہیں آنکھ کھلنے سے لے کر آخری سانس تک دشواری انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں ایک مسلۂ ختم ہوتا ہے تو دوسرا ایک اور مسلۂ جنم لے لیتا ہے اور انسان کی زندگی یوں ہی پریشانیوں میں گرفتار رہتی ہے مگر زندگی کو کامیاب بنانے کا واحد راستہ پریشانیاں ہی ہوتا ہے کیونکہ تجربات صرف سبق کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں اور پریشانی انسان کو تمام تر تجربات دے کر جاتی ہے اگر انسان سیساپلائی دیوار بن کر تمام تر پرشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے تو مجھے اُمید ہے کہ کامیابی اس انسان کے قدم ضرور چومتی ہے
’کہا جاتا ہے کہ ایک مرد کو تعلیم دی جائے تو ایک گھر سنور جاتا ہے لیکن ایک عورت کو تعلیم یافتہ بنادیا جائے تو وہ معاشرہ سنوار دیتی ہے‘
ایسی ہی ایک باہمت خاتون اور دوسری عورتوں کے لئے مثالِ عام پروفیسر شاہدہ سراج ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر مصیبتوں کا سامنا سیساپلائی دیوار بن کر کیااور زندگی میں ہمیشہ آگے کی جانب قدم بڑھائے کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور ہمت ،لگن،دیانت داری کے ساتھ اپنی خوابوں کی منزل کی جانب اپنے قدموں کو گامزن رکھا۔پروفیسر شاہدہ سراج نے 1956ء میں میرپورخاص میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں لڑکیوں کی زیادہ تعلیم کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے لیکن انہیں بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کا بے انتہا شوق تھا اور اپنی محنت اور جستجو سے ابتداء ہی سے تمام ا متحانوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور اسکول کے زمانے میں پورے اسکول میں ٹاپ کرنے پر اسکالر شپ حاصل کی اور اس کے بعد میڑک کے امتحانات میں میرپورخاص بورڈ میں پوزیشن حاصل کی۔جو اس بات کی نشانی تھی کہ ان کا سفر ابھی ختم ہونے والا نہیں۔
میٹرک کے امتحانات کے بعد خاندانی رجحان کے تحت گھروالوں نے آگے تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا مگر ان کی تعلیمی جستجو دیکھ کر ماموں نے ان کا ساتھ دیا اور آگے تعلیم حاصل کرنے کے لئے کالج میں داخلادلوایا۔کالج میں بھی ان کی قابلیت کسی سے ڈھکی چھپی نہ رہی اور انٹرمیڈیٹ امتحانات میں کالج میں پوزیشن حاصل کی اور اسی کالج میں بی۔اے میں ایڈمیشن لیا۔بی۔اے مکمل کرنے کے بعد ایم۔اے میں داخلہ لیا۔لیکن ایم۔اے کے امتحانات سے قبل رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گیءں اور شادی ہونے کی وجہ سے آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکیں اور شادی کے بعد گھریلوں مصروفیات میں گہر گیءں۔
ان کی زندگی میں بدلاؤ تب آیاجب اولاد کی پرورش کے دوران گھریلوں اخراجات بڑھے جو شوہر کی قلیل آمدنی کی وجہ سے پورے نہیں ہو پارہے تھے۔جس کے باعث انھوں نے اپنے شوہر کی اجازت کے بعدانھوں نے اپنی اعلی قابلیت کو مددِ نظر رکھتے ہوئے کامیشن کا امتحان دیا جس میں انھیں اعلی نمبروں سے کامیابی حاصل ہوئی جس کے بعد میرپورخاص کالج میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہویءں اور اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔اسی دوران بچوں کی بھی بہتریں پرورش کر تی رہیں جس کے باعث ان کے بچوں میں بھی وہ نمایاں خصوصیات پیدا ہوگیءں جو ان میں تھیں ان کے دونوں بیٹوں کو مہران یونیورسٹی میں داخلاملااور ایک بیٹی کو لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس میں داخلاملا ۔دونوں بیٹے جامشورو میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور یہی رہائش پذیر بھی تھے لیکن بیٹی کو یہاں اکیلے ہاسٹل چھوڑنا مناسب نہ سمجھااور اپنے حیدرآباد ٹرانسفر کی کوششوں میں جت گئی اور اس میں انھیں کامیابی ملی جس کے بعد ان کا تبادلہ شاہ لطیف گورنمنٹ کالج میں کردیا گیااور اب اس ہی کالج میں پرنسپل کی خدمات سرانجام دے رہیں ہیں اپنی قابلیت اور عقلمندی کے ذریعے کالج ایک بہترین ماحول دیا اور یہاں پڑھائی کے معیار کو بہتر کیا ان کے کالج کے طلباء اور تمام اساتذہ ان کے سادہ مزاج اور شیریں لہجے کی تعریف کرتے ہیں۔
غرض یہ کہ شاہدہ سراج محنت اور تعلیم کے باعث ترقی کی منازل عبور کرتی رہیں اور صرف خود ہی کامیاب نہیں ہویءں بلکہ اپنے بچوں اور اپنے شاگردوں کو بہترین تعلیم دے کر معاشرے کو سنوار رہی ہیں اور موجودہ دور کی لڑکیوں کے لئے ایک مشعلِ راہ ہیں ۔۔۔۔
2k14/MC/57
پروفائل: پروفیسر شاہدہ سراج
پروفیسر شاہدہ سراج
