Wednesday 10 August 2016

معاشر ے کا بگاڑ : مزنہ رئیس الدین (corrected and old piece)

Corrected
مزنہ رئیس الدین 
2K14/MC/156
کیٹیگری۔ آرٹیکل
معا شرے کا بگاڑ
افرا د کی اصلا ح سے ہی معا شرے کی اصلا ح ہوتی ہے اور تب ہی ایک معاشرہ پروا ن چڑھتا ہے ۔ آجِ سے تقر یباً 20 سا ل سے پہلے کی بات ہے بیٹا با پ کے سا منے بات کر نا تو دور کی بات بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا مگر آج ہمارے معاشرے میں والدین کی قدر ، استاد کی قدر ،بڑوں کی عزت واحترا م اور چھوٹو ں کا لحاظ جیسی کسی چڑیا کا نا م بھی با قی نہیں۔ ہمارے معاشرے مین دن بد ن ختم ہوتی انسانی اقدار کے کئی اسباب ہیں مثلاً لوگون کی بڑھتی ہوئی خواہشات ، فرینڈ سرکل کا بڑھتے جا نا ،ماں با پ کا بچوں کی تربیت بھر پور طریقے سے نہ کرنا ،ہر مہنگے اور برے کام کو کرکے فخر سمجھنا ،بے روزگاری،ہر جرم کو باآسانی کرلینا ،موبائل اور سوشل نیٹ ورک کا حدسے زیادہ اور غلط استعما ل وغیر ہ جیسے کئی اسباب شامل ہیں۔ 90 دہائی سے 2016 ؁ء تک کا سفر دیکھا جائے تو ایک صا ف اور واضح قسم کا فرق نظر آتا ہے جو بیٹا باپ کے سامنے بولنے کی جرات نہیں کرتا تھا آج و ہی بیٹا باپ سے نشہ مانگ کر استعما ل کر نے میں کوئی عار محسو س نہیں کرتا،بننے سنور نے کی لیئے آج باپ اپنے بیٹے سے اور ماں اپنی بیٹی سے سبقت لیتی ہے ، ایک محفل میں بیٹھ کر فحش فلمیں آرام سے دیکھی جارہی ہوتی ہیں ،دن کو سوکر اور رات کو جا گ کر گزار ا جا تا ہے مہنگے اور جدید موبائل وقت سے پہلے بچوں کو فراہم کردیئے جاتے ہیں ۔
تعلیمی نظام میں بھی کا فی بدلاؤ آگیا ہے بچوں کو اس جدید دور میں کمپیوٹر اور لیپ ٹاپ کے ذریعے تعلیم دی جاتی ہے جس کے باعث وہ کتا بوں کی قدر بھولتے جار ہے ہیں پہلے کے زمانے میں معا شرہ رشتوں پر پکا یقین رکھتا تھا ،مگر آج یہ ہی رشتے ایک کے ذریعہ کے سوا کچھ نہیں بے شک تبدیلی کائنا ت کا اصول ہے مگر ان تبدیلیوں کا غلط استعمال معاشرمیں کئی برائیوں کو جنم دے رہا ہے۔ آج تقریباً 20 سال سے اپنے پیاروں سے با ت کرنے کے لئے ان کے گھر جا کر ملا قات کی جاتی تھی اور ملک سے باہررہنے والے رشتہ داروں کو خط یا تار(ٹیلی گرام) بھیجے جاتے تھے جو خاص جذبات اور محبت کا پیکر ہوتے تھے مگر 90 کی دہائی سے ان کی جگہ انٹر نیٹ اور موبائل نے لے لی ۔ 
ان چیزوں نے اگرچہ انسا ن کی زندگیوں میں آسانیاں تو پیدا کردی ہیں مگر دوسری جانب دیکھا جائے تو یہ ہی چیزیں انسا ن اور وقت کی قدرومحبت کی قاتل بھی ہیں ۔ بے روزگاری معاشرے کی بربادی میں اہم کردار ادا کررہی ہے اس کی وجہ سے لوگ برے دھندوں میں پڑجاتے ہیں اور جرم کو کو فروغ دیتے ہیں یا پھر یہاں وہاں بیٹھ کر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ نشے کے عادی یا جوئے اور شراب کی لت میں پڑجاتے ہیں مہنگائی کے اس دور میں امیر توامیر تراور غریب بے چارہ غریب تر ہوتا جا رہاہے ۔ 
ان تمام وجوہات کی وجہ سے معاشرہ ترقی کرنے کے بجائے پستی کی طرف جاتا جارہاہے کراچی یونیورسٹی کی صحافی پروفیسر ڈاکٹر ذکر یا ساجد کی رائے کے مطابق سادگی ہی ایک واجد ذریعہ جو آج کے دور میں غریبوں کا پیٹ بھرنے کے سا تھ سا تھ انسا ن کی بڑھتی ہوئی خواہشا ت روک سکتی ہے جس کے باعث معاشرہ مختلف قسم کی برائیوں سے بچ سکتا ہے ۔ 
بے شک معاشرے کی ترقی میں حکومت کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ مگر اس سارے نظام کی خرابی کا سبب حکومت کو ہی نہیں ٹھہر ایا جا سکتا ۔ اس میں کچھ نہیں بلکہ بہت حقدر تو ہمارا اپنا ہے کیونکہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے بھی بے حس بنے ہوئے ہیں ۔ کوئی معاشرے کی اصلا ح باکم از کم اپنی اولاد کی تعلیم و تر بیت کو ہی صحیح وقت نہیں دینا چاہتا اور یہ نہیں سوچتا کہ کیوں اتنی جد ت اور ترقی کے باوجود معاشرے میں ا تنی برائیاں جنم لے رہی ہیں اور نئی نسل اپنے بزرگوں کو ان کی زندگی میں ہی دفن کر بھول جاتی ہے ۔ 

------------------------------------
It seems to be a lecture or essay. Some specific ref, reports, experts opinion. Figures facts 

آرٹیکل 

معاشر ے کا بگاڑ
مزنہ رئیس الدین 
2K14/MC/156
افراد کی اصلا ح سے ہی معاشرے کی تعمیر ہو تی ہے اور تب ہی ایک معاشرہ پروان چڑھتا ہے مگر آج ہمارے معاشرے کے اندر نظر دوڑائی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ والدین کی قدرنہیں ، استاد کی قدر نہیں ، بڑوں کا احترام اور چھوٹوں کے لحاظ جیسی کسی چڑیا کا نام باقی نہیں ۔
کچھ دہائیوں پہلے کی بات ہے کہ بیٹاباپ کے سامنے بات کرنا تو دور کی بات بیٹھ بھی نہیں سکتا تھا ۔ مگر آج کے زمانے میں بیٹا باپ سے نشہ مانگ کر استعمال کرتاہے ایک محفل میں بیٹھ کر فلمیں دیکھی جاتی ہیں ۔ یہاں تک کے بننے سنورنے کے لئے باپ بیٹے سے اور ماں اپنی بیٹی سے سبقت لینا چاہتی ہے۔
ہمارے معاشرے میں دن بدن ختم ہوتی انسانی اقدار کے کئی اسباب ہیں مثلاً ماں باپ کا اپنے بچوں پر ٹھیک طرح توجہ نہ دینا ، اپنی لاڈلی اولاد کے آرام کی خاطر انہیں مسجد بھیجنے کے بجائے قاری صاحب (جو کہ حافظ قرآن اور دین کا عالم ہوتا ہے ) کو گھر بلایا جاتا ہے ، بچوں کو کمپیوٹر ، لیپ ٹوپ وغیرہ تولے کر دئیے جاتے ہیں مگر بیٹھ کر ان کی اقدار اور صحی استعمال نہیں سکھایا جاتا، بچوں کو اسکول تو بھیجا جاتاہے مگر صرف نمبروں کا گیم کھیلنے کے لیے آج ہمارے معاشرے میں وقت کے ساتھ ساتھ کئی برائیاں جنم لیتی جارہی ہیں جن کی اصل وجہ تو ”لوگوں کی بڑھتی ہوئی خواہشات“ ہیں فرینڈ سرکل کا بڑھتا جانا، ہربرے اور مہنگے کو کر کے فخر سجھنا،اپنے ساتھ اصلاح لے کر گھونا، اور بالخصوص ہر طرح کے جرم کو کرنا آسان سجھنا، آجکل کے اس مہنگائی کے دور میں امیر تو اور امیر اور غریب بے چارہ غریب سے غریب تر ہوتا چلا جا رہا ہے۔
بے روزگاری بھی معاشرے کی بربادی میں شامل ہے ۔ اس کی وجہ سے لوگ یہاں وہاں بیٹھ کر اپنا ٹائم گزارنے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ مختلف قسم کی خراب عادتوں یا نشہ یا جوئے کی لت میں پڑجاتے ہیں ۔
ان وجوہات کی وجہ سے معاشرہ ترقی کرنے کے بجائے پستی کی طرف جاتا جا رہا ہے کوئی یہ سوچنا نہیں چاہتا کہ کیوں ہمارا معاشرہ پستی کی طرف جاتا جا رہا ہے ؟
کیوں معاشرے میں ادب ختم ہو جارہا ہے ؟ کیوں غریب ، غریب تر ہوتا جا رہا ہے ؟کیوں ہمارے معاشرے کا مستقبل دن کو سو کر اور رات کو سوشل نیٹ ورک جا گ پر گزارتا ہے ؟ کیوں آج کل کی نسل کو اپنے بڑوں کے پاس بیٹھنے تک کا وقت نہیں ہوتا ۔ کیوں ہماری آنے والی نسلیں ہمیں دفنا کر بھول جاتی ہےں ۔ کوئی یہ سوچنا نہیں چاہتا کہ وہ اپنے لئے اور اپنی آنے والی نسلوں کے لئے کون سی راہ منتخب کر رہے ہیں ۔
بے شک معاشرے کی ترقی میں حکومت کا اہم کردار ہوتا ہے مگر اس سارے نظام کی خرابی کا سبب حکومت کو ہی نہیں ٹھہرایا جاسکتا۔ بلکہ اس میں کچھ نہیں بہت زیادہ قصور تو ہمار اپنا ہے کیونکہ ہم سب کچھ جانتے پہچانتے بھی بے حس بنے ہوئے ہیں ۔ کوئی آواز اٹھانے والا موجود نہیں اور کوئی اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ وہ اپنا ٹائم معاشرے کی اصلا ح کرنے کو دے یا کم از کم اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت پر ہی بھر پور توجہ دیں ۔
اس سارے بگاڑ کے حل کیلئے اگر کچھ سد باب حکومت و عوا م مل کر کریں تو شاید کے ہمارے معاشرے کی اصلا ح ممکن ہو سکے ۔

Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi

No comments:

Post a Comment