Wednesday, 31 August 2016

Cyber-crime Bill and freedom of expression by rajesh kumar article

Cyber-crime Bill and freedom of expression
Article
Rajesh Kumar oad
Roll no:78


The prevention of Electronic Crimes Bill (PECB) or Cybercrime bill 2015 has been passed by senate on 12th August 2016, after long controversy. The bill has been adopted and became law after signatured by president. To be noted that Prevention bill for Electronic Crime was tabled by Ministry of I.T before National Assembly in 2015 and passed on14th April.
In the modern world where world has been becoming global village and people are connected through internet to the whole world, while in the Pakistan where technology is not developed as much, where there is need of awareness and social literacy but here people are always restricted to say and from getting information. like some time ago ban on YouTube by the government but  people still found ‘other’  ways to use it as it has wealth of information on any topic. From students to professionals find it easir way to learn from it. And in this cyberspace world there are some people who find a way  as government and cyber-space security agencies cannot restrict the people from getting to whatever information is available on the internet.
Once again to suppress the freedom through complicated and vague cyber-crime bill has been passed by government. Intellectuals and different organizations considering this cybercrime bill as ‘Draconian’ which suppress the freedom of expression and limits the reach of information to ordinary users of internet. internet i.e. on social media where people express their ideas, opinion freely about everyone now must be careful and can come under any law as other forms of media already restricted such as print or electronic media. People also considering it against democratic rights as there are no clarification in the many sections in prescribed cyber crime bill.
Some features of the bill up to three years’ imprisonment, Rs 1million fine or both for unauthorized access to critical infrastructure access or data. Up to seven years’ prison 10 million fine or both for an offence relating to terrorism, any person convicted of a crime relating to terrorism. Up to six months’ imprisonment, Rs50 thousand or both producing, supplying or importing a device for use in an offence. three years’ imprisonment, Rs 5 million or both for obtaining, selling or using another person’s identity information without authorization and many other punishments on doing crime.
After 55 amendments, these are some features of bill considered to restrict people from doing crime, is this what really Pakistan needed to control cyber crime? Such strict laws? This countries lawmakers seriously need a break, as they are turning democratic country into autocratic one.
  digital rights activists in pakistan are much concerned about this bill.
 On the basis of crime, there are different punishment suggested. How this bill is considered as better for the society to stop crime in which there is imprisonment for a child of 10 years! Like this, definitely it will create panic  among the public or institutes that they won’t be able talk openly against state or its institutes. which we can say is useful for the state to use this bill politically or to achieve political interests which is against the basic human rights actually. We know that many people exploit the freedom or due to lack of media literacy say many things about the institutions concerned with establishment or state that they shouldn’t do, but definitely public have to talk or discuss, if there are flaws or bad governance in the state as the criticism is backbone for the democratic societies to reform and improve their situation.
it is the responsibility of state to protect the rights of every citizen and secure freedom as constitution of Pakistan guarntees freedom of speech to its every citizen. If this ‘draconian’ law, misused will bring unwanted consequences for Pakistani society and will also increase the knowledge gap among the people as the internet and social media are good information sources of the people.

 That is why, not only few political parties, human rights organizations, people concerned with civil society but people using internet especially social media users are opposing and fearing that it would target them, because it is seemed as against freedom of speech.

Tuesday, 30 August 2016

مصباح۔ار۔رودا, پروفائل,


مصباح۔ار۔رودا
2k14/Mc/52 (BS=3)
ٖپروفائل ڈاکٹر لیاقت راجپوت
ڈاکٹر لیاقت راجپوت (محنت کے دم پر اپنا لوہا منوایا)
ویسے تو سب ہی لوگ تعلیم حاصل کرتے ہیں لیکن کچھ ایسے لوگ بھی ہوتے ہیں جوتعلیم حاصل کرنے کو اپنا شوق بنا لیتے ہیں ڈاکٹر لیاقت راجپوت بھی ان ہی میں سے ایک ہیں۔ڈاکٹر لیاقت راجپوت ۳ جنوری ۱۹۵۳ کو ٹنڈوالہیارمیں پیدا ہوئے۔والد کا نام عبدالرزاق تھا .بچپن سے ہی تعلیم کے شوقین تھے ابتدائی تعلیم دارالعلوم پرائمری اسکول ٹنڈوالہیار سے حاصل کی۔اعلی تعلیم کے لئے میونسپل ہائی اسکول میں داخلہ لیا اور پورے شہر میں پہلی پوزیشن حاصل کی ۔ پہلی پوزیشن حاصل کرنے پر حکومت کی طرف سے ایک سال کی اسکالرشپ دی گئی۔

گھر والے آپ کی زندگی کا ایک واقعہ بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ والدہ نے کسی ضروری کام کی وجہ سے اسکول جانے سے منع کیا تو رونے لگے اور اسکول جانے کی ضد کرنے لگے اور اپنی ضد منوا کر رہے ۔تعلیم حاصل کرنے کے شوق اور ڈاکٹر بننے کی لگن نے آپ کو گھر بیٹھنے نہیں دیا اور اپنا شہر چھوڑ کر حیدرآباد کا رخ کیا ۔حیدرآباد میں آتے ہی لیاقت میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کی ڈگری مکمل کی اور جرنل پریکٹس کے ڈاکٹر بنے۔مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے ملک سے باہر جانا چائتے تھے لیکن گھریلوں مصروفیات کی وجہ سے نہ جا سکے ۔ڈاکٹر لیاقت راجپوت کے گھر والوں کے مطابق آپ اخلاق کے اعلی درجے پرہیں .والدین کی ہمیشہ خدمات کی ساتھ ہی ساتھ اپنے بہن249 بھائیوں سے بھی ہمیشہ نرمی سے پیش آئے۔ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے ہونے کے باوجود بھی سب کی عزت کی اور ہمیشہ ان کا خیال رکھا۔آپ ایک خدار انسان ہیں ہمیشہ اپنی مدد آپ کے تحت کام کیا. خاندانی زبان اردوہے. لیکن آپ کوانگلش249سندھی249 249مارواڑی غرض مقامی تمام زبانوں پر عبور حاصل ہے. ۱۹۶۸ ؁ میں شادی ہوئی . آپ نے اپنی شادی شدہ زندگی اور پڑھائی کی زمیداریوں کو ساتھ ساتھ پورا کیا۔ آپ کی ۳ بیٹیاں اور ۱یک بیٹا ہے۔ٖآپ نے بیوی کے انتقال کے بعد بچوں کی اکیلے ہی دیکھ بھال کی بیٹیوں کو اچھی تعلیم دی اور بیٹے کو ڈاکٹر بنایا۔ آپ صبروہمت کے پیکر ہیں۔ آپ نے ڈاکٹر کی پڑھائی مکمل کرنے کے بعد لیاقت میڈیکل کالج میں طلبہ کو پڑھانا شروع کیا اس کے بعد ۱۷ گریڈ کی گورنمنٹ نوکری ملی اور آہستہ آہستہ مختلف مراحلات سے گزرتے ہوئے ترقی کی اور آخر کار اپنی محنت سے ۲۰ گریڈ تک پہنچے اور پولیس سرجن حیدرآباد میں اپنی خدمات انجام دے کر گورنمنٹ نوکری سے ریٹائرمینٹ لے لی ۔ 

۱۹۸۰ میں اپنے والد عبدالرزاق کے نام سے اپنی ایک کلینک کھولی جس میںآج بھی اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔روز تقریبا ۰۵ سے ۰۰۱ تک مریضوں کو دیکھتے ہیں. مریضوں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر لیاقت راجپوت کے علاج میں شفاء ہے ،آپ میں مریضوں کو حوصلہ دینے کی صلاحیت موجود ہے آپ کے اخلاق سے اور آپ کے علاج سے مریضوں کو جلد فائدہ ہوتا ہے۔ ڈاکٹر لیاقت راجپوت نماز کے پابند ہیں نماز کے اوقات میں کلینک کھولنے سے گریز کرتے ہیں ۔. ڈاکٹر لیاقت راجپوت کو ۴۱ فروری ۲۰۱۰ کو حیدرآباد میں مینجمینٹ آف ٹیوبرکلوسزکے سارٹیفیکیٹ سے بھی نوازا گیا۔

ڈاکٹر لیاقت راجپوت حیدرآباد کی ایک بہت مشہور اور باوقار شخصیت ہیں.لوگ دور دور سے آپ کے پاس علاج کے لئے آتے ہیں. آپ کا علاج بہت فائدہ مند ہے. ڈاکٹر لیاقت راجپوت کو ان کی اعلی کارکردگی پر مختلف قسم کے اعزازات بھی ملے ہیں . آپ کو حج کی سعادت بھی نصیب ہوئی آپ ایک محنت کش انسان ہیں جو لوگوں کے کام آنے کے لیے اپنی ہر ممکن کوششوں میں مصروف رہتے ہیں . لوگ ڈاکٹر لیاقت راجپوت میں موجودصلاحیتوں سے واقف ہیں اور آپ پر پورا یقین بھی کرتے ہیں. آپ کیپاس مسائل لے کر آتے ہیں تا کہ آپ ان کا کوئی حل نکال سکیں . آپ حیدرآباد کے علاوہ بھی دوسرے شہروں میں بھی اپنی خدمات انجام دیتے ہیں اور اس سے قبل بھی بہت بار دے چکے ہیں . آپ نے اپنی پوری زندگی فلاح وبہبود کے کاموں کے لیے وقف کر رکھی ہے. 

. ڈاکٹر لیاقت راجپوت میں بہت سی خداداد صلاحیتیں موجود ہیں . آپ دائرے میں رہ کر سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے مالامال ہیں . آپ کو ایک سلجھا ہوا شخص کہنا غلط نہ ہوگا.

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh

Thursday, 25 August 2016

سجاد علی, آرٹیکل, corrected


سجاد علی
کلاس 5206B.S iii
رول نمبر: 5 2k14/MC/163
Piece: Article
کوٹری میں فلٹر پلانٹ نکارہ
پانی زندگی کی علامت ہے اور یہی وجہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں اس کی قدر کو تسلیم کیا جاتا ہے اور ان کا تو یہ بھی کہنا ہے کی آئندا جنگیں بھی پانی پر ہو نگی پانی انسانی جسم کے لئے بنیادی ضرورت ہے اسی وجہ سے انسانی جسم کا دو فیصد حصہ پانی پر مشتمل ہے ایک ادمی کے جسم میں 50 سے 55 لیٹر تک پانی موجود ہوتا ہے 

اور اگر بات کی جائے حکومت سندھ کی تو جو کام ان سے نہیں ہو تا وہ اسے جھوٹے وعدوں کے رنگ میں ڈھال کر اپنی سُستی اور ناہلی کا مظاہرا ایک اور نئے وعدہ کی راہ دیکھا کرتی ہے ،گزشتہ 8 سال سے کوٹری کا فلٹر پلانٹ بھی اپنی لاچاری کی داستان کی مثال اپنے آپ خود ہے ۔اس فلٹر پلانٹ کی منظوری سابق وزیر اعلی سندھ سید قائم علی شاھ نے کوٹری کے شہریوں کو تحفہ میں دی تھی لکن اب فلٹر پلانٹ مشینری
کا استعمال نہ ہونے کی وجہ سے یہ فلٹر پلانٹ اپنی بربادی کا منظر اپنی انکھوں سے دیکھ رہا ہے جس پر اُس وقت کے ڈپٹی کمشنر سید نظیر شاھ نے 2009 میں سخت اکشن لے کر ورک اینڈ سروس کے ڈائریکٹرکو سخت اہقامات جاری کیے کہ فورن اس کی رپورٹ پیش کی جائے لکن اس کے چند دن بعد ہی ڈسی جامشورو کا تبادلہ ہو گیا اور یہ فلٹر پلانٹ غفلت کی بھیٹ چڑھ گیا، اور کوٹری کی عوم گندا پانی پی کر موت کو دعوت دینیپر مجبور ہو گئی جس سے کئی بیماریا پھیلنے لگی،مزید داکٹرز کاکہنا ہے کہ کو منہ کوٹری کی آبادی تقریبن تین لاکھ ہے جس میں ہر تبکے کی لوگ ریہائش پزیر ہیں تو جن لوگو کی امدانی اچھی ہے ان کا گزار بسر مینرل واٹر سے ہو جاتا ہے لکن جو میڈل کلاس کے لوگ اور لویر کلا س کے لوگ اس رحمت سے محروم ہیں جن کی واجہ سے اُنہیں زحمت کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے جگہ جگہ فلٹر پلانٹ کی مشینری لگائی گئی ہے تاکہ صاف پینے کے پانی کو یقینی بنایا جا سکے ۔گندے پانی ہونے کی کئی وجوہات ہیں جن میں بارش کا پانی ،ڈینیج سسٹم،ماحول کی الودگی،کوڑہ کرکٹ،واٹر لائنگ سسٹم،ان مسائل کی اصل وجوہات ہیں۔لکن حکومت ہمیشہ خاموشی کی طرح کا مظاہرا کر کے اپنے ہاتھ اُپر اُٹھا تی آئی ہے۔ گندا پانی پینے سے لاکھو بیماریاں جنم لیتی ہیں جن میں اندرونی بیماریاں اور بیرونی شامل ہے۔جن کے موضی مرض انسانی جسم میں اس طرح سے اپنے گھر بناتے ہیں جس کے بعد انسان کو اس دنیاں سے اپناگھر چھوڑنا پڑتا ہے ، اور نہلے پر دہلہ یہ ہے کہ سرکاری اسپتال میں سہولیات نہ ہونے کی واجہ سے لوگ پرئیویٹ اسپتال کا رخ کرنے پر مجبور ہے گندا پانی پینے سے ہزاروں بچوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہوئی ہیں مقامی ڈاکڑرز کے متابق کوٹری روزانہ 50 سے60 بچے گندے پانی پینے کی وجہ سے بیمار ہو رہے ہیں،بچوں میں ڈائریا پیٹ کے دیگر امر اض اور جلد ی بیماریاں پھیل رہی ہیں شہریوں کا کہنا ہے کہ ہم مجبور ہیں گندا پانی پینے پر کیونکہ کے منرل واٹٹر خریدنے کی ان کی سقت نہیں ہے ۔اس پر کئی بار شہریعں کی جانب سے احتجاج کیا جا چکا ہے لکن حکومت کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی۔اور اس غفلت کا زمہ دار کسی حد تک حاضر ڈسی جامشوروں بھی ہے جو اس وقت تک اس فلٹر پلانٹ پر حکومت کی تواجہ لانے میں ناکام رہے ہیں ۔حکومت کو چایئے کہ اس پر فوری اکشن لے کر اس مشینری کو فوری استعمال کرنے کے احکامات جاری کرے تاکہ کوٹری کی عوام کو صاف پانی پینے سے فائدا اُٹھا سکے ۔

رافع خان, فیچر corrected

corrected  Fetaure is always reporting based
فیچر    رافع خان
خواتین میں حجاب کا بڑھتا ہوا رجحان
گزشتہ چند عرصے سے خواتین میں حجاب کا رجحان عام دکھائی دے رہا ہے۔بڑھتی ہوئی تعداد میں لڑکیاں اسے ضرورت اور فیشن سمجھہ رہی ہیں ۔ پہلے جہاں خواتین برقعے میں اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی تھیں اب وہاں آج کل برقعے سے زیادہ حجاب کو ترجیح دی جارہی ہے اور اس کا رجحان تیزی سے پروان چڑھتا دکھائی دے رہا ہے۔ حجاب اور عبائیہ کو اب صرف شادی شداہ یا گھریلو خواتین ہی نہیں بلکہ نوجوان لڑکیاں بھی بطور فیشن پہن رہی ہیں۔ حجاب کو عورت کا فطری حسن بھی کہا جا سکتا ہے۔

مارکیٹ میں ہر روز نت نئے انداز کے حجاب متعارف کرائے جا رہے ہیں جو کہ جدید ڈیزائن کے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے یہ حجاب عورتوں اور لڑکیوں کی توجہ کا مرکز بنے دکھائی دیتے ہیں۔آج کل بہت سے اسکول،کالج اور یونیورسٹی کی لڑکیوں نے حجاب کو اپنایا ہوا ہے۔ اکثر اسکول کالج اور یونیورسٹی کی لڑکیاں حجاب ،اسکارف میں نظر آتی ہیں۔حجاب کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ دوپٹے کی ضرورت پوری کر دیتا ہے۔
حجاب اور عبائیہ کا ایک دوسرے سے تعلق یہ ہے کہ پہلے عبائیہ کا فیشن خواتین ،لڑکیوں میں مقبول ہوا پہر حجاب کی اہمیت بڑھی مگر اب حجاب کو پردے کے ساتھ ساتھ فیشن کا بھی حصہ بنا لیا ہے۔جہاں زماے کے دوسرے شعبہ ہاے زندگی میں تبدیلی ظاہر ہو رہی ہے ایسے ہی حجاب اوڑھنے کے ڈھنگ میں بھی تبدیلی دکھائی دے رہی ہے، پہلے خواتین فینسی گوٹے کناری والی چیزوں سے اپنے آپ کو ڈھک لیا کرتی تھیں مگر آج کل خواتین نے حجاب کو اپنایا ہوا ہے۔

ہر خطے اور علاقے کے لحاظ سے حجاب اوڑھنے کا طریقہ الگ الگ ہے مگر ان کا مقصد صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے پردہ۔جامعہ سندہ کی طلبہ کا یہ کہنا ہے کہ حجاب کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ روز روز طرح طرح کے کپڑوں کی جھنجٹ سے چہٹکارا مل گیا، اور یے حجاب،عبائیہ یا اسکارف کو بطور فیشن استعمال کر رہی ہیں۔ روبی نامی خاتون کا یہ کہنا ہے کہ بازار جانا ہو یا کہیں اور وہ ڈیزائنر ڈریسز سے زیادہ حجاب کو ترجیح دیتی ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حجاب کو اپنانے سے ان کا خاصہ وقت بچ جاتا ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کپڑے استری کیے بغیر اپنا وقت بچاسکتی ہیں اور حجاب سے اپنے آپ کو ڈھک کر باآسانی کہیں بھی جا سکتی ہیں۔

خواتین نے فیشن کے طور پر اور اپنی آسانی کے لیے بھی حجاب کو اپنایا ہو ہے۔خواتیں کی کثیر تعداد بازاروں میں حجاب پہنے دکھائی دیتی ہیں جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ حجاب کے ہوتے ہوے کسی لڑکی یا خاتون کو مہنگے یا عمدہ جوڑے کی ضرورت نہیں ہوتی اسی لیے حجاب کا بڑھتا ہوا رجحان دکھائی دیتا ہے۔
ناہد نامی خاتون کے مطابق بجلی نہ ہونے کی صورت میں حجاب ان کا باخوبی ساتھ دیتا ہے اکثر کسی ایمرجنسی صورتحال میں جب بجلی موجود نہیں ہوتی اور ان کے عمدہ اور خاص جوڑے استری نہیں ہوئے ہوتے تو یہ عبایۂ اور اسکارف کو اپنا لباس بنا لیتی ہیں۔ جامعہ سندھ کے شعبہ میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کی طلبہ سائرہ ناصر کے مطابق اس کے دو پہلو ہیں ایک یہ کہ شرعی پردہ جو اسلام میں ہے اور دوسرا حُسن کو بچانے کے لیے پردہ، زیادہ تر آج کل حُسن کو بچانے کے لیے پردہ عروج پر ہے جس کے لیے نت نئے انداز والے برقعے بازار میں متعارف کرائے جا رہے ہیں۔

اسلام کے نقطہ نظر سے پردہ اور حجاب عورت کو تقدس ہی نہیں بلکہ تحفظ بھی فراہم کرتا ہے
 لیکن آج کل اتنے چست برقعے پہنے جاتے ہیں کہ اندازہ لگانا مشکل ہو جاتا ہے کہ یہ خود کو بری نگاہوں سے بچانے کے لیے پہنے ہیں یا لوگوں سے تعریفیں سنے کرنے کے لیے۔

حیدرآباد کے مختلف مقامات پر حجاب ، برقعے، اسکارف اور عبایۂ کی خریدوفروغت کی جاتی ہے۔لطیف آباد نمبر آٹھ میں کڑہائی والے برقعے اور نئے نئے ڈیزائن کے برقعوں کے درمیان ریس چل رہی ہے جن کی قیمت تقریبا دو ہزار تک ہے ۔ حیدرآباد کا مشہور ریشم بازار کی بتاشا گلی میں خاص طور پر فرمایئشی برقعے تیار کیے جاتے ہیں۔چاندنی بازار میں جویریہ عبایۂ ایک ایسی واحد دکان ہے جس میں صرف اور صرف عبایۂ،برقعے اور اسکارف فروغت کیے جاتے ہیں۔ اس دکان کے مینیجر کے مطابق انکی دکان میں مختلف قسم اور مختلف ڈیزائن کے برقعے اور عبایۂ حجاب کے لیے دستیاب ہیں جن کی قیمت آٹھ سو سے لے کر آٹھ ہزار تک ہے۔

حجاب نہ صرف مسلمان خواتین بطور پردہ استمعال کرتی ہیں بلکہ ہر مزہب، ہر رنگ و نسل کی خواتین اسے فیشن کے طور پر ترجیح دے رہی ہیں۔بعض خواتین حجاب اپنے رنگ کو دھوپ اور آلودگی سے بچانے کے لیے بھی استعمال کر رہی ہیں۔
نام:محمد رافع خان
کلاس: بی ایس پارٹ ۳
رول نمبر:2k14/Mc/140


Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh

رکشہ ٹرانسپورٹ کے مسائل - سائرہ ناصر آرٹیکل

Proof and spelling mistakes. Where? in pakistan? Karachi, Hyd? etc  Number of rikshaw, ? being replaced by chung chee
Saira Nasir
رکشہ ٹرانسپورٹ کے مسائل


نام : سائرہ ناصر
رول نمبر : BS III 2K14/MC/84
کٹیگری : آرٹیکل


اکثر ہم اپنے اردگرد بہت سی ایسی چیزوں کو دیکھتے ہیں جو وiسے تو لا یعنی دکھائی دیتی ہیں ۔ لیکن اپنے اندر بہت سے حقیقتیں پہناں کیے ہوتی ہیں ۔ ہمارے معاشرے میں ہر طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اللہ کی ذات بہت نوازتی ہے دولت، شہرت اور عزت عطا کرتی ہے ۔ ذاتی املاک آنے جانے اور سفر کرنے کیلیے زاتی سواریاں بھی ان کے پاس ہوتی ہیں ایسے لوگوں کو صاحب ثروت یا صاحب حیثیت لوگ کہا جاتا ہے ۔ اس کے بعد اک اور طبقہ جو پبلک ٹرانسپورٹ اور دیگر ذرائع ستعمال کرتا ہے ۔ اس کی وجہ طاہر ہے ذاتی سواری کا نا ہونا ہے س لیے لوگ یہ ذرائع استعمال کرتے ہیں ۔ ملک کی بیشتر آبادی متوسط طبقے پر مشتمل ہے ۔ اسلیے ٹرانسپورٹ کا استعمال ذیادہ ہے ۔س ٹرانسپورٹ میں مختلف سواریاں جن میں بسیں، تنگے اور رکشہ ۔ رکشہ کا کردار بھی ہمارے معاشرے میں بہت اہم نظر آتاہے چونکہ یہ ایک نجی سوری ہے ۔ جس کو لوگ اپنی مرضی کی جگہوں پر لے جانے کیلیے استعمال کرتے ہیں رکشہ تقریباً ہر جگہ ہی دستیاب ہوتا ہے ۔ایسے لوگ جن کو کہیں جلدی پہنچنا ہوتا ہے ۔ اور ان کے پاس ذاتی سواری نہ ہو تو وہ اس سے استفادہ کرتے ہیں ۔

ہر گلی ، کوچے ، راستے پر باآسانی سے ملنے والی سواری رکشہ ، جو کہ آسانی سے چار سے پانچ افراد کے ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کیلیے باکفایت ہے ۔ ابتدائی زمانے میں رکشہ مشینی قوت سے نہیں بلکہ انسانی قوت سے چلنے والی سائیکل تھی جو کہ مغربی ممالک سے پزیرائی حاصل کرتے ہوئے مشرق میں آئی ۔ اور پاکستانی گورنمنٹ نے اسے قانونی اجازت 1960 میں دی ۔ مگر انسانی قوت سے چلنے والے اس رکشے میں ڈرائیور کے لیے پریشانی تھی بوڑھے ، کمزورڈرائیور کے لیے اس سواری کو کھینچنا مشکل ہوتا تھا ۔ اور پھر ہوا یوں کہ جلد ہی مشینی رکشے ہر جگہ غالب آگئے ۔ پاکستان میں چلنے والے رکشے جاپانی کمپنی ڈائی ہاٹسومیڈگیٹ کے تھے ۔ پھر بعد میں پاکستان میں بھی رکشے بننے لگے اور شہر لاہور سب سے بڑا پروڈیوسر بنا ۔

رکشہ جہاں ایک مفید سواری ہے وہیں اس کے چند مسائل بھی ہی وہ یہ ہیں کہ اپنی بلند اور کرخت آواز کے سبب ناپسند کیا جاتا ہے اور ماہرین ماحولیات کے مطابق ماحولیاتی آلودگی کا باعث بھی بنتا ہے ۔کیونکہ اس سے نکلنے والا دھواں بہت خطرناک ہے ۔ پھر 2015 میں پاکستان میں سی -این -جی CNG یعنی گیس سے چلنے والے رکشے متعارف کروائے گئے ۔جو نا صرف ماحول کیلیے اچھے تھے بلکہ جگہ کی مناسبت سے بھی اچھے تھے ۔ سائز میں بڑے تھے اور کم خرچ بھی کیونکہ گیس سستی ہے ۔ حیرت اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ جس جگہ اس کے جانے سے لوگوں کو تکلیف ہو سکتی ہے وہیں اس کی موجودگی سب سے زیادہ ہوتی ہے اور وہ جگہ ہے ہسپتال ۔ ہسپتالوں کے باہر ان کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے ۔ 

ایسی سواری جس کا استعمال دن با دن ضرورت بنتی جا رہی ہو ۔ اسکی فراہمی میں آسانیاں پیدا کی جاتی ہیں ۔ لیکن پاکستان میں الٹی گنگا بہتی ہے ۔ یہاں سدھراؤ کی بجائے معاملات کو تشویشناک بنایا جاتا ہے ۔ غیراخلاقی زندگی جینا تو مانو یہاں کی بیشتر آبادی کا مشغلہ ہے ۔ اب بھتہ مافیا کی ہی بات کر لیجئے ۔ حلال کی کمائی پر ایک کالا دھبا ہے ۔ اب یہ کہنے میں بھی کیسا مضا ئقہ کہ جیسے حکمران ویسی ہی عوام ۔ جنگل راج زندہ باد ہے ۔ اندھیری نگری چوپٹ راج ہے ۔ ہر طاقتور اپنے سے نیچے والے کو دبا کے اپنا الّو سیدھا کرتا ہے ۔ ر کشہ ٹرانسپورٹ ہر ایک کی پہنچ کے مطابق قابل متحمل ہے ۔ اس کی سب سے بڑی خاصیت یہ بھی ہے کہہر جگہ باآسانی مل جاتا ہے ۔ رکشہ اسٹینڈز جگہ جگہ لوگوں کی آسانی کیلیے بنے ہوئے ہیں ۔ لیکن وہاں بھی رکشہ لگانے کا بھتا دینا پڑتا ہے رکشہ ڈرائیورز کو ۔ خاص کر حیدرآباد میں ریشم گلی اور صدر کے علاقے میں ۔

حیدرآباد شہر میں ٹریفک حادثات کی وجہ ڈرائیوروں کی لاپرواہی اور تیز رفتاری ہے ۔ جانے کب ہونگے کم ، اس دنیا کے غم انسانی جان پاکستان میں جتنی بے مول ہے اس کو بیان کرنا گویا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے مترادف ہے ۔ ایسی لا تعداد مثالیں روز حیدرآباد کی سڑکوں پر دیکھنے کو ملتی ہیں جب رکشہ ڈرائیورز دیگر گاڑیوں کو اوور ٹیک کرنے کے ساتھ غلط یو ٹرن اور قانون کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں ۔ او ر نتیجہ میں قیمتی جانیں لقمہ اجل بن جاتی ہیں ۔ اسکی اہم وجہ بنا لائسنس کے گاڑے چلانا ہے ۔ نو فٹنس کے رکشہ ہیں ۔ اگر رکشہْ ڈرائیور کو پکڑ بھی لیا جائے تو وہ پولیس والے کو چائے پانی کی بخشش دے کرفرار ہو جاتا ہے ۔ بغیر رجسٹرڈ رکشے بھی چل رہے ہیں۔ مختصر یہ کہ پیٹ کی آگ بجھانے کیلیے ہر ایک اپنے قانون پرعمل درآمد کرتے ہوئے روزی کمانے پر مجبور ہے ۔ اب یہ حکومت کا فرض بنتا ہے کہ رکشے جیسے سواری کی پرسان حالت پر توجہ دے اور اور بہتر پالیسیز متعارف کروائے جو ہر ایک کے حق میں بہتر ثابت
ہو ۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh

ریڈیو پاکستان سمعئیہ کنول,فيچر,

plz discuss

سمعئیہ کنول
رول نمبر 95
اردو فیچر

ریڈیو پاکستان
موسیقی روح کی غذا ہے، یہ جملہ با اثر ہونے کے ساتھ ہر خاص و عام میں اہمیت کا حامل ہے۔موسیقی تمام افراد کی زندگیوں کا ایسا اہم حصہ ہے جو ان کی زندگی میں ہونے والے اتُار چڑھاؤ کی عکاسی کرتا ہے۔دنیائے موسیقی میں پاکستان اپنی مثال آپ بنائے ہوئے ہے۔کوئی غزل ہو یا قوالی ،گیت ہو یا صوفیانہ کلام، کلاسیکل ہو یا سیمی کلاسیکل پاکستان کے گلوکار اپنی صلاحیتوں سے بین لاقوامی سطح پرپزیرائی حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔


14اگست 1947کو ریڈیو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد سے ہی ریڈیو پاکستان نے موسیقی کو اہم مقام دیا، اس کی اہمیت کی وجہ لوگوں کی پسندیدگی اورموسیقی سے لگاؤکو کہا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے دنیائے موسیقی میں ایسے ناموں کو متعارف کروایا جن کا کوئی مد مقابل نہیں ۔ ان ناموں میں کلاسیکل میں استاد فتح علی خان، صوفیانہ کلام میں عابدہ پروین اور غزل گائیکی میں شفیع وارثی کا نام کسی تعرف کا محتاج نہیں۔ان تمام بڑے ناموں کے بعد سلسلہ ختم نہیں ہوا، بلکہ ان ہی لوگوں کے احباب اور شاگردوں نے بھی ریڈیو پاکستان حیدرآباد سے اپنا نام اور الگ مقام حاصل کیا ۔ گلوکاری ہو یاموسیقی کے آلے بجانے کا ہنرہو ریڈیو پاکستان حیدرآبادنے ہمیشہ سچے اور نئے ٹیلنٹ کومتعارف کروایا ہے۔ ایسے میں محمد جمن ، استاد سلطان لودھی، ذولفقار قریشی، استاد نظیر خان ، بلاول بیلجیم بینجو اور مبارک خان صاحب اور ان جیسے مزید نامی گرامی لوگ ریڈیو پاکستان حیدرآباد کا حصہ رہے ہیں اور ابھی بھی ہیں ۔یہ کہنا کسی طور غلط نہیں ہوگا

 کہ ریڈیو پاکستان حیدرآباد ایک ثقافتی ادارے کے طور اپنا کام سر انجام دے رہا ہے۔
ریڈیو پاکستان حیدرآباد کو یہ رتبہ حاصل ہے کہ بیسویں صدی ہو یا اکیسویں صدی ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے ہر دور میں نئے ٹیلنٹ کوتلاش کیا، پروموٹ بھی کیا اور ایک معیاری پلیٹ فارم ہونے کا بھر پور حق ادا کیا ۔موسیقی کی مختلف اقسام کے ساتھ ساتھ مختلف زبانوں میں تفریق کئے بغیر موسیقی کو نشر کیا۔ ان زبانوں میں سندھی ، اردو، تھری، بلوچی اور سرائیکی زبان میں موسیقی سر فہرست ہیں۔ آج کے اس جدید دور میں مختلف پلیٹ فارم ہونے کے باوجود ریڈیو پاکستان حیدرآباد کی ساخت میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اگر دیکھا جائے تو بیسویں صدی میں ریڈیو پاکستان اورPTVکے علاوہ موسیقی یا کسی بھی طرح کے ٹیلنٹ کو متعارف کروانے کا کوئی زریعہ موجود نہ تھا تو لوگ زیادہ تر ریڈیو پاکستان کو ترجیح دیا کرتے تھے، مگر آج کے دور میں مختلف پلیٹ فارمز ہونے کے علاوہ بہت سے TVچینلزبھی موجود ہیں مگر پھر بھی ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے حمیرا چنا، مائی ڈھائی اور صنم ماروی جیسے آج کل مشہور ہوتے ناموں کو متعارف کروایا جو آج اپنی آواز کا جادو مختلف چینلز اورپروگرامز میں بکھیرتی نظر آرہی ہیں۔


غزل گائیکی ہو یا کلاسیکل یا پھر سیمی کلاسیکل ، گیت لکھنا ہو یا گیت گانا ہو ریڈیو پاکستان حیدرآبادکے متعارف کروائے جانے والے ٹیلنٹ کا کوئی ثانی نہیں ۔ چند ماہ پہلے ہی ریڈیو پاکستان حیدرآباد نے ریڈیو پاکستان پر ہونے والے موسیقی کے مقابلے آواز پاکستان میں نئے موسیقاروں کوآگے بڑھنے کا موقع فراہم کیا، جس میں حیدرآباد لیول پر جیتنے والی گلوکارہ کو اسلام آباد سیمی فائینل کے لئے بھیجا گیا۔ اسی طرح ریڈیو پاکستان حیدرآباد نئے لوگوں کے لکھے ہوئے گیت بھی متعارف کروانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔


ریڈیو پاکستان حیدرآباد ہر دور میں ہر دل عزیز اورحیدرآباد کے لوگوں کی اول ترجیح رہا ہے، اور اگر آگے بھی ایسے ہی کام کرتا رہا توپاکستان کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سطح پر مزید نئے نام اور نئے باب رقم کرتا چلا جائے گا۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh

سجاد علی,فیچر corrected

Corrected
منگھو پیر
سجاد علی
ؓB.S III
رول نمبر Mc/2k14/163:
فیچر



سندھ جو کے اعظیم سوفی بزرگ اور اولیاوں کی واجہ سے کافی شہرت اور مقبولیت کی حامل ہے ۔جن میں شاھ عبدللطیف بھٹائی ، لال شہباز قلندر ،عبدللہ شاھ غازی ،سچل سرمست،سخی عبدوھاب شاھ ،شاھ نورانی،اور کراچی کے مشہور بزرگ بھی شامل ہیں لکن اگر بات کی جا ئے قدرتی کرامت کے ہوالے سے تو منگھو پیر سب کی زبانوں کی زینت بن جاتے ہیں ،

منگھو پیر جو کے قدرتی کرامتی چشمے اور مگرمچھوں کی وجہ سے زیادہ مقبولیت رکھتے ہیں اس کرامات کے حوالے سے لوگوں کا عقیدہ تو اپنی جگہ لکن سائینس بھی زائرین کے عقیدہ کی روقاوٹ بن رہی ہے ۔یہاں کے زائرین کا ماننا ہے کہ منگھو پیرکے عقب میں واقعہ قدرتی چشمہ ہے جس میں سے کراماتی پانی بہتا رہتا ہے۔ ایسے منگھو پیر میں�آٹھ چشمہ موجود ہیں۔ اور اس میں کچھ ٹھنڈے پانی کے اور کچھ گرم پانی کے چشمے ہیں عبدلمالک رند(خدمت گار )کا کہنا ہے کہ اس میں ایک گرم پانی کا چشمہ ہے جسے ماماآباد چشمہ کہا جاتا ہے ۔جس کا درجہ حرارت تقریباْ اُبلتے پانی جیسا ہے لکن اس پانی کے دو مگے ڈالنے کہ بعد اس پانی کی تعسیر سے ٹھنڈ لگنے لگتی ہے ۔حنیف کھوسہ ( زائرین ) کا کہنا تھا کہ اس پانی کی تعسیر حقیقت میں نہانے کے بعد ٹھنڈی ہوجاتی ہے جو کہ کسی معجزہ سے کم نہیں ہے ۔ نہانے سے جلد کی کئی بیماریوں سے نجاعت ملتی ہے اور اس پانی میں نہانے کی قیمت صرف بیس روپے ہے جس میں دس منٹ تک نہا یا جاسکتا ہے ایک دن میں تقریباْسو سے زائد لوگ روزانہ کی تعداد میں آتے ہیں اور بیماری سے نجاعت حاصل کر کے جاتے ہیں ۔لکن دوسری طرف ڈاکٹر نجم جو کے اسکن سپیشلسٹ ہیں ان کا مننا ہے کہ یہ کوئی کرامتی پانی نہیں بلکہ یہ پانی بارش کے برسنے کی وجہ سے ہے۔ منگھو پیر پہاڑی علاقہ میں ہونے کی وجہ سے یہ بارش کا پانی پہاڑوں میں جما ہو جاتا ہے اور اس کے بعد زلزلہ آنے کی وجہ سے پہاڑوں میں دارار پڑنے کی وجہ سے پانی بہنے لگتا ہے ۔مزید ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک پانی گرم ہونے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان پہاڑوں میں (لیم اسٹون) بھی موجودہے جس کی وجہ سیپانی کا درجہ ہرارت تبدیل ہو جاتا ہے اور رہی بات جلد کی بیماریوں کا ٹھیک ہونا تو ان پہاڑوں میں(سلفر )بھی موجود ہے جو کہ عام طور پر اسکن جیل میں استعمال کیا جاتا ہے جسے لوگ کرامت مان رہے ہیں ۔


منگھو پیر کا اصل نام حضرت بابا سلطان شاھ ہے اور یہ علاقہ منگھو کے نام سے مشہور ہے اس کی وجہ سے انہیں منگھو پیر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ان کی پیدائش 1162میں ہوئی اور ان کی وفات 1252 میں ہوئی ۔ اس مزار سے منسلک بات جو کے مگرمچھو کے ہوالے سے کافی دلچسپ ہے کہ منگھو پیر کے ایہاتے میں ایک تالاب وقعہ ہے جہاں سو سے زائد مگر مچھ ہیں مزید مگرمچھ کے رکھوالے سجاد علی نے بتایا کے ہم اپنے باپ داداوں سے ہی ان مگرمچھوں کی خدمت میں مشغول ہیں زائرین انہیں دیکھنے آتے ہیں اور نظرانہ کے طور پر کچھ پیسے دی کر جاتے ہیں جسے ہم ان مگرمچھوں کے لئے گوشت خریدتے ہیں بابا منگھو پیر کی مننے والوں کا کہنا ہے کہ یہ مگرمچھ بابا منگھو پیرکی ساتھی بزرگ ہیں۔ چند لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ یہ بابا کی جوئیں ہے ۔جب بابا منگھو پیر کہ سر پر جوئیں پڑی تو انہیں کھوجلی ہونے لگی پھر انہوں نے اپنا پیرزمین پر مارا تویہ چشمہ وجود میں آیااور جوئیں مگرمچھو میں تبدیل ہو گئی لکن ماہرین کا کہنا ہے کئی سو سال پہلے منگھوپیر سے حب( ندی) بہتی تھی جب ندی نے روخ موڑا تو یہ مگرمچھ یہی رہ گئے اور ان کی نسلیں آج تک جاری ہے ۔مزید گل حسن کلمتی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ بزرگ سلطان منگھو ،حضرت فرید گنج شکر اور قلندر شہباز کہ دائراہ احبابوں میں شامل ہے اور مزید لکھتے ہیں کہ جب لال شہباز قلندر حضرت بابا منگھوکے پاس ائے تو انہوں نے مگرمچوں کی سیر کی ،دوسری روایت ہے کہ منگھو بابا نے اس ندی میں پھول پھینکے تو وہ مگر مچ بن گئے حضرت بابامنگھو پیر کا سالانہ عرس نو زوالحج کو عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے جس میں لوگ ہزاروں کی تعداد میں پورے پاکستان سے شرکت کرتے ہیں۔

حور لائیبہ, آرٹیکل


Article: Chamber of Small Traders and Small Industry
By: Hoor-e-Laiba
Roll # : 2k14/mc/172
حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری ۔

حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری یہ 2016میں قائم ہوا ۔ یہ ادارہ صدر حیدرآباد میں واقع ہے۔ حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے صدر کا نام محمد اکرم انصاری ہے۔ سکندر علی راجپور یہاں کے نائب صدر ہیں۔ اس وقت اس ادارے میں تین سو ممبر ہیں ۔ اس ادارے میں تاجروں کے مسائل حل کئے جاتے ہیں۔ یہاں کے چیئرمین اپنے متعلقہ محکموں میں تاجروں کے مسائل حل کرتے ہیں۔ جیسے امن و امان سے متعلق ، واپڈا سے متعلق اور ٹیکسز سے متعلق۔ اس ادارے کی سب کمیٹی دس لوگوں پر مشتمل ہے۔
حیدرآباد چیمبر آف ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کا قیام ٹریڈ آرگنائزیشن ایکٹ مجریہ 2013ء کے تحت عمل میں آیا تھا۔ ٹریڈ آرگنائزیشن ایکٹ 2013 ء سے قبل ٹریڈ آرگنائزیشن آرڈیننس 1964 نافز العمل تھا۔ جس کے تحت تمام صنعت کار اور تاجر حضرات اس کے ممبر تھے جس میں بڑے اور چھوٹے کاروباری حضرات سب شامل تھے۔ لیکن حکومت پاکستان نے ٹریڈ آرگنائیزیشن آرڈیننس 1964 کو منسوخ کر کے اس کی جگہ تریڈ آرگنائیز یشن ایکٹ 2013ء جاری کیا جس کے تحت بڑے اور چھوٹے صنعت کاروں کے لئے الگ الگ چیمبر بنانے کی صراحت کی گئی ہے۔ اس میں جن صنعت کاروں اور تاجروں کا کاروباری ٹرن اوور سالانہ 5کروڑ روپے سے زیادہ ہے وہ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری جبکہ 5کروڑ تک کے کاروباری ٹرن اوور سالانہ رکھنے والے صنعت و تاجر حضرات چیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کی ممبر شپ حاصل کرسکتے ہیں۔
ٹریڈ آرگنائزیشن ایکٹ مجریہ 2013ء کے نفاد سے قبل تمام تاجر و صنعت کار ایوان صنعت و تجارت حیدرآباد ہی کے ممبر تھے۔ کیونکہ جھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے تاجروں اور صنعت کاروں کے لئے کوئی قواعد و ضوابط مرتب کروانے تھے اس لئے وہ مجبوراً وہاں ممبر بنتے تھے تا کہ ان کے مسائل حکومتی اور لوکل سطح پر حل ہوسکین۔ شروع میں تو بغیر کسی فریق کے تمام تاجروں اور صنعت کاروں کے مسائل حل ہو جایا کرتے تھے۔ لیکن آہستہ آہستہ ایلیٹ کلاس طبقہ ایوان حیدرآباد پر چھانے لگا۔ ان کو اپنے معاملات سے غرض تھی وہ چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والوں کی جانب کم ہی توجہ دیتے تھے جس سے ان لوگوں میں احساس محرومی پیدا ہوتا جارہا ہے۔ 

خوش قسمتی سے حکومتی سطح پر اس تفریق کو محسوس کیا گیا اور قانون سازی کے ذریعے ٹریڈ آرگنائزیشن ایکٹ 2013ء کا اجراء عمل میں آیا۔ جس کے تحت چھوٹے تاجر اور صنعت کار اپنے حقوق کی جدوجہد کرسکتے ہیں۔ لہذا سال ہا سال کے تلخ تجربات کی روشنی میں چھوٹے تاجروں اور صنعتکاروں نے مختلف اوقات میں سر جوڑ اور حیدرآباد جیمبر آف اسمال ٹریڈرز اینڈ اسمال انڈسٹری کے قیام کے لئے محمدکھتری کی قیادت سربرائی میں جدوجہد کا آغاز کیا اور ایوان صنعت و تجارت حیدرآباد کے سابق صدور محمد امین کھتری ، حاجی محمد یعقوب اور مسعود پرویز صحبان اور شفیق قریشی ، سلیم عمر نے سرپرستی اور مالی و اخلاقی مدد کی اس طرح اس جدوجہد کے نتیجہ میں وفاقی وزارت صنعت، حکومت پاکستان سے 2016ء کی تبداء میں باقاعدہ لائسنس حاصل کرلیا گیا۔ 

حیدرآباد چیمبر آف اسمال ٹریڈرز انڈ اسمال انڈسٹری کے فرائض میں وہ تمام فرائض ہیں جو ذمہ داریاں چیمبر آف کامرس کی ہیں جن میں صنعت کاروں اور تاجروں کو انتظامیہ سے متعلق در پیش تمام مسائل کا حل، ان کو انتظامیہ تک پہنچانا اور انہیں حل کرانا، مقامی صنعت و حرفت کو پروموٹ کرنا، مقامی انڈسٹری کی مصنوعات و ملکی اور غیر ملکی سطح پر متعارف کرانے کیلئے نمائیشوں میں شرکت کرنا، مالی اداروں اور بنکوں سے آسان شرائط پر قرض کے حصول کے لئے مدد فراہم کرنا وغیرہ شامل ہیں۔ چیمبر ممبر کی حیثیت سے تاجر حضرات کو غیر ملکی دوروں کے لئے چیمبر ممالک کے سفراء کو ویزاہ کے لئے سفارشی خطوط بھی ارسال کئے جاتے ہیں جن سے ویزاہ کے حصول میں آسانی ہوتی ہے۔ اس چیمبر کی ممبر شپ نہایت آسان ہے۔ نیشنل ٹیکس نمبر کا حاصل ہر تاجر اور صنعت کار بہت کم فیس بطور ممبر شپ جمع کرا کر اس کا ممبر بن سکتا ہے۔ یہ چیمبر صنعت کاروں اور تاجر برادری کا ایسا پلیٹ فارم ہے جس سے مشترکہ جدوجہد کے اپنے مسائل کو حل کرانا ممکن بن سکتا ہے۔

Practical work was carried out under supervision of Sir Sohail Sangi, at Media & Communication Department, University of Sindh

Tuesday, 23 August 2016

Mizna Profile - Eng


MIZNA RAISUDDIN
2K14/MC/156
PROFILE
MEDIUM: ENGLISH





Ahsan Qadeer Qureshi

Health and Safety Advisor Coordinator / Trainer / Motivational Speaker / Works for Samsung on a building division unit in Riyadh, Qualified for International Qualifications of NEBOSH UK, IOSH UK, HABC UK, OSHA USA


There is a wise saying that “The life will pay any price you wish for.” Ahsan is one of those lucky boys who turned his dreams into reality.

The story of a young child whose dreams were sky-high but his beginnings were very low. Ahsan’s passion had instantly injected a current of high-octane energy and anticipation in his spectators

This child’s dreams were as high as the K2, but his origins were more wretched than you could possibly imagine. He was the mid youngest among the 5 children of hardworking, committed visionary parents. His father, despite having no formal education, was a symbol of dedication, self-reliance, and perseverance. But to the world he was only an ordinary person.

He grew up in loving hands of his family as he was attentive to Hifz ul Qur’an in the age of 12. Normally the life of the peoples who been through Madrasah and all that in main part of their lives seamlessly aren’t able to challenge the society needs however in Ahsan’s turn it was completely different as he stride to continue his interests in advance English and computers with high level of creativity and initiative in inspiration. He always remains a position holder and considered as a passionate student in the class. There was a fire and passion burning in him to raise the living standards of his family.

As a young boy, he always was high in self-confidence, self-esteem and trust. He was shy, timid and withdrawn. Because of his deep-seated feelings of “What is going to happen next”

His dreams come true one day and he got his first job after for a US based company in Hyderabad after a voluntary work for a company and the recognized his potential and introduced his talent to the world. As time gone by he learned programs so quick and on the other hand he offered hands on support to his father who is currently running a small construction company and added value to the business in terms of site services like supervision, client handling, proposing AutoCAD based drawings and plans for residential and commercial project that also was made the big difference to the business. During this tenure he also expertise himself in laborer skills  of Site Layout, Demarcation Masonry, Installation of tiles, marbles and a pretty confident to build up the entire project on its own hands.

‘He tried his luck with people but it began to seem as if circumstances were conspiring against him. To those around him he gave the impression of being very motivated and with a burning desire to do something bigger, but deep down in his heart he was almost ready to throw in the towel. But every time he came close to the end, something inside him kept him going.’

As one of his key role within the business is to offer client satisfactions in one of his project an owner of project who was a Manager in KSA in Italian company he was inspired by his hard work and passions in a very young age of 19.

He cried under pillow many times and made long talks with Allah S.W.T that to hold my hand and never leave me alone and his appeal was heard.

He insisted Ahsan for USA based Qualification of OSHA abbreviated for “Occupational Health and Safety Administration” which is a remarkable course in Oil and Gas Projects across the globe

Ahsan later paid the course fees as on that time his budget never allowing himself to pay 50,000 PKR for 5 days Course

Furthermore Ahsan was surprisingly selected and offered by HSE Advisor from GASCO who was attending the same course with him and much excited to see Ahsan in field it was hard times for him to work in a desert with temp 50 Plus.

In the meantime he offered from a Job in KSA by the same client he used to offer his supports to for construction project and left the Job in GASCO and started working of International Oil and Gas companies as HSE Supervisor and promoted to Advisor within a month time

From beginnings of despair and hopelessness, with no resources, money at all, won through to one of the most innovative Management and Constriction Company Samsung C&T in building division unit with total revenue of $305 Billion US dollar. The company treats its employees to a Royal life.

He offered Trainings to more than 36,000 peoples during his tenure that are covered by Chemistry, Physics, Biology, Engineering, Psychology, Sociology and International Health and Safety Legislation. During his tenure he continued to qualify himself from internationally recognized standards like OHSAS 1800:2007, NEBOSH, IOSH that are UK based Qualification and OSHA which is an American based Qualification.

Ahsan is presently working in Riyadh Saudi Arabia and offered to work for Samsung in Singapore and UAE for their future projects so he has to select one of these.

His Good Habits Are:
He is proactive and loves to play Sudoku game from newspaper everyday with Italian coffee

He is passionate for volunteering himself for research and business and motivational support to the youth

His worst habits are
Perfectionist
Palmistry


His Message for the youth has been hidden inside this quote:

“Everything you own is temporary, no one can steal from you, for nothing is yours to keep but everything is yours to give”

“Life is about creating yourself!!!

رميز فیچر

رميز
2k14/mc/79
Feature

ڍير ڌڻي بادشاه

سنڌ اندر انيڪ اهڙا تاريخي ماڳ، جڳهيون ۽ درگاهون موجود آهن جيڪي سنڌ جي هر شهر ۾ پهنجو وجود رکن ٿيون ۽ سنڌ اندر جتي ڪٿي ڪا نه ڪا اهڙي جڳھ ضرور آهي جيڪا شهر جي نالي سان مشهور هوندي آهي يا وري شهر انجي نالي سان مشهور هوندو آهي اهڙي ريت بدين ضلعو انهنن شين ۾ ته گھڻو پٺتي آهي پر درگاهن جي حوالي سان ڏسجي ته بدين اهو واحد ضلعو آهي جتي درگاهن ۽ بزرگن جو سلسلو هن ضلعي سان وابسطه ملي ٿو اهڙي پر منفرد ۽ انوکي درگاھ ڍير ڌڻي بادشاھ آهي جيڪا بدين شهر کان 16 ڪلوميٽر جي فاصلي تي آهي.
پري جا ماڻهو ته کڻي هن درگاھ تي پنهنجون مرادون کڻي ايندا آهن پر هتي جي ڳوٺ جي رهواسين لاءِ هي جڳھ هڪ بهترين ماڳ کان گهٽ ناهي ڇو ته هتي ماڻهو زيارت سان گڏ سير وتفريح به ڪري ويندا آهن ان جو سبب اهو ئي آهي ته اها درگاھ خوبصورتي جو هڪ اعليٰ مثال آهي ڇو جو ان جي مرمت انتهائي سٺي انداز ۾ ٿيل آهي ۽ وڻ ٻوٽا به پوکيل آهن جيڪي هن درگاھ جي نظاري کي خوبصورت بڻائڻ ۾ ڪا به ڪثر نٿا ڇڏين.
هن درگاھ جو تاريخي پسمنظر ڏسجي ته معلوم ٿيندو ته هن درگاھ جو باني ڍير ڌڻي بادشاھ عرف عبدالطيف جيڪي سنڌ جي مشهور نقشبندي سلسلي جي ولي حضرت خوجه محمد زمان جا والد آهن هي درگاھ 300 سال پراڻي آهي اتي جي بزرگن جو چوڻ هو ته ڍير ڌڻي بادشاھ وصيعت ڪئي هئي ته هن جي قبر کي پڪو نه ڪيو وڃي پر صرف هڪ مٽي جي ڍير وانگر رکيو وڃي ۽ ان تي مٽي جو جھوليون وجهجو .
اتي جي ماڻهن جو ايمان آهي ته هن فقير جي تربت تي جھوليون وجھڻ سان اسان جي دل جون مرادون پوريون ٿين ٿيونان جي ڪري اهي ست جھوليون مٽي جون کڻي قبر تي لاهيندا آهن ۽ پوءِ دعا گھرندا آهن جنهن جي ڪري پري پري کان ماڻهو پهنجون مرادون کڻي ايندا آهن ۽ گڏو گڏ اهي ان خوبصورت جڙيل درگاھ کي ڏسي لطف اندوز به ٿيندا آهن .
لواري شريف جا ماڻهو خوشين جي موقعي تي پارڪ يا گهمڻ وارين جڳهن تي نه پر ڍير ڌڻي بادشاھ تي ايندا آهن جتي ٻيا ماڻهو عيدن يا ڏيهاڙن تي پارڪ يا ميوزيم ڏسڻ ويندا آهن اتي لواري جا ماڻهو ڍير ڌڻي ويندا آهن ۽ اهو ئي انهن جو ماڳ آهي سندن چوڻ آهي ته هي درگاھ اسان کي گهمڻ سان گڏ پهنجي زيارت به ڪرائي ٿي ۽ هتي اسان کي گهمڻ سان دلي سڪون ملي ٿو اهو ئي سبب آهي ته اسان عيدن ۽ ڏيهاڙن تي ڍير ڌڻي بادشاھ ايندا آهيون ۽ زيارت سان گڏوگڏ تفريح به ٿي ويندي آهي ان حوالي سان بدين جي اها واحد درگاھ آهي جتي ماڻهو سال جا 12 مهينا ايندو رهي ٿو ۽ صرف زيارت نه پر گهمڻ ۽ تفريح ڪرڻ ۾ به هتي جي ماڻهن ۾ هن درگاھ جو نالو سڀ کان پهرين زبان تي ايندو آهي .
ڍير ڌڻي بادشاھ درگاھ بابت ماڻهن جو چوڻ آهي ته هن درگاھ تيير ڌني نالو ئي مٽي جي ڍير ڪري پيو آهي ڇو جو هڪ ته سندس وصيعت هئي ته قبر مٿان ڍير قائم هجي ۽ ٻيو ماڻهن جي مرادون ست جھوليون وجھي وجھي هڪ وڏو ڍير ڪري ڇڏيو آهي تنهن ڪري ان تي ڍير ڌڻي بادشاھ نالو پئجي ويو آهي ان جو مطلب ته مٽي جي ڍير يا دڙي جو بادشاھ.
ڍير ڌڻي بادشاھ لواري شريف ۾ پهنجي انوکي حيثيت سان قائم آهي جنهن ۾ تاريخ جي گهري جهلڪ ملي ٿي ۽ ان جي دلچسپي غور ڪرڻ تي مجبور ڪري ٿي ۽ ٻيو آهو ته هتي ۽ آس پاس جا ماڻهو هن جڳھ جو چڪر لڳائيندا آهن جيڪا پڻ هڪ خاص ڳالھ آهي ۽ ان سان گڏو گڏ هن درگاھ جا مريد تمام گھڻي توجه ڏيندا آهن ايتري قدر جو هن کي خاص درگاھ بنائڻ ۾ ڪا به ڪثر نه ڇڏي اٿن ڪڏهن ڪڏهن ته هي هن دگاھ جي لاءِ پهنجو ذاتي خرچ به ڪري ڇڏيندا آهن انهن جو چوڻ آهي ته اسان کي پهنجي مرشد سان سچي دل سان پيار آهي ۽ اسان ان جي درگاھ کي چمڪائڻ ۾ نه ڪا ڪثر ڇڏي آهي نه ڇڏينداسين.

هن درگاھ جي هڪ ته خاص ڳالھ اها آهي جو اتي ٻوٽا ۽ وڻ ٽڻ وڏي دل خوش انداز سان لڳل آهن جيڪي هن درگاھ جي سونهن بڻيل آهن ۽ ٻيو وري هن درگاھ جي سامهون سم واھ آهي جيڪا هن درگاھ جي سونهن ٻيڻي ڪري ڇڏيندي آهي زيارت کان پوءِ ماڻهو اڪثر سم به گهمي ايندا آهن . هي جڳھ اڃا به وڌيڪ خوبصورت تڏهن  لڳندي آهي جڏهن بارش جي موسم هوندي آهي ۽ جڏهن هن تي پاڻي پوندو آهي وڻ ٽڻ ٻُٽآ مهڪي پوندا آهن ته پوءِ هن درگاھ جي سونهن ايتري قدر دلڪش ٿي ويندي آهي جو اتي جا رهواسي بارش جي موسم ۾ هن کي ڏٺي بغير رهي نه سگهندا آهن.  

Monday, 22 August 2016

feature by Hammad Zubair

Only proper noun is capitalised, not words like Skill ,  Educated etc            
HAMMAD ZUBAIR KHAN
                     2K14/MC/30
                      FEATURE
               ENGLISH MEDIUM

  Who has luxurious life in this Era?
     Educated or Skillful people!!!                       
                                                                              
     The 21st century, the century of modern technology, where we can communicate to each other without having walkie talkies. The King century of all centuries for technologies like mobile phones, 3D projectors, whatsapp e.tc from which we can communicate without having problems. The dispute is who discovered these inventions Educated people or Skillful people? Education is the weapon from where we get informed about world and its things but Skill is the working material of that information which we get from Education. If we see towards china then every technology is being invented there nowadays, another question arises here Chinese people are more Educated or Skillful? People of China say that we are the biggest marketers in the world and we will close every market by launching our product and the lock which will be used to close of every market, will be of China. The market has changed drastically for skilled people. There is a growing demand for skills, particularly specialized skills. Skillful people require additional skills or education. Very highly skillful people may fall under the category of professionals, such as doctors and lawyers, and in the low category there are electricians, computer operators, administrative assistants, law enforcement officers and financial technicians e.tc.
                

        In the human society, every person seeks the better job for better life and its style. Firstly, human tried to fulfill their basic necessities then they went ahead to luxurious life. Human used to live in the caves then they built houses of wood to live, now these houses have turned into stone-made houses. Human has also introduced the banglows and cottages for fat cats and for their fulfilling wishes of luxurious life. If we see towards luxuries, so there are many things in our daily life which must be transformed cheap to expensive like bike into car, house into banglow, salary paid in cheques and many more. Educated people keep their standard in luxury but it is hard to maintain. After many surveys Educated people are found 60% and skillful people are found 40% to spend luxurious life in this era. Educated people earn money with the sincerity of their profession as same as skillful people do, but sometimes skillful people want to earn much money for the sake of keeping their standard well, and in this matter they try everything to earn as good as they can whether it is koshar or inkoshar. Skillful people are called to be businessman in this era because after learning skills they go through to do their own businesses for the sake to earn better so they launch their businesses. They usually apply legal way to earn but sometimes they also apply illegal way to earn. Educated people have many ways to defeat their mistakes. They sometimes accept their mistakes on the time. Educated people know the beauty of world and from that thing they usually go on world tour but skillful people have less time to arrange these types of arrangements in their lives because of businesses of their job or business. Educated people have partial job to be done in their lives and they spend their time in surveying their or other countries situations. 

        
   Educated people have to study more in their childhood for becoming something in their future lives but (it is not decided that they will become Educated or Skillful in their lives) skillful people have much hardships from the beginning of their career till the end of their career. Educated people have less salary package to tackle their regular basis expenditures, whether they are earning well or less but skillful people have more chances to earn better from their jobs, businesses and other part time jobs. In businesses there are many chances to earn better but skillful people have to leave their relaxation time, siesta, sleeping at night, waking up late in morning and many more relaxations in their lives because they have come to know to live with luxuries, so they have to earn better. People of education promote sincerity, edicates, information about old things and the most important thing to be patriotic with their country. People of Pakistan are being known as educationist in their own fields like after clearing the most important CSS Exams they are posted to another countries of their own country’s embassy to promote their own country in better way but skillful people don’t get chance to present their own country because they don’t have degree to show but if they are talented so it is not also entertained to present their level on the international level because of not having degree. Education is most important in every field because Education is the weapon to tame firstly ourselves then world. Education is the key to face anything without losing the temperament.

Ghulam Asghar Khoso (Comedian) profile by Mahira Majid

Profile of Ghulam Asghar Khoso (Comedian)

By: Mahira Majid Ali

Class: BS-III

Roll no. 2k14/MC/155



Share smiles and never let your sorrows destroy others happiness- Asghar Khoso

Everyone in this world has aims and ambitions of life, some people live their life for themselves and some dedicate their life for the sake of others happiness. Living for own self is easy whereas, a life for others is more meaningful as well as difficult. Ghulam Asghar Khoso is a person with difficult but meaningful life.

Basically, Asghar belongs to Dadu’s middle-class family. His father died in 1995 and he left his studies after primary level due to their fiscal problems. He had three brothers, two sisters and a mother to take care of.

Khoso said, the only inspiration of my life is Moin Akhtar. From his very childhood, he used to make others happy through his deeds and jokes. He has also performed in stage dramas in his own village on rupees 5 or 10 contribution of inhabitants of the area. He told, once we were coming back from a program and some robbers looted us. We had just 2 bags, one with dholak and the other with money. We told them to give the dholak back because that is the only means of our food and income. So they returned our dholak. Not only in dramas, but Asghar has also worked in Nohas, Naats and funny songs.

He tried to work with Sindhi media and also made some videos but he says, that was the worse experience of my life because Sindhi media is defaming Sindhi culture by showing feudal system. So, I became rebel and started working on social media. My videos are on educational and current issues also they are against those Sindhi channels who are defaming our culture.

Khoso, a well-dressed man with black hairs, lampshade moustache and long height. His appearance does not indicate that he is illiterate. One of his friend, Bharat Akhani said that he has not dual personality. He acts same with his family and friends as well as on stage. He make others laugh through his genial jokes. Another friend of Asghar told that he is a kind, jolly and loving man but he is never on time. Whenever we plan to meet Asghar comes late or sometimes he even forget to come.

People love to invite him in marriage ceremonies and birthday parties for performance. He also attend different festivals of universities and colleges.  He specified, I am my own script-writer, I do not have team. I make videos on mobile and share them on social media. Once I was in my village, walking through the road, I saw a man on donkey and requested him to give me a ride. After convincing him, I sat on it and made a video on the spot. The dialogues were not scripted before and they were natural, that is one of my most watched video on YouTube having more than 49,570 views.

Asghar is a frank person but criticism is common everywhere. Many people criticize him. He told, once he was in a party, where government officers were present and he cracked a joke that people adore government jobs, houses and cars, while they abhor to send their child to government schools. All the officers became angry over him and said you are disgracing us. He told that in every program 80% people criticize me, while other 20% appreciate me. Many people dial my number intentionally and ask who is talking, I answer them Asghar Khoso, they laugh and say oh that Asghar Khoso who just make funny videos. People usually do not appreciate the art, they just mock over it.

When asked about any unfulfilled dream, he replied, it was my wholly dream to be educated which remained incomplete otherwise, all my wishes come true. When someone text me and I cannot reply them, at that time my heart weeps blood. I am unable to write posts on Facebook and I ask others to tell me what to write on the post. But I am not dishearten, my sons are getting education in school and I am focusing on their education and working for their better future. He said, I am not literate but a large number of students from schools, colleges and universities follow me on social media.

Those who make others laugh, also have many problems to face in their lives. Asghar got married with his second cousin and has two sons. His wife is paralysed. Whenever he goes to hospital for her check-up, people start asking him about his videos and request him to joke. People do not take others problems seriously. But Asghar never minds he says, everyone has problems in his life and making others happy in such a cruel, selfish and busy world is no doubt a difficult task, but I love to do so.  It is good to make others happy, it gives me pleasure and I forget about my problems by sharing smiles. I do not let my sorrows to destroy others glee.

----- --------  ----------         -----------     ------ ------
http://sindh-mass-com2k14-bs-iii-2nd.blogspot.com/2016/11/blog-post_96.html 

نجی اسکولوں کا بڑھتا رجحان       ماہرہ ماجد علی


anam feature

 Feature is always reporting based, with specific time and area etc. This falls in category of article. 
Feature: Working women of different classes
Medium : English
Anam Shaikh
BS-III
Roll# 07
 I’m no bird, and no net ensnares me, I am  a free human being with an independent will. ( CHARLOTTE)
Being a woman it is quite difficult to live and work in a male oriented society, like Pakistan.
Here status of women is far worse than men. Unfortunately, Pakistan  is not a country known for equality between men and women.
Here when a women travels to work she must still be ready for stares and rude remarks from strangers. Women have to faces hurdles and obstacles despite of their class differences.
A working woman is a woman whether she works as a domestic worker or she’s appointed as a white collar worker.
Today’s women are performing their role as doctor, teachers, lawyers, domestic worker , cotton picker and many other fields of life .
As far as the capabilities of women are concerned they are no less than men.
To know more about working women let’s discuss working women in categories of  lower class, middle class, and upper class.
Lower Class working women.
Women in this category include a cotton picker or a labour who works in agricultural fields . woman who works whole day under the burning beams of sun and earns half of a money as compare to a male labour.  another one is domestic worker who works as a dishwasher or a maid at others houses , there’s another trend of female domestic domestic workers in which young girls of age 7-16 or the adult ones pay their services 24/7 in elite families to earn their bread . they’re treated worse than dogs their master yell at them, beat them , throw dishes at them, kicked them out from their houses , doesn’t provide them food and clothes and shelters, sometimes deduct their salaries for minor offenses. They treat them like a garbage just because they are women they are weak who can’t take any stand against them. But still they are doing their job to feed their families
Women are working in various sectors including fisheries , small industries, livestock, cottage industries, home based labour etc.  most of these sectors aren’t  classified as formal labour sectors where labour laws apply and for same reason role of women in economy is mostly not appear in records. Women in our lower classes are to fight severe battles of survival, without them working their families cannot survive.  It is the economic constraint on them. When they come out to work , they’ve to face two fold miseries ; discrimination and limited opportunities . it goes to their credit and honor that they survive in these circumstances and provide for their families.
Middle Class working women.
Women in this category are white collar workers with comparatively smaller families. They are doctors, engineers, professors, lecturers, contractors etc. it is is the result of two decades that women from middle class families are actively taking part in increasing the economy of a country . they are educated and avail private health care . they send their children to private schools. They live comfortably than poor class, but are financially lower than upper class. Working women of this also have to face abusive language, taunting and sarcastic comments, physical harassment  etc in their work places.
Upper Class working women.
Upper class working women in Pakistan enjoy high social, economic and poltical status and they are privileged class people . these women have sense of superiority . mostly have their own business like interior designers, models, textile brands , HR managers , marketing managers etc, .
At present women are enjoying a good status in upper class. The first female speaker of national assembly is explicit  example. In art and entertainment sharmeen obaid chinnoy has received Oscar award for her documentary film ‘’ Saving face”.
Nevertheless women suffer in miserable problems .
 These problems may be social political and economical. A healthy and educated women can build a strong society . in many families women are restricted to get education , due to lack of education women failed to get their right and suffer in domestic violence.
Though working women in Pakistan face significant obstacles. But there’s now a critical mass of working women at all level showing the way to other Pakistani women . working women have a positive impact on society by investing her time , energy and money for better nutrition ,education and health care.
As women are progressing   and proving themselves in every walk of life, from working in agricultural fields to flying a jet nothing can stop women and there will be a time when society will accept her and will give her equal position and respect.

مزنہ رئیس الدین فیچر

plz do as discussed. 
مزنہ رئیس الدین
B.S III
رو ل نمبر: MC/156/2K15

کیٹگری : فیچر
پاکستان میں گدھوں کی کمی نہیں
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتاہے کی وقت کے ساتھ ساتھ انسان بھی بدلتا جارہاہے اور ساتھ ہی اسکا ایمان بھی بدلتا جارہاہے۔ یا پھریوں کہا جاسکتا ہے ک اس میں کوئی شک نہیں ک انسان بھی حیوان بنتا جارہاہے۔
ترقی کے اس دور میں پاکستان میںآج بھی ٹرانسپورٹ میں گدھوں کا استعمال کیا جاتاہے۔ فیڈرل گورنمنٹ کی رپورٹ کے مطابق 4.7 ملین گدھے اور گھوڑے پاکستان میں موجود ہیں جن کے ذریعے ذراعت، ریتی، بجری اور دیگر سامان کے لوڈنگ کے کام لیئے جاتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سال 2014 کے مقابلے میں اس سال گدھوں کی آبادی میں اضافہ ہوتاجارہاہے اور شاید یہ ہی وجہ ہے کے انسان کو بھی گدھوں کا گوشت کھلا کر گدھا بنایا جارہا ہے۔
لوگ آج کل انسان کو حیوان کھلارہے ہیں، کبھی برڈفلو والی مرغیاں تو کبھی کھوتا بریانی، جس کی وجہ سے معاشرے میں حیوان والے گدھوں سے زیادہ انسانی گدھوں میں اضافہ ہوتاجارہاہے۔ کھوتا بریانی کا وجود سب سے پہلے پاکستان کے شہر لاہو ر میں وجود میں آیا اور آہستہ آہستہ یہ رواج کراچی سے لیکر حیدرآباد تک پھیل گیا۔
حیدرآباد میں لطیف آباد یونٹ ۱۱ میں اکرم اور منگل نامی مشہور بریانی کے ٹھیلوں پر کھوتابریانی فروخت کی گئی۔ حیدرآباد بلدیہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ نے پولیس کی مدد سے چھاپہ مارا تو پتہ چلا کہ مضر صحت گوشت (گدھے کاگوشت) برآمد ہوا۔
اس مضر صحت گوشت کھانے کے باعث لوگوں کے خون میں تبدیلی آجاتی ہے اور انھیں الرجی جیسی بیماریوں کا سامنا کرنا پڑرہاہے۔ خون ٹیسٹ کے بعد پتہ چلتا ہے کل رات بیف نہیں کھوتا بریانی کھائی ہے۔
کبھی یہ بریانی تو کبھی وہ بریانی، جوجگہ جتنی ہو مشہور وہیں پڑتی ہے پولیس کی ریڈ۔
لوگوں نے ایمان تو جیسے بیچ کھایا ہے۔ جبہی گوشت فروختوں نے سوچ لیا ہے اور ان کاکہناہے کہ گدھے سے کمائی گئی کمائی حلال ہے تو پھر گوشت حرام کیوں؟
ؒ اللہ بھی اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جو خود بدلنے کی ہمت نہ کرے ۔ اگر ایسے ہی چلتا رہا اور گدھو ں کی آبادی میں اضافہ ہوتاگیا تو وہ دن دور نہیں جب گدھا بریانی مصالحہ بھی وجود میں آجائے گا۔
رپورٹ کے مطابق بازار میں جن دوکانوں کم قیمت میں گوشت فروخت کیاگیا، وہاں مضر صحت گوشت فراہم کیا جارہاتھا۔بزرگوں کا قول ہے ۔ "ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور"
آج یہی کچھ بازاروں میں گوشت اور مشہور ٹھیلوں پر بریانی کے ساتھ کیا جارہاہے ۔ بتائی بیف بریانی جارہی ہے اور کھلائی کھوتا (گدھا) بریانی جارہی ہے۔
رپورٹ کے مطابق کچھ دن پہلے کراچی میں بھی گدھے کاگوشت گروخت کیا گیا، گدھے کو ذبح کرنے والے شخص کا موٗقف تھا کہ لوگوں کے پاس دال کھانے کے پیسے نہیں ہیں ہم گدھوں کا گوشت سستے داموں فروخت کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو گوشت کھانا نصیب ہو۔ گوشت فروخت نے بتایا ک وہ ایسے گدھوں کا گوشت فروخت کرتا ہے جو زخمی ، کمزور یاکسی کام کے نہ ہوں ۔
اور وہ کسی کو یہ کہہ کر گوشت فروخت نہیں کرتاکے یہ گائے کا ہے بلکہ جو لوگ ہم سے گوشت خریدتے ہیں وہ اچھی طرح جانتے ہیں کے یہ گوشت گدھے کا ہی ہے ۔اور گدھے کا گوشت فروخت کرنے پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں ہے، یہ کام چوری اور کسی کا گلا کاٹنے سے بہتر ہے اور مذہب اسلام اس کی اجازت بھی دیتا ہے۔
گدھے کے گوشت کھانے سے متعلق مذہب اسلام سے تعلق رکھنے والے علماء سے رائے لی گئی تو ان کا کہنا تھا کی اسلام میں گدھے کا گوشت مکمل طور پر حرام قرار دیا گیاہے، البتہ اگر کوئی انسان بھوک سے مر رہا ہو اور کھانے کیلئے کو ئی چیز میسر نہ ہو تو اس صورت میں گدھے کا گوشت کھایا جا سکتاہے۔
محکمکہ لائیو اسٹالک کی رپورٹ کے مطابق گدھے کے گوشت کو جانچنے کا آسان طریقہ ہے جس سے آپ اس گوشت کی خریداری میں احتیاط کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں عوام نے گدھوں کے گوشت کے فروخت کی کہانیاں سب نے سن رکھی ہیں لیکن عوام کو یہ معلوم نہیں کہ وہ گوشت بکرے کا خرید رہے ہیں یا مردار دجانور کاگوشت نوش کرنے جارہے ہیں ۔ بکرے اور گائے کے گوشت کے ریشے ذرا سخت ہوتے ہیں ، گوشت کا ایک بڑا ٹکرا پکڑیں، اس کو ہتھیلی پر بالکل سیدھا رکھیں اور اگر نہ گرے تو سمجھ لیں کہ حلال گوشت ہے لیکن اگر گر جائے تو کچھ گڑبڑ ہے کیونکہ گدھے کے گوشت کے ریشے بالکل نرم ہوتے ہیں ۔ گدھے کے
گوشت کا رنگ گہرا جامنی ہوتاہے، ہڈیاں بکرے سے مختلف اور گوشت میں ہلکی سی مٹھاس ہو تی ہے۔



Practical work carried out under supervision of Sir Sohail Sangi

محمد زبیر -آرٹیکل

Where trees were chopped  in  alrge number for development in Hyd?  U should mention some area. be specific. its too general
 Is there any report? 
Please see what is an artilce/
محمد زبیر -آرٹیکل
حیدرآباد میں ترقیاتی منصوبوں کے باعث درختوں کا خاتمہ
؂درخت انسان کو قدرت کی طرف سے دیا گیا ایک انمول تحفہ ہے۔درخت برکت کی علامت ہے جو اللہ نے ہم انسانوں کو عطا فرمائی ہے۔ درخت ایک اہم قومی دولت ہے۔ درخت اور پودے انسانی زندگی کے لے کئی فوائد کا باعث ہیں۔ اور انکی نشونما اور دیکھ بھال انسان کی فطرت سے وابستہ ہے۔آج دنیا بھر میں اس بات کا اعتراف کیا جا رہا ہے کہ تیز رفتار ترقی کے ساتھ ساتھ آلودگی کا جو زہر آہستہ آہستہ اس دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رہا ہے اس سے انسانی زندگی کو سب سے زیادہ خطرہ کا ہے۔ اس خطرے سے آلودگی بہت زیادہ پھیل رہی ہے جس پر ماہر جنگلات کو سوچنا چاہیے اور اس پر اقدامات کرنے چاہیے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ دوختوں اور پودوں کی کٹائی ہے۔ درخت جتنے زیادہ ہونگے وہاں کی آبادی اتنی ہی اچھی اور صاف ہوگی۔ قدرت نے درختوں اور پودوں میں ایسی چیزیں رکھی ہیں جس سے فضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ جسے جسے دنیا ترقی کر رہی ہے ویسے ویسے درختوں اور جنگلات کو ختم کرا جا رہا ہے۔ ماہریں بھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ صحت مند ماحول کے لیے دوختوں کی اہمیت بہت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ جن شہروں میں زیادہ آبادی کے ساتھ ساتھ فیکٹریوں کی بھی بہتات ہے وہاں درختوں کی بہت زیادہ کمی ہے۔ اس وجہ سے وہاں کے علاقہ مکینوں کی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔اور جن علاقوں میں درختوں کی کمی نہیں ہے وہاں نہ صرف ماحول خوشگوار ہے بلکہ اسکے مثبت اثرات انسانی زندگی پر بھی پڑتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج درختوں کی اہمیت کے پیشے نظر دنیا بھر میں درخت اور پودے لگانے کی مہم چلائی جا تی ہے۔ لوگوں کو اس کی اہمیت سے آگاہ کیا جاتا ہے۔
پاکستان بلخصوص شہر حیدرآباد کی صورتحال اسکے برعکس ہے۔ جہاں پر ترقیاتی منصوبوں کے باعث درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ درخت کاٹنے کی وجہ سے حیدرآباد جو بہت خوبصورت ہوا کرتا تھا آج اسکی حالت بہت ہی خراب ہے۔ حیدرآباد کے بہت سے علاقوں میں ترقیاتی منصوبوں کے باعث درختوں کو کاٹ دیا گیا ہے۔ ان علاقوں میں لطیف آباد، قاسم آباد، قاسم چوک، وادوا اور بھی دیگر علاقے ایسے ہیں جہاں پر ترقیاتی منصوبوں کی وجہ سے درختوں کو کاٹا گیا ہے اسکی وجہ سے ماحول پر بہت زیادہ اثر پڑ رہا ہے۔درختوں کی کٹائی کی وجہ سے حیدرآباد میں کئی سالوں میں خاصی گرمی ریکاڈ کی گی ہے۔ درخت نہ صرف ماحول کو صاف کرتے ہیں بلکہ چرند پرند کے رہنے کا بھی ایک اہم ذریعہ ہے۔
ماہر جنگلات کے مطابق کسی ملک کا چالیس فیصدحصہ جنگلات پر مشتمل ہونا چاہیے۔ یہ اس ملک کی آب و ہوا کے لے بہت اچھا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان کی حالت بہت خراب ہے۔ ہمارے ملک کا صرف پانچ فیصد حصہ ہی جنگلات پرمشتمل ہے۔ ان جنگلات میں سے بھی آئے دن درختوں کو کاٹا جاتا ہے۔اور اسکے اکثر علاقوں کی صورتحال تو بہت زیادہ خراب ہے جہاں پر اب درخت دکھائی بھی نہیں دیتے ۔ حیدرآباد کے کچھ ایسے علاقے ہیں جہاں پر درخت بہت زیادہ دکھائی دیتے تھے مگر اب وہاں پر بھی درختوں کو کاٹ دیا گیاحیدرآباد میں کئی سالوں سے مقیم لیاقت صاحب کا کہنا ہے کہ آج سے تقریبا بیس سال پہلے جب میں لطیف آباد سے حیدرآباد کے کسی علاقے میں جایا کرتاتھا تو مجھے سڑکوں کے اطراف میں درخت ہی درخت دیکھائی دیتے تھے اور یہ بہت زیادہ تعداد میں ہوا کرتے تھے مگر اب ایسا نہیں ہے۔بیس سال پہلے کے مقابلے میں آج درختوں کی تعداد بہت کم ہے اسکی وجہ سے ماحول میں آلودگی اور بہت سی بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ سڑکوں کی تعمیر کی وجہ سے جو درخت کاٹے جا رہے ہیں انکو دوبارہ کسی اور جگہ لگایا جائے ایسے ہم ماحول کی آلودگی سے بچ سکے گئے۔
فارسٹ ڈپارٹمنٹ حیدرآباد کے ایک عہدے دار ، محمد نور دین،نے بتایا کہ ہم ہر سال حیدرآباد میں دس ہزار پودے لگاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ HDAوالے بھی ہم سے پودے لے کر جاتے ہیں جو وہ مختلف سڑکوں کے اطراف لگاتے ہیں۔مگر سڑکیں بنے کی وجہ سے ان درختوں کو کاٹا جاتا ہے،اور کئی جگہوں پر لاپروائی کی وجہ سے ان درختوں کی حفاظت نہیں کی جاتی، ان درختوں کو پانی نہیں دیا جاتا جسکی وجہ سے وہ پودے بڑے درختوں میں تبدیل نہیں ہو پاتے اس سلسلے میں فارسٹ ڈپارٹمنٹ اور HDA کو سر جوڑ کر بیٹھنا پڑے گا کہ درختوں کی حفاظت کیسے کی جائے۔
ان تمام صورتحال میں میرے خیال میں فارسٹ دپارٹمنٹ اور HDAکو انتہائی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اگر یہ اس طرح ہی درختوں کو کاٹتے رہے تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ شہر حیدرآباد میں درختوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔اور اس وجہ سے حیدرآباد میں آلودگی اور درجہ حرارت بڑھ جائے گا۔ اس سلسلے میں فارسٹ دپارٹمنٹ، HDA اور بلدیاتی اداروں کو چاہیے کہ جلد از جلد ایسے اقدامات کرے کہ حیدرآباد ہرا بھرا ہوجائے۔
محمد زبیر(2K14/MC/67)

مصباح۔ار۔رودا,آرٹیکل


مصباح۔ار۔رودا
2k14/MC/52
آرٹیکل :مویشی منڈیاں
حیدرآباد کی مویشی منڈیاں
مویشی منڈیاں سال میں ایک دفعہ عیدلاضعی کے موقع پر لگائی جاتی ہیں جہاں ملک بھر سے ہر نسل کے مختلف جانور لائے جاتے ہیں اور ان کی خریدوفروخت کا عمل شروع ہوتا ہے۔ ویسے تو جمعرات کے دن ہر شہر میں مختلف بکرا منڈیاں لگائی جاتی ہیں لیکن وہ بکرا منڈی مویشی منڈی کا مقابلہ نہیں کر سکتیں۔لوگ سستے بکرے خرید کر پورے سال اسے پالتے ہیں اور عیدلاضعی کے موقع پر مویشی منڈیوں میں بھاری قیمت میں فروخت کر دیتے ہیں۔
سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لئے ملک بھر کی مویشی منڈیوں میں گہما گہمی بڑھتی جا رہی ہے اور یہ حقیقت ہے کہ خریدار اور بیوپاری دونوں ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نالاں نظرآرہے ہیں،تاہم سال بہ سال جانوروں کی قیمتوں میں اضافے نے قربانی کے فریضے میں تو کمی نہیں کی تاہم مہنگائی کے باعث اجتماعی قربانی کی روایت میں اضافہ ضرور کردیاہے ۔ چونکہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتااس لئے کہیں کوئی خریدار بکروں کے دانت پرکھتا دکھائی دے رہا ہے تو کہیں کسی کی تمام تر توجہ اس کے وزن اور خوبصورتی پر ہے،خریدار تگڑے جانور دیکھ کر خوشی کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن جب ان کی قیمتیں سنتے ہیں تو ساری خوشی کافور ہوجاتی ہیں۔ مگر بیوپاریوں کو بھرپور توقع ہے جیسے جیسے عید قریب آئے گی خریداروں کی تعداد میں اور اضافہ ہوگااور ساتھ ہی وہ یہ دلاسہ بھی دیتے ہیں آخری چند روز میں قیمتوں میں کمی آسکتی ہے۔ساڑھے چھ سو ایکڑ سے زائد رقبے میں قائم کی گئی ایشیاء کی سب سے بڑی عارضی مویشی منڈی یعنی حیدرآباد میں ڈیڑھ لاکھ گائے اور چالیس ہزار بکرے لائے جا چکے ہیں مگر ہوشربا قیمتوں کے باعث اکثرلوگ انہیں دیکھ کر ہی گزارہ کر رہے ہیں۔منڈی میں زیریں پنجاب اور بالائی سندھ کے اضلاع سے خوبصورت اور صحت مند مویشی فروخت کے لئے لائے گئے ہیں۔حیدرآباد میں دومویشی منڈیاں بہت مشہور ہیں ایک جو بائے پاس پر بدھ کے روز لگتی ہے اور دوسری جو لطیف آباد نمبر ۷ میں لگائی جاتی ہے۔
بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ مہنگے چارے اور مہنگے کرایوں کے باوجود سستا بیچنا ممکن ہی نہیں اور اگرنہیں بکا تو مال واپس لے جانے کو ترجیع دیں گے ،دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگے جانوروں کے باعث اس سال سنت ابراہیمی کی پیروی مشکل ہورہی ہے ۔ مگر یہ بات ضرور ہے کہ بائے پاس پر موجود یہ مویشی منڈی رات بھر میلے کا منظر پیش کرتی ہے کیونکہ لوگوں کی بڑی تعداد وہاں کا رخ کرتی ہے ۔ صرف مرد نہیں خواتین اور بچے بھی وہاں لگتا ہے کہ پکنک منانے کے لئے آتے ہوں اور ننھے فرشتے اپنے والدین سے اپنی پسند کے جانوروں کی فرمائش کرتے نظرآتے ہیں۔ بات بائے پاس تک ہی محدود نہیں ہے حیدرآباد کی شاید ہی کوئی ایسی جگہ گلی یا محلہ ہوگا جہاں فروخت کے لئے گائیں249 بکریاں موجود نہ ہوں۔شاہراہوں اور سڑکوں پر فروخت کا کام انتظامیہ کی ناک کے نیچے سے ان کی مرضی سے ہو رہا ہے۔
کوئی ایک بکرے کی رسی تھامے گاہک کا منتظر ہے تو کسی نے تین249 چار بکرے فروخت کرنے ہیں۔خواتین بھی فروخت میں پیش پیش ہیں249 کسی نے سڑک کنارے باقاعدہ باڑہ قائم کردیا ہے جہاں اعلی قسم کے جانور برائے فروخت ہیں۔

خریداروں کا کہنا ہے کہ مرکزی منڈی اور سڑک کنارے منڈیوں میں قیمتیں ایک جیسی ہیں مگر وقت اور کرایہ مدنظر رکھیں تو گھر کے قریب منڈیوں سے سودا برا نہیں تاہم حیدرآباد کی بائے پاس منڈی نے عوام کو زیادہ متاثر کیا ہے۔ یہاں جانوروں کی خریداری کے لئے آئے لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں شہر کی دیگر منڈیوں کے مقابلے میں قربانی کے جانور سستے ہیں۔ حیدرآباد کی بائے پاس منڈی میں سیکیورٹی کیمناسب انتظامات بھی عوام کی توجہ اور اطمینان کا باعث ہیں۔عید قربان کی مناسبت سے قصائیوں کی بھی چاندی ہوگئی ہے نہ صرف منہ بولی رقم حاصل کر رہے ہیں بلکہ ان کے نکھرے بھی آسمانوں پرہیں۔سرکاری مویشی منڈیوں میں صوبے بھر سے جانور لائے جا رہے ہیں جو عوام کو کم قیمت میں فروخت کئے جا رہے ہیں۔
مویشی منڈیوں میں جانوروں کی ادائیں ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہیں خریدار کو لبھانے کے
لئے بیوپاریوں کے پاس اپنے اپنے جانوروں کی مختلف اور دلچسپ کہانیاں موجود ہیں۔ہر شہر کی مویشی منڈی میں کوئی نہ کوئی جانور اپنے نام اور شرارتوں سے مشہور ہے خاص طور پرموڈا بکرا نامی بکرا جو بڑے بڑے بیلوں سے نہیں ہچکچاتا اور شیر کی طرح چلتا ہے۔
اگر مہنگائی کا یہی حال رہا اور قیمتیں یوں ہی آسمان سے باتیں کرتیں رہیں تو ایک عام شہری اس فریضے کو ادا کرنے سے قاصر ہوجائے گا۔آج کل لوگ قربانی کے اصل مقصد کو بھول گئے ہیں اورمویشی منڈیوں کو پیسہ کمانے کا ذریعہ سمجھ لیا ہے جو کسی بھی طرح ٹھیک نہیں ہے۔یہ ایک اہم فریضہ ہے جسے ہر مسلمان خوشی سے ادا کرنا چاہتا ہے۔حکومت کو اس عمل کے لئے سخت قانون بنانا ہوگا تا کہ کوئی اس تہوار کا فائدہ اٹھا کر عوام کو بے جا پریشان نہ کرسکے اور عوام کو بھی احتیاط سے خریدوفروخت کرنے کی ضرورت ہے۔

محمد بلال حسین پروفائل

Foto?
محمد بلال حسین صدیقی
2k14/MC/57
پروفائل: پروفیسر شاہدہ سراج

پروفیسر شاہدہ سراج
زندگی میں دشواری انسان کے ساتھ جُڑی رہتی ہیں آنکھ کھلنے سے لے کر آخری سانس تک دشواری انسان کا پیچھا نہیں چھوڑتیں ایک مسلۂ ختم ہوتا ہے تو دوسرا ایک اور مسلۂ جنم لے لیتا ہے اور انسان کی زندگی یوں ہی پریشانیوں میں گرفتار رہتی ہے مگر زندگی کو کامیاب بنانے کا واحد راستہ پریشانیاں ہی ہوتا ہے کیونکہ تجربات صرف سبق کے ذریعے ہی حاصل ہو سکتے ہیں اور پریشانی انسان کو تمام تر تجربات دے کر جاتی ہے اگر انسان سیساپلائی دیوار بن کر تمام تر پرشانیوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرے تو مجھے اُمید ہے کہ کامیابی اس انسان کے قدم ضرور چومتی ہے

’کہا جاتا ہے کہ ایک مرد کو تعلیم دی جائے تو ایک گھر سنور جاتا ہے لیکن ایک عورت کو تعلیم یافتہ بنادیا جائے تو وہ معاشرہ سنوار دیتی ہے‘

ایسی ہی ایک باہمت خاتون اور دوسری عورتوں کے لئے مثالِ عام پروفیسر شاہدہ سراج ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر مصیبتوں کا سامنا سیساپلائی دیوار بن کر کیااور زندگی میں ہمیشہ آگے کی جانب قدم بڑھائے کبھی پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور ہمت ،لگن،دیانت داری کے ساتھ اپنی خوابوں کی منزل کی جانب اپنے قدموں کو گامزن رکھا۔پروفیسر شاہدہ سراج نے 1956ء میں میرپورخاص میں ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جہاں لڑکیوں کی زیادہ تعلیم کو ایک بوجھ سمجھا جاتا ہے لیکن انہیں بچپن ہی سے پڑھنے لکھنے کا بے انتہا شوق تھا اور اپنی محنت اور جستجو سے ابتداء ہی سے تمام ا متحانوں میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور اسکول کے زمانے میں پورے اسکول میں ٹاپ کرنے پر اسکالر شپ حاصل کی اور اس کے بعد میڑک کے امتحانات میں میرپورخاص بورڈ میں پوزیشن حاصل کی۔جو اس بات کی نشانی تھی کہ ان کا سفر ابھی ختم ہونے والا نہیں۔

میٹرک کے امتحانات کے بعد خاندانی رجحان کے تحت گھروالوں نے آگے تعلیم حاصل کرنے سے روک دیا مگر ان کی تعلیمی جستجو دیکھ کر ماموں نے ان کا ساتھ دیا اور آگے تعلیم حاصل کرنے کے لئے کالج میں داخلادلوایا۔کالج میں بھی ان کی قابلیت کسی سے ڈھکی چھپی نہ رہی اور انٹرمیڈیٹ امتحانات میں کالج میں پوزیشن حاصل کی اور اسی کالج میں بی۔اے میں ایڈمیشن لیا۔بی۔اے مکمل کرنے کے بعد ایم۔اے میں داخلہ لیا۔لیکن ایم۔اے کے امتحانات سے قبل رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گیءں اور شادی ہونے کی وجہ سے آگے تعلیم جاری نہ رکھ سکیں اور شادی کے بعد گھریلوں مصروفیات میں گہر گیءں۔

ان کی زندگی میں بدلاؤ تب آیاجب اولاد کی پرورش کے دوران گھریلوں اخراجات بڑھے جو شوہر کی قلیل آمدنی کی وجہ سے پورے نہیں ہو پارہے تھے۔جس کے باعث انھوں نے اپنے شوہر کی اجازت کے بعدانھوں نے اپنی اعلی قابلیت کو مددِ نظر رکھتے ہوئے کامیشن کا امتحان دیا جس میں انھیں اعلی نمبروں سے کامیابی حاصل ہوئی جس کے بعد میرپورخاص کالج میں پرنسپل کے عہدے پر فائز ہویءں اور اپنی خدمات انجام دینے لگیں۔اسی دوران بچوں کی بھی بہتریں پرورش کر تی رہیں جس کے باعث ان کے بچوں میں بھی وہ نمایاں خصوصیات پیدا ہوگیءں جو ان میں تھیں ان کے دونوں بیٹوں کو مہران یونیورسٹی میں داخلاملااور ایک بیٹی کو لیاقت یونیورسٹی آف میڈیکل سائنس میں داخلاملا ۔دونوں بیٹے جامشورو میں ہی تعلیم حاصل کر رہے تھے اور یہی رہائش پذیر بھی تھے لیکن بیٹی کو یہاں اکیلے ہاسٹل چھوڑنا مناسب نہ سمجھااور اپنے حیدرآباد ٹرانسفر کی کوششوں میں جت گئی اور اس میں انھیں کامیابی ملی جس کے بعد ان کا تبادلہ شاہ لطیف گورنمنٹ کالج میں کردیا گیااور اب اس ہی کالج میں پرنسپل کی خدمات سرانجام دے رہیں ہیں اپنی قابلیت اور عقلمندی کے ذریعے کالج ایک بہترین ماحول دیا اور یہاں پڑھائی کے معیار کو بہتر کیا ان کے کالج کے طلباء اور تمام اساتذہ ان کے سادہ مزاج اور شیریں لہجے کی تعریف کرتے ہیں۔

غرض یہ کہ شاہدہ سراج محنت اور تعلیم کے باعث ترقی کی منازل عبور کرتی رہیں اور صرف خود ہی کامیاب نہیں ہویءں بلکہ اپنے بچوں اور اپنے شاگردوں کو بہترین تعلیم دے کر معاشرے کو سنوار رہی ہیں اور موجودہ دور کی لڑکیوں کے لئے ایک مشعلِ راہ ہیں ۔۔۔۔