زندگی میں دشواری انسان کے ساتھ جُڑی رہتی ہیں آنکھ کھلنے سے لے کر آخری سانس تک دشواری انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں ایک مسلۂ ختم ہوتا ہے تو دوسرا ایک اور مسلۂ جنم لے لیتا ہے اور انسان کی زندگی یوں ہی پریشانیوں میں گرفتار رہتی ہے مگر زندگی کو کامیاب بنانے کا واحد راستہ پریشانیاں ہی ہوتا ہے کیونکہ تجربات صرف سبق کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں اور پریشانی انسان کو تمام تر تجربات دے کر جاتی ہے اگر انسان سیساپلائی دیوار بن کر تمام تر پرشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے تو مجھے اُمید ہے کہ کامیابی اس انسان کے قدم ضرور چومتی ہے
’کہا جاتا ہے کہ ایک مرد کو تعلیم دی جائے تو ایک گھر سنور جاتا ہے لیکن ایک عورت کو تعلیم یافتہ بنادیا جائے تو وہ معاشرہ سنوار دیتی ہے‘
ایسی ہی ایک باہمت خاتون اور دوسری عورتوں کے لئے مثالِ عام پروفیسر شاہدہ سراج ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر مصیبتوں کا سامنا سیساپلائی دیوار بن کر کیااور زندگی میں ہمیشہ آگے کی جانب قدم بڑھائے کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور ہمت ،لگن،دیانت داری کے ساتھ اپنی خوابوں کی منزل کی جانب اپنے قدموں کو گامزن رکھا۔پروفیسر شاہدہ سراج نے 1956ء میں میرپورخاص میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں لڑکیوں کی زیادہ تعلیم کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے لیکن انہیں بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کا بے انتہا شوق تھا اور اپنی محنت اور جستجو سے ابتداء ہی سے تمام ا متحانوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور اسکول کے زمانے میں پورے اسکول میں ٹاپ کرنے پر اسکالر شپ حاصل کی اور اس کے بعد میڑک کے امتحانات میں میرپورخاص بورڈ میں پوزیشن حاصل کی۔جو اس بات کی نشانی تھی کہ ان کا سفر ابھی ختم ہونے والا نہیں۔
میٹرک کے امتحانات کے بعد خاندانی رجحان کے تحت گھروالوں نے آگے تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا مگر ان کی تعلیمی جستجو دیکھ کر ماموں نے ان کا ساتھ دیا اور آگے تعلیم حاصل کرنے کے لئے کالج میں داخلادلوایا۔کالج میں بھی ان کی قابلیت کسی سے ڈھکی چھپی نہ رہی اور انٹرمیڈیٹ امتحانات میں کالج میں پوزیشن حاصل کی اور اسی کالج میں بی۔اے میں ایڈمیشن لیا۔بی۔اے مکمل کرنے کے بعد ایم۔اے میں داخلہ لیا۔لیکن ایم۔اے کے امتحانات سے قبل رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گیءں اور شادی ہونے کی وجہ سے آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکیں اور شادی کے بعد گھریلوں مصروفیات میں گہر گیءں۔
ان کی زندگی میں بدلاؤ تب آیاجب اولاد کی پرورش کے دوران گھریلوں اخراجات بڑھے جو شوہر کی قلیل آمدنی کی وجہ سے پورے نہیں ہو پارہے تھے۔جس کے باعث انھوں نے اپنے شوہر کی اجازت کے بعدانھوں نے اپنی اعلی قابلیت کو مددِ نظر رکھتے ہوئے کامیشن کا امتحان دیا جس میں انھیں اعلی نمبروں سے کامیابی حاصل ہوئی جس کے بعد میرپورخاص کالج میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہویءں اور اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔اسی دوران بچوں کی بھی بہتریں پرورش کر تی رہیں جس کے باعث ان کے بچوں میں بھی وہ نمایاں خصوصیات پیدا ہوگیءں جو ان میں تھیں ان کے دونوں بیٹوں کو مہران یونیورسٹی میں داخلاملااور ایک بیٹی کو لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس میں داخلاملا ۔دونوں بیٹے جامشورو میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور یہی رہائش پذیر بھی تھے لیکن بیٹی کو یہاں اکیلے ہاسٹل چھوڑنا مناسب نہ سمجھااور اپنے حیدرآباد ٹرانسفر کی کوششوں میں جت گئی اور اس میں انھیں کامیابی ملی جس کے بعد ان کا تبادلہ شاہ لطیف گورنمنٹ کالج میں کردیا گیااور اب اس ہی کالج میں پرنسپل کی خدمات سرانجام دے رہیں ہیں اپنی قابلیت اور عقلمندی کے ذریعے کالج ایک بہترین ماحول دیا اور یہاں پڑھائی کے معیار کو بہتر کیا ان کے کالج کے طلباء اور تمام اساتذہ ان کے سادہ مزاج اور شیریں لہجے کی تعریف کرتے ہیں۔
غرض یہ کہ شاہدہ سراج محنت اور تعلیم کے باعث ترقی کی منازل عبور کرتی رہیں اور صرف خود ہی کامیاب نہیں ہویءں بلکہ اپنے بچوں اور اپنے شاگردوں کو بہترین تعلیم دے کر معاشرے کو سنوار رہی ہیں اور موجودہ دور کی لڑکیوں کے لئے ایک مشعلِ راہ ہیں ۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